قائداعظم کا پاکستان
لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ( الأیۃ)
جناب وزیر مذہبی سردار محمد یوسف صاحب، وائس چانسلر وفاقی اردو یونیورسٹی ظفر اقبال صاحب، جناب قاری حنیف جالندھری صاحب، جناب میجر محمد عامر صاحب، جناب مفتی ابوہریرہ محی الدین صاحب ، علماء کرام ،مہمانان گرامی اور عزیز طلبہ (السلام علیکم)
علامہ اقبال نے فرمایا کہ
کی محمدﷺ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح وقلم تیرے ہیں
سب سے پہلے میں مبارکباد پیش کرتا ہوں مجلس صوت الاسلام کو اور ان کے مقصد کو، پاکستان کی تاریخ میں بہت کم ایسے پروگرام منعقد ہوتے ہیں جو ہر طرح کی فرقہ واریت سے بالاتر ہوکر اسلام کی بنیادی تعلیم کو اجاگر کرتے ہیں۔ اقلیتوں کا تحفظ ہو یا کسی بھی انسان کے جان ومال کے تحفظ کی بات ہو۔ایک ہی بنیاد اور وہ ہے قرآن مجید کے احکامات اور محمد مصطفیﷺ کی تعلیمات اور اسوۂ،ہماری ماں سیدہ عائشہ صدیقیہؓ کے بقول آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلتا پھرتا زندہ قرآن ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میدان جہاد میں بھی بچوں، عورتوں، بوڑھوں اورہتھیار ڈالنے والوں پر ہاتھ اٹھانا منع فرمایا اور سبز درختوں کو کاٹنے سے بھی منع فرمایا۔ انسانی جان کی حرمت اور عظمت کو کعبہ کی حرمت سے زیادہ قرار دیا ۔آج میرے بھائی میجر عامر صاحب نے مدارس کے حوالے سے بات کی ،بلاشبہ مساجد ومدارس کو کوئی خطرہ نہیں، مفتی کو کوئی خطرہ نہیں ،عالم کو کوئی خطرہ نہیں، مولوی کو کوئی خطرہ نہیں لیکن ایسی تاویلیں نہ کی جائیں قرآن مجید کی، ایسی تاویلیں کرنے والے وہ ان کو صوفی ومُلّا اور مولوی نہ کہیں اور ایک بات میں اور عرض کروں گا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب مبین میں شروع میں ہی فرمادیا۔ الم ذالک الکتاب لاریب فیہ ھدًی للمتقین ۔
اس کتاب میں شک تو کوئی نہیں ہے لیکن یہ متقین کیلئے ہدایت ہے ۔ متقین ،اگر تقویٰ نہیں ہے تو پھر یہ کتاب مقدس کی ہدایت نہیں۔ ہدایت مشروط ہے تقویٰ کے ساتھ اور جب دل میں تقویٰ ہو تو نہ غلط تاویل ہوسکتی ہے نہ غلط پیغام ہوسکتا ہے ، نہ انسانی جان کو کوئی خطرہ ہوسکتا ہے ۔ اختصار کے ساتھ یہ عرض کروں گا جب تک ہم اپنے قول وفعل کو محمد مصطفیﷺ کے اسوہ کا تابع نہیں کرتے نہ امن قائم ہوگا نہ ہمارے ایمان کا اللہ کے ہاں کوئی مقام ومرتبہ ہوگا ، نہ ہماری دنیا کی زندگی میں امن وخوشحالی آئے گی۔ اس لئے عمل اپنا ہم سب اگر رسول کریم ﷺ کے اسوہ کے تابع کردیں۔ آپﷺ کا اسوہ کیا ہے، مسجد نبوی کو چشم تصور میں دیکھیں۔ آپ محمد مصطفیﷺ تشریف فرما ہیں۔ صحابہ کرامؓ تشریف فرما ہیں اور نصرانی (نجرانی) وفد آتا ہے کہ عبادت کا وقت ہوگیا ہے، ہم عبادت کرلیں۔ آپﷺ مسجد نبوی میں اپنی موجودگی میں ان کو اپنے طریقے سے عبادت کی اجازت دیتے ہیں۔ آپ ﷺ کا یہودی مہمان مسجد نبوی کے فرش کو گندا کردیتا ہے۔ صحابہؓ دوڑتے ہیں صفائی کے لئے ،آپﷺ انہیں روک دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ یہ میرا مہمان ہے، میں اپنے ہاتھ سے صفائی کروں گا تو علماء کرام، اساتذہ کرام، طلبہ عظام اور دوست واحباب میں یہ عرض کروں گا کہ اگر ہم اس ملک میں امن چاہتے ہیں تو پھر ہمیں محمد مصطفیﷺ کے اسوۂ حسنہ کا تابع ہونا ہے۔ رہ گئی 21ویں ترمیم۔ میرے بھائی قاری حنیف جالندھری صاحب نے بہت کچھ فرمایا اور کہا کہ جلدی میں منظور کی گئی۔ میڈیا کے لوگوں سے پوچھو تو وہ کہتے ہیں دیر بہت کردی یہ ترمیم پہلے منظور ہونی چاہیے تھی۔ یہ ترمیم ’’وامرھم شوریٰ بینھم‘‘باہمی مشاورت سے آپ کی قیادت میں پاس کی گئی ہے۔ پھر بھی اس میں اگر کوئی کمی ہے تو ٹھیک ہوجائے گی لیکن اس وقت برائے کرم اقلیتوں کو بھی اور خود ہمیں اپنے آپ کو محفوظ بنانے کے لئے بھی ضروری ہے کہ ہم ہاتھوں میں ہاتھ ڈالیں اختلاف نہ کریں۔ تجاویز دیں اور ساتھ کھڑے ہوں تاکہ سب سے پہلے مغرب اور مشرق کو دیکھنے کے بجائے ہم پاکستان کو اسلام اور امن کا گہوار ہ بنائیں۔ ہم یہاں محمد مصطفیﷺ کے اسوہ پر عمل کو یقینی بنائیں ، ہم اپنی یکجہتی سے پاکستان کے وجود کو دہشت گردی چاہے وہ کسی بھی نام سے ہو خاتمہ کرکے دم لیں گے۔ یہ دہشت گردی ختم ہوگی تو ان شاء اللہ العزیز محمد مصطفیﷺ کی تعلیمات بھی عام ہوں گی اور قائد اعظمؒ نے جیسے فرمایا کہ ہم نے پاکستان حاصل کیا ہے اسلام کی تجربہ گاہ بنانے کے لئے، یہاں ہم اسلام کو نافذ کریں تاکہ ساری دنیا کو بتاسکیں کہ اسلام انسانیت کے تمام مسائل کو حل کرنے کا کامل نسخہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں یہاں اسلام کو غالب کرنے اور اپنے عمل سے اسلام کا پیغام عام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آپ حضرات کیلئے میرے ادارہ کی طرف سے اگر کوئی خدمت درکار ہو تو میں حاضر ہوں۔