پاکستان کی آئین کہانی
قیام پاکستان سے آج تک آئین ہمارا اہم ترین مسئلہ رہا ہے۔ کسی بھی ریاست کے لئے آئین بنیادی اہمیت کا حامل ہوتاہے کیونکہ وسائل کی تقسیم ہو، خارجہ پالیسی ہو یا اندرونی معاملات، انتظامی ادارے ہوں یا عدالتی نظام، معاملہ امن و امان کا ہو یا سرحدوں کے تحفظ کا، معاشرے کی اصلاح ہو یا انصاف کے تقاضے، ملک کے اندرونی معاملات کا سدھار ہو یا بیرونی تعلقات، انداز حکمرانی ہو یا عوامی رہن سہن ،تمام نظام حکومت و ریاست کی ابتداء اور انتہا آئین ہی ہے۔ دراصل آئین ہی ملکوں اور قوموں کو متحد رکھنے کی بنیادہوتا ہے۔ اگر آئین سے انحراف کیا جائے تو پھر ریاستیںاپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتیں۔ آئین کی روشنی میں قوانین وضع کئے جاتے ہیں۔ دنیاکے بیشتر ممالک اپنے مضبوط نظام (آئین) کی وجہ سے اپنا وجود صدیوں سے برقرار رکھے ہوئے ہیں اور جہاں آئین کو نظر انداز کیا گیا وہ ممالک عارضی یا دائمی غلامی یا پھر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر دنیا کے لئے نشان عبرت بن گئے ۔
نیم استوار آئین
آئین دو طرح کا ہے ایک تحریری اور دوسرا غیر تحریری پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جس کے تینوںآئین تحریری اورنیم استوارہیں جبکہ دنیا کے بعض ممالک میںاستوار اور لچکدار آئین بھی ہیں ۔استوار دستور میں ترمیم کے لئے دو تہائی(66فیصد) یا تین تہائی(75فیصد)کی اکثریت ضروری ہے جبکہ لچکدار آئین میں سادہ اکثریت (51فیصد)سے ترمیم کی جاسکتی ہے(جیسے برطانوی آئین ) ۔دراصل ہم جب مختلف ممالک کے دساتیر کا جائزہ لیتے ہین تو پاکستان کا آئین برطانیہ(جہاں51فیصدارکان کی حمایت سے بھی ترمیم ہوسکتی ہے) کے مقابلے میں استوار اور امریکا(جہاں ترمیم کے لئے 75فیصدارکان کی حمایت ضروری ہے) کے مقابلے میں لچکدار ہے ۔اس لئے پاکستان کے آئین کو نیم استوار قرار دیا جاتا ہے جہاں دستور میں ترمیم کے لئے دو تہائی66فیصد ارکان پارلیمنٹ کی حمایت ضروری ہے ۔
آئین سازی کے مختلف مراحل
پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں سے ایک ہے جہاں نہ صرف آئین بنانے میں 9 برس لگے (جو پوری دنیا میں ایک ریکارڈ مدت ہے) بلکہ اپنی کل عمر 63 سال میں سے تقریباً 40 سال بے آئین رہا اور باقی 23 سال میں بہت کم مدت آئین اپنی اصل شکل میں موجود رہا ۔کبھی وقت کے حکمرانوں نے من پسند ردوبدل کرکے اس کا حلیہ بگاڑ دیا اور ابتدائی2 آئین تو چند سال بھی قائم نہیں رہ سکے۔ البتہ 1973ء کا آئین گزشتہ 37 سال سے موجود ہے اگر چہ ضیاء الحق کے دور میں 7 سال اور مشرف کے دور میں چند سال کے لئے جزوی طور پر معطل رہا۔ چاہئے تو یہ تھا کہ دستور سازی کا عمل قیام پاکستان کے فوراً بعد مکمل کیا جاتا مگر اس وقت کی قیادت کو مسائل نے اس قدر گھیرا ہوا تھا کہ قیادت اس پر توجہ مرکوز نہ کرسکی اور ابتدائی 9 برس گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کو عارضی آئین کے طو رپر چلایا گیا اور بعض اوقات ضرورت کے مطابق اس میں ترامیم بھی کی گئیں۔ حالانکہ بانی پاکستان محمد علی جناح کا قول تھا کہ دستور سازی کا عمل 18 ماہ سے دو سال میں مکمل کیا جائے گا مگر یہ کام 9 برس تک نہ ہوسکا جبکہ ہمارے ساتھ آزاد ہونے والے بھارت نے 1949ء تک دستور سازی کا عمل مکمل کیا۔ یہ بات بھی درست ہے کہ پاکستان کے لئے آئین سازی میں کئی رکاوٹیں تھیں بالخصوص مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان تقریباً1800 کلو میٹر طویل فاصلہ جو دشمن ملک بھارت کے قبضے میں تھا۔ قابل استعمال دوہی راستے فضائی یا سمندری ، ملک کے دونوں حصوں کے مابین زمینی کوئی رابطہ نہیں تھا۔ اس کے علاوہ قیام پاکستان کے کچھ ہی عرصے بعد بانی پاکستان محمد علی جناح کاانتقال اور بعد ازاں پہلے وزیر اعظم خان لیاقت علی خان کا قتل بھی ایک بڑی وجہ تھی۔
قرار داد مقاصد دستور پاکستان کی بنیاد
مشکلات کے باوجود آئین ساز اسمبلی نے12 مارچ 1949ء میںقرار داد مقاصد پیش کرکے دستور سازی کے کام کا آغاز کیا اور یہی قرارداد بعد میں پاکستان تینوں دساتیر کی بنیاد ثابت ہوئی ‘قرار داد مقاصد علامہ شبیر احمد عثمانی کی سربراہی میں تمام مکاتب فکر کے علماء کرام نے تیار کی جو اہم ترین کارنامہ تھا۔اس قرارداد کی روشنی میں عبوری رپورٹ 28 ستمبر 1950ء کو آئین ساز اسمبلی میں پیش کی گئی۔ 22 دسمبر 1952ء تک اس پر مزید کام اور ترامیم ہوتی رہی مگر اس کے باوجود آئین سازی مکمل نہیں ہوسکی تاہم کام جاری رہا اور وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین نے آئین سازی میں تھوڑی سی دلچسپی دکھائی مگر بعض سنگین اختلافات کے باعث دستور سازی کے حوالے سے ملک کے دونوں حصوں(مشرقی اور مغربی پاکستان) میں شدید مخالفت ہوئی جس کو بنیاد بناکر گورنر جنرل ملک غلام محمد نے16 اپریل 1953ء کو خواجہ ناظم الدین کی حکومت کا خاتمہ کیا اور پھر دستور سازی کا عمل مکمل اور بنیادی اصولوں کی کمیٹی کی رپورٹ ملک کا دستور نہ بن سکی۔ 17 اپریل 1953ء کو حکومت بنانے والے محمد علی بوگرہ نے بنیادی اصولوں کی کمیٹی کی رپورٹ کیاختلافی نکات پر اتفاق کے لئے 7 اکتوبر 1953ء کو ایک مصالحتی فارمولا پیش کیا۔ فارمولے میں شامل تجاویز کو غور کے لئے نومبر 1953ء کو اسمبلی میں پیش کیا گیا اور طے کیا گیا کہ ماہرین سے آئین کا مسودہ مرتب کرواکر اسمبلی میں پیش کیا جائیگا مگر اس دوران آئین ساز اسمبلی کے لئے انتخابات ہوئے اور 24 اکتوبر 1954ء کو گورنر جنرل آف پاکستان ملک غلام محمد نے اسمبلی توڑ کر ایک مرتبہ پھر محمد علی بوگرہ کو حکومت بنانے کی دعوت دی۔ مولوی تمیز الدین خان (جو منسوخ شدہ اسمبلی کے صدر (اسپیکر) تھے) نے سندھ چیف کورٹ میں اس عمل کو چیلنج کیا اور فیصلہ بھی ان کے حق میں ہوا مگر حکومت نے سپریم کورٹ سے اپنے حق میں فیصلہ لے لیا۔
1956ء کو پہلا آئین نافذ کیا گیا
گورنر جنرل کی جانب سے قائم کردہ نئی آئین ساز اسمبلی کے منتخب وزیراعظم چودھری محمد علی بوگرہ نے قوم سے وعدہ کیا دستور سازی کو اولیت دی جائیگی اور انہوں نے وعدہ وفا کرنے کی کوشش کی یوں ملکی تاریخ کا پہلادستور(آئین)9 جنوری 1956ء کو دستور ساز اسمبلی میں پیش کیا گیا اور 29 فروری 1956ء کو آئین ساز اسمبلی نے اس کو منظور کیا، جبکہ 2 مارچ 1956ء کو گورنر جنرل میجر جنرل سکندر مرزا کی منظوری کے لئے بھیج دیا گیا اور 23 مارچ 1956ء سے پاکستان میں ملکی تاریخ کے پہلے آئین (دستور) کا نفاذ ہوا ۔ اس پر پوری قوم نے اطمینان کا اظہار کیا کہ چلو اب دیگر مسائل کی طرف توجہ دی جائیگی مگر دستور سازی کے بعد ملک میں حکومتوں کی تبدیلی اور ارکان کی فلور کراسنگ کا سلسلہ تیزی کے ساتھ جاری رہا۔1956ء کا دستورایک تحریری دستاویز کی شکل میں تھا جو234بنیادی دفعات اور 5گوشواروں پر مشتمل تھا یہ دستور بنیادی طور پر پارلیمانی، جمہوری اور وفاقی تھا۔ 1956ء کے دستور کے نفاذ کے بعد گورنر جنرل کے عہدے کو صدارت میں تبدیل کیا گیا۔ سیاستدانوں کے خلفشار اور فلور کراسنگ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے 7 اکتوبر 1958ء کو ملک کے پہلے صدر میجر جنرل سکندر مرزا نے آئین، جمہوریت اور حکومت کی بساط لپیٹ دی اور ملک میں پہلے مارشل لاء کا نفاذ کیا، اس سازش میں ایوب خان نے فوجی سربراہ کے طور پر صدر کا مکمل ساتھ دیا یوں ملک کا پہلا دستور صرف 2 سال 6 ماہ 16 دن کی مدت کے اندر ہی قصہ پارینہ بن گیا۔ صدر پاکستان میجر جنرل سکندر مرزا دستور کو ختم اور مارشل لاء کے نفاذ کے باوجود اپنے اقتدار کو نہیں بچا سکے صرف 20 دن بعد 27 اکتوبر 1958ء کو فوجی سربراہ جنرل ایوب خان نے سکندر مرزا کو معزول کرکے وطن اور اقتدار پر کلی طور پر قبضہ کیا۔ ان کا یہ مارشل لاء 8 جون 1962ء تک قائم اور اس دوران پاکستان بے آئین رہا۔
1962ء کو ایوب خان نے دوسرا صدارتی آئین نافذ کیا
ایوب خان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد جسٹس شہاب الدین کی سربراہی میں آئینی کمیٹی قائم کی جس نے 6 مئی 1961ء کو اپنی رپورٹ پیش کی مگر 1962ء میں جب ایوب خان کی حکومت نے کمیشن کی مبینہ سفارشات سے قوم کو آگاہ کیا تو کمیشن کے سربراہ جسٹس شہاب الدین نے لاتعلقی کا اظہار کیا مگر مارشل لاء کی سخت گیر پالیسی کے باعث ان کا یہ بیان اخبارات کی زینت نہیں بن سکا۔ دراصل ایوب خان کے چند نامزد کردہ افراد ایسا آئین تیار کررہے تھے جو صدارتی ہو جس کے مطابق تمام اختیارات صدر کے پاس ہوں اور ایوب خان نے 8 جون 1962ء کو ملک سے مارشل لاء ختم کرتے ہوئے ملکی تاریخ کے دوسرے آئین کا نفاذ کیا اور صدر مملکت کی حیثیت سے اقتدار پر اپنا قبضہ برقرار رکھا۔یہ آئین 12حصوں250دفعات اور3گوشواروںپر مشتمل تھا۔پاکستان کا پہلا آئین پارلیمانی جبکہ دوسرا آئین صدارتی تھا۔ 8 جون 1962ء سے 25 مارچ 1969ء تک ملک کا دوسرا آئین 6 سال 9 ماہ 16 دن رہا۔
25 مارچ 1969ء کو ایوب خان کے استعفے کے بعد جنرل آغا یحیٰی خان نے اقتدار سنبھالا اور ملک کے آئین کو منسوخ کردیا اور ملک میں دوسرے مارشل لاء کا نفاذ بھی کیاجو 21 اپریل 1972ء کو عبوری آئین کے نفاذ تک رہا۔اسی دوران پاکستان دو لخت ہوا جس کے بعد 20 دسمبر 1971ء کو جنرل یحییٰ خان نے اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کے سپرد کیا جنہوں نے صدر اور سول چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے طور پر اقتدار سنبھالا۔ قومی اسمبلی نے 14 اپریل 1972ء کو عبوری آئین کی منظوری دی جس کا نفاذ21 اپریل 1972ء سے ہوا ۔
1973ء کا متفقہ آئین
7 اپریل 1972ء کو قومی اسمبلی نے مستقل آئین کے لئے آئینی کمیٹی قائم کی جس نے 10 ماہ 27 دن کی محنت کے بعد 2 فروری 1973ء کو قومی اسمبلی میں آئینی مسودہ پیش کیا۔ طویل بحث و مباحثہ اور افہام و تفہیم کے بعد متفقہ طور پر قومی اسمبلی نے اس آئین کی منظوری دے دی ۔12 اپریل 1973ء کو صدر مملکت ذوالفقار علی بھٹو نے اس کی حتمی منظوری دیتے ہوئے 14 اگست 1973ء سے ملک کے تیسرے اور متفقہ آئین کا نفاذ ہوا۔1973ء کا آئین بھی قرار داد مقاصد کی طرح اکابر علماء کا ہی تیار کیا ہوا تھا اس کمیٹی میں مولانا غلام غوث ہزاروی اور مولانا مفتی محمود جیسے اکابر علماء تھے جنہوں نے دیگر جید علماء کرام کی مشاورت اور انتھک محنت سے 1973ء کا متفقہ آئین تیار کرکے قوم کو عظیم تحفہ عطا کیا ان علماء کا ملک وقوم پر یہ عظیم احسان ہے۔یہ آئین 280دفعات اور 12ابواب پر مشتمل ہے۔اس آئین میں پہلی بار آئین کی تنسیخی کو سنگین جرم قرار دیا گیاکیونکہ 1956ء اور1962ء کو تحفظ نہ ہونے کی وجہ سے 1958ء اور1969ء میںمنسوخ کیا گیامگر 1973ء کے آئین کے جنرل ضیاء الحق ایسا نہیں کر سکا اور مجبوراً آئین کو معطل کر کے ملک میں تیسرے ماشل لاء کا نفاذکرنا پڑا۔ مستقل آئین کے نفاذ کے بعد 14 اگست 1973ء کو ہی ذوالفقار علی بھٹو نے صدارت کا عہدہ چھوڑ کر وزیراعظم کے عہدے کا چارج سنبھالا جبکہ چودھری فضل الٰہی کو صدر بنایا اس آئین میں صدر کا عہدہ صرف نمائشی بن کر رہ گیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے وزیر اعظم بنتے ہی اکثریت کی بنیا دپر آئین میں بعض ترامیم کیں یہی وجہ ہے کہ ان کے اپنے بنائے ہوئے آئین میں 7 ترامیم کی گئی۔
دستور پاکستان کی ترامیم کہانی
پاکستان کے تیسرے آئین کو 12اپریل 1973ء کو قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر منظور کیا ۔ بدقسمتی سے آئین کے نفاذ کے ساتھ ہی اس میں ترامیم کا سلسلہ شروع ہوگیا اور 8 مئی 1974ء سے 4 جنوری 1977ء تک آئین میں 6 ترامیم اسی قومی اسمبلی سے منظور کرائی گئیں جس نے آئین بنایا تھاجبکہ ساتویں دستوری ترمیم 16 مئی 1977ء کو قومی اسمبلی نے اپنی مختصر زندگی میں منظور کی۔ 5 جولائی 1977ء کو ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت مارشل لاء کے ذریعے معزول کردی گئی اور جنرل ضیاء الحق نے آئین کو معطل کردیا۔ سپریم کورٹ نے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے اقدام کو جائز قرار دیا اور بیگم نصرت بھٹو کیس کے ذریعے سی ایم ایل اے کو آئین میں ضروری ترامیم کا اختیار دے دیا جس کے بعد فروری 1979ء سے جنوری 1985ء تک آئین میں متعدد ترامیم کی جاتی رہیں۔ 17 مارچ 1985ء کو جنرل ضیاء الحق نے آئین کی بحالی کا آرڈر جاری کیا جس کے ذریعے 1973ء کے دستور کی بنیادی ہیئت بدل دی گئی۔ جنرل ضیاء الحق نے 1985ء کے عام انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر کرائے۔ اس کے نتیجے میں جو قومی اسمبلی وجود میں آئی اس نے اپنی بقا کی خاطر آئین میں آٹھویں ترمیم کا بل منظور کیا۔ آئینی ترامیم کی تاریخ کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ 1973ء کے آئین میں 8 مئی 1974ء کو لائی گئی پہلی آئینی ترمیم کے ذریعے آئین کے 14 آرٹیکلز اور فرسٹ شیڈول میں تبدیلیاں کی گئیں جن میں سے اکثیریت کاتعلق بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے سے متعلق تھاجبکہ ان ترامیم کے ذریعے سیاسی جماعتوں کو قومی مفادات کے منافی سرگرمیوں سے روکا گیا اور سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کردی گئی کہ وہ اپنے مالی وسائل کے ’’ذرائع کو عام ‘‘ کریں گی۔ اس کے علاوہ عدلیہ کے کسی جج کو کسی دوسری ہائی کورٹ میں ٹرانسفر کا اختیار بھی ملا۔ بنگلہ دیش تسلیم کرنے کے بعد آئین سے مشرقی پاکستان کا لفظ نکال دیا گیا۔سب سے اہم ترمیم دوسری تھی جو 21 ستمبر 1974ء کو منظور کی گئی دوسری آئینی ترمیم کے ذریعے آرٹیکلز 106 اور 206 میں ترامیم کی گئیںاور قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دیا گیا اور اسمبلیوں میں ان کی نشستیں مختص کی گئیں۔ 18 فروری 1975ء کو آئین میں تیسری ترمیم کے تحت آرٹیکل 10 اور 232 میں ترامیم کی گئیں جس میں انتظامیہ کو اختیار ملا کہ قومی سلامتی کے منافی سرگرمیوں میں ملوث افراد کی گرفتاری اور نظربندی کی میعاد ختم کردی گئی اور انتظامیہ کو پارلیمینٹ کے مشترکہ اجلاس کے ذریعے ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کا اختیار مل گیا۔چوتھی آئینی ترمیم کے ذریعے جو 25 نومبر 1975ء کو موثر ہوئی 10 آرٹیکلز اور چوتھے اور فرسٹ شیڈول میں ترامیم کردی گئیں جن کے ذریعے بنیادی حقوق سے متعلق قوانین کمزور کئے گئے اور ہائی کورٹس کو نظربند افراد کی ضمانت سے روک دیا گیا۔ پانچویں ترمیم 5 ستمبر 1976ء کو موثر ہوئی جس سے آئین کے 16 آرٹیکلز اور فرسٹ شیڈول میں ترامیم ہوئیں۔ بھٹو حکومت نے اس کے ذریعے بھی عدلیہ کی آزادی کو متاثر کیا اور ہائی کورٹس کو بنیادی حقوق کی فراہمی پر حکم دینے کا اختیار ختم کردیا گیا۔ ان میں سے 10 آرٹیکلز عدلیہ سے متعلق تھے۔ 4 جنوری 1977ء کو آئین میں چھٹی ترمیم کے ذریعے عدلیہ کی آزادی پر مزید قدغن لگائی گئی اور سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ججز کی ریٹائرمنٹ عمر بالترتیب 65 سال اور 62 سال مقرر کردی گئی۔آئین میں ساتویں ترمیم 16 مئی 1977ء کو موثر ہوئی۔ آئین کے آرٹیکلز 101، 245 میں ترامیم کے ذریعے وزیراعظم کو ریفرنڈم کرانے کا حق ملا تاکہ وہ اپنی مقبولیت ثابت کرسکے اور عدلیہ کو مسلح افواج کے معاملات میں مداخلت سے روک دیا گیا۔ آئین میں آٹھویں ترمیم 17 اکتوبر 1985ء کو جنرل ضیاء الحق کی طرف سے لائی گئی۔ اس ترمیم سے پاکستان کے سیاسی ڈھانچے کا رخ پارلیمانی نظام سے نیم صدارتی نظام کی جانب موڑ دیا گیا۔ صدر کو اسمبلی کی تحلیل کا اختیار مل گیا۔ انہیں مسلح افواج کے سربراہوں، گورنرز کی تقرری سمیت وزیراعظم کی نامزدگی کا اختیار بھی دے دیا گیا اور یوں طاقت کے دو مراکز بنے اور صدر کو اختیارات کا سرچشمہ بنادیا گیا۔ اس اختیار کے باعث 4 حکومتیں اپنی آئینی مدت سے پہلے ہی ختم ہوگئیں آٹھویں ترمیم کے ذریعے کئی اسلامی اصلاحات بھی کی گئی۔آئین میں نویں ترمیم 1988ء میں پیش ہوئی جو شریعت بل سے متعلق تھیںمگراس کے منظور ہونے سے قبل ہی اسمبلی توڑ دی گئی۔ آئین میں دسویں ترمیم 29 مارچ 1991ء کو موثر ہوئی جبکہ گیارہویں دستوری ترمیم 1991ء میں پیش ہوئی مگر منظور نہ ہوسکی۔ اس میں خواتین کی مخصوص نشستوں کی بحالی کی بات کی گئی تھی۔12 ویں ترمیم کے ذریعے 1991ء میں نوازشریف حکومت نے خصوصی عدالتیں قائم کیں تاکہ گھناؤنے جرائم میں ملوث ملزمان کے خلاف فوری فیصلے ہوسکیں۔13 ویں دستوری ترمیم 4 اپریل 1997ء کو موثر ہوئی۔ اس سے صدر سے اسمبلی کی تحلیل کا اختیار واپس لے لیا گیا اور اختیارات دوبارہ وزیراعظم کو منتقل ہوگئے۔ اس ترمیم کی منظوری حکومت اور اپوزیشن کی متفقہ حماعت سے ہوئی۔