طاہر نو ید چوہدری، چیئر مین پاکستان منار ٹیز الا ئنس،

مسیحی بر ادری کے مسائل و مشکلات
1947 کو قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہاتھا کہ:۔
’’آپ آزاد ہیں،آپ آزاد ہیں ۔پاکستان میں اپنے مندروں میں جانے کو ،آپ آزاد ہیں اپنی مساجد میں اور کسی بھی عبادت گاہ میںجانے کو،خواہ آپ کاتعلق کسی بھی مذہب ، رنگ، نسل اور ذات سے ہو ا ریاست کی طرف سے ایسی کوئی رکاوٹ نہیں۔ہم اس بنیادی اصول سے سفر کا آغاز کررہے ہیں کہ ہم سب ایک ریاست کے مساوی شہری ہیں‘‘۔ اب میں سمجھتاہوں ہمیں اس کو اپنے آئیڈیل کے طورپر اپنے سامنے رکھنا چاہئے ۔
قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے پاکستان میں ایک تحمل وبرداشت اور خوشحال معاشرے کاخواب دیکھاتھا ۔انہوں نے پاکستانی رہنمائوں پر زور دیاتھا کہ وہ مذہب، ذات اورنسل سے بالاتر رہیں اور پاکستان کے تمام شہریوں کو برابر کے حقوق ،سہولتیں اور مواقع فراہم کریں۔ان کو امیدتھی کہ عوام وقت گزرنے کے ساتھ اپنے مذہب اور عقائد کو ترک کئے بغیرباہم مضبوط تعلقات استوارکرلیں گے۔ یہ وہ حد تھی جو انہوں نے مذہبی کمیونٹی اور قوم کے درمیان قائم کی تھی جس میں کوئی کسی پر اثر انداز نہیں ہوسکتاتھا لیکن آج ہم کہاں کھڑے ہیں؟۔ عدم برداشت، مذہبی امتیاز اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہمارا وطیرہ بن گئی ہے۔
جناب عالی:۔ 21ویں صدی میں میری کمیونٹی کودرپیش چیلنجز کی ایک طویل فہرست ہے۔
ہم مسیحی انتہائی بدترین اشتعال کی حالت میںچرچز پر حملوں اورہمارے رہنمائوں کے قتل کے واقعات کے باوجود ہم پرامن رہتے ہیں ۔مسیحی برادری کو ملک کے دیہی اور شہری علاقوں میں امتیازی سلوک اور سماجی تنہائی کا سامنا ہے۔وہ سماجی طور پر کمتر تصور کئے جانے اورذلت کو تحمل سے اس امید پر برداشت کرتے ہیں کہ ترقی اورجدید خیالات آنے پر ایک نہ ایک دن صورتحال تبدیل ہوجائے گی۔ہم سماجی اور معاشی استحکام کے حصول کیلئے سخت محنت کرتے ہیں تاہم ہمیں کبھی بھی مساوی سماجی اور مذہبی درجہ نہیں دیاگیا ۔ مسیحی برادری کوسرکاری ملازمتوں میں انتہائی نچلی سطح کی ملازمتوں میں بھی ان کا جائز حق نہیں دیاگیا ۔آئین میں اقلیتوں کیلئے 5فیصد کوٹہ مختص ہے لیکن بیشتر جگہ اس پر بھی عمل نہیں کیاجاتا اور مختلف محکموں میں مسیحی برادری کی نمائندگی صفر ہے۔مختلف وزارتوں میں کلاس ون اور ٹو کے عہدوں پر مسیحی اور دیگر اقلیتوں کی تعداد ایک فیصد سے بھی کم ہے۔
کسی غیر جانبدار کمیٹی سے ہماری مردم شماری کی جانی چاہئے۔امتیازی قوانین کے غلط استعمال پر نظر ثانی کی جانی چاہئے ،غیر مسلم کمیونٹی کی رہائشی سوسائٹیوں پر اندھا دھند حملے ہمیں عدم تحفظ کا احساس دلاتے ہیں جس کی مثال گوجرانوالہ، فیصل آباد، خانیوال، جوزف کالونی لاہور اور رمشا کالونی اسلام آباد ہے۔ کسی تنازع میں ہماری پوری آبادی کو نشانہ بنادینا یہ سفاکیت ہے۔ ایسے جذباتی عنصر کی نشاندہی کرکے اس کا تدارک ضروری ہے۔سرکاری اداروں میں ملازمتوں اور ذرائع ابلاغ میں مسیحی کمیونٹی کا کوئی حصہ نہیں اس پر غور کیا جانا چاہیے۔
پاکستان ایک کثیرالمذہب ملک ہے جہاں حقوق پر بلا روک ٹوک عمل سے کافی بہتری پیدا ہوسکتی ہے۔ ایسا صرف اسی وقت ہوسکتاہے جب اس ملک کے رہنما اور رائے عامہ بنانے والے زیادہ ذمہ داری کامظاہرہ کریں ،نفرت پھیلانے سے گریز کریں اور تحمل وبرداشت اور بقائے باہم کا پرچار کریں۔پاکستان کے حکمرانوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ جناح کے تحمل،اجتماعی اور جمہوری پاکستان کے ویژن پر توجہ دیں اور ذات،نسل اور صنف کے امتیاز کے بغیر مساوی شہری اور دیگر حقوق کے اصولوں پر عمل کریں۔ پاکستانی عوام کی بھاری اکثریت تحمل اور برداشت والی ہے اور اقلیتوں اورخواتین کو ان کے حقوق دینے کی حامی ہے۔ 
سفارشات
1۔پاکستان میں حکام کو حال ہی میں بڑے پیمانے پر مذہبی رہنمائوں کے قتل جس میں اکتوبر 2001 میں بھاولپور ، 2002 میں مری اور ٹیکسلا میں مسیحیوں اور فروری 2002 میں شیعہ برادری کے قتل کے واقعات شامل ہیں غیر جانبدارانہ تحقیقات کرانی چاہئے اورجو لوگ اس کے ذمہ دار پائے جائیں انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایاجائے ۔
2 ۔نسلی ،مذہبی اور صنفی مساوات کیلئے غیر جانبدار کمیشن یا اسی طرح کے ادارے قائم کئے جانے چاہئیں جو شکایات وصول کرکے ان کی تحقیقات کریں اور امتیازی سلوک کانشانہ بننے والوںکو مشورے دیں اور عدم امتیاز کے اصولوں کوفروغ دینے اور مختلف کمیونٹیز میں مفاہمت پیدا کرنے کیلئے آگہی کے فروغ کی کوششیں کرسکیں۔ان اقدامات کو بروئے کار لانے کیلئے فنڈز فراہم کئے جانے چاہئیںجو کہ اقلیتی گروپوں کے نمائندوں اور مقامی بین المذاہب کمیٹیوںکی بھرپور اور موثر شرکت کے ذریعے بنائے جائیں۔
3 ۔حکام کو یہ بات یقینی بنانی چاہئے کہ مذہبی اوردیگر اقلیتیں ہرشعبہ زندگی میں حصہ لے سکیں ،وہ اقلیتوں کو فیصلہ سازی میں شریک کرنے کویقینی بنانے کیلئے وسیع تر میکانزم پر غور کرنا چاہئے جن میں اقلیتوں سے متعلق امور پر قومی اورمقامی سطح پرحکومت اور پارلیمنٹ اورمشاورتی اداروں میں مخصوص نشستیں شامل ہیں۔
4 ۔ قوانین اور آئینی شقات جواقلیتوں یا خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کا سبب بنتی ہیں ان میں ترمیم کی جانی چاہئے ۔
5 ۔ اس بات کو یقینی بنانے کے اقدامات کئے جانے چاہئیں کہ اقلیتیں کسی امتیاز کے بغیر اقتصادی اور عوامی زندگی میں شریک ہوسکیں۔
6 ۔ یہ یقینی بنانا چاہئے کہ ہر طرح کے نسلی امتیاز کے خاتمے کے بین الاقوامی کنونشن، اور بچوں کے حقوق سے متعلق کنونشن کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کیلئے بنائے جائیں گے۔

Please follow and like us:

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا. ضرورت کے کھیتوں ک* نشان لگا دیا گیا ہے