عبدالجبارناصر

گلگت بلتستان کی داخلی خودمختاری اور تاریخی حقائق

وفاقی کابینہ نے 29اگست 2009ء کو گلگت بلتستان (شمالی علاقہ جات) کے لیے خصوصی اصلاحاتی پیکیج کی منظوری دے دی۔ اس پیکیج کی صدائے بازگشت بالعموم 2007ء اور بالخصوص پیپلزپارٹی کی حکومت کے قیام کے بعد اپریل 2008ء سے سنائی دے رہی تھی۔ 7ستمبر2009ء کوصدرپاکستان آصف علی زرداری کے دستخط کے بعد تحسین اور مذمت کا سلسلہ شروع ہوا جو تاحال جاری ہے۔ لوگوں کی بڑی تعداد، جو خطے کے جغرافیائی، تاریخی اور معروضی حالات سے نا واقف ہے، نے اس فیصلے پر بھرپور خوشی کا اظہارکیا۔ دوسری طرف مقبوضہ اور آزاد کشمیر کے اکثر سیاسی قائدین نے حکومت پاکستان کے اصلاحاتی پیکیج کو تقسیم کشمیر کی سازش قرار دیتے ہوئے نہ صرف اس کی مذمت کی بلکہ کلی طور پر مسترد کیا۔ اسی طرح گلگت بلتستان کے باسیوں کی ایک بڑی تعداد بھی حکومت کے پیکیج کو ڈرامہ قرار دے کر مسترد کرچکی ہے اور ان کا مطالبہ ہے کہ حکومت مقامی لوگوں کی مرضی اور منشاء کے مطابق خطے کے لیے اصلاحات تیار کرے، جبکہ خطے کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے تاحال محتاط رویہ اختیار کیا ہوا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ خصوصی اصلاحاتی پیکیج کے مندرجات کاکے حقائق سے باخبر نہ ہونا ہے۔ مختلف فریقوں کی جانب سے مختلف موقف اور دعوؤں کے بعد گلگت بلتستان کی تاریخی، جغرافیائی اور آئینی پوزیشن کے حوالے سے نہ صرف عام آدمی بلکہ باشعور طبقہ بھی شدید تذبذب کا شکار ہے، کیونکہ پاکستان اور گلگت بلتستان کے بعض افراد کا موقف ہے کہ یہ خطہ پاکستان کا حصہ ہے، اس لیے اسے پاکستان میں کلی طور پر شامل کیا جائے۔ مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کی قیادت کلی جبکہ گلگت بلتستان کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس خطے کو متنازع ریاست جموں وکشمیر کا حصہ قرار دیتے ہوئے حکومت پاکستان کے پیکیج کو تنازعہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے اصولی موقف سے انحراف قرار دیتی ہے۔دوسری جانب گلگت بلتستان کے عوام کی ایک بڑی تعداد خطے کو خودمختار قرار دیتے ہوئے حکومت پاکستان اور بالخصوص کشمیری قیادت سے سخت نالاں نظر آتی ہے۔ مختلف ٹی وی چینلز میں ہونے والے پروگراموں اور تاریخی حقائق کی بجائے سنی سنائی باتوں، روایتوں اور ذاتی تصورات پر مشتمل مضامین نے گلگت بلتستان کے آئینی تشخص کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔ بدقسمتی سے ماضی میں اس خطے کے دعویداروں نے دنیا اور خطے کے عوام کو ان علاقوں کے جغرافیائی، تاریخی اور معروضی حالات سے حقائق سے آگاہ کرنے کی بجائے ذاتی موقف یاتصور کا ہی پر چارکیا، جس کی وجہ سے آج بھی اہل پاکستان، گلگت بلتستان اور کشمیریوں کی ایک بڑی تعداد اصل حقائق سے لاعلم ہے۔
گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت جاننے کے لیے خطے کے جغرافیائی، تاریخی اور معروضی حالات کے حقائق کو مدنظر رکھنا لازمی ہے۔ اس کے بغیر صورت حال کا سمجھنا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہے گلگت بلتستان کے حوالے سے کوئی بھی غیرسنجیدہ فیصلہ تنازعہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے موقف اور خطے میں پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کو متاثر کرسکتا ہے۔گلگت بلتستان 3پہاڑی سلسلے قراقرم، ہمالیہ اور کوہ ہندوکش کے سنگم پرواقع ہے ،بونجی کے مقام پر تینوں پہاڑی سلسلے ملتے ہیں۔گلگت بلتستان دنیا کی 6میں 4بڑی ایٹمی قوتوں پاکستان، چین،بھارت اور روس کے درمیان واقع ہے، جبکہ افغانستان میں سپرپاور امریکا کی موجودگی کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اگر چہ یہ خط 28ہزار مربع میل پر پھیلے ہوئے 20لاکھ افراد کا مسکن ہے، مگر خطے کی تاریخی اور جغرافیائی اہمیت نے خطے کو 28لاکھ مربع میل رقبہ اور کروڑوں کی آبادی رکھنے والے ملک سے زیادہ اہمیت کا حامل بنا دیا ہے۔ گلگت بلتستان کی یہ اہمیت صدیوں سے ہے، بلکہ مستقبل کے حوالے سے اس کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام عالمی قوتوں کی نظریں خطے پر لگی ہوئی ہیں۔یہ خطہ 73سے75ڈگری مشرقی طول بلد اور 35سے37ڈگری شمالی عرض بلدکے درمیانی علاقے پر محیط ہے۔ گلگت بلتستان بنیادی طور پر 2ریجن پر مشتمل ایک خطہ ہے، جس کے 7اضلاع، 23تحصیل اور11سب ڈویژن ہیں۔ گلگت ریجن5اضلاع گلگت، دیامر، غذر ،استور اور ہنزہ نگر، جبکہ بلتستان ریجن 2اضلاع سکردو اور گنگ چھے پر مشتمل ہے۔ دونوں ریجن میں مختلف مکاتب فکر اور زبانوں کے لوگ آباد ہیں۔ خطے کی سب سے بڑی زبان شیناہے، جو ضلع دیامر اور استور میں 100فیصد، ضلع گلگت میں تقریباً90فیصد،ضلع ہنزہ نگر میں 25،ضلع غذر میں 40فیصد، سکردو میں 10فیصد اور گنگ چھے میں 5فیصد بولی جاتی ہے۔ دوسری بڑی زبان بلتی ہے جو بلتستان ریجن کے 2اضلاع سکردو اور گنگ چھے میں بالترتیب 90اور 95فیصد بولی جاتی ہے۔ تیسری بڑی زبان بروشسکی ہے جوضلع گلگت میں 10 فیصد،ضلع ہنزہ نگر میں40 اور غذر میں 15فیصد بولی جاتی ہے۔ چوتھی زبان کھوار ہے جو ضلع غذر میں 45فیصد اور ضلع ہنزہ نگر میں15فیصد بولی جاتی ہے، جبکہ وخی ضلع ہنزہ نگر میں35فیصد بولی جاتی ہے۔ مجموعی طور پر پورے خطے میں شینا 50فیصد، بلتی 30فیصد، بروشسکی10فیصد، کھوار اور وخی 10فیصد بولی جاتی ہے۔مذہبی حوالے سے گلگت بلتستان میں 4مکاتب فکر آباد ہیں۔ ضلع گلگت میں 50فیصدسنی،40 شیعہ،10فیصد اسماعیلی ہیں۔ ضلع دیامر میں 100فیصد سنی۔ ضلع استور میں 75فیصد سنی اور 25فیصد شیعہ۔ ضلع غذر میں 80فیصد اسماعیلی اور 20فیصد سنی۔ ضلع سکردو میں 85فیصد شیعہ،8 فیصد نوربخشی اور 7فیصد سنی، جبکہ ضلع گگچھے میں 85فیصد نوربخشی، 10فیصد سنی اور 5فیصد شیعہ آباد ہیں۔ضلع ہنزہ نگر میں 55شیعہ اور45اسماعیلی ہیں۔ مجموعی طورپر تقریباً 38فیصد شیعہ، 36فیصد سنی، 16فیصد اسماعیلی اور 10فیصد نوربخشی آباد ہیں۔ خطے کی سرحدیں مشرق سے جنوب تک مقبوضہ کشمیر (بھارت کے زیرقبضہ) شمال میں چین، شمال مغرب میں افغانستان اور تاجکستان (پامیر)کی ایک چھوٹی سے پٹی ہے، جبکہ مغرب اور جنوب مغرب میں پاکستان کے اضلاع کوہستان اور چترال اور آزاد کشمیر کی وادی نیلم سے ملتی ہیں۔
