میں آج اپنے آپ کو برصغیر ہند و پاک کے علماء کرام کے درمیان پاکر عظیم خوشی محسوس کررہا ہوں اس خوشی کا اظہار کرتے ہوئے عرض کرتا ہوں کہ میں نے کئی ایسے مشائخ کی کتابیں پڑھی ہیں اور علم سیکھا ہے جو اسی برصغیر سے تعلق رکھتے تھے چنانچہ میں نے توحید کے موضوع پر حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانوی ہندیؒ کی کتاب اظہار الحق پڑھی ہے ، صحیح بخاری کی شرح فیض الباری پڑھی ہے جو علامہ انور شاہ کشمیریؒ کی ہے جو عالمی سطح کے بڑے امام ہیں، اسی طرح لامع الدراری علی الصحیح البخاری اور اوجزالمسالک لمؤطا امام مالک پڑھی جو شیخ الشیوخ شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلویؒ کی ہیں، اسی طرح میں نے التعلیق الممجد علی مؤطا امام محمد پڑھی ہے۔ اس کے علاوہ کئی کتابیں پڑھیں ہیں۔
اس کے علاوہ اعلاء السنن بھی ناقابل فراموش کتاب ہے۔ یہ ساری کتابیں برصغیر ہند و پاک کے علماء کرام کی کتابیں ہیں جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اپنے دین متین کو بلندی عطا فرمائی، جب کہ اس علم کو اٹھانے سے عرب لوگ پیچھے رہ گئے۔ اے برصغیر ہند و پاک کے علماء کرام! اللہ تعالیٰ ہماری طرف سے آپ لوگوں کو بھرپور جزائے خیر عطا فرمائے کہ آپ لوگوں نے ہمارے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان علمی سند کو جوڑا اور متصل کیا ہے، ہم نے دین کا بڑا حصہ اور حدیث کے علم کی معتبر تعبیر مشائخ ہند سے سیکھی ہے، چنانچہ آپ حضرات کو میں سیرۃ کے عنوان پر اس مجلس کے انعقاد پر مبارکباد پیش کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ حضرات کو بھرپور جزائے خیر عطا فرمائے۔
اس نشست کا عنوان ’’نظام تعلیم‘‘ ہے۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ خصوصی توجہ اس بات پر مرکوز کروں کہ علم دینی اور علم دنیوی کے مابین تفریق نہیں ہونی چاہئے اور ہمارے علماء کرام نے اس پر توجہ فرماتے ہوئے فرمایا کہ یہ تفریق ایسے لوگوں کی کارستانی ہے جو ہمارے لئے بھلائی نہیں چاہتے، نیز ہمارے علماء نے اس کی تفصیل کرتے ہوئے علم کو دو قسموں پر منقسم فرمایا ہے ایک علوم شرعیہ دوسرے وہ علوم جن کی طرف شریعت نے رہنمائی کی ہے ، لہٰذا یہ ہرگز نہ کہا جائے کہ یہ علم دینی ہے اور یہ علم دنیاوی ہے، تو درحقیقت علم دو طرح کے ہیں ایک تو شرعی علوم جیسے کہ علم التوحید ہے، علم الفقہ، علم الحدیث و التفسیر وغیرہ، دوسرے وہ علوم ہیں جن کی طرف شریعت رہنمائی کرتی ہے جیسے کہ علم طب، علم ہندسہ (انجینئرنگ) علم الفلکیات وغیرہ۔
کیا رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا ’’اے اللہ کے بندو! علاج معالجہ کا اہتمام کرو! کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جو بھی کوئی بیماری اتاری ہے تو اس کیلئے دوا بھی ضرور نازل فرمائی ہے‘‘ ایک روایت یہ اضافہ بھی منقول ہے ’’ اس حقیقت سے جو واقف ہوا وہ آگاہ رہا جو ناواقف رہا وہ جاہل رہ گیا‘‘ پھر تو یہ ایک ہی حدیث علم طب (میڈیکل سائنس) کیلئے، علم ہندسہ (انجینئرنگ) کیلئے، علم کیمیا (کیمسٹری) کیلئے اور علم ہیئت وفلکیات کے تمام اقسام کیلئے ایک دستور کی حیثیت رکھتی ہے ، نیز اس شعبہ سے تعلق رکھنے والے تمام علوم و فنون کیلئے بنیادی دستور ہے۔
آج کی دنیا میں اگر کوئی مرض ایسا ہے جس کیلئے میڈیکل سائنس نے کوئی دوا نہ دریافت کی ہو تو یہ ریسرچ کرنے والوں کی اپنی کوتاہی ہے نہ کہ کسی اور کی کوتاہی‘‘ اسی طرح دیگر علوم شرعیہ کو قیاس کرسکتے ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’قل سیروا فی الارض فانظروا کیف کان عاقبۃ الذین من قبلکم‘‘ یہ آیت کریمہ فیصلہ کن انداز میں ہمیں انسانی آبادیات کے فلسفہ کا پتہ دیتی ہے۔
کیا شیخ عبدالرحمن بن خلدون نے یہ کارنامہ انجام نہیں دیا کہ انہوں نے تاریخ کو پڑھا اس کے مناھج کا جائزہ لیا اور انسانی تعلیم گاہوں کا جائزہ لیا اور ہمارے سامنے اپنی تاریخ کا ایسا مقدمہ پیش کیا جو آج تک دنیائے انسانیت کیلئے قابل فخر کارنامہ ہے۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ مغرب نے تمام علوم وفنون مسلمانوں کی اندلسی حکومت سے سیکھے، چنانچہ چوتھی صدی ہجری میں اندلس کی حکومت میں خلیفہ ہشام کے پاس یورپ کے بادشاہ جارج خامس کا ایک وفد آیا۔ اس وفد کی سربراہ خود بادشاہ یورپ کی بھتیجی تھی، ان کا مقصد یہ تھا کہ وہ اندلس کی تربیت گاہوں میں علم حاصل کریں، اس وقت کا یورپ تاریکی و ظلمت کے پیامبر کے طور پر معروف تھا، جب کہ اسلام اپنے شرف و بزرگی کے اوج کمال پر تھا اور ہمارے علماء ایک علم کا دوسرے علم سے کوئی فرق و امتیاز نہیں کرتے تھے۔
میں آپ حضرات کے سامنے یہ بات اس لئے کر رہا ہوں کہ اس کی اہمیت کا اندازہ ہوجائے اور بات یہ ہے کہ تاریخ اسلام کے دورانیہ میں اسلام کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت علم اور علماء کو حاصل رہی ہے سیاسی حالات بڑی تیزی سے بدلتے رہے ہیں چنانچہ جسم کی حالت اسی قدر ٹھیک رہ سکتی جس قدر کہ ریڑھ کی ہڈی ٹھیک رہے اور جس قدر نقصان اس ریڑھ کی ہڈی کو پہنچے گا، اسی قدر نقصان جسم کو ضرور پہنچے گا۔
لہٰذا اے علماء کی جماعت! آپ حضرات ہی اسلام کیلئے ریڑھ کی ہڈی کے مقام پر ہیں، چنانچہ آپ حضرات کی شفاء و صحت سے اسلام کی شفاء و صحت وابستہ ہے اور (اللہ نہ کرے) آپ لوگوں کی بیماری سے اس کی بیماری وابستہ ہے، لہٰذا ہم اللہ تعالیٰ سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ شفاء کی نعمت کو دوام بخشے اور علم و علماء کو شفاء و صحت کی نعمت میں ہمیشہ رکھے اور ان کے ذریعہ ملک و قوم کو مضبوطی و استحکام عطا فرمائے۔