اس سے ایک مرتبہ پھر صدر صرف نمائشی رہا اور تمام اختیارات کا منبع وزیر اعظم بنا۔آئین میں 14 ویں ترمیم 30 جون 1997ء کو موثر ہوئی، اس کے ذریعے سیاسی جماعتوں کو مستحکم بنانے کی غرض سے سیاسی پارٹیوں کو اختیار دیا گیا کہ وہ پارٹی پالیسی سے منحرف ارکان کو فلور کراسنگ یا لوٹا کریسی پر اس کی پارلیمینٹ سے رکنیت خارج کرسکیں گے۔15 ویں آئینی ترمیم شریعت بل سے متعلق ہے جو 28 اگست 1998ء کو منظور ہوئی۔ اس کے ذریعے حکومت چلانے کیلئے قرآن و سنت کو سرچشمہ ہدایت قرار دیا گیا۔ اس ترمیم کے حوالے سے ہی میاں نواز شریف پر الزام لگایا گیا کہ وہ امیر المئومنین بننے کی کوشش کر رہے ہیں اور اسلام کا نام لیکر قطعی اختیارات حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ ترمیم قومی اسمبلی سے منظور ہوگئی مگر سینیٹ سے منظور نہ ہوسکی اور یو ں آئین کا حصہ نہ بن سکی۔16 ویں آئینی ترمیم 1999ء میں موثر ہوئی، اس کے ذریعے ملازمتوں میں کوٹے کے نظام کی میعاد کو 2013ء تک بڑھادیا گیا۔ صرف ایم کیو ایم نے اس کی مخالفت میں ووٹ دیا۔آئین میں 17 ویں ترمیم دسمبر 2003ء میں موثر ہوئی،جس کے ذریعے صدر کو اسمبلی کی تحلیل کا دوبارہ اختیار مل گیا اور صدر کو فوجی عہدہ رکھنے کی اجازت دی گئی جس کے لئے مدت کا تعین کیا گیاتھا مگر پرویز مشرف نے عمل نہیںکیا ۔سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے پہلے لیگل فریم ورک آر ڈر (ایل ایف او) کے ذریعے آئین کے مختلف آرٹیکلز میں 90 ترامیم کیں۔ بعدازاں انہی میں سے اکثر کو متحدہ مجلس عمل کے ساتھ مل کر 2004ء میں 17 ویں ترمیم کے ذریعے آئینی تحفظ دیا گیا جس کے ذریعے تیسری مرتبہ وزیراعظم یا وزیراعلیٰ بننے پر پابندی، 58 (2) B کی بحالی کے ذریعے صدر کو مکمل بااختیار بنانے سمیت دیگر کئی ترامیم شامل تھیں۔ قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 207 سے 342، سینیٹ کے ارکان کی تعداد 87 سے بڑھاکر 100 کرنے، اسی طرح صوبوں میں ارکان صوبائی اسمبلی کی تعداد میں اضافہ سمیت دیگر امور شامل تھے۔
2 اپریل 2010ء ملکی تاریخ کا اہم دن ہے جب 27 رکنی پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات پر مشتمل 18 ویں ترمیم کا 64 صفحات کا مسودہ کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر میاں رضا ربانی نے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش کیا۔ 18ویں ترمیم 8مارچ 2010ء کو قومی اسمبلی اور 15اپریل 2010ء کو سینیٹ منظور کی جبکہ 19اپریل 2010ء کو صدر دستخط کرکے اس کو قانونی شکل دی۔17ویں ترمیم کے خاتمے اور دیگر آئینی اصلاحات کے لیے پارلیمانی کمیٹی کے قیام کے لئے10 اپریل 2009ء کو قومی اسمبلی اور 28 اپریل 2009ء کوسینیٹ نے مشترکہ قرار دادیں منظور کیں، جن پر عمل درآمد کرتے ہوئے 23 جون 2009ء کو اسپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے دونوں ایوانوں کے 27 ارکان پر مشتمل آئینی کمیٹی تشکیل دی۔ کمیٹی میں ملک کی چھوٹی بڑی 13 جماعتوں کو نمایندگی دی گئی۔ کمیٹی میں پیپلزپارٹی کے میاں رضا ربانی، ڈاکٹر بابر اعوان، نوید قمر، لشکری رئیسانی اور راجہ پرویز اشرف، مسلم لیگ (ن) کے چودھری نثار علی خان (قائد حزب اختلاف)، چودھری احسن اقبال، اسحاق ڈار اور سردار مہتاب عباسی،جمعیت علماء اسلام (ف) کے مولانا فضل الرحمن اور رحمت اللہ کاکڑ، متحدہ قومی موومنٹ کے ڈاکٹر فاروق ستار اور حیدر عباس رضوی، عوامی نیشنل پارٹی کے اسفند یار ولی خان اور حاجی عدیل خان، مسلم لیگ (ق) کے ایس ایم ظفر، وسیم سجاد اور جماعت اسلامی کے پروفیسرخورشید احمد، مسلم لیگ (ف) کے جسٹس (ر) عبدالرزاق تھہیم، جمہوری وطن پارٹی کے شاہد بگٹی، پیپلزپارٹی (شیر پائو) کے ٓافتاب احمد خان شیر پائو، نیشنل پیپلزپارٹی کے غلام مرتضیٰ جتوئی، نیشنل پارٹی کے اسرار اللہ زہری کے علاوہ عبدالرحیم مندو خیل، عبدالمالک، ہمایوں سیف اللہ اور منیر خان اورکزئی شامل تھے۔ آئینی اصلاحاتی پارلیمانی کمیٹی نے 23 جون 2009ء سے یکم اپریل 2010ء تک 9 ماہ ماہ 10 دن جس جانفشانی سے کام کیا وہ قابل تعریف ہے۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار اس طرح قومی اتفاق رائے سے بڑے پیمانے پر 1973ء کے متفقہ آئین پاکستان کے 280 آرٹیکلز اور سینکڑوں ذیلی آرٹیکلز پر غور کے لیے کمیٹی کے 77 رسمی اور 67غیررسمی اجلاس ہوئے، جن میں سے اکثر طویل ہوا کرتے تھے۔ ان اجلاسوں میں کئی نشیب و فراز بھی آئے۔ بعض اوقات یہ بھی محسوس ہوا کہ کمیٹی شاید اتفاق رائے سے مسودہ تیار کرنے میں کامیاب نہ ہو مگر پاکستان کے ارکان پارلیمنٹ نے اتفاق رائے سے مسودہ تیار کرکے ان افواہوںاور خدشات کو غلط ثابت کردیا۔ دراصل پارلیمانی آئینی اصلاحاتی کمیٹی کو 17 ویں ترمیم سمیت آمروں کی جانب سے کی گئی ترامیم کے خاتمے اور 1973ء کے آئین کو زیادہ سے زیادہ اصل حالت کے قریب تر کرنے کا ٹاسک دیا گیا تھا۔
18ویں ترمیم کی تفصیل
آئینی پارلیمانی اصلاحاتی کمیٹی نے 18 ویں ترمیم کے ذریعے 17 ویں ترمیم کی 4 ترامیم کے علاوہ باقی تمام کو ختم کرنے کی تجویز دی ہے اور آئین کے مختلف آرٹیکلز میں 102 ترامیم کی ہیں۔ ان میں سے چند ترامیم پر بعض جماعتوں نے اعتراضی نوٹ بھی لکھا ہے۔ 18 ویں ترمیم کے حوالے سے قوم میں کئی خدشات پائے جاتے تھے باالخصوص اسلامی قوانین اور اہم دفعات کے حوالے سے کافی بے چینی تھی اور بعض ذرائع کا تو یہ بھی دعویٰ تھا کہ عالمی دبائو پر اگر اسلامی قوانین باالخصوص ناموس رسالت کے قانون کو ختم نہیں کیا گیا تو ان کو نرم کرنے کی ضرور کوشش کی جائے گی۔ اس ضمن میں مختلف این جی اوز نے دبائو بھی بڑھانے کی بھر پور کوششیں کی۔ ذرائع کے مطابق ایک موقع پر کمیٹی میں یہ تجویز پیش کی گئی کہ پاکستان کے نام سے لفظ ’’اسلامی‘‘حذف کرکے صرف’’ جمہوری پاکستان‘‘ رکھا جائے اوربعض لوگوں نے تو’’ ہم جنس پرستی‘‘ جیسے ناپاک عمل پر بھی قدغن نہ لگانے کی بات کی۔ اسی طرح دیگر کئی تجاویز بھی آئیں، مگر ارکان پارلیمنٹ نے عوامی امنگوں کی حقیقی ترجمانی کرتے ہوئے کوئی ایسی تجویز مسودے میں شامل نہیں کی جو آئین کی اسلامی شقوں اور پاکستان کے اسلامی قوانین کے لیے نقصان کا باعث بن سکے۔جو بہت ہی خوش آئند بات ہے۔ اس ضمن میں جمعیت علماء اسلام (ف) اور جماعت اسلامی کا کردار نمایاں بتایا جاتا ہے۔ تجاویز پر غور کیا جائے تو یہ با ت سامنے آتی ہے کہ ترامیم کے ذریعے اسلامی شقوں اور قوانین کو مزید مضبوط بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ 18 ویں ترمیم کے ذریعے وفاقی کابینہ کے ارکان کی تعداد پارلیمینٹ کے کل ارکان (قومی اسمبلی و سینیٹ) کے 11فیصد اور 5مشیر رکھنے کا وزیراعظم کو پابند بنانا مثبت عمل ہے۔ اسی طرح صوبوں میں کابینہ کے ارکان کی تعداد 15 وزراء اور 4 مشیروں یا ارکان اسمبلی کا11فیصد اور5مشیروں تک کرنے کا پابند کیا گیا ہے۔ پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں پر وزراء کی تعداد میں اضافہ محکموں یا حکومتی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے نہیں بلکہ افراد کو فائدے پہنچانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس لیے یہ آئینی ترمیم انتہائی قابل تحسین ہے۔ 18 ویں ترمیم میں سب سے زیادہ اہمیت صوبائی خود مختاری کو دی گئی ہے جو صوبوں کا اہم ترین مطالبہ ہے۔ اسی طرح کنکرنٹ لسٹ کا خاتمہ بھی اہم ہے۔جبکہ ترامیم میں سینیٹ کے کام کرنے کے دنوں کی تعداد 90 سے بڑھاکر 110 اور صوبائی اسمبلیوں کے کام کے دنوں کی تعداد 70 سے 100 کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ سینیٹ کے ارکان میں 4 ارکان کا اضافہ کرکے 100 کی بجائے 104 کرنے کی ترمیم کی گئی ہے ۔ ہر صوبے سے ایک ایک اقلیتی رکن ہوگا۔ 18 ویں ترمیم میں صوبہ سرحد کا نام ’’خیبر پختونخواہ‘‘رکھا گیا ۔ 18ویں ترمیم میں صوبہ سرحد کا نام ہی سب سے زیادہ اختلافی نکتہ ثابت ہوا کیونکہ صوبہ سرحد کثیر اللسانی، کثیر القومی اور کثیر الجغرافیائی اکائیوں پر مشتمل ہے۔جسکی وجہ سے نام کے معاملے ہزارہ ڈویژن میں شدید احتجاج ہوا۔
وزیر اعظم کا امتحان
18ویں ترمیم کے ذریعے وزیراعظم پاکستان کو طاقت ور بنایا گیا ہے تاہم صدر پاکستان کو چودھری فضل الٰہی اور رفیق تارڑ کی طرح بے دست وپا بھی نہیں کیا گیا ۔ بدقسمتی سے پاکستان میں جس کے پاس اختیار آتا ہے وہ اس سے تجاوز کرکے زمین پر خدا بن بیٹھتا ہے جس کی وجہ سے اداروں کے مابین ٹکرائو، سیاسی عدم استحکام اورتصادم پیدا ہوتا ہے۔ اگر کسی فوجی آمر نے اقتدار پر قبضہ کیا تو اپنے آپ کو اختیارات کا منبع بنایا، اسی طرح کی صورت حال عوامی نمایندوںذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف کی بھی رہی۔ اب لگتا ہے باری کسی اور کی ہے۔ اس لیے اختیارات میں توازن، دائرہ اختیار کا تعین اور آئین و قانون کی اہم شقوں کی تشریح نہایت ضروری ہے۔ اس کے بغیر ہم مزید آگے بڑھنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔پاکستان کے تیسرے آئین میں 18ویں ترمیم کے بعد ایک مرتبہ پھر ملکی نظام نیم صدارتی کے بجائے مکمل پارلیمانی بن گیا ہے مگر ہم جب ماضی کے تلخ تجربات آئین کے ساتھ ہونے والے عمل کو دیکھتے ہیں تو اس بات کی کہیں ضمانت نظر نہیں آتی ہے کہ پھر کوئی فوجی یا سول آمر یا نظریہ ضرورت کا عدالتی فیصلہ آئین کو مزید منفی ترامیم سے بچا سکے ۔آئین کو اصل حالت میں بحال رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ایک مرتبہ ان لوگوں کو ضرور سزا دی جائے جو آئین توڑنے میں بنیادی کردار ادا کرتے رہے ہیں اور یہ کہ کوئی ایسا ادارہ وضع کیا جائے جس میں کلی طور پر کسی فرد واحد کو اختیارات حاصل نہ ہوں بلکہ اختیارات کا منبع وہ ادارہ ہی ہو کیونکہ پاکستان میں ــ’’ایکا ‘‘(ون مین شو)دکّا(ٹو مین شو)اور ٹرائیکا(تھری مین شو)والا نظام تقریباً ناکام ہو چکا ہے اس لیے اب حالات سے محسوس ہوتا ہے کہ ’’چکونی ‘‘نظام رائج کیا جائے اسی میں بہتری نظر آتی ہے ۔