16مارچ 1846ء میں حکومت برطانیہ اور مہاراجہ گلاب سنگھ کے مابین ہونے والے معاہدے (امرتسر) سے قبل تک اس خطے میں مختلف ناموں سے چھوٹی بڑی آزاد ریاستیں رہی ہیں۔ کبھی ان کی سرحدیں دور دور تک پھیل جاتی اور کبھی محدود ہوجاتی تھیں، مگر 16مارچ 1846ء کے معاہدہ امرتسر کے تحت مہاراجہ گلاب سنگھ نے انگریزوں سے 75لاکھ نانک شاہی میں خطہ کشمیر کو خریدا (جس میںگلگت بلتستان کا علاقہ شامل نہیں تھا یہاں پر چھوٹی آزاد ریاستیں تھیں )اور 1848ء تک مہاراجہ نے کشمیر سمیت گلگت بلتستان کے موجودہ تمام خطوں پر بھی کنٹرول حاصل کیا(بلتستان لداخ کی ایک تحصیل تھا)۔ ڈوگرہ حکومت ان خطوں میں16مارچ 1846ء سے 15اگست 1947ء تک قائم رہی، البتہ گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں ڈوگرہ راج 1848ء سے یکم نومبر 1947ء اور 14اگست 1948ء تک قائم رہا۔ تاہم اس دوران بھی انگریز حکومت کا اثر رہا، یہی وجہ ہے کہ 1889ء میں انگریز حکومت نے گلگت ایجنسی قائم کردی، جس پر مہاراجہ نے شدید احتجاج کیا مگر گوروں نے اس کی ایک نہ سنی، یوں مہاراجہ کی سرگرمیاں گلگت میں محدود ہوگئیں۔1892ء میںانگریز نے ہنزہ اور نگر کی ریاستوں کو بھی کنٹرول کرکے راجاؤں کی سرگرمیاں محدود کردیں اور وزارت قائم کرکے وہاں وزیر تعینات کیا۔ اگرچہ وزیروزارت مہاراجہ کا نامزد کردہ فرد ہوتا تھا مگر اصل حکمران انگریز ہی رہے۔ 1901ء میں گلگت اور لداخ کو دو وزارتوں میں تقسیم کیا گیا۔ مہاراجہ کشمیر نے1931ء کی سیاسی تحریک کے دبائو میں سیاسی اصلاحات کے تحت 1934ء میں پہلی بار جموںوکشمیر اسمبلی قائم کی۔ اس اسمبلی میں لداخ کے لیے 2،کرگل،سکردو( بلتستان) اور استور کے لیے ایک ایک نشست مختص کیں۔ گلگت کو اسمبلی میں نمایندگی نہ دینے کی وجہ انگریز سے ہونے والا معاہدہ تھا، تاہم یکم اگست 1947ء کو جب انگریز نے معاہدہ ختم کرکے گلگت ایجنسی ڈوگرہ حکومت کے حوالے کی تو مہاراجہ نے گلگت کو لداخ میں شامل کرکے ریاست کا تیسرا صوبہ بنایا۔ تیسرے صوبے کے حوالے سے اصلاحات زیرغور تھیں کہ تقسیم برصغیر کا اعلان ہوا۔ ریاستی اسمبلی کے ارکان کا 1934ء،1937ء،1942ء 1947ء تک 4 بارانتخاب ہوا۔ جب 1935ء میں روس نے چین کے صوبہ سنکیانگ پر قبضہ کیا تو انگریزوں کو پامیر کے راستے سے خطرہ محسوس ہونے لگا۔ اگرچہ گلگت ایجنسی کے قیام کے بعد انگریز کا ان علاقوں پر کنٹرول تھا مگر انتظامی نگرانی ڈوگرہ کے پاس تھی، برطانوی حکومت نے خطے پر براہ راست کنٹرول کے لیے 26مارچ 1935ء کو گلگت اور قرب وجوار کے علاقوں کو ایک معاہدے کے ذریعے مہاراجہ سے 60سال کی لیز پر حاصل کیا۔ معاہدے کی رو سے دریائے سندھ کے پار شمالی جانب گلگت بلتستان کے 1480مربع میل علاقے کا تمام انتظام وانصرام انگریز کو حاصل ہوا، تاہم اس 5نکاتی معاہدے میں یہ شرط شامل تھی کہ سرکاری عمارات پر ریاست جموں وکشمیر (مہاراجہ)کا پرچم ہی لہراتا رہے گا۔ 3جون 1947ء کو جب یہ طے پایا کہ انگریز برصغیر سے چلا جائے گا، اس موقع پر معاہدہ گلگت بھی منسوخ ہوگیا۔ یکم اگست 1947ء کو انگریز ریزیڈنٹ نے گلگت ایجنسی کا چارج ایک مرتبہ پھر مہاراجہ کشمیر کی حکومت کے حوالے کیا اور مہاراجہ نے بریگیڈیئر گھنسارا سنگھ کو اس علاقے کا گورنر بناکر گلگت بھیجا جویکم نومبر 1947ء کو اپنی گرفتاری تک گلگت میں مہاراجہ حکومت کے گورنر کے طورپر کام کرتے رہے۔
15اگست 1947ء تک قائم ریاست جموں کشمیر کا کل رقبہ 84ہزار 471مربع میل ہے اور یہ ریاست 3صوبوں پر مشتمل تھی۔ ریاست کے صوبہ جموں کارقبہ 12ہزار 387مربع میل، صوبہ کشمیر 8ہزار 539مربع میل اور سرحدی صوبہ لداخ وگلگت (بلتستان لداخ کی ایک تحصیل تھی)کا رقبہ 63ہزار 554مربع میل تھا۔ قیام پاکستان کے اعلان کے بعد ریاستی مسلمانوں نے مسلمان جوانوں ، افسران اور معززین نے باہمی مشاوت سے ڈوگرہ حکومت سے آزادی حاصل کرنے کی حکمت عملی طے کی جس کے تحت31اکتوبر 1947ء کی شب گلگت میںگورنر گھنسارا سنگھ کی رہائشگاہ ریزیڈنٹ ہاؤس(گورنر ہاؤس) کا محاصرہ کیا ،گورنر گھنسارا سنگھ نے مزاحمت کی اور رات بھر فائرنگ کرتا رہا جس میں گلگت اسکاؤٹس کا ایک نوجوان امیرحیات شہید ہوا۔ تاہم یکم نومبر 1947ء کی صبح کے وقت گھنسارا سنگھ نے ہتھیار ڈال دیے اور خود کو گرفتاری کے لیے پیش کیا۔ گھنسارا سنگھ کی گرفتاری کے ساتھ ہی گلگت ایجنسی میں ڈوگرہ راج کا خاتمہ ہوا ہے۔ اسی روز شاہ رائس خان کی قیادت میں ’’اسلامی جمہوریہ گلگت‘‘ کی عبوری حکومت کا اعلان کیاگیا۔ فوج کے سربراہ کرنل مرزا حسن خان کو بنایا گیا جبکہ دیگر حکام میں شاہ خان، کیپٹن بابر خان اور دیگر شامل تھے اورباہمی مشاورت سے فیصلوں کے لئے ایک’’ انقلابی کونسل‘‘ پہلے ہی بھی قائم کی گئی تھی۔جس کے بعد گلگت بلتستان کے غیور مسلمانوں نے ریاست کے مزیدعلاقوں کو ڈوگرہ راج سے آزاد کرنے کے لیے بلتستان اور استور کی طرف آزادی مارچ شروع کیا یکم جنوری1949ء کو اقوام متحدہ کی قرار داد کے مطابق پاکستان اور بھارت کے مابین سیز فائیر(عارضی جنگ بندی) ہوئی ۔یکم نومبر 1947ء سے 31دسمبر 1949ء تک گلگت بلتستان کے ان علاقوں میں لڑی جانے والی جنگ میں خطے کے مسلمانوں بالخصوص گلگت اسکاؤٹس اور مسلمان فوجی افسران نے تقریباً 40ہزار مربع میل علاقہ ڈوگرہ راج سے آزاد کیا تھا۔ 1948ء سے 1984ء تک مختلف مواقع پر تقریباً 8ہزار مربع میل علاقے پر بھارتی افواج نے دوبارہ قبضہ کیا، جس کی وجہ سے گلگت بلتستان کو کئی اہم دفاعی اور اہم پوزیشنوں سے محروم ہونا پڑا۔ بھارت نے تو جنگ کے ذریعے ان علاقوں پر قبضہ کیا مگر پاکستان نے بھی کوہستان اور چترال میںامن کے زمانے میںبعض علاقے شامل کر کے اپنا ’’حصہ بقدر جثہ ‘‘حاصل کیا ، جن کا رقبہ 2ہزار مربع میل سے زائد بتایا جاتا ہے۔ 21اپریل 1948ء کو اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بنیادی قرارداد منظور ہوئی، جس کے تحت 7مئی 1948ء کو اقوام متحدہ کمیشن برائے انڈیا پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا۔ کمیشن نے اپنے مینڈیٹ کے مطابق نئی سفارشات مرتب کیں، جس کے نتیجے میں 13اگست 1948ء اور 5جنوری 1949ء کو اقوام متحدہ میں تنازع کشمیر کے حوالے سے 2اہم قراردادیں منظور ہوئیں۔ پہلی قرارداد کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے مابین جنگ بندی کی کوششیں ہوئیں اورمعاہدہ ہوا، جبکہ دوسری قرارداد میں تنازع کشمیر کے حل کے حوالے سے تجاویز پر زور دیا گیا اور یکم جنوری 1949ء کو حتمی جنگ بندی کا حکم دیا گیا، جس کے بعد جس کا جہاں پر قبضہ تھا اسی کو ’’سیزفائر لائن‘‘ قرار دیا گیا اور تنازع کشمیر کے حل تک یہ حصہ’’کنٹرول لائن‘‘کہلائے گا۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں جس ریاست جموں وکشمیر کا ذکرہے، اس کا رقبہ 84 ہزار 471 مربع میل ہے، یعنی 15اگست 1947ء کو قائم ہونے والی پوری ریاست جموںوکشمیر شامل ہے، جس کے 3صوبے صوبہ جموں، صوبہ کشمیرا ور صوبہ گلگت لداخ ہیں۔ اس طرح گلگت بلتستان کا خطہ تنازع کشمیر کے حل تک کے لیے لٹک گیا۔ اس لیے پاکستان اور اازاد کشمیر کی دونوں حکومتوں نے اپنی آئینی اور اخلاقی پوزیش کو مضبوط کرنے کے لیے 28اپریل 1949ء کو تاریخ کا سیاہ ترین ’’معاہدۂ کراچی‘‘ کیا۔ اس میں 3فریق شامل تھے حکومت پاکستان، حکومت آزاد کشمیر اور آزاد جموں وکشمیر مسلم کانفرنس تین حصوں پر مشتمل معاہدہ کراچی میں 20 ذیلی نکات شامل تھے۔ معاہدہ کراچی کے حصہ ’’الف‘‘ کے ساتویں نکتے میں کہا گیا ہے کہ ’’گلگت اور لداخ (بلتستان) کے جملہ انتظامات کا کنٹرول بھی حکومت پاکستان سنبھالے گی۔
16نومبر 1947ء کو صوبہ سرحد کاایک مجسٹریٹ سردار عالم خان حکومت پاکستان کے نمایندے کے طور پر گلگت پہنچا اور آزاد جمہوری حکومت کے ساتھ ساتھ آزاد ’’اسلامی جمہوریہ گلگت ‘‘کاخاتمہ کیا۔ سردار عالم خان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کو گورنر سرحد نے پاکستان کا نمایندہ بناکر بھیجا تھا ،یہی وجہ ہے کہ 16نومبر 1947ء سے 27اپریل 1949ء تک یہ خط عملاً گورنر صوبہ سرحد کے زیرانتظام رہا اور 28اپریل 1949ء کے بدنام زمانہ’’ معاہدہ کراچی ‘‘کے بعد وزارت امور کشمیر نے اس کا انتظام سنبھالا۔ گلگت بلتستان کے عوام پاکستان اور اسلام کی محبت میں نہ صرف خاموش رہے، بلکہ 1947ء سے 2009ء تک بنیادی انسانی و آئینی حقوق اور حق حکمرانی سے محروم ہوتے ہوئے بھی پاکستان کے لیے پاکستانیوں سے زیادہ قربانی دی۔ 1949ء، 1951ء، 1965ء اور1971ء کی پاک بھارت جنگوں ، 1999ء کی کارگل جنگ اور اکتوبر1997ء نومبر 2003ء تک کنٹرول لائن پر بھارتی جارحیت کے علاوہ 62سالوں کے دوران ہونے والی درجنوں بھارتی سازشوں کو ناکام بنانے میں پاکستانیوں سے زیادہ جذبے کے ساتھ قربانی دی۔ گلگت بلتستان6 دعویدار ہیں جن میں کشمیری قیادت، پاکستان ، بھارت، چین، مقامی عوام اور عالمی سامراج ہیں یکم نومبر1947ء سے2009تک گلگت بلتستان کو انتظامی طورپر 7 مختلف ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ 
پہلا دور یکم نومبر 1947ء سے 16نومبر1947ء تک کا ہے جس میں ایک آزاد اسلامی جمہوریہ ہے گلگت کے قیام سے اس کے خاتمے تک کا ہے۔گلگت بلتستان کادوسرا انتظامی دور 16نومبر 1947ء سے 27اپریل 1949ء تک کا ہے اس دوران خطے کے حاکم وقت اور پولیٹیکل ایجنٹ سردار عالم خان نے اپنی آمد کے بعد خطے میں ایک مرتبہ پھر انگریز کے کالے قانون ’’ایف سی آر‘‘ کا نفاذ کیا اور ریاستوں کو تقریباً بحال کیا ۔گلگت بلتستان کے تیسرے انتظامی دور کا آغاز اگرچہ 28اپریل 1949ء کو معاہدۂ کراچی اور 1950ء میںصوبہ سرحد کے گورنر کی جانب سے گلگت بلتستان کا انتظام وانصرام وزارت امور کشمیر کے سپرد کرنے کے بعد شروع ہوتا ہے اور یہ 20ستمبر 1971ء تک جاری رہتا ہے ۔گلگت بلتستان میں ایوب خان کے دوراقتدار میں دیاجانے والا بلدیاتی نظام دراصل نمبرداری نظام کے نعم البدل تھا۔ ان میں پہلی بار بالغ رائے دہی کی بنیاد پر اراکین منتخب ہوئے۔ گلگت بلتستان میں پہلی بار بالغ رائے دہی کی بنیاد پر 1961ء میں بنیادی جمہوری اداروں(بلدیاتی اداروں) کے لیے انتخابات ہوئے اور 2004ء تک یہ عمل جاری رہا موجودہ حکومت نے نومبر2009ء کو بلدیاتی اداروں کی مدت مکمل ہونے کے باوجود الیکشن نہیں کرائے۔
گلگت بلتستان کے چوتھا انتظامی دور 20دسمبر 1971ء سے جولائی 1977ء تک کا ہے یہ دور پاکستان میں سابق سول چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر صدر پاکستان اور وزیراعظم پاکستان ذوالفقارعلی بھٹو کا دور رہا ہے۔ ذوالفقارعلی بھٹو نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد 20دسمبر 1971ء کو بطور صدر پاکستان اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے ملک کی باگ ڈور سنبھالی۔ 13اگست 1973ء تک صرف صدر کے طور پر فرائض سرانجام دیتے رہے۔ 14اگست 1947ء کے بعد ملک میں پارلیمانی نظام شروع ہوا، جس کے بعد صدر پاکستان ذوالفقارعلی بھٹو نے 1973ء کے آئین کے تحت پاکستان میں وزیراعظم کی حیثیت سے اختیارات سنبھالے، ان کی حکومت کی مجموعی مدت 5سال سات ماہ کے قریب بنتی ہے۔ذوالفقارعلی بھٹو خطے کے حالات سے باخبر تھے اور شاید انہوںنے اس محرومی کو محسوس کیا تھا۔ ملک کے مختلف مسائل کے حل کے بعد انہوںنے اپنی توجہ ایک مرتبہ پھر گلگت بلتستان کی طرف کی۔ 21اگست 1972ء کو صدر پاکستان کی حیثیت سے ذوالفقارعلی بھٹو نے علاقے کا تفصیلی دورہ کیا، اس دوران انہوںنے خطے میں انتظامی عدالتی سیاسی مالیاتی زرعی اصلاحات کے ذریعے ہمہ گیر تبدیلیوں کی بنیاد رکھی اور گلگت بلتستان میں سیاسی تنظیموں کے قیام کی اجازت دی۔گلگت بلتستان کے پانچویں انتظامی دور کا آغاز پانچ جولائی 1977ء سے 23مارچ 1985ء تک رہا یہ دور مارشل لا کا تھا جنرل ضیاء الحق نے ملک میں مارشل لا کا نفاذ کرکے وزیراعظم پاکستان ذوالفقارعلی بھٹو کو گرفتار کیا اور آئین کو معطل کیا انہوںنے اپنے دور میں گلگت بلتستان کو تاریخ میں پہلی مرتبہ مارشل لاء کا پانچواں زون قرار دیا تاہم مقامی مشاورتی کونسل اور بلدیاتی اداروں کو برقرار رکھا سابق صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق نے اپنے دور میں مارشل لا کا نفاذ گلگت بلتستان اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں کیا تاہم آزاد کشمیر میں ایسا نہیں کیا جس کی وجہ سے ایک مرتبہ پھر ایک مرتبہ پھر خطہ گلگت بلتستان کی قانونی اور آئینی پوزیشن سوالیہ نشان بن گئی۔جنرل ضیاء الحق کا دور مجموعی طور پر دو حصوں میںتقسیم ہے ۔ایک حصہ 5جولائی 1977ء سے 23مارچ 1985ء تک کا ہے، جس میں وہ پاکستان کے مطلق العنان حکمران تھے۔ دوسرا دور 23مارچ 1985ء سے 17اگست 1988ء تک کا ہے۔ ضیاء الحق نے تقریباً آٹھ سال بعد ملک میں پہلی بار پارلیمانی انتخابات فروری 1985ء میں کرائے۔ غیرجماعتی انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہونے والے ارکان نے کثرت رائے سے محمدخان جونیجو کو اپنا وزیراعظم منتخب کیا، جنہوںنے 23مارچ 1985ء کو اپنے عہدے کا چارج سنبھالا۔گلگت بلتستان کے چھٹے انتظامی دور کا آغاز 23مارچ 1985ء سے شروع ہوتا ہے جب ملک میں ایک طویل مارشل لاء کے بعد حکومت کی بھاگ ڈور محمد خان جونیجو نے سنبھالی۔محمدخان جونیجو نے خطے سے محرومی کے خاتمے کے لیے خطے کے لیے کئی اقدام کیے ۔1988ء اور1993بے نظیر بھٹو اور1990ء اور1997ء میںوزرائے اعظم کے طور پراقتدار سنبھالنے کے بعدخطے کی طرف گلگت بلتستان کی طرف خصوصی توجہ دی ۔گلگت بلتستان کی 62سالہ تاریخ میں دو مقدمات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور دونوں مقدمات 90کی دہائی میں آزاد کشمیر اور پاکستان کے سپریم کورٹس میں دائر کیے گئے۔ خطے کی آئینی اور قانونی پوزیشن میں ان دو مقدمات کو انتہائی اہمیت حاصل ہے۔ ہم 1991ء سے اب تک حالات کا ذکر کرنے سے پہلے ان دومقدمات کی مختصر تفصیلات سے آگاہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں، کیونکہ اس کے بعد ہونے والی تمام اصلاحات کا تعلق انہی مقدمات سے ہے اورموجودہ حکومت کے حالیہ اصلاحاتی پیکج کا بھی ان مقدمات سے بہت گہرا تعلق ہے۔
گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت سے متعلق پہلا مقدمہ16اکتوبر 1990ء کو (آزاد کشمیر کے عبوری آئین کی دفعہ 44کے تحت رٹ پٹیشن نمبر 1991/61ء کے تحت) آزاد جموں کشمیر ہائی کورٹ میں دائر کیا گیادرخواست میں کہا گیا تھا کہ شمالی علاقہ جات(گلگت بلتستان) ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہیں اور ان علاقوں کی ریاست جموں وکشمیر سے علیحدگی غیر قانونی ہے۔ درخواست میں ان علاقوں کے حکام کے گلگت بلتستان پر حکومت کرنے کے حق کو چیلنج کرتے ہوئے استدعا کی گئی تھی کہ وہ آزاد کشمیر حکومت کو ہدایت کرے کہ وہ شمالی علاقوں (گلگت بلتستان) کا انتظام سنبھالے اور یہ بھی ہدایت دے کہ شمالی علاقوں(گلگت بلتستان) کے عوام کو آزاد کشمیر گورنمنٹ، آزاد کشمیر اسمبلی اور جموں وکشمیر کونسل میں نمایندگی دی جائے اور شمالی علاقوں(گلگت بلتستان) میں انتظامی اور عدالتی نظام قائم کرے، جیسا کہ آزاد کشمیر کے عبوری آئین میں درج ہے۔آزاد جموں کشمیر ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں حکومت آزاد کشمیر کومندرجہ ذیل اقدام کرنے کی ہدایت کی کہ(1)آزاد کشمیر گورنمنٹ فوراً شمالی علاقہ جات(گلگت بلتستان) کا حکومتی نظام سنبھالے اور شمالی علاقوں(گلگت بلتستان) کو آزاد جموں کشمیر کے علاقوں میں شامل کرے۔(2)اس مقصد کے حصول کے لیے حکومت پاکستان، آزاد حکومت کی مناسب مدد کرے۔(3)شمالی علاقوں (گلگت بلتستان) کے باشندے آزاد جموں کشمیر ایکٹ 1974ء کے تحت حاصل بنیادی حقوق سے استفادہ کریں گے۔ انہیں آزاد کشمیر کی حکومت، اسمبلی، کونسل، سول انتظامیہ اور دوسرے قومی اداروں میں نمایندگی دی جائے۔ نیز آزاد حکومت عبوری آئین کے مندرجات کے مطابق شمالی علاقوں(گلگت بلتستان) میں انتظامی اور عدالتی سیٹ اپ قائم کرے۔ یہ فیصلہ آزاد کشمیر ہائی کورٹ نے 8مارچ 1993ء کو سنایا۔ آزاد کشمیر ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے نتیجے میں آزاد کشمیر بھر میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ گلگت بلتستان میں بھی ایک بڑا طبقہ خوش تھا لیکن حکومت پاکستان کی افسر شاہی، دوسرے طاقت ور حلقوں کے لیے اور گلگت بلتستان کے ایک بڑے طبقے کے لئے یہ ایک ناقابل قبول اور ناقابل برداشت فیصلہ تھا۔ آزاد کشمیر کی حکومت نے بھی ایک حکومت پاکستان کے مئو قف کی نہ چاہتے ہوئے بھی دبائو میں آکر حمایت کی اور اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ آف آزاد کشمیر میں اپیل کی گئی۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ دیتے ہوئے کہ اگرچہ گلگت بلتستان کے علاقے ریاست جموں کشمیر کا حصہ ہیں لیکن آزاد کشمیر کے 1974ء کے عبوری آئین کے مطابق یہ علاقے ( گلگت بلتستان )آزاد جموں کشمیر کاحصہ نہیں ہیں۔ علاوہ ازیں چونکہ یہ بات آزاد کشمیر ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے کہ وہ حکومت پاکستان سے کہے کہ وہ گلگت بلتستان کے علاقوں کو آزاد حکومت کے حوالے کرے اس لیے ہم آزاد کشمیر ہائی کورٹ کے 8مارچ 1993ء کے فیصلے کو غلط قرار دیتے ہیں۔
دوسرا مقدمہ 1994ء میں پاکستان کی سپریم کورٹ میں گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے بارے میں دو کیس دائر ہوئے۔ چونکہ دونوں درخواستوں کامقصد تقریباً ایک ہی تھا (یعنی چونکہ گلگت بلتستان کے علاقے پاکستان کا آئینی حصہ ہیں، اس لیے وہاں کے عوام کو وہی حقوق حاصل ہونے چاہئیں جو پاکستان کے شہریوں کو حاصل ہیں اور خطے کے پاکستان کا حصہ ہونے کی وجہ سے یہاں کے عوام کو پارلیمنٹ میں نمایندگی دی جائے ) اس لیے سپریم کورٹ نے دونوں کو اکٹھے کردیا۔سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنے فیصلے میں واضح طورپر کہا کہ گلگت بلتستان کے علاقے پاکستان کا آئینی حصہ نہیں ہیں، البتہ چونکہ یہ علاقے پاکستان کے عملی کنٹرول میں ہیں اور اقوام متحدہ میں بھی پاکستان نے دعویٰ کر رکھا ہے کہ یہاں ان علاقوں کے لوگوں کی ہی حکومت ہے اور پاکستانی حکام صرف ان کی مدد کررہے ہیں، اس لیے ان علاقوں کے عوام کو کم از کم وہ بنیادی حقوق دیے جائیں، جو پاکستان کے عوام کو حاصل ہیں۔ یعنی علاقے پر ان کی اپنی حکومت ہو، انصاف اور اچھی حکومت تک ان کی رسائی ہواور با اختیار مقامی جمہوری ادارے ہوں۔سپریم کورٹ نے 28مئی 1999ء کو اپنے فیصلے کے تحت حکومت پاکستان کو ہدایت کی تھی کہ وہ چھ ماہ کے اندر اندر ایسے اقدامات کرے جن کے نتیجے میں گلگت بلتستان میں ان کے اپنے منتخب نمایندے حکومت چلائیں اور وہاں عوام کو خود مختار عدلیہ کے ذریعے انصاف تک رسائی ہو، اس فیصلے کے آنے کے بعد حکومت خطے کے لیے خصوصی اصلاحات پر مجبور ہوگئی۔ یہی وجہ ہے کہ 1999ء کے بعد 3مرتبہ حکومت اصلاحاتی پیکیج دینے پر مجبور ہوئی۔ 1993ء اور 1994ء میں دیے گئے پیکیج کا تعلق بھی 1993ء کے آزاد کشمیر ہائی کورٹ کے فیصلے سے تھا۔ پہلا اصلاحاتی پیکیج 1971ء،دوسرا1994ء ،تیسرا2000ء چوتھا2004ء،پانچواں2007ء اورچھٹا2009 ء کوجاری کیا گیا۔جن کے تحت ناردرن ایریازمشاورتی کونسل کے قیام سے قانون ساز اسمبلی مقامی فورم کو درجہ دیا گیا اور ڈپٹی چیف ایگزیکٹوسے وزیر اعلیٰ تک مقامی تعینات کئے گئے۔اور مزید عدلتی اور انتظامی اصلاحات کی گئی۔
29اگست 2009ء کو کابینہ کے اجلاس میں گلگت بلتستان کے لیے اصلاحاتی پیکیج ’’ گلگت بلتستان امپاورمنٹ اینڈسیلف گورننس آرڈر 2009ء‘‘ منظوری دی گئی جس کے تحت قانون ساز اسمبلی کے علاوہ وزیراعظم کی سربراہی میں 15رکنی گلگت بلتستان کونسل (ایوان بالا) قائم کردی گئی، جبکہ گورنر اور وزیراعلیٰ کے انتظامی عہدے دینے کا بھی اعلان کیا گیا جبکہ صدر پاکستان آصف علی زرداری نے 7ستمبر 2009ء کو اصلاحاتی پیکیج پر دستخط کردیے۔ 9ستمبر 2009ء کو متعلقہ اداروں نے اصلاحاتی پیکیج کے حوالے سے سرکاری اعلامیہ جاری کردیا۔اس نئے پیکیج کے منظرعام پر آنے کے بعد کسی نے حکومت کے اس کو خطے کے عوام کی امنگوں کے مطابق، کسی نے پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کی کوشش، کسی نے آزاد کشمیر طرز کا سیٹ اپ، کسی نے آغاخان ریاست کی بنیاد، کسی نے ایک آزاد وخودمختار ریاست، کسی نے نوآبادیاتی ریاست اور کسی نے لوکل بلدیاتی اتھارٹی کے قیام کا حربہ قرار دیا اور یہ سلسلہ اب جاری ہے اور ہر شخص اپنی بولی بول رہا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ اکثر لوگوں نے اس پیکیج کے انتہائی اہم اور باریک نکات پر غور کرنے کی کوشش نہیں کی، جبکہ خطے کے عوام کو الیکشن کے نام پر پیکیج پر غور کرنے سے دور رکھا گیا۔ 15ستمبر 2009ء کو گلگت بلتستان کی تاریخ کے دوسرے اور 1947ء کے بعد نامزد کردہ پہلے گورنر قمرزمان کائرہ نے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔ گزشتہ کئی سالوں سے عوام کا مطالبہ تھا کہ گلگت بلتستان کے حوالے سے تیارہ کردہ کسی بھی پیکیج کی تیاری اور اعلان سے قبل سب سے بڑے مقامی عوامی فورم گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کو اعتماد میں لیا جائے مگر جب 1970ء سے 29اگست 2009ء تک دیے جانے والے اصلاحاتی پیکیجز کا بغور مطالعہ کیاجائے تو پتہ چلتا ہے کہ کہیں پر بھی خطے کے اس سب سے بڑے عوامی فورم کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی پیکیج تنقید سے بالاتر نہیں رہا۔اس ضمن میں اسمبلی کے منتخب سابق چیف ایگزیکٹو میرغضنفرعلی خان، سابق اسپیکر ملک محمد مسکین،سابق ڈپٹی اسپیکر وزیرولایت علی،سابق قائدحزب اختلاف اور مسلم لیگ ن کے مقامی صدر حافظ حفیظ الرحمن، مشیروں اور ارکان اسمبلی نے واضح طور پر کہاکہ موجودہ (2009ء) پیکیج کی تیاری میں کسی بھی سطح پر حکومت نے منتخب نمایندوں کو اعتماد میں نہیں لیا۔ غیررسمی گفتگو میں پیپلزپارٹی کے ارکان بھی اس کا اعتراف کرتے ہیں، دوسری طرف مقامی عوامی فورم کو اعتماد میں نہ لینے پر عوام کی اکثریت نے اس پر شدید تحفظات کا اظہار کیا، حالانکہ گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے ارکان متعدد بار قرارداد کے ذریعے مطالبہ کرچکے تھے کہ کسی بھی اصلاحاتی پیکیج سے قبل گلگت بلتستان کے سب سے بڑے عوامی فورم کے ارکان کو اعتماد میں لیا جائے۔حکومت پاکستان کی جانب سے 29اگست 2009ء کو وفاقی کابینہ میں منظور اور صدر پاکستان کی جانب سے 7ستمبر 2009ء کو توثیق کردہ اور’’ گلگت بلتستان اینڈ امپاورمنٹ اینڈ سیلف گورننس آرڈر 2009ء‘‘ اصلاحاتی پیکیج مجموعی طور پر 15حصوں، 97بنیادی آرٹیکل 200سے زائد ذیلی آرٹیکل پر مشتمل ہے۔ جو حکومت پاکستان کی وزارت امور وکشمیر وشمالی علاقہ جات (گلگت بلتستان) کی جانب سے تیار کردہ ہے۔اس پیکیج کے اعلان کے بعد مختلف طبقوں میں مختلف خیالات پائے جاتے ہیں اور اسی حوالے سے مطالبات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
(1) خطے کے ایک بڑے طبقے کا مطالبہ ہے کہ یکم نومبر 1947ء کی آزادی کے بعد گلگت بلتستان کے عوام نے پاکستان کے ساتھ غیرمشروط الحاق کیا ہے، لہٰذا گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنایا جائے۔ دراصل اس مطالبے کے پس پردہ ایک مذہبی خواہش شامل ہے۔ یہ مطالبہ کرنے والوں کی اکثریت اہل تشیع سے تعلق رکھتی ہے۔ صوبہ بنانے میں ان کو یہ فائدہ نظر آتا ہے کہ خطے کی مجموعی آبادی کا 38فیصد ہونے کی وجہ سے انہیں برتری حاصل ہے اور اہل تشیع خطے کے 7میں سے 5اضلاع میں موجود ہیں اور ضلع دیامر اور غذر میں اہل تشیع کی آبادی بالکل نہیں ہے۔ پانچویں صوبے کے مطالبے پر عملدرآمد کی صورت میں نظام حکومت ان کے ہاتھ میں آئے گا اور یہ عملاً ایک شیعہ اسٹیٹ بن جائے گا، کیونکہ صوبے کے مطالبے میں پیش پیش اہل تشیع کے اہم لوگ شامل ہیں۔ اگرچہ دیگر مکاتب فکر کے لوگ بھی اس میں شامل ہیں مگر ان کی تعداد بہت ہی کم ہے۔ بعض قوم پرستوں کے دعویٰ کے مطابق اس مطالبے کو ایران کی حمایت بھی حاصل ہے اور مطالبہ کرنے والوںکو امید ہے کہ گلگت بلتستان پاکستان کا پانچواں صوبہ بننے کی صورت میں جہاں اہل تشیع کے پاس ایک اکثریتی صوبہ آجائے گا، وہیں ملک کے دیگر حصوں میں آباد اہل تشیع کے حقوق کا تحفظ کرنے میں بھی اس سے آسانی ہوگی۔ دراصل اس مطالبے کے ذریعے ایک طبقہ دیگر مکاتب فکر پر غلبہ چاہتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ طبقہ صوبے سے کم کوئی بات ماننے کے لیے تیار نہیں ہے اور مطالبہ کرنے والوں میں اکثریت سخت گیر مذہبی لوگوں کی ہے۔
(2) خطے کے عوام کے ایک بڑے طبقے کا مطالبہ ہے کہ گلگت بلتستان کو آزاد کشمیر میں ضم کرکے پاکستان کا پانچواں صوبہ بنایا جائے۔ اس مطالبے کے پس پردہ بھی مذہبی خواہش غالب ہے۔ مطالبہ کرنے والوں کی اکثریت اہل سنت سے تعلق رکھتی ہے، جن کا یہ خیال ہے کہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو ملایا جائے تو اہل سنت کو واضح برتری حاصل ہوجائے گی، اس لیے خطے پر عددی برتری اہل سنت کو حاصل ہوگی اور خطے میں دیگر مکاتب فکر کے مقابلے میں حکومت کرنا آسان ہوگا۔ مطالبہ کرنے والے اس ضمن میں دلیل دیتے ہیں کہ آزادی کے وقت گلگت بلتستان ریاست جموں وکشمیر کا حصہ تھے اور آزاد کشمیر بھی جموں وکشمیر کا حصہ ہے، اس لیے ریاست جموں وکشمیر کے ان دونوں حصوں کو یکجا کرکے پاکستان کا پانچواںصوبہ بنایا جائے۔ اگر ایسا ممکن نہیں ہے تو پھر گلگت بلتستان کے تاریخی، جغرافیائی، لسانی اور ثقافتی حصے چترال اور کوہستان کو پہلے گلگت بلتستان میں ضم کیا جائے، اس کے بعد خطے کو پانچواں صوبہ بنایا جائے۔ اس مطالبے کے پس پردہ بھی مذہبی برتری حاصل کرنے کا جذبہ اور خواہش کارفرما ہے، البتہ مطالبہ کرنے والوں کی دلیل تاریخی، جغرافیائی اور ثقافتی حوالے سے کافی مضبوط ہے اور خطے میں اہل سنت مجموعی آبادی کا36فیصد ہیں اور اہل سنت خطے کے تمام7میں سے6اضلاع میں موجود ہیں۔ اس مطالبے کے مخالفین کا دعویٰ ہے کہ مطالبے کو پس پردہ سعودی عرب اور طالبان کی حمایت حاصل ہے۔
(3)خطے کے ایک بڑے طبقے کو اس بات کا خدشہ ہے کہ حکومتوں کے ماضی کے اور حالیہ اقدام گلگت بلتستان کو اسماعیلی ریاست بنانے کی سازش کا حصہ ہیں۔ خدشے کا اظہار کرنے والوں کا کہنا ہے کہ دنیا میں مالی بحران اور عالمی کساد بازاری کے باعث ہونے والے نقصانات کو دیکھتے ہوئے اسماعیلی فرقے کے سربراہ آغاخان نے اب بے تاج بادشاہ بنے رہنے کی بجائے زمین کے کسی ٹکڑے پر اپنی حکومت بنانے کا فیصلہ کرلیا ہے اور اس کے لیے وہ اور ان کی جماعت گزشتہ کئی دہائیوں سے کوشاں ہے۔ اب حکومتی اقدامات نے انہیں مواقع فراہم کیے ہیں۔ دعوے کے مطابق عالمی اور قومی سطح پر کی جانے والی منصوبہ بندی کے مطابق گلگت بلتستان کے علاوہ چترال، افغانستان کے صوبے بدخشاں کی پٹی واخان اور تاجکستان کے بعض علاقوں پر مشتمل ایک اسماعیلی ریاست قائم کی جائے گی۔ ممکن ہے کہ اس خدشے کے پس پردہ اسماعیلی مکتبہ فکر کی جدوجہد شامل ہو مگر بظاہر جماعتی بنیادوں پر اس کا کوئی عملی مظاہرہ یا اعلان نہیں کیا گیا۔ خدشے کا اظہار کرنے والوں کے پاس دلیل کے طور پر عالمی سطح پر آغاخان کا اثرورسوخ، حکومت چلانے والے افراد اور وسائل کی وافر مقدار میں موجودگی، اسماعیلیوں کا الگ جھنڈا، الگ قومی ترانہ اور الگ جماعتی فورس جیسے عناصر ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اسماعیلی مکتبہ فکر خطے کا واحد مکتب فکر ہے جس کے پاس ریاست چلانے کے تمام لوازمات موجود ہیں اور اس کے لیے تیاریاں بھی کی گئی ہیں اور ان کی طرف سے وقتاً فوقتاً اپنے منصوبے میں پیش قدمی کی جارہی ہے۔ گلگت بلتستان کی ظاہری حالت کو دیکھا جائے تو خطے میں آبادی کے حوالے سے اسماعیلی ریاست کا قیام اس لیے ممکن نظر نہیں آتا کہ مذہبی حوالے سے اسماعیلیوں کی آبادی 6میں سے صرف 3اضلاع تک محدود ہے، جن میں ضلع غذر میں تقریباً 80فیصد ضلع ہنزہ نگر میں 45اور ضلع گلگت میں تقریباً10فیصد اسماعیلی مکتبہ فکر کے لوگ ہیں، جو گلگت بلتستان کیکل آبادی کا ا19فیصد بنتا ہے۔ باقی چاروں اضلاع میں اسماعیلیوں کی تعداد ایک فیصد بھی نہیں ہے۔ عددی اعتبار سے اسماعیلی ریاست کا قیام ممکن نہیں ہے البتہ اگر عالمی قوتیں چاہیں تو ایسا ممکن ہے، کیونکہ ہم جب ماضی میں برصغیر پر انگریزوں کے قبضے اور گلگت بلتستان پر مہاراجہ کے قبضے کو دیکھتے ہیں تو پھر وہاں پر بھی عددی اعتبار سے انگریزوں اور مہاراجوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔ اسماعیلی برادری کے مختلف رہنما اس خدشے کو بلاجواز اور غلط قرار دیتے ہیں تاہم دیگر مکاتب فکر اس انکار کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں لیکن یہ بات صحیح ہے کہ اگر موجودہ حالات میں اس طرح کی کسی بھی ریاست کا قیام عمل میں آئے تو یہ تعجب خیز نہیں ہوگا، کیونکہ اسماعیلی مکتبہ فکر کے پاس مضبوط اور مربوط تنظیمی نیٹ ورک موجود ہے۔ ہم نے اوپر جن تین خدشات امکانات اور خواہشات کا ذکر کیا ہے ان کا براہ راست تعلق مذہبی طبقے سے ہے، ان کے علاوہ کچھ دیگر مطالبات بھی ہیں جن کا ذکر بھی ضروری ہے۔ 
حکومت کے حالیہ پیکیج کے تحت 12نومبر2009ء کو گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کی24عام نشستوں کے لئے انتخابات ہوئے بعدازاں ٹیکنوکریٹ اور خواتین کی 9نشستوں پر ارکان انتخاب ہوا 11 دسمبر 2009ء کو پیپلزپارٹی کے نامزد امیدوار سیدمہدی شاہ کے قائد ایوان، وزیر بیگ کے اسپیکر اور جمیل احمد کے ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب کے بعد حکومت سازی کا ابتدائی مرحلہ بخیر و خوبی احسن طریقے سے پائے تکمیل کو پہنچا ۔ گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کا پہلا اجلاس 10دسمبر 2009ء کو اسپیکر ملک محمد مسکین کی زیر صدارت چنار باغ گلگت میں ہوا، جس میں 32 ارکان اسمبلی نے اپنی رکنیت کا حلف اٹھایاان میں 23 جنرل، 6خواتین اور 3ٹیکنو کریٹ کی نشستوں پر منتخب ہوئے ہیں۔ 11دسمبر 2009ء کو دوسرے اجلاس میں قائد ایوان، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب کیا گیا۔ گلگت بلتستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی کے 33رکان پر بہت بڑی بھاری ذمہ داری عاید ہوئی ہے کیونکہ 1991ء تک کے منتخب ارکان ہر حوالے سے بے اختیار تھے مگر 1994ء کے اصلاحاتی پیکیج کے بعد اس ادارے کو بااختیار بنانے کا دعویٰ کیا جاتارہاہے ،اس لئے 1994ء، 1999ء اور 20004ء میں قائم ہونے والی ناردرن ایریاز کونسل، ناردرن ایریاز قانون ساز کونسل اور ناردرن ایریاز قانون ساز اسمبلی کے منتخب ارکان پر الزام ہے کہ وہ عوامی امنگوں کی ترجمانی کرنے میں کلی طور پر ناکام ہوئے .نئے اصلاحاتی پیکیج کے تحت جن 64 نکات پر قانون سازی کا حق دیا گیا ہے ان میں سے بعض انتہائی اہم ہیں اور کئی امور پر موجودہ قانون ساز اسمبلی نے ہی قانون سازی کرنی ہے۔ اس لیے یہ بات کسی حد تک کہی جاسکتی ہے کہ قوم کے روشن مستقبل کا انحصار اب ان 33ارکان کی کارکردگی پر ہے۔ انتخابی عمل احسن طریقے سے پائے تکمیل کو پہنچنے پر قوم میں خوشی پائی جاتی ہے مگر ماضی کے تلخ تجربات کو مدنظر رکھ کر قوم کئی خدشات اور تحفظات کا شکار بھی ہے۔ ان خدشات اور تحفظات کو دور کرکے قوم کو احسن راہ پر گامزن کرنے میں نو منتخب وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان سید مہدی شاہ اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ موجودہ اسمبلی میںسید مہدی شاہ،وزیر بیگ، نصیر خان، پیر کرم علی شاہ۔سید محمد علی شاہ، حاجی حاجی جانباز خان، حاجی رحمت خالق، عبدالحمید خان ،محمد اعظم خان سمیت 26سے زائد ارکان پرانے اور تجربہ کار پارلمینٹرینز ہیں۔ اس سے ان لوگوں سے زیادہ امیدیں وابستہ ہیں۔ موجودہ اسمبلی 33 ارکان میں سے پی پی کے 21، جمیعت علماء اسلام (ف) کے 4، مسلم لیگ(ق) 3، مسلم لیگ (ن) کے 2، گلگت بلتستان کو ڈیمو کریٹک فرنٹ کے 2اور متحدہ قومی موومنٹ کا ایک رکن ہے مذہبی حوالے سے 12شیعہ،10سنی،6اسماعلی اور 5ارکان نوربخشی ہیں ۔ریجن کے حساب سے گلگت ریجن کے 22اور بلتستان ریجن کے11ارکان ہیں ،زبان کے حوالے سے 17شینا،11بلتی،4برشسکی اور ایک رکن کی مادری زبان کھوار ہے اس لیے کہا جاسکتا ہے یہ اسمبلی وسیع المذہبی،وسیع الجماعتی ،وسیع الجغرافیائی اور وسیع السانی اسمبلی ہے اور مسلم لیگ(ن) کے علاوہ تمام سیاسی ومذہبی جماعتوں کی مرکزی قیادت بلاواسطہ یا بالاواسطہ ایوان میںموجود ہے اس لئے قوم کو اس اسمبلی سے بہت امیدیں وابستہ ہیں۔ 
