حضور نبی کریم ﷺ اور آپﷺ کے صحابہؓ کے دور کی روشن مثالیں
قانون کی حکمرانی اور قانون کی بالادستی کے بغیر قوم صحیح معنی میں قوم نہیں رہتی، ایسے لوگوں میں اور جانوروں میں کوئی فرق نہیں جن میں قانون کی بالادستی نہ ہو، اگر قانون باندی یا غلام بن جائے تو پھر نہ تھمنے والی ناانصافی وظلم کا طوفان بپا ہوجاتا ہے، جو دھیرے دھیرے ہر چیز کی تباہی وبربادی کا باعث بن جاتا ہے۔ حتیٰ کہ ایک دن وہ پورے معاشرے کو بھی تہس نہس اور تہہ بالا کردیتا ہے۔
قانون کی حکمرانی اور انصاف کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ان دونوں کا رشتہ ٹوٹتے ہی سماج اور معاشرے پر سیاہی پھرجاتی ہے۔ دنیا کے تمام مہذب نظریات اور ان پر یقین رکھنے والے باشعور انسانوں نے قانون کی بالادستی اور انصاف کا بول بالا رکھنے پر بہت زیادہ زور دیا ہے۔ حضرت علی المرتضیٰؓ کا تاریخی جملہ بہت مشہور ہے انہوں نے فرمایا’’ کفر کا معاشرہ تو قائم رہ سکتا ہے، مگر ناانصافی والا معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا‘‘۔ یعنی جس معاشرے میں ظلم وزیادتی کا دور دورہ ہو، جہاں امیر کیلئے الگ غریب کیلئے الگ قاعدے وقوانین ہوں جہاں قانون کے نفاذ کے تمام باب بند کئے جائیں ایسا معاشرہ تباہی وبربادی کی جانب گامزن ہوتا ہے۔ اس کا انجام کار بالآخر ہلاکت ہی ہوتا ہے۔
جب ہم اسلام کے ابتدائی دور پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ہر موڑ پر قانون کی حکمرانی وبالادستی نظر آتی ہے اور یہی اسلام کی واضح ترین خصوصیت ہے کہ اس میں قانون سب کیلئے یکساں ہے اور اس میں رکاوٹ ڈالنے والوں کی مذمت ہے۔
قانون اسلامی میں کوئی اتار چڑھائو نہیں اور نہ ہی قریب وبعید کا کوئی فرق وامتیاز ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد گرامی ہے۔
عن عبادت بن الصامتؓ قال: قال رسول اللہ علیہ وسلم۔
اقیموا حدود اللہ علی القریب والبعید ولا تاخذکم فی اللہ لومۃ لائم (ابن ماجہ کتاب الحدود)
اللہ تعالیٰ کے حدود یعنی باری تعالیٰ کے مقرر کردہ قوانین وآئین قریب وبعید، رشتہ دار وغیر رشتہ دار سب پر یکساں نافذ کرو اللہ پاک کے معاملہ میں تم ملامت کرنے والوں کی ملامت کی پروا نہ کرو۔ مساوات قانونی کی بہتر تصویر ابتدائے اسلام کے اندر ہی مل سکتی ہے۔ قانون اسلام کی نگاہ میں سب کیلئے یکساں ہے۔ مساوات قانون کی ایک منفرد مثال جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود پیش کی۔
قبیلہ مخذوم کی ایک عورت چوری کے جرم میں گرفتار ہوئی۔ لوگوں نے اس کی سفارش کیلئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے محبوب حضرت اسامہ بن زیدؓ کو آمادہ کیا، جب اس واقعہ کے متعلق حضرت اسامہ بن زیدؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سفارش کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو جمع کرکے فرمایا: من عائشہؓ انّ اسامۃ کلمہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی امرأۃ فقال انما ھلک من کان قبلکم انھم کانوا یقیمون الحد علی الوضع ویترکون علی الشریف والذی نفسی بیدہ لو فاطمۃ فعلت ذالک لقطعت یدھا۔ البخاری ج(۲) ص536)
اے لوگو! تم سے پہلے قومیں اس لیے ہلاک ہوئیں کہ جب ان میں سے کوئی بڑا آدمی چوری کرتا تھا تو لوگ اسے چھوڑ دیتے تھے لیکن جب عام آدمی (غریب) چوری کرتا تو اس کو سزا دیتے تھے۔ قسم اس ذات کی جس کی قدرت وقبضہ میں میری جان ہے۔ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرتی تو اس کے ہاتھ بھی ضرور کاٹے جاتے۔
فائدہ: چوری کا ذکر صرف خصوصیت واقعہ کی بناء پر ہے ورنہ اس سے مراد عام جرائم ہیں۔
یہ ہے اسلام کی فرمان روائی کا اصل تصور اور یہ ہے مساوات کی حقیقی تعلیم کہ ہر حال میں قانون کی حکمرانی وبالادستی ہو۔
چنانچہ عہد فاروقی میں ایک عیسائی شہزادے جبلہ بن ایہم غسانی نے قبول اسلام کیا تھا طواف کعبہ کے دوران اس کی چادر کا ایک گوشہ ایک شخص کے پائوں کے نیچے آگیا۔ جبلہ نے اس کے منہ پر تھپڑ کس کے مارا۔ اس نے بھی برابر کا جواب دیا۔ جبلہ غصہ سے بیتاب ہوگیا اور حضرت عمرؓ کے پاس آکر شکایت کی۔ آپ نے کہا تم نے جیسا کیا تھا ، ویسی ہی اس کی سزا بھی پالی۔ اس پر جبلہ نے کہا: ہمارے ساتھ کوئی گستاخی کرے تو اس کی سزا قتل ہے، پر حضرت عمرؓ نے جواب دیا: ہاں جاہلیت میں ایسا ہی تھا لیکن اسلام نے شریف ورذیل اور امیر وغریب کو ایک کردیا‘‘۔
جبلہ اس ضد میں پھر عیسائی ہوگیا اور روم بھاگ گیا لیکن خلیفہ اسلام نے مساوات اسلامی کی قانون شکنی گوارہ نہ کی۔ خلیفۃ المسلمین، امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے متبعین کو یہی پیغام دیا کہ آپ ہمیشہ قانون کی بالادستی وحکمرانی کو مقدم رکھیں۔
واقعہ اجنادین میں رومی سپہ سالار نے ایک جاسوس کو مسلمانوں کا حال دریافت کرنے کے لیے بھیجا۔ جاسوس اسلام کے ان سچے عمل پیرائوں کو دیکھ کر جب واپس آیا تو رومی سپہ سالار سے ایک تحیر کے عالم میں بول اٹھا:
ہم باللیل رھبان وبالنھار فرسان: لوسرق ابن ملکھم قطعوہ واذا زنیٰ رجموہ۔
یہ لوگ راتوں کو استغراق عبادت میں راہب ہوتے ہیں مگر دن میں شہسوار۔ اگر ان کا شہزادہ بھی چوری کرے تو ہاتھ کاٹ ڈالیں اور اگر زنا کرے تو اسے بھی رجم کریں۔ یعنی مسلمانوں میں قانون وآئین کی بالادستی وحکمرانی ہوتی ہے۔ قانون وآئین اتنا مضبوط وبلند ہوتا ہے کہ اس کے سامنے خلیفہ وقت، ملک کا صدر اور وزیر اعظم بھی بے بس نظر آتا ہے۔ قانون سب سے بلند وبالا ہوتا ہے۔
جن قوموں میں قانون کی بالادستی وحکمرانی ہوتی ہے، جہاں عدل وانصاف بروقت ہوتا ہو اور جن میں امیر وغریب کے لئے قانون مساوی ہو اور جہاں عدالتیں انصاف جلد فراہم کرتی ہوں تو وہ قومیں کبھی میدان جنگ میں مغلوب نہیں ہوتیں۔قانون وآئین کی بالادستی ترقی کی وہ سنہری کڑی ہے جس سے ملکوں کو زبردست معاشی ومعاشرتی ترقی ملتی ہے۔قانون کی حکمرانی کے لیے قومی سوچ کی بھی ضرورت ہے، اداروں کی ترقی اور ملکوں کا مستقبل قانون کی بالادستی سے ہی وابستہ ہے ہمیں یہ نظریہ اپنانے کی اشد ضرورت ہے کہ ہم سب قانون کے تابع ہیں، کوئی بھی قانون وآئین سے بالاتر نہیں۔
بدقسمتی سے آج اگر ہم اپنا جائزہ لیں تو بحیثیت قوم ہماری صورتحال پریشان کن ہے۔ ہر طبقہ یہ ضرور چاہتا ہے کہ باقی سب پر قانون نافذ کیا جائے پر جب یہی قانون اس کو یا اس کے کسی فرد کو ضرر پہنچائے یا گرفت کرے تو پورا طبقہ قانون شکنی پر اس کا معاون بن جاتا ہے۔آج ہمارے گلی محلے اس حالت زار کی کھلی تصویر ہیں کہ ہم اپنے سوا دوسروں پر قانون کی حکمرانی چاہتے ہیں مگر ترقی کا راستہ اسی وقت دیکھ پائیں گے جب سب سے پہلے قانون کے دائرے میں اپنی ذات اور طبقے کو لائیں گے۔
موجودہ دنیا میں وہی ممالک ترقی کئے جارہے ہیں ، جن کے لوگوں نے قانون کی بالادستی کو اپنا نصب العین بنایا ہے، وہی لوگ، وہی قومیں آج ترقی کی شاہراہ پر کامیابی کا سفر طے کررہی ہیں ۔
آج اگر ہم بھی ترقی کی دوڑ میں یہ مقابلہ جیتنا چاہتے ہیں تو ہمیں عدلیہ، آئین وقانون کو بالادست تسلیم کرنا پڑے گا عدلیہ کا احترام کرنا پڑے گا۔