سنت کی دستوری اور آئینی حیثیت

سنت کی تعریف جن علمائے اصولیین اور ماہرین اصول فقہ نے کی ہے‘ ان میں سے علامہ آمدی ’’الاحکام فی اصول الاحکام‘‘ میں سنت کی تعریف یہ بیان فرماتے ہیں کہ ’’سنت کا اطلاق ان تمام امور پر ہوتا ہے جو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں یا وہ تمام دلائل جو آپ سے قولاً یا عملاً ثابت ہیں لیکن وہ قرآن نہیں ہیں۔‘‘ تعریف کا آخری جزء یہ بتلاتا ہے کہ کچھ چیزیں ایسی ہیں جو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قولاً اور عملاً ثابت ہیں، لیکن وہ قرآن نہیں ہیں۔ اس کا معنی یہ ہوئے کہ ہم اسے اس واسطے چھوڑ نہیں سکتے کہ یہ آپ سے ثابت، آپ کا قول اور عمل تو ہیں لیکن چونکہ قرآن نہیں ہیں‘ اس لیے ہمیں اس کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے‘ بلکہ ہمیں اس کی عظمت اور اہمیت کو سمجھنا چاہیے۔ علامہ آمدی کی تعریف کا یہ جز اسی طرف اشارہ کررہا ہے۔
اسی بات کی طرف اشارہ ایک اور تعریف میں ملتا ہے جو علامہ خضری بک نے کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ سنت جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول‘ فعل اور تقریر کا نام ہے اور اس کے آخر میں انہوں نے ایک بہت اچھی نمایاں اور ممتاز بات کہی: ویقابلہ البدعۃ‘‘ کہ اس کے مقابلہ میں جو لفظ آتا ہے‘ وہ بدعت کا لفظ ہے، بعض اوقات ’’تعرف الاشیاء باضدادھا‘‘ چیز کو اس کی ضد اور الٹ سے سمجھا جاتا ہے۔ علامہ خضری بک کے اس جملہ سے سنت کی اہمیت واضح ہو رہی ہے کہ دین کا حصہ وہ چیز بن سکتی ہے جو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قولاً‘ عملاً یا فعلاً ثابت ہو۔ اگر ان تینوں میں سے کسی طرح سے بھی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے تو وہ دین کا حصہ نہیں بن سکتی۔ اگر بنا بھی لے تو بدعت کہلائے گی۔ اس کے معنی یہ کہ دین کا حصہ بننے میں یا دین کی تدوین میں سنت کی کتنی اہمیت ہے۔
آج کے دور کے جدید مفکرین اپنی ربع صدی کی تحقیقات کا جو نتیجہ بیان کرتے ہیں‘ وہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو سنتیں ہیں‘ ان کی تین نوعیتیں ہیں۔ ایک آپ کے وہ اعمال وافعال اور اقوال ہیں جو آپ نے بحیثیت ایک انسان کے سرانجام دیئے۔ مثلاً آپ کی ذاتی عادتیں ہیں، آپ اس طرح چلتے تھے‘ اس طرح کھاتے تھے‘ اس طرح پیتے تھے‘ اس طرح مسکراتے تھے اور کچھ چیزیں وہ ہیں جو ملت ابراہیمی کا تسلسل تھیں اور اس دور کی تہذیب وثقافت اور تمدن ومعاشرت میں موجود تھیں یا ملت ابراہیمی کے تسلسل کے طور پر آپ کو القا کی گئیں اور وحی الٰہی کے ذریعے بتلائی گئیں اور کچھ چیزیں وہ ہیں جو آپ نے بحیثیت ایک نبی ہونے کے اپنی نبوی اور رسالت کی زندگی میں سرانجام دیں۔ بقول ان کے ربع صدی کی تحقیقات کے مطابق کل بیالیس (42) سنتیں ہیں جن کو آپ نے بحیثیت نبی ہونے کے سرانجام دیا اور صرف ان سنتوں کی اقتدار اور پیروی ہمارے لیے ضروری ہے‘ باقی کسی چیز کی پیروی ہمارے لیے ضروری نہیں ہے۔ یہ ایک جدید فکر ہے۔ اس فکر جدید کا اگر آپ کہیں سلسلہ ملانا چاہیں اور اس کی جڑ تلاش کرنا چاہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ علامہ اقبالؒ نے اپنے چھٹے خطبے میں ایک بات کہی ہے کہ اصل میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جو سنت ہے ‘ وہ بعض مخصوص تہذیبی روایات واقدار کا مظاہرہ ہے۔ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک خاص تہذیب اور خاص ثقافت کے اندر رہے‘ لہٰذا آپ نے وہ کام کیے۔ ہم چونکہ اس تہذیب سے باہر ہیں‘ لہٰذا ہمارے لیے ان چیزوں میں آپ کی اقتداء اور پیروی ضروری نہیں ہے‘ یہ کچھ اشارہ ہے جو ان کے چھٹے خطبے میں ہے۔ غالباً اسی اشارے سے یہ فکر پیدا ہوئی۔ بہرحال اس پر تحقیق کی ضرورت ہے۔
اس سلسلے میں سب سے پہلے یہ بات سمجھیں کہ کیا وہ تہذیب وثقافت اور تمدن جس میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عمر مبارک کے تریسٹھ برس گزارے ہیں‘ جس دن آپ اس دنیا میں تشریف لائے تھے‘ جیسی تہذیب اس دن تھی‘ ویسی ہی تہذیب ٹریسٹھ برس کے بعد اس دن بھی تھی جس دن آپ اس دنیا سے پردہ فرماگئے‘ ایسا ہرگز نہیں بلکہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور طریقے نے جو انقلاب انسانیت کے اندر برپا کیا ہے‘ اس انقلاب کی مثال تاریخ انسانیت کے اندر ملنا ممکن نہیں‘ نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کسی زمانے میں اور نہ ہی آپ کے بعد۔ چودہ سو برس سے زائد تو گزرچکے ہیں‘ آئندہ پتہ نہیں کتنے گزریں گے۔ 
ہم تو بحیثیت مسلمان ہونے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہونے کے ان چیزوں کو مانتے ہی ہیں۔ ایک ایسا شخص جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی نہیں ہے‘ انسانی تہذیب وثقافت میں تبدیلی کرنے والی شخصیتوں کے تذکرے لکھتا ہے‘ وہ کہتا ہے کہ انسانی تاریخ میں سو آدمی ایسے ہیں جنہوں نے انسانی تہذیب و ثقافت میں نمایاں تبدیلیاں کی ہیں اور ان سو آدمیوں میں پہلا نمبر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتا ہے‘ حالانکہ وہ خود عیسائی ہے لیکن اس نے حضرت عیسیٰؑ کو پانچویں نمبر پر رکھا ہے ۔ ’’The Hundred‘‘ کے نام سے اس نے جو کتاب لکھی ہے‘ اس میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا نمبر ہے۔ معلوم یہ ہوا کہ یہ بات تو بالکل خلاف واقعہ‘ جھوٹ اور غلط ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس تہذیب میں آنکھ کھولی تھی‘ وہ اس دن بھی ویسی ہی تھی جس دن آپ اس دنیا سے تشریف لے گئے۔ یہ بات سراسر بہتان ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تہذیب وثقافت میں کچھ تبدیلیاں کی ہیں۔ وہ تبدیلیاں کیسے کی ہیں؟ وہ تبدیلیاں آپ نے اپنے قول وعمل سے کی ہیں۔ آپ کا وہی قول وعمل آج ہمارے لیے حجت ہے اور ہمارے لیے ایک آئینی اور دستوری حیثیت رکھتا ہے۔
سیدنا معاذ بن جبلؓ کا واقعہ تو مشہور ہے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان کو یمن کا قاضی بناکر بھیجا تو پوچھا کہ تم فیصلہ کیسے کروگے؟ حضرت معاذ بن جبلؓ نے کہا کہ کتاب اللہ سے کروں گا۔ آپ نے پوچھا: ’’فان لم تجد‘‘ اگر تم کتاب اللہ میں نہ پائو؟ تو انہوں نے عرض کیا کہ پھر ’’سنت‘‘ سے کروں گا۔ آپ ذرا غور فرمائیں کہ یہاں مسئلہ زیر بحث کیا ہے۔ کیا صرف معاذ بن جبلؓ کی زندگی گزارنے کا معاملہ زیر بحث ہے کہ معاذ تم زندگی کیسے گزاروگے؟ بات زندگی گزارنے کی نہیں ہورہی تھی‘ بلکہ آئینی حیثیت کی ہو رہی تھی‘ بات قضا اور عدالت کی ہو رہی تھی‘ بات دستور وقانون کی تدوین کی ہو رہی تھی‘ بات قانونی نظائر بنانے اور مہیا کرنے کی ہو رہی تھی۔ ’’بم تقضی‘‘ پوچھا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’بم تحیی‘‘ نہیں پوچھا تھا۔ اس لیے معلوم ہوا کہ یہ معاملہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں طے ہوچکا تھا کہ قانون بنانے‘ اس کی تدوین کرنے‘ اس کے مطابق فیصلہ کرنے کیلئے کوئی قاضی‘ کوئی عدالت‘ کوئی قانون ساز ادارہ اگر کام کرے گا تو اس کا پہلا ماخذ کتاب اللہ ہوگا اور دوسرا ماخذ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوگی۔ چنانچہ صحابہ کرامؓ نے ایسا کرکے دکھایا۔
سنت کے حوالے سے جب ہم فقہاء کی تعلیمات کو دیکھتے ہیں تو ہمیں امام ابو حنیفہؒ کے ہاں ایک بڑی خوب صورت تقسیم ملتی ہے۔ ایک کو وہ سنت ہدیٰ کہتے ہیں اور ایک کو سنت زوائد۔ اس سے ہمیں مسئلہ حل ہوتا ہوا ملتا ہے کہ دیکھیے‘ ایک معاملہ ہے سنت کی اتباع اور پیروی کا‘ اور ایک معاملہ ہے قانون سازی کا ‘ یہ دونوں علیحدہ علیحدہ معاملات ہیں۔ میری اور آپ کی انفرادی زندگی گزارنے کا طریقہ یا سنت کی اتباع اور پیروی یہ علیحدہ معاملہ ہے اور قانون سازی علیحدہ معاملہ ہے۔ بعض حضرات فقہاء نے جب سنت کی تعریف کی ہے تو اس میں آپ کی عادات واوصاف کو بھی شامل کیا ہے۔ بلاشبہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف اور عادتیں قانون سازی کے حوالے سے وہ درجہ اور حجت نہیں رکھتیں اور اس کی وجہ بھی یہ نہیں کہ خدانخواستہ اس کی عظمت کم ہوئی ہے بلکہ خود جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بنیادی اصول بتلایا اور وہ یہ ہے کہ لولا ان اشق علیٰ امتی لامرت بالسواک عند کل صلوٰۃ‘‘ اگر مجھے اپنی امت کے مشقت میں مبتلا ہونے کا خوف نہ ہوتا تو میں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دے دیتا۔‘‘ یہ ایک بنیادی اصول ہے جو ہمیں سنت سے مل رہا ہے اور قانون سازی میں استعمال ہوتا ہے۔ اگر آپ ان چیزوں کو قانون سازی کے دائرے میں لے آئیں اور کہیں کہ صاحب‘ ہمارے ملک میں وہی لباس پہنا جائے گا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم پہنا کرتے تھے‘ اگر کوئی اس کے علاوہ لباس پہنے گا تو ہم اسے سزا دیں گے‘ اور ہمارے ملک میں وہی چیز کھائی جائے گی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھاتے تھے‘ اگر کوئی شخص اس کے علاوہ کوئی چیز کھائے گا تو ہم اسے سزا دیں گے تو یہ قانون سازی انسانوں کو مشقت اور تکلیف میں مبتلا کردے گی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو مشقت میں دیکھنا نہیں چاہتے۔ اس حوالے سے یہ قانون کے دائرے میں نہیں آتا۔ لیکن قانون کی تشکیل کے دائرہ میں نہ آنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ اس کی حیثیت اپنی جگہ مسلم ہے اور اس کی پیروی اور اتباع کی فضیلت بہرحال طے شدہ ہے۔ یہ ہمارے لیے زندگی گزارنے کا ایک طریقہ اور زندگی گزارنے کیلئے ایک ماخذ اور مصدر کی حیثیت بہرحال رکھتا ہے‘ اس لیے یہ بات کہنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسل کی سنت میں سے کچھ چیزیں وہ ہیں جو تہذیبی روایات کے نتیجے میں ہمارے سامنے آئی ہیں‘ کچھ وہ ہیں جو آپ کی عادات مبارکہ ہیں‘ ان کو بھی نکال دو‘ ان کو بھی نکال دو۔ باقی رہ گئیں بیالیس سنتیں‘ ان کو لے کر بیٹھے رہو۔ کیوں؟ اس لیے تاکہ ہمیں تہذیبی آزادی مل جائے تاکہ ہمیں تمدنی آزادی مل جائے‘ تاکہ ہمیں معاشرتی آزادی مل جائے‘ ہم تہذیب وتمدن اور معاشرت کو جس انداز سے چاہیں آگے لے کر چلنا شروع ہوجائیں۔
چنانچہ جب ہم سنت کے حوالے سے اس بات کو سنتے ہیں تو ہمیں ایک اور بحث سے بھی واسطہ پڑتا ہے ۔ وہ یہ کہ جب ہم سنت کی آئینی اور دستوری حیثیت کو سمجھنا چاہیں گے تو ہمیں قرآن اور سنت کا باہمی تعلق بیان کرنا‘ سوچنا اور سمجھنا ضروری ہے۔ وہ یہ ہے کہ سنت کتاب اللہ کیلئے مؤید ہے۔ جو قرآن بیان کرتا ہے‘ سنت اس کی تائید کرتی ہے۔ یہ عام اور سلیس سی بات ہے۔ دوسرا یہ کہ سنت بیان قرآن ہے۔ سنت کے بیان قرآن ہونے کے دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ سنت نے بعض اوقات ایسا حکم دیا جو سرے سے کتاب اللہ میں موجود نہیں ہے۔ ہمارے لیے اس حکم کی پابندی بھی لازمی اور ضروری ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ چونکہ یہ بات قرآن میں موجود نہیں ہے‘ لہٰذا اس حکم کو ہم نہیں مانتے۔
حضرت عمران بن حصینؓ کے پاس ایک آدمی آیا۔ کہنے لگا کہ جناب ہمارے سامنے صرف کتاب اللہ کی بات کریں‘ سنت کی بات نہ کریں‘ ہم صرف کتاب اللہ کو مانتے ہیں اور کتاب اللہ ہی سننا چاہتے ہیں۔ حضرت عمران بن حصینؓ نے کہا کہ تم بڑے احمق شخص ہو۔ ہم تو ایسے آدمی کو بہت بڑا اسکالر سمجھتے ہیں جو اس طرح کی بات کرے۔ حضرت عمران بن حصینؓ نے اس کا صحیح علاج کیا۔ وہ ایک دم پریشان ہوگیا کہ میں نے تو بڑی علمی‘ تحقیقی اور اسکالروں والی بات کی ہے اور عمران بن حصینؓ مجھے احمق کہہ رہے ہیں۔ اس نے کہا کہ میں احمق کیسے ہوں؟ حضرت عمران بن حصینؓنے کہا کہ فجر کے دو فرض پڑھتے ہو؟ اس نے کہا کہ پڑھتا ہوں۔ فرمایا‘ ظہر وعصر کے چار فرض پڑھتے ہو؟ اس نے کہا کہ جی پڑھتا ہوں۔ فرمایا دکھلائو کہاں آیا ہے کتاب اللہ میں کہ فجر کے وقت دو فرض پڑھنا اور ظہر وعصر میں چار فرض پڑھنا۔ یہ یقیناً حماقت کی بات ہوگی کہ ہم یہ نعرہ لگائیں کہ ہم تو صرف کتاب اللہ کو پڑھیں گے اور کتاب اللہ پر عمل کریں گے‘ کیونکہ سنت کے بغیر کتاب اللہ کے کسی حکم پر تو درکنار‘ حکم کی کسی جزئی پر عمل نہیں ہوسکتا‘ اس لیے کہ سنت بیان قرآن ہوتی ہے۔ سنت اس اجمال کی تفصیل کرتی ہے جو کہ قرآن نے بیان کیا ہے۔ مثلاً قرآن نے کہا کہ ’’اقیمواالصلوٰۃ‘ نماز قائم کرو۔ کیسے کریں؟ سنت نے کرکے دکھلادیا کہ ایسے۔ اس لیے ایک تابعی یا صحابی کہا کرتے تھے کہ قرآن کے تو کسی حکم پر تو ’لِمَ‘ اور ’کَیْفَ‘ کا سوال ہوسکتا ہے لیکن سنت کے کسی حکم پر یہ سوال نہیں ہوسکتا۔
یہاں پر ایک اور بات کا سمجھنا بھی ضروری ہے۔ وہ یہ کہ ایک جدید فکر ہمارے ہاں رائج ہورہی ہے اور اس کا پرچار بھی کیا جا رہا ہے کہ قرآن پاک کو اس پس منظر میں سمجھا جائے جس پس منظر میں وہ نازل ہوا ہے۔ جس کو ہم شان نزول کہتے ہیں‘ وہ اس پر ’’پس منظر‘‘ کا اطلاق کرتے ہیں اس لیے کہ اگر وہ شان نزول کہیں تو پکڑے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر کہ ایک مرد کو چار شادیاں کرنے کی اجازت ہے اور دلیل اس کی یہ ہے کہ قرآن کریم نے کہا: ’فانکحوا ما طاب لکم من النساء مثنیٰ وثلٰث ورباع‘ حالانکہ اگر اس آیت کو اس کے پس منظر میں دیکھا جائے جس میں یہ نازل ہوئی ہے تو بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ چار شادیوں کی اجازت ہر قسم کے حالات کیلئے نہیں ہے اور وہ مخصوص حالات کیا ہیں؟ جی یہ آیت تو غزوہ احد کے موقع پر نازل ہوئی تھی۔ غزوہ احد میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد شہید ہوگئی تھی‘ اس لیے یہ حکم آیا تھا۔ عورتیں بیوہ ہوگئی تھیں‘ لہٰذا یہ حکم آیا کہ ایک ایک مرد چار چار شادیاں کرلے۔ اگر اس وقت بھی وہ حالات پیدا ہوجاتے ہیں تو ٹھیک ہے‘ چار نکاح کی اجازت ہے اور اگر وہ حالات پیدا نہیں ہوتے تو پھر چار نکاح کی اجازت نہیں ہے۔
یہ بات یاد رکھیں کہ شان نزول کسی آیت مبارکہ کے حکم کو سمجھنے میں مددگار تو ہوسکتا ہے لیکن وہ حکم کی علت نہیں ہوتا۔ اگر آپ شان نزول کے ساتھ حکم کو مقید کردیں اور آپ کہیں کہ آیت کا یہ حکم اس پس منظر کے ساتھ مخصوص ہے جس میں یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی تو پھر یہ دعویٰ کہاں گیا کہ قرآن ایک عالمگیر کتاب ہے‘ قرآن قیامت تک آنے والے انسانوں کیلئے دستور حیات ہے؟ یہ دعویٰ تو ختم ہوگیا۔ اس لیے قرآن کا بیان شان نزول نہیں ہوا کرتا بلکہ قرآن کا بیان سنت ہوا کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم فقہاء کے اسالیب اجتہاد کو دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ چار چیزیں ہیں جن پر سب فقہاء کا اتفاق ہے۔ بعض حضرات اور تذکرہ نگار امام شافعیؒ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ وہ اجماع کے قائل نہیں تھے۔ لیکن یہ بات درست نہیں۔ وہ اجماع کے قائل تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے اجماع کیلئے جو شرائط عائد کی ہیں‘ وہ بڑی کڑی اور سخت ہیں جیسا کہ اجتہاد کیلئے بڑی کڑی اور سخت شرائط ہیں۔ مثلاً علماء یہ کہتے ہیں کہ اجتہاد کیلئے یہ بھی شرط ہے‘ یہ بھی شرط ہے۔ اس پر بعض پڑھے لکھے حضرات کہہ دیتے ہیں کہ مولویوں نے اجتہاد کا دروازہ بند کردیا ہے‘ حالانکہ اجتہاد کا دروازہ بند نہیں ہوا۔ یہی بات امام شافعیؒ کے ہاں نظر آتی ہے کہ وہ بھی اجماع کے قائل تھے لیکن جیسی کڑی شرئط انہوں نے اجماع کیلئے عائد کی ہیں۔ ان شرائط کا سامنے آنا اور پیدا ہونا بڑا مشکل ہوگیا ہے۔ چنانچہ معلوم ہوا کہ چار چیزیں تو بالکل متفق علیہ ہیں۔ کتاب اللہ‘ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم‘ اجماع اور قیاس‘ کتاب اللہ سے بھی اخذ مسائل اور استنباط مسائل کے کچھ اصول ہیں۔ یوں نہیں کہ آپ کے سامنے کتاب اللہ کی کوئی بھی آیت آجائے اور آپ اس سے جو جی چاہیں اخذ کرلیں‘ اسی طرح سنت سے بھی احکام کے استنباط کے کچھ اصول ہیں اور ان میں قرآن سے استنباط مسائل کی بہ نسبت زیادہ توسع اور زیادہ تحقیق ہے۔
سنت کے معاملے میں امام ابو حنیفہؒ اور امام مالکؒ اس کے قائل ہیں کہ جب آپ کے سامنے آئے تو پہلے آپ اس کا نص دیکھیں گے‘ پھر ظاہر دیکھیں گے اور اگر ظاہر اور نص ایک دوسرے کے مقابل آرہے ہوں تو نص کو ترجیح ہوگی‘ ظاہر کو ترجیح نہیں ہوگی۔ ظاہر وہ ہے جو مراد کلام سے فوری طور پر ظاہر ہوجائے۔ ’ماظھر المراد بہ للسامع بنفس السماع‘ یہ ظاہر ہے اور ’ماسیق الکلام لا جلہ‘ فحوائے کلام اور مقصود کلام کو نص کہتے ہیں۔ لیکن امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ کے نزدیک ظاہر کلام کو نص کلام پر ترجیح ہوگی۔ ان کے نزدیک پہلا مرتبہ ظاہر کلام کا ہے‘ پھر نص کلام کا۔
اسی طرح سنت سے استنباط مسائل کے حوالے سے ایک مسئلہ تطبیق بین الروایتین کا آتا ہے۔ یہ بھی ایک بہت بڑا موضوع ہے اور مستقل نشست کا مقتضی ہے کہ ایک ہی مضمون کی دو روایتیں ہیں اور دونوں مختلف صورت حال بتلارہی ہیں‘ اس کا حکم کیا ہوگا ور ان میں کیسے ترجیح دی جائے گی‘ امام شافعیؒ نے اس کیلئے جو اصول بنایا ہے‘ وہ یہ ہے کہ جو روایت سند کے اعتبار سے اصح ہے‘ وہ راجح ہوگی اور جو روایت سند کے اعتبار سے کم تر ہے‘ وہ مرجوح ہوگی۔ امام مالکؒ کا اصول یہ ہے کہ پہلے تو ان میں تطبیق کی کوشش کی جائے گی اور اگر تطبیق ممکن نہ ہو تو اس روایت کو ترجیح ہوگی جس پر اہل مدینہ کا تعامل ہے‘ امام ابو حنیفہؒ کی رائے اس سے ذرا مختلف ہے۔ امام ابو حنیفہ تطبیق بین الروایتین کے قائل تو ہے ہی‘ اور اگر تطبیق ممکن نہ ہو تو ان کے نزدیک ترجیح کا اصول یہ ہے کہ جس مضمون سے متعلق وہ روایت ہے‘ اس مضمون کو پہلے وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے گا۔ اگر وسیع تر تناظر سے ہمیں کوئی ہدایت مل رہی ہے تو وسیع تر تناظر جس روایت کو ترجیح دے رہا ہو‘ اس کو ترجیح دی جائے گی‘ مثال کے طور پر نماز میں رکوع میں جاتے ہوئے اور رکوع سے اٹھتے ہوئے رفع یدین کرنا۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے رفع یدین کرنا بھی ثابت ہے اور نہ کرنا بھی ثابت ہے۔ امام شافعیؒ نے اپنے اصول کے مطابق جو روایت سند کے اعتبار سے اصح ملی‘ اس کو انہوں نے ترجیح دے دی اور اس کے مطابق عمل کیا۔ اب سوال یہ ہے کہ امام ابو حنیفہؒ نے ایسا اصول کیوں نہ بنایا کہ وہ بھی سنداً اصح روایت کو راجح قرار دیتے؟ امام ابو حنیفہؒ نے یہ اصول اس لیے نہیں بنایا کہ ان کے اور امام شافعیؒ کے زمانے میں بڑا فرق ہے۔ امام ابو حنیفہ بعض حضرات کے نزدیک تابعی ہیں۔ لیکن ان کے تبع تابعی ہونے پر تو سب کا اتفاق ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ جن اساتذہ سے انہوں نے استفادہ کیا‘ وہ تابعی تھے اور اس سے یہ بھی پتہ چلا کہ امام ابو حنیفہؒ اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان صرف دو واسطے تھے‘ ایک تابعی کا اور ایک صحابی کا۔ لہٰذا صحت سند کا معاملہ وہاں زیادہ زیر بحث نہیں آتا۔ کیونکہ واسطے ہی صرف دو ہیں۔ ظاہر ہے کہ ’’الصحابۃ کلھم عدول‘ صحابہ پر تو آپ جرح وتعدیل نہیں کر سکتے‘ یہ تو میری اور آپ کی مجال نہیں۔ جن کو اللہ اور اس کے رسول نے عدول قرار دے دیا‘ جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ’’لقد رضی اللہ عن المؤمنین‘‘ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’اصحابی کالنجوم بایھم اقتدیتم اھتدیتم‘ فرما دیا‘ میں اور آپ کون ہوتے ہیں‘ جرح وتعدیل کرنے والے؟ صرف تابعین ہی باقی رہ گئے‘ لہٰذا امام صاحب کے ہاں صحت سند کا معاملہ اتنا نازک نہیں‘ اس لئے جب وہ اس عبادت (نماز) کو وسیع تر تناظر میں دیکھتے ہیں تو وہ نماز کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ نماز کا تدرج ہمیں بتلارہا ہے کہ اس میں حرکات آہستہ آہستہ کم ہو رہی ہیں۔ شروع میں نماز میں چلنا بھی جائز تھا‘ شروع میں گفتگو بھی جائز تھی‘ شروع میں نماز میں ہنسنا بھی جائز تھا‘ پھر یہ سب کچھ منع ہوگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمادیا کہ جو نماز میں ہنسے ہیں وہ جائیں‘ وضو بھی کریں اور نماز بھی دوبارہ پڑھیں۔ اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ رکوع میں جاتے ہوئے اور اٹھتے ہوئے رفع یدین کرنے کا معاملہ پہلے کا ہے اور نہ کرنے کا معاملہ بعد کا ہے‘ اس لیے کہ جوں جوں نماز میں وقت گزرتا گیا‘ احکام نازل ہوتے گئے‘ توں توں نماز میں سکون آتا گیا۔ یہ وہ وسیع تر تناظر ہے۔
اسی طرح مثلاً اس مسئلے میں کہ امام کے پیچھے قرأت فاتحہ کرنی چاہیے یا نہیں‘ امام صاحب نے کہا کہ نہیں کرنی چاہیے‘ اس لیے کہ یہ دین کے وسیع تر تناظر کے خلاف ہے۔ دین کا وسیع تر تناظر امام کی اتباع کا حکم دیتا ہے اور امام کی اتباع اس میں ہے کہ ’’لاتحرک لسانک لتعجل بہ ان علینا جمعہ وقراٰنہ فاذا قرأْنٰہ فاتبع قراٰنہ ثم ان علینا بیانہ‘ تو اتباع قرآن ’’تحریک لسان‘‘ کے ساتھ نہیں ہے بلکہ اتباع قرآن ’لاتحرک لسانک‘ کے ساتھ ہے اس لیے دین کے وسیع تر تناظر میں اتباع امام سورۃ فاتحہ کے پڑھنے میں نہیں ہے بلکہ سورۃ فاتحہ کے نہ پڑھنے میں ہے۔
لیکن ایک اصولی اور بنیادی بات طے شدہ ہے اور اس کو معاشرے میں پھیلانا ہے کہ اسلام کی تہذیب وتمدن اور اسلام کی ثقافت کو زندہ کرنا اور زندہ رکھنا‘ یہ آج ہم سب کی بڑی اور اہم ذمہ داری ہے اور اگر آج ہم نے اس ذمہ داری کو ادا نہ کیا تو یقین جانئے‘ روز قیامت، میں اور آپ اللہ تعالیٰ کے سامنے کوئی جواب دینے کے قابل نہیں ہوں گے۔ اس ذمہ داری کو ہم بذریعہ سنت ادا کرسکتے ہیں۔ سنت کی اہمیت‘ سنت کی عظمت‘ سنت کی دستوری اور آئینی حیثیت کو جتنا بھی آپ اجاگر کرسکتے ہیں کریں‘ یہ نہ سوچیں کہ یہ باتیں تو بہت کہی گئی ہیں‘ بہت سنی گئی ہیں‘ بہت پڑھی اور لکھی گئی ہیں‘ کوئی بات نہیں‘ قرآن پاک نے بھی تو ایک بات کو بار بار بیان کیا ہے۔ آپ بھی اس بات کو بار بار بیان اور واضح کیجیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو ہمیں اپنی زندگیوں کے اندر بھی زندہ کرنا ہے اور اپنی قانون سازیوں میں بھی زندہ کرنا ہے۔ حق تعالیٰ شانہ سنت کی اہمیت اور سنت کی عظمت کو سمجھنے کی ہمت اور توفیق نصیب فرمادے۔ آمین

Please follow and like us:

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا. ضرورت کے کھیتوں ک* نشان لگا دیا گیا ہے