نئی حکومت کو کئی چیلنجز کا سامنا ہوگا۔ سید مہدی شاہ اور ان کی حکومت کے لیے سب سے بڑا اور پہلا چیلنج خطے سے فرقہ وارانہ فسادات کا خاتمہ کرکے مذہبی ہم آہنگی پیدا کرنا ہے، کیونکہ حالات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خطے کا دارالحکومت گلگت آتش فشاں بن چکا ہے۔ جس کا دائرہ پہلے صرف شہر گلگت کے بعض علاقوں تک تھا اور اب یہ دئرہ وسیع ہوتا جارہا ہے ہم نے نہ صرف اس لائوے کے دائرے کو کم بلکہ ختم کر نے کے لئے اقدام کرنے ہیں، اس ضمن میں گلگت بلتستان سے منتخب ہونے والے دونوں ارکان پر بہت زیادہ ذمہ داری عاید ہوتی ہے۔ اب اس مسلئے کا کوئی پر امن اور دیرپا حل تلاش کرنا نئی اسمبلی پر ذمہ داری عاید ہوتی ہے اورپوری قوم کی نظریں لگی ہوئی ہیں کیونکہ اس اسمبلی میں وہ لوگ بھی ہیں جو کبھی تحریک جعفریہ کا حصہ تھے، وہ لوگ بھی ہیں جو جمعیت علماء اسلام (ف) کا حصہ ہیں اور وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے ماضی میں مذہبی ہم آہنگی کے لیے اہم کردار ادا کیا۔نئی حکومت ایوان آغا محمد علی شاہ(شیعہ)،مولانا سرورشاہ(سنی)،مفتی عبداللہ (نوربخشی) اور وزیر بیگ (اسماعیلی) کی موجودگی کا بھر پور فائدہ اٹھا سکتی ہے جن کے اپنے مکاتب فکر میں گہرے اثرات ہیں۔ گزشتہ 60 سال کے دوران فرقہ وارانہ منافرت نے لوگوں کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ اس دوران سینکڑوں لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور عوام کو اربوں روپے کا مالی نقصان برداشت کرنا پڑا۔ آج گلگت بلتستان کے دارالحکومت گلگت کی حالت یہ ہے کہ یہاں رہنے والے بہت کم ہی لوگ اپنے آپ کو محفوظ تصور کرتے ہیں اور خطے کی بدقسمتی یہ ہے کہ اس کے دارالحکومت میں رہنے والے باشندوں کی اکثریت مذہبی بنیادوں پر تقسیم کیے گئے علاقوں کا انتخاب کرکے رہائش اختیار کرتی ہے اور ایک دوسرے کے علاقے میں اپنے آپ کو غیرمحفوظ تصور کیا جاتا ہے۔ 1947ء سے 2009ء تک ہونے والے درجنوں چھوٹے واقعات ہوں یا 1988ء اور 2005ء کے تباہ کن واقعات ان سب کے پیچھے دراصل بعض نادیدہ قوتیں ہیں۔گلگت بلتستان میں مذہبی منافرت کا آغاز دراصل یکم نومبر 1947ء کو ہی ہوا تھا اور 16نومبر 1947ء کے بعد اس میں شدت آگئی، جو آج تک برقرار ہے۔ یکم نومبر 1947ء کو انقلاب کے نتیجے میں قائم ہونے والی اسلامی جمہوریہ گلگت کی انتظامیہ میں اگرچہ مختلف مکاتب فکر کے لوگ شامل تھے، تاہم اہم عہدوں پر دو مکاتب فکر کے لوگ تھے، جس کی وجہ سے دوسرے بڑے اہم مکتبہ فکر کو شدید خدشات اور تحفظات تھے اور یہی وجہ ہے کہ اہم انقلابی لیڈراور اسلامی جمہوریہ گلگت کے فوجی سربراہ کرنل حسن خان پر خطے کو شیعہ اسٹیٹ بنانے اور گلگت کے علاقے نگرل میں اہل سنت کے خلاف سازشوں کی منصوبہ بندی جیسے الزامات بھی لگائے گئے اور مختلف مصنفین کے مطابق اس دور میں بھی نگرل اور کشروٹ کے لوگ اپنے آپ کو ایک دوسرے سے غیرمحفوظ تصور کرتے تھے اور ایک دوسرے کے علاقے میں جانے سے گریز کرتے تھے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ 62 سال بعد بھی نگرل اور کشروٹ کی تقریباً یہی پوزیشن ہے، البتہ اس میں تبدیلی یہ آئی ہے کہ مذہبی منافرت کے حوالے سے بدنام علاقوں کی تعداد میں وقتاً فوقتاً اضافہ ہوا، جوتاحال جاری ہے۔ کرنل حسن خان نے اپنی کتاب ’’شمشیر سے زنجیرتک‘‘ میںمذہبی منافرت پھیلانے کے الزام کی سختی سے تردید کی ہے اور اس کو عوام دشمن عناصر کی سازش قرار دیا ہے۔ اس تردید کے باوجود بھی کرنل حسن خان اور ان کے بعض دیگر ساتھیوں پر سے مذہبی منافرت پھیلانے کا الزام کلی طور پر آج تک ختم نہیں ہوسکا۔ مذہبی منافرت کے حوالے سے اسلامی جمہوریہ گلگت کے حکام اور انقلابی کونسل میں شامل رہنماؤں پر لگائے گئے الزامات میں کتنی حقیقت ہے اور یہ کتنا فسانہ ہے؟ اس کے بارے میں الگ سے تحقیق کی ضرورت ہے، یہ ہمارا موضوع نہیں۔ یہاں پر اس کا ذکر انقلابی لیڈر کرنل حسن خان کے خلاف 1947ء سے ہونے والے حکومتی اقدام کے تاریخی حوالے کی وجہ سے آیا اور یہ کہ خطے کی محرومی کی بنیادی وجہ مذہبی منافرت ہی رہی ہے اور اس کا ذمہ دار کون ہے ؟ اس کا فیصلہ عوام خود کریں ۔ نئی حکومت کے لیے ایک بڑا امتحان متوقع بلدیاتی الیکشن ہیں، ان انتخابات سے قبل شفاف ووٹر فہرستوں کی تیاری، نئی حلقہ بندیاں، یونین کونسلز اور ڈسٹرکٹ کونسلز کی نشستوں میں آبادی، رقبہ، غربت اور پسماندگی کے حساب سیمناسب اضافے کے علاوہ حکومتی وسائل کوبے جااستعمال سے روکنا ہوگا۔ نئی حکومت اور اسمبلی کی بنیادی ذمہ داری قانون سازی اور وفاق سے اپنے حقوق کا حصول ممکن بنانا ہے۔ حکومت کیے ضروری ہے کہ وہ خطے کے جغرافیائی، لسانی، مذہبی،ثفافتی، قبائلی اور تاریخی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے اقدام سے گریز کرے جس سے قوم کے تقسیم کا اندیشہ پیدا ہواور کسی بھی فیصلے کے وقت تمام امور کو مدنظر رکھا جائے،فرقے یا عدد برتری کی بنیاد پر کسی طبقے کو نظر انداز کرنے سے گریز کرنا نہایت ضروری ہے۔سیدمہدی شاہ اپنے آپ کو خوشامدیوں سے بچاکر رکھیں اور میڈیا کی جائز تنقید اور شائع ہونے والے مواد پر جذبات کی بجائے صبروتحمل سے غور کریں اس عمل کے لئے ان کو میڈیا سے قریبی روابط رکھنے ہونگے کیونکہ میڈیا ایک حقیقی آئینہ ہے ۔نومنتخب وزیر اعلیٰ اور ارکان کامیابی عوام سے روابط توڑ نے کی ماضی کی تلخ روایت کو ختم کریں ۔اب یہ سید مہدی شاہ اور ارکان قانون ساز اسمبلی پر انحصار ہے کہ وہ قوم کے ہیرو بنتے ہیں یا الزامات کا ایک طوفان اپنے سر لیتے ہیں۔ وفاقی حکومت کو بھی چاہیے کہ اب مداخلت سے گریز کرتے ہوئے مقامی لوگوں کو فیصلے کرنے کا اختیار دے۔ نامزدگیاں اسلام آباد والوں کی مرضیوں کی بجائے مقامی حالات کے مطابق کی جائے اورسب سے اہم بات یہ ہے کہ قوم میں کیے ہوئے وعدے کے مطابق مقامی گورنر تعینات کیا جائے۔

Please follow and like us:

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا. ضرورت کے کھیتوں ک* نشان لگا دیا گیا ہے