صوبۂ سرحد کا خیبرپختونخواہ بننے کے بارے میں گزشتہ چند دنوں سے قومی اخبارات وجرائد میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ صوبے کے نام کی تبدیلی کے بعد اثرات کے حوالے سے ہزارہ میں جو کچھ ہوا، جیسے ہوا، جو جو عناصر اس میں کسی نہ کسی طرح شامل رہے، کسی بھی لحاظ سے پسندیدہ نہیں کہلایا جا سکتا۔
باسٹھ برس گزرنے کے بعد اور اکیسویں صدی میں بھی پاکستان کے پڑھے لکھے لوگوں میں بھی آج تک یہ تبدیلی بہت کم دیکھنے میں آئی کہ من حیث القوم یا جماعت یعنی اجتماعی طور پر اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے ایک ایسا کردار ادا کریں جو ملک وقوم کے لئے ایک مثبت، تعمیری اور دور رس اثرات کا حامل ہو۔
قومی اسمبلی میں صوبے کے نام کی تبدیلی کے حوالے سے آئین میں اٹھارہویں ترمیم سے بہت پہلے صوبہ سرحد کی اسمبلی نے نام کی تبدیلی کے حق میں جب قرار داد منظور کی تو ان لوگوں کو جو صوبے کے نام کی تبدیلی کے بارے میں تحفظات رکھتے تھے، چاہئے تھا کہ اپنی آواز مناسب انداز میں مناسب اور قانونی فورمز پر بلند کرتے اور حکومت وقت پر اثرانداز ہو کر اتفاق رائے پیدا کرنے کے مواقع حاصل کرلینے کی کوشش کرتے، لیکن ان مواقع پر ان لوگوں نے کوئی مؤثر آواز نہ اٹھائی اور چونکہ اٹھارہویں ترمیم میں سرحد کے نام کی تبدیلی بھی شامل تھی، لہٰذا ہزارہ کے لوگوں کو چاہئے تھا کہ اپنے منتخب نمائندوں کو جمہوری انداز میں اپنا مؤقف پہنچاتے کہ وہ اسمبلی میں اپنے حلقوں کے عوام کی نمائندگی کا حق ادا کریں، لیکن جب ان سارے مراحل پر ان قوتوں کی طرف سے کوئی ایسی مؤثر آواز نہ آئی اور اٹھارہویں ترمیم قومی اسمبلی سے پاس ہوا تو پھر بھی ہزارہ کے بھائیوں کے پاس ایک موقع تھا کہ ایک دفعہ پھر اپنے نمائندوں کو بیدار کرکے سینیٹ میں اپنی آواز بلند کروانے کی کوشش کرتے، لیکن جب ان سارے قانونی اداروں اور ذرائع سے گزر کر صوبے کا نام تبدیل ہوا تو صوبے کے سارے لوگوں کو قانون اور اسمبلی کے احترام اور ملک وقوم کی محبت میں لوگوں کو اسے اتحادِ قوم کی غرض سے بھی قبول کرنا چاہئے تھا۔
لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ہزارہ کے بھائیوں نے خیبر پختونخواہ کو ایک جذباتی مسئلہ بنا کر جذبات کی رو میں ایسے بہہ گئے کہ آٹھ قیمتی جانوں کے ضیاع کے علاوہ بیسیوں لوگ شدید زخمی ہوکر صوبے کے عوام کے درمیان تلخی اور انتشار پھیلانے کا باعث بنے۔ یہ بات قابل افسوس ہونے کے ساتھ ساتھ قابل مذمت بھی ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں اپنے جماعتی مفادات کے لئے ملکی مفادات کا خیال نہیں رکھتیں۔ پاکستان کی سیاسی جماعتیں بہت کم عوام کے مفادات کا خیال رکھتی ہیں، کم از کم اتنا خیال تو رکھنا چاہئے کہ ان کی سیاست کی وجہ سے قیمتی جانوں کے ضیاع کے سبب کتنے خاندان اورافراد متاثر ہوتے ہیں۔
ہزارہ کے لوگوں کو عام طور پر پُرامن اور پاکستان پرست سمجھا جاتا رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ صوبہ کے نام کی تبدیلی کے سلسلے میں انہوں نے جو رویہ اختیار کیا اس میں منطق اور شعور کے بجائے جذبات اور بعض حوالوں سے نسلی اور جغرافیائی تعصب بھی شامل ہوگیا۔ اگرچہ اس بات کا یہاں ذکر کرنا ضروری ہے کہ خیبر پختونخواہ کی حکومت پر ان کے مقابلے میں اس حوالے سے حالات کو سنبھالنے کی زیادہ ذمہ داری پڑتی تھی کہ آخر وہ برسر اقتدار ہونے کی بناء پر عوام کی جان ومال وآبرو کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں، لیکن یہاں پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ جمہوری حکومتوں میں اپنی آراء کی اظہار کے لئے لوگوں کا جلسے جلوس کرنا ان کا بنیادی حق تصور کیا جاتا ہے، لہٰذا لوگوں کو اگر جذبات کے انخلاء کا موقع دیا جاتا تو شاید یہ ناگفتہ بہ صورتحال واقع نہ ہوتی۔
اب جبکہ سینیٹ میں اٹھارہویں ترمیم مکمل اتفاق رائے سے منظور ہو چکی ہے تو اس حوالے سے کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ صوبہ سرحد کے نئے نام کے حوالے سے نازیبا رویہ اختیار کرے۔ ہاں اگر کسی کو اس نام کے ساتھ اختلاف ہے تو قانونی اور آئینی چارہ جوئی کا راستہ اختیار کیا جا سکتا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ اس وقت ہو سکتا ہے کہ آئین میں دوبارہ کہیں دو تہائی اکثریت کے ذریعے انیسویں ترمیم کے ذریعے کوئی اور نام لایا جا سکے، لیکن اسمبلیوں کی ذریعے اس قسم کے فیصلے لینے کے لئے برسوں سیاسی جدوجہد کے علاوہ صبر بھی کرنا پڑتا ہے۔ صوبے کے حکومتی عہدیداروں نے ببانگ دہل کہا ہے کہ اس کے لئے ہم نے باسٹھ برس تک صبر و جدوجہد سے کام لیا۔ لہٰذا حکومت کے ساتھ صوبے کے سارے لوگوں کو صوبے کا نیا نام مبارک ہو، لیکن اس عرض کے ساتھ کہ خدارا زندگی میں کسی بھی موقع پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے حد سے نہیں گزرنا چاہئے۔
ہوائی فائرنگ نہ صرف قانوناً منع ہے، بلکہ اسلامی تعلیمات کی رو سے اسراف اور اس کے ذریعے کسی بے گناہ اور معصوم جانوں کے جانے کا خطرہ بھی ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اس بات کا خیال بھی رکھنا ضروری ہے کہ ہزارہ کے جن گھروں میں ماتم ہے ان کو کسی طرح بھی خوشی منانے کا یہ انداز نہیں بھا سکتا۔ لہٰذا سردست ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ بے جا خوشیاں منانے کے بجائے ہزارہ کے بھائیوں کو گلے لگانے کا اب کوئی راستہ نکا لیں۔
ہزارہ کے بھائیوں کو اب اس وقت تک صبر کرنا ہوگا جب تک ان کو آئینی جدوجہد کے ذریعے اپنا مؤقف منوانے کا موقع نہیں ملتا۔
اس وقت جبکہ یہ صوبہ خیبر پختونخواہ ہم سب کا صوبہ ہے، ہم سب کا فرض ہے کہ نسلی، لسانی اور جغرافیائی تعصبات سے بالاتر ہوکر مسلمان بھائیوں کی طرح اخوت اور محبت کے ساتھ رہیں۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ پاکستان کے موجودہ صوبوں میںمزید صوبے بننے چاہئیں یا نہیں تو عوام کے منتخب نمائندوں کی وساطت سے یہ اسمبلیوں کا کام ہے۔ اگر پاکستان کی مضبوطی اور عوام کی خوشحالی کے لئے مزید صوبوں کی ضرورت ضروری سمجھی جاتی ہے تو وہ بھی اتفاق رائے اور افہام وتفہیم کے اور سوچ وبچار کے ساتھ قبل اس کے بنانا چاہئے کہ لوگ سڑکوں پر آکر قومی وملکی مفادات کو نقصان پہنچانے کا باعث بنیں۔
میں تو ذاتی طور پر اس بات کا قائل ہوں کہ میرے لئے دو ہی پہچان اہم اورکافی ہیں۔ ہم پہلے مسلمان ہیں پھر پاکستانی ہیں۔ مسلمان نام ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملا ہے اور پاکستانی، پاکستان کی وجہ سے ملا ہے۔ البتہ مزید پہچان کے لئے قومیتوں کی بقا بھی ضروری ہے۔
یہاں پر اس بات کا ذکر شاید بے جا نہ ہوگا کہ نام کی تبدیلی، خواہ افراد کی ہو یا اماکنہ کی، جائز بھی ہے اور بعض اوقات ضروری بھی ہوتا ہے۔ البتہ سنتِ نبوی ﷺ کی رو سے یہ ضروری ہے کہ نام اچھے مفہوم ومعنی کا حامل ہو، جناب رسول اللہ ﷺ نے خود ہجرت کے بعد یثرب کا نام تبدیل فرمایا۔ یثرب کے معنی ہیں، بیماریوں اورگناہوں کی جگہ، جبکہ مدینہ طیبہ کے معنی، پاک شہر کے ہیں، اسی طرح آپ ﷺ نے ایک لڑکی کا نام بھی تبدیل فرمایا، جس کا نام والدین نے عاصیہ (گنہگار) رکھا تھا۔ آپ ﷺ نے اپنے تینوں نواسوں کے نام حرب (جنگ) کے بجائے حسنؓ، حسینؓ اور محسنؓ رکھوائے تھے، لہٰذا افراد اور جگہوں کے عام یا بے معنی ناموں کو بامعنی اور اچھے ناموں سے تبدیل کرنا سنتِ نبوی ﷺ کے ساتھ ساتھ لوگوں کو خوش کرنے کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔ اس لئے اس حوالے سے اب یہ بحث سمیٹ کر ہم سب کو اپنے اپنے صوبوں اور وطنِ عزیز کی خدمت اور ترقی کے لئے خلوص کے ساتھ جُڑ جانا چاہئے۔ پاکستان ہے تو ہم ہیں، ہر دم، ہر فرد پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگائے رکھے۔
صوبے کے نام کی تبدیلی اور ہمارا طرز عمل
Please follow and like us: