عقل ظاہری ماحول اور ذاتی مفاد کا اسیر

عقل کی ایک کمزوری کا بیان تو ہوچکا کہ عقل ہمیشہ مفاد خویش کے درپے رہتی ہے جبکہ اسلام اور دین سماوی میں مفاد عامہ کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے، حدود اس کی بہترین مثال ہے جس پر آگے چل کر مختصر بات کی جائے گی۔
عقل کی دوسری بڑی خامی ماحول کے زیر اثر رہنا ہے، اس کے برعکس اسلامی تعلیمات کا فوکس حقیقت اُجاگر کرنے اور اسے اپنانے پر ہوتا ہے خواہ حالات جیسے ہی کیوں نہ ہوں اور ماحول جیسا بھی ہو لیکن جو بات حق ہے اسی کا اتباع، اسی کی تبلیغ اور اسی کی تلقین ووصیت اسلام کا نصب العین ہے جبکہ عقل ماحول سے بہت جلد متاثر ہوجاتی ہے گویا عقل ہمیشہ کیلئے اشیاء کو حالات اور ماحول کی عینک سے دیکھتی ہے۔
دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور میں ارباب عقل کے مذاہب اور فیصلے ایک دوسرے سے مختلف رہے ہیں بلکہ ایک ہی زمانہ میں دنیا کے ایک کونے میں ایک رسم رہی ہے اور دوسرے خطے میں دوسرا رواج رہا ہے، اس کا یہ مطلب لینا کہ وہ لوگ عقل سے عاری تھے، بذات خود احمقانہ دلیل ہے، کیونکہ ہم جب فیثا غورث، سُقراط اور افلاطون وغیرہ کی کتب پڑھتے ہیں یا ان کی باتیں دوسری کتابوں میں مطالعہ کرتے ہیں تو لازماً ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ یہ لوگ بڑے عقلمند اور دانا تھے اور صرف یونان ہی نہیں بلکہ فارس، مصر (اسکندریہ) اور ہندوستان کے پیشوائوں کا بھی یہی حال تھا، عاد وثمود اور قوم تُبع کو بھی اللہ نے عقل عطا فرمائی تھی لیکن اس خداداد نعمت، بسیار عقل کے باوجود ان لوگوں کی عقلیں اپنے معاشرے کے رسم ورواج کے مطابق بولنے اور چلنے پر مجبور تھیں، ان کی سوچ وہی تھی جو رائج معاشرے کی فضا کے مطابق تھی، چنانچہ یورپ میں دیوتائی نظریہ عام ہونے کی وجہ سے سقراط کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا، سقراط کی عقل دیوتا کے تصور سے آگے نہیں سوچ سکتی تھی، تاریخ گواہ ہے کہ سقراط کی سوچ وہی تھی جو معاشرے میں ایک عام آدمی کی تھی گو کہ بعض امور میں سقراط یگانت کی مثال ہے۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ فیثا غورث سے بات کا آغاز کرلیا جائے کیونکہ ان کا عہد سقراط اور افلاطون وغیرہ پر مقدم ہے۔’’فیثا غورث ان لوگوں میں سے ہے جو (یورپی) تاریخ میں سب سے زیادہ دلچسپ اور حیران کن گزرے ہیں۔ اس نے ایک مذہب کی بنیاد رکھی جس کے اہم عقائد تناسخ روح (آواگون) ہے۔
فیثا غورثی جماعت (مذہب) کے چند اصول یہ تھے۔
(1) پھلیوں سے پرہیز کرنا (2) گری ہوئی چیز نہ اٹھانا (3) سفید مرغ کو نہ چھونا (4) روٹی نہ توڑنا (5) راستے کی رکاوٹ کے اوپر سے نہ گزرنا (6) آگ کو لوہے سے نہ ہلانا (7) تمام روٹی میں سے نہ کھانا (8) ہار نہ توڑنا (9) چوتھائی پیمانے پر نہ بیٹھنا (10) دل نہ کھانا (11) شاہراہوں پر نہ چلنا (12) ابابیلوں کو اپنی چھت میں گھونسلہ نہ بنانے دینا (13) جب برتن آگ سے اتار لیا جائے تو راکھ میں آگ باقی نہ رہنے دینا اور راکھ کو خوب ہلادینا (14) اس وقت آئینہ نہ دیکھنا جب روشنی اس کے پہلو میں ہو (15) جب بستر سے اٹھو تو بستر کے کپڑوں کو لپیٹ دو اور اس پر جسم سے پڑ ی شکنیں ہٹادو (فلسفۂ مغرب کی تاریخ، برٹرینڈرسل صفحہ 68،69) اس میں یہ بھی ہے کہ فیثا غورثیت آرفی مت کی اصلاح کی تحریک تھی اور آرفی مت ’’ڈیونی سس،، (ڈاینا سار) کی پرستش کی اصلاح کی تحریک تھی۔ آگے چل کر اسی صفحہ پر تحریر ہے۔ ’’فیثا غورث‘‘ کا خیال تھا کہ ’’روح‘‘ غیر فانی ہے اور دیگر جاندار اشیاء میں تبدیل ہوجاتی ہے اور مزید یہ کہ جو کچھ بھی وجود میں آتا ہے خاص چکر میں کایا پلٹ کر دوبارہ جنم لیتا ہے۔ فیثا غورث لوگوں کی تین قسمیں بناتے ہیں نچلا ترین طبقہ ان لوگوں پر مشتمل ہوتا ہے جو اولمپیائی کھیلوں میں خرید وفروخت کرنے آتے ہیں، ان سے بالاتر وہ ہوتے ہیں جو کھیل کھیلتے ہیں، بہترین لوگ وہ ہوتے ہیں جو صرف دیکھنے آتے ہیں، اس لئے کہ عظیم ترین تزکیہ بے غرض علم ہے، ایضاً صفحہ 70
فیثا غورث تناسخ کے قائل تھے جس کی تفصیل پہلے بتائی جاچکی ہے، فیثا غورث کے خیالات میں سے بیشتر کا آج کوئی قائل نہیں، خصوصاً جدید ذہن کے لوگ تماش بینوں سے زیادہ کھلاڑیوں کو بلند ترین خیال کرتے ہیں۔ خصوصاً آج بہت سے اہل یورپ بھی فیثا غورث کے اس نظریہ سے متفق نہیں، ایک دفعہ فیثا غورث گزر رہا تھا کہ قریب ایک کتے کو مارا جارہا تھا اس نے کہا رک جائو! اسے نہ مارو! یہ ایک دوست کی روح ہے‘ میں نے اس کی آواز سن کر اسے پہچان لیا ہے (فلسفۂ مغرب کی تاریخ صفحہ 77)
اس پر یہی تبصرہ کیا جاسکتا ہے کہ فیثا غورث کی عقل کو ماحول نے گمراہ کردیا تھا ،ان کی عقل بہت بڑی تھی لیکن ماحول کے مقابلہ میں کمزور تھی اور ہر عقل ماحول کے میدان میں اپنی بات سے پسپائی اختیارکرتی ہے۔
فیثا غورث کے بعد ہر اقلیطس ہے ،اس کا زمانہ پانچ سو ق م ہے ،وہ ایک مخصوص نوعیت کا صوفی تھا ،وہ سمجھتا تھا کہ کائنات کا جوہر اول آگ ہے، آگ میں شعلے کی مانند ہر شے کسی دوسری شے کی موت سے پیدا ہوتی ہے ،فانی، غیر فانی ہے اور غیر فانی، فانی ہے ایک شے کی زندگی دوسری شے کی موت ہے۔ وہ نفرت کا سخت عادی تھا اور جمہوریت کا مخالف تھا ،اپنے ہم شہریوں سے متعلق وہ کہتا ہے ’’افیسیوں کے حق میں یہی بہتر ہے کہ تمام بڑے خودکشی کرلیں اور شہر کو نوجوانوں کے سپرد کریں (ایضاً حوالہ بالا صفحہ 78) اس پر بھی یہی تبصرہ مناسب ہے کہ یہ ماحول کا اثر تھا جہاں تناسخ کے ساتھ بڑوں سے نفرت کی فضا قائم تھی، اس نظریہ کے آخری قاعدہ پر آج بھی بہت سے یورپی ممالک میں معمول بہا ہے کہ بزرگوں کیلئے اولڈ ہوم تیار کئے جاتے ہیں اور وہی ان کی آخری آرام گاہ تصور کیے جاتے ہیں، یہ وہی نظریہ ہے جس پر گزشتہ صفحات میں بحث کی گئی ہے کہ عقل مفاد خویش کی اسیر ہے ،جب ماں باپ سے مفادات کی امید منقطع ہوجاتی ہے تو پھر ان عقلمندوں کی نظر میں وہ کباڑ کے ماحول سے زیادہ قیمت نہیں رکھتے۔
آج کا یورپ وامریکہ تینوں براعظم عورت کے حقوق کے ضرورت سے زیادہ داعی ومحرک ہیں جبکہ ان کا ایک مایہ ناز عقلمند ’’جان لاک‘‘ خواتین اور غریب لوگوں کو شہریت کے حقوق سے خارج قرار دیتا ہے۔ (فلسفۂ مغرب کی تاریخ 725)
غرض اگر اس طرح کی مثