محرومیاں انتہا پسندی پر اکساتی ہیں
تقریباً23سال سے پاکستان اور برصغیر میں آتا جاتا رہا ہوں میں نے یہاں یہی دیکھا ہے کہ ہمارے بعض دوستوں کے ذہنوں میں ایک فکری تشدد ہیٖ۔ اب سوال یہ ہے کہ اس کی کیا وجوہات ہیں۔
مسیحی بھائیوں سے معذرت کے ساتھ جب ہم برصغیر پاک وہند کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو تقریباً 250سال سے لوگوں کی سوچ اپنی جگہ پر نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہروقت ان کے سامنے مشکلات ہیں۔ ان مشکلات سے لڑنا ہے اور ڈرنا ڈرانا ہے۔ لوگ سوچتے ہیں کہ ہم اپنے مصائب کیسے حل کریں گے۔
میں کچھ عرصہ انگلینڈ میں بھی رہا ہوں، ادھر لوگوں کو ایسے مصائب کا سامنا ہے نہ وہ اس عنصر پر سوچتے ہیں، وہاں حکومتیں اور ان کے کام نظر آتے ہیں لوگ فکری سوچ سے آزاد ہیں لیکن ہمارے برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں کو ایسی کوئی چیز میسر نہیں ہے۔ ان کو ہر وقت ایک پرتشدد ماحول کا سامنا رہتا ہے اور وہ اس سے نمٹنے کے لئے تشدد کی سوچ کی طرف چلے جاتے ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ ان سوچوں کے بیچ آج کا دن یعنی 24اور25نومبر 2015ایک نیا دن اور نئی سوچ ہونا چاہیے۔ اسلام کی بنیادی تعلیم یعنی امن وسلامتی کی طرف لوٹنا چاہیے۔اپنی سوچ کے دھارے کو نبی پاک ﷺ کے اسوۂ حسنہ کی طرف مبذول کرنا چاہیے۔ یہ تشدد ماحول کی طرف نہیں جاتا بلکہ اس ماحول کو دین اسلام کی پرامن وسلامتی والی تعلیمات سے روشن ومنور کرنا چاہیے۔
دیکھیں مسلمان کا سب سے بڑا کام ایک اچھا انسان ہونا ہے، ایک اچھا ماحول بنانا ہے، ایک اچھا باپ، اچھی ماں اور اچھے بہن بھائی بننا ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم اپنی سوچ کو مصائب، مشکلات اور تشدد سے آزاد کریں گے۔ ہمیںاپنے ذہنوں سے ان سوچوں کو کھرچ کر نکال دینا چاہیے جن سے مذہبی تعلیمات متاثر اور ایک مسلمان کا چہرا بدنما ہونے کا خدشہ ہے۔
مغرب سے معذرت کے ساتھ۔ میں عوام کی نہیں مغربی حکمرانوں کی بات کرتا ہوں کہ ان لوگوںں نے مسلمانوں کے ذہن خراب کردیے ہیں یہ لوگ ہر جگہ مسائل ومصائب بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر ان مصائب ومشکلات کا مقابلہ کرنے کے لئے پرتشدد اذہان بھی سامنے آتے ہیں یہ ایک اچھی سوچ اور اچھا اقدام نہیں۔ لیڈر کوئی بھی ہو چاہے وہ عیسائی ہو، یہودی ہو، ہندو ہو، مسلمان ہو یا کسی بھی مذہب کا رہنما ہو اس کو تہذیبوں اور مذاہب کے درمیان ٹکرائو نہیں امن، محبت اور اخوت کے لئے کام کرنا چاہیے۔
میری تمام بڑے بڑے ممالک کے سرابان سے اپیل ہے کہ برائے مہربانی اس پرتشدد فکر اور سوچ کو ختم کرنے کے لئے اقدامات کریں اور نہ ہی جنگ وجدل کا ماحول بنائیں۔
لوگوں کے مسائل ومصائب حل کریں۔ ان کی سوچوں کو بدلیں۔ خوشحالی لائیں تاکہ یہ لوگ جو مسائل کی چکی میں پس کر اور ناانصافیوں کا شکار ہوکر تشدد کی طرف مائل ہوتے ہیں وہ راہ راست پر رہیں ایک بہتر اور پُرامن ماحول کے لئے سوچیں۔
دوسری بات یہ کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ بین المذاہب ہم آہنگی وقت کی ضرورت ہے لیکن یہ ہم آہنگی اس وقت تک پائیدار اور مستحکم نہیں ہوسکتی جبکہ فرقوں کے درمیان تنائو اور تشدد ختم نہیں کیا جاتا۔ اس فرقہ وارانہ تنائو نے نہ صرف پاکستان بلکہ دیگر ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
میں گزشتہ 25سال سے پاکستان میں مختلف مکاتب فکر اور مسالک کے لوگوں سے مل رہا ہوں معذرت کے ساتھ میرا تجربہ بڑا سخت رہا۔ ہر مسلک اور مکتبہ فکر ایک دوسرے کی شکایات اور اختلافات کا دفتر کھولے بیٹھا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایک دوسرے سے لڑنے کی بجائے ایک دوسرے کو جگہ دی جانی چاہیے۔ سننا چاہیے۔ دلوں میں وسعت پیدا کرنی چاہیے۔ خیالات کا تبادلہ ہونا چاہیے۔ تشدد اور لڑائی کی بجائے مذاکرات سے مسائل واختلاف کی راہ نکالنی چاہیے۔
ہمیں اب غیر ضروری جنگ وجدل سے نکل کر خود کو امن کی طرف لانا چاہیے۔ پیارومحبت، امن وبھائی چارگی کا پرچار کرنا چاہیے۔ اگر ہم خود کو اس طرف نہیں لائیں گے تو میرے بھائیو! پاک وہند پورے برصغیر اور عالمی دنیا میں مسائل حل نہیں ہوں گے۔ اس معاملے میں مذہبی رہنمائوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ان پر اس وقت بہت بڑی ذمہ داری ہے دنیا کو امن کا تحفہ دیں۔عدالتی نظام کو بھی انصاف اور بلا تفریق انصاف کی طرف بے خوف وخطر لوٹنا چاہیے۔ انصاف کرنا چاہیے۔ اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ان کا انصاف ہوتا نظر آنا چاہیے۔
میرا خیال ہے اداروں اور رہنمائوں کے ساتھ عوام پر بھی بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ پرامن ماحول اور پرامن معاشرے کے لئے آگے آئیں اور اپنا مثبت کردار ادا کریں۔
اسلام ظاہری کم اور اندر زیادہ ہونا چاہیے۔ صرف دکھاوے سے کام نہیں چلے گا۔ عملی طور پر بھی خو د کو مسلمان ہونا ثابت کرنا ہوگا۔
میں شکر گزار ہوں مفتی ابوہریرہ محی الدین کا یونائٹ کی انتظامیہ کا جس نے مجھے یہاں بولنے کا آپ لوگوں سے خیالات کے تبادلے کا موقع دیا۔ میری دعا ہے کہ مفتی ابوہریرہ محی الدین امت مسلمہ اور دیگر مذاہب کے درمیان امن ومحبت کا ذریعہ بنیں۔
عبدا لحمیت بر سک ،ترکی،
Please follow and like us: