دینی مدارس کے ساتھ سندھ حکومت کی محاذ آرائی

مدارس کی تاریخ بڑی قدیم ہے ،مدارس کی اہمیت وافادیت، مدارس کی آفاقیت ووسعت، مدارس کی ہمہ گیریت اور عالمگیریت کا قوموں کی تاریخ میں بڑا رول رہاہے، جب سے اہل عالم نے مدارس کی اہمیت کو سمجھا اوران کے کام کو سراہا تو زندگی کے ہر میدان میں نت نئے علوم وفنون کاوجود عمل میں آیا اورزندگی کے تمام شعبوں میں مدارس کے فروغ کی ضرورت محسوس ہونے لگی۔جب یہ مدارس ، مدارس اسلامیہ ہوں اور ان کی نسبت خالق کائنات کے پسندیدہ دین مذہب اسلام سے ہوتو پھر ان کی افادیت بھی آفاقی اور عالمگیرمذہب کی طرح عالیشان ہوتی ہے ، یہ الگ بات ہے کہ دنیا میں چند بزعم خویش ترقی یافتہ، تعلیم یافتہ، تہذیب یافتہ اور متمدن لوگ ان مدارس کی نسبت کو قدامت پرست، بنیاد پرست،دقیانوسی سمجھتے اور دہشت گردی کے اڈے وغیرہ جیسے گھناؤنے اور غیر اخلاقی الفاظ سے تعبیر کرتے ہیں۔
شاعر مشرق علامہ محمداقبال ؒ نے فرمایاتھا’’ ان مکتبوں (مدارس) کو اسی حالت میں رہنے دو، غریب مسلمانوں کے بچوں کوان ہی مدرسوں میں پڑھنے دو اگر مولوی ملا درویش نہ رہے تو جانتے ہو کیا ہوگا؟ جو کچھ ہوگا میں اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں۔ اگر ہندوستان کے مسلمان ان مدرسوں کے اثر سے محروم ہوگئے تو بالکل اسی طرح جس طرح اندلس(اسپین) میں مسلمانوں کے 800برسوںکی حکومت کے باوجود آج غرناطہ اور قرطبہ کے کھنڈر اور الحمراء اور باب الاخوتین کے نشانات کے سوا اسلام کے پیروں اور اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش نہیں ملتا ،ہندوستان میں بھی آگرے کے تاج محل اور دلی کے لال قلعے کے سوا مسلمانوں کی 800سالہ حکومت اور ان کی تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملے گا‘‘۔ (کتاب خوں بہا از حکیم احمد شجاع حصہ اول439)۔
شیخ سعدیؒ شیرازی بہت ہی بڑے عالم تھے۔ وہ بغداد کے مشہور معلم تھے۔ ایک دن شیخ سعدیؒ اپنے مدرسے میں بیٹھے تھے کہ اس وقت خلیفہ ہارون الرشید ان کے پاس تشریف لائے۔ شیخ صاحب نے ان کی خوب آئو بھگت کی۔ اس کے بعد خلیفہ نے شیخ صاحب سے کہا: ’’محترم شیخ صاحب! میں اپنے بیٹے کو آپ کے پاس پڑھوانا چاہتا ہوں کہ یہ بھی ایک عالم بنے۔‘‘
شیخ صاحب نے خوشی سے ان کے بیٹے کو اپنی شاگردی میں لے لیا۔ایک ہفتہ گزرنے کے بعد شیخ صاحب نے خلیفہ کے بیٹے کو واپس بھیج دیا۔ خلیفہ بڑے ہی حیران ہوئے۔ دوسرے دن وہ اپنے بیٹے کے ساتھ شیخ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے وجہ پوچھی کہ آپ نے کس وجہ سے اسے نکالا ہے۔شیخ صاحب نے فرمایا:’’ویسے تو آپ کا بیٹا بہت ہی ذہین، چالاک اور ہوشیار ہے لیکن اس میں ایک خامی ہے جس کی وجہ سے میں نے اسے نکال دیا۔‘‘خلیفہ نے پوچھا : ’’کون سی خامی؟‘‘
شیخ سعدیؒ نے فرمایا: ’’یہ غرور وتکبر کرتا ہے کہ یہ ایک بادشاہ یعنی خلیفہ کا بیٹا ہے۔ اس وجہ سے میں نے اسے نکال دیا، کیوں کہ اگر میں اسے اپنا علم دے دوں تو یہ اپنے آپ کو بہت بڑا عالم سمجھے گا اور میرے علم سے غلط فائدہ اٹھائے گا۔‘‘خلیفہ نے پھر ان سے گزارش کی کہ اسے اپنی شاگردی میں لے لیں، لیکن شیخ سعدی برابر انکار کرتے رہے۔ آخرخلیفہ وقت کے بے حداصرار پر انہوں نے خلیفہ کے بیٹے کو اپنی شاگردی میں لے لیا۔ جاتے وقت خلیفہ نے اپنے بیٹے کو ہدایت دی کہ جیسے شیخ صاحب کہیں ویسے ہی تمہیں کرنا ہے اور پھر ایک دنیا نے خلیفہ وقت کے بیٹے کو نمازیوں کی جوتیاں سیدھی کرتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
یہ دینی مدرسے کی اہمیت اور افادیت کی ایک چھوٹی سی مثال ہے جس کو بیان کرنے کامقصد صرف یہ ہے کہ جب تک اہل علم حکمراں رہے اور دین کی سمجھ بوجھ رکھنے والوں کے قلم رواں دواں رہے، مدارس نے بھی ترقی کی اور تشنگان علم نے بھی ان درسگاہوں سے اپنی پیاس بجھائی۔امام ابوحنیفہ،امام محمدبن محمد الغزالی،ابوریحان محمد بن احمد البیرونی خوارزم،ابوعلی حسین بن عبداللہ بن سینا،امام عبدالعزیز بن احمد الحلوائی البخاری، امام ابن فورک، امام ابوبکر احمد بن حسین بیہقی اور یوسف بن عبداللہ بن عبداللہ سمیت سینکڑوں نابغۂ روزگار ہستیاں انہی مدارس کی پیداوار ہیں۔یہی وہ ہستیاں ہیں جنہوں نے دنیا کو مختلف علوم وفنون سے روشناس کرایا۔ آج بھی دینی مدارس کے اندر قرآن وحدیث کے ساتھ ساتھ وہی علوم وفنون پڑھائے اور سکھائے جاتے ہیںجن سے ان حضرات نے فیض پایا۔آج اگرکوئی ماہر طبیعات،ماہر کیمیا،ریاضی دان اور سائنس دان ان مدارس سے نہیں نکلتا تو اس میں قصور اہل مدارس کا نہیں کیونکہ وقت حاضر یا گزشتہ صدی میں مدارس کو کوئی خلیفہ ہارون الرشید ملا اور نہ ہی اقبال جیسا مدارس کی اہمیت کو سمجھنے والا اہل علم اور اگر کسی شیخ سعدی نے محنت کی بھی تو وہ مشکوک قرار پائی۔
آج اگر سندھ حکومت مدارس کی مشکیں کسنے پر تلی ہے اور ان کو اصلاحات و قانون کا پابندبنانے کی کوششیں کررہی ہے تو اس کو ماضی میں مدارس کے لئے سرکاری سہولیات ومراعات کی بھی چھان بین کرنی چاہیے ۔یہ دیکھنا چاہئے کہ پیپلزپارٹی کی حکومت کے کس دورمیں مدارس کو کتنا فنڈ ملا،مدارس سے فارغ التحصیل کتنے علماء کو سرکاری ملازمت ملی،کتنوں کو بیرون ملک اسکالرشپ پر بھیجا گیا،کتنوں کو سائنس وٹیکنالوجی کی اعلیٰ تعلیم کے لئے مواقع فراہم کئے گئے۔اہل مدارس کے پاس تو پیپلزپارٹی کے کسی بھی دور میں فنڈز،اسکالرشپ اور ملازمت کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں تاہم ایک بڑے مدرسے کو خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے آئی ٹی کے لئے ملنے والے فنڈ پر مرکزی قیادت کی تنقید ریکارڈ پر موجود ہے۔جناب والا ایسے حالات اورریکارڈ میں دینی مدارس کی رجسٹریشن ،نئے مدارس کی تعمیر ،ذرائع آمدنی،طلبہ کی تعداد ،اساتذہ کرام کی فہرستیں اور نصاب میں ترامیم کے بل سے دینی اداروں کی آزادی سلب کرنے کا کیا مقصد ہے۔اور کیا حکومت سمجھتی ہے کہ وہ طاقت کے زور پر ان اصلاحات کو ناٖفذ کرلے گی۔ایسا ہر گز ہوتا نظر نہیں آتا۔کیونکہ مدارس کے پانچوں وفاقی بورڈ بالخصوص وفاق المدارس،مذہبی رہنما اور جماعتیں اس بل کو مسترد کرچکی ہیں۔
حکومت سندھ کو مدارس کی اہمیت وافادیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔یہ مدارس پاکستان میں اسلام کے قلعے اورپاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے محافظ ہیں۔ایک ایسے ملک میں جس کی بنیاد ہی کلمہ طیبہ ہو اور جس کی 97فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہووہاں لوگوں کی دینی ضروریات، عبادات کی ادائیگی، مذہبی تعلیم اور روز مرہ امور میں دینی رہنمائی ناگزیر ہوتی ہے اور مدارس ومساجد اس ضرورت کو احسن طریقے سے پورا کررہے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی آبادی اور گلی گلی انگریزی تعلیمی اداروں کی بھرمار میں دینی مدارس کی طلب میں بھی بے پناہ اضافہ ہوتا جارہا ہے، ہر نئی بستی میں مسجد ومدرسہ مقامی افراد کی خواہش اور ضرورت کے پیش نظر تعمیر ہورہا ہے۔ معاشرے کے ان طبقات میں سے بھی جو بظاہر آزاد خیال اور لبرل سمجھے جاتے ہیں ان کی بھی ایک بڑی تعداد اپنے بچوں کے لئے کم ازکم بنیادی دینی تعلیم (قرآن مجید پڑھنے کی صلاحیت) کا انتظام کرنا چاہتی ہے۔ ضیاء دور کے اندر اسکولوں میں ناظرہ کا پریڈ لازمی قرار دیا گیا تھا جس میں بچوں کو قرآن پاک کی تعلیم دی جاتی تھی مگر ہر بدلتے حکومتی دور کے ساتھ اب یہ نظام بھی ختم ہوچلا ہے جس کو دوبارہ نافذ کرنے کے لئے وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف ایک عرصہ سے کوشاں ہیں مگر معلوم نہیں انہیں اس میں کامیابی کیوں نہیں مل رہی۔ اس ہمہ گیر طلب کے تناظر میں دیکھا جائے تو عصری تعلیمی ادارے مقدار اور معیار کے اعتبارکے باوجود معاشرے کی ضروریات پوری نہیں کرپارہے اگر ان حالات میں مدارس کے قیام اور ان کی خدمات کو بھی محدود کردیا گیا تو پھر واقعی غرناطہ اورقرطبہ کے جیسے آثار کے لئے قوم کو ابھی سے کمربستہ ہوجاناچاہئے۔
آج دینی مدارس لاکھوں نادار افراد کو تعلیم سے بہرہ ور کررہے ہیں اس لحاظ سے یہ پاکستان کی سب سے بڑی این جی اوز ہیں جس کا عالمی ادارے بھی اعتراف کرچکے ہیں۔اس کے علاوہ معاشرے میں بنیادی تعلیم اور خواندگی میں معقول اضافہ،قرآن وسنت کی تعلیم اور دینی علوم کی اشاعت و فروغ میں بھی کلیدی کردار اداکررہے ہیں۔ عام مسلمانوں کو دینی رہنمائی اور مذہبی تعلیم کے لئے رجال کار کی دستیابی بھی انہی کی مرہون منت ہے۔ اسلام کے خاندانی نظام اور ثقافت کی حفاظت ،عام مسلمانوں کے عقائد وعبادات و اخلاق اور مذہبی کردار کا تحفظ بھی انہی کا خاصہ ہے۔مدارس نے اسلام کی بنیادی تعلیمات عقائد اوراحکام کی ہر طرح کی بغاوت اور تحریف سے حفاظت کی اور راسخ العقیدگی کو تحفظ دیا۔مادہ پرستی اور خودغرضی کے دور میں قناعت اور ایثار و سادگی ، وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات کو عملی نمونہ کے طور پر باقی رکھنے میں بھی دینی مدارس کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔
جہاں تک معاملہ جدید علوم اور عصرحاضرکے تقاضوں سے ہم آہنگ نصاب کا ہے تو اس سے بھی کبھی کسی مدرسے نے انکار نہیں کیا۔مدارس کا ملک کی تمام بڑی سرکاری جامعات سے الحاق ہے جہاں سے طلبہ کو بی اے اور ایم اے کی ڈگریاں دی جاتی ہیں،لاکھوں طلبہ ہرسال میٹرک ،انٹر،بی اے اور ایم اے کے امتحانات میں شریک ہوتے ہیں اور الحمدللہ امیتازی نمبروں سے پاس بھی ہورہے ہیں جبکہ مدارس کی یہ بھی خواہش اور مطالبہ ہے کہ آغاخان بورڈ کی طرح دینی اداروں کے تعلیمی امتحانات کے نظام کو بھی سرکاری سطح پر تسلیم کیا جائے۔اس حوالے سے پانچوں وفاقی بورڈز پر مشتمل اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ نے وفاق کی سطح پرہونے والے مذاکرات میں حکومت سے بات چیت بھی کی ہے جس میں یہ مطالبہ بھی رکھا گیا ہے کہ نظام امتحانات کو مربوط اور یکساں معیار پر رکھنے کے لئے حکومتی سطح پرنگراں بورڈ قائم کیا جائے، مرکزی حکومت اس کی منظوری بھی دے چکی ہے مگر معلوم نہیں ابھی تک اس پر عملدرآمد کیوں نہیں ہوسکا۔جبکہ مدارس کے نمائندہ وفاقوں کے قائدین صدر پاکستان، وزیر اعظم پاکستان، چیف آف آرمی اسٹاف، ڈی جی آئی ایس آئی، وفاقی وزیر داخلہ، وزیر مذہبی امور اور وزیر تعلیم (اور ان کی متعلقہ وزارتوں) سے ملاقات اور مذاکرات کے ایک طویل سلسلے کے بعد باہمی اعتماد اور اتفاق رائے کے مرحلے پر پہنچ چکے ہیں۔
ادھر سندھ میں بھی جناب مراد علی شاہ کے پیشرو قائم علی شاہ کے دور میں مشیر مذہبی امور عبدالقیوم سومرو کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس نے تمام مکاتب فکر کے علماء کرام سے ملاقات اور مذاکرات کئے،مدارس کے دورے کئے ،کئی امور پر اہل مدارس اور حکومت کے درمیان اتفاق بھی پایا جاچکاتھا اور اس امر پربھی اتفاق پایا تھا کہ مدارس کے بارے میں کوئی بھی قدم کوآرڈی نیشن کمیٹی کی مشاور ت اور اسے اعتماد میں لئے بغیر نہیں اٹھایاجائے گا۔ ایسے میں سندھ حکومت کی طرف سے اچانک رجسٹریشن کے حوالے سے ترمیمی بل کا پنڈورا باکس کھولنا حیران کن اور ناقابل فہم ہے۔سندھ حکومت کو اس بات کا ادارک کرنا چاہئے اگر اس کے اس اقدام کوسندھ اسمبلی میں پذیرائی مل بھی گئی اور بل منظور کربھی لیاگیا تو بھی عوامی اور مذہبی حلقوں میں حکومت کے اس اقدام کو تسلیم نہیں کیا جائے گااور نتیجتاً محاذ آرائی جیسی صورتحال یقینی ہوجائے گی۔حکومت کو اس صورتحال سے بچنے کے لئے مذکورہ بل پر نظرثانی کرتے ہوئے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر اپنے خدشات اور تحفظات دور کرنے چاہئیں۔

Please follow and like us:

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا. ضرورت کے کھیتوں ک* نشان لگا دیا گیا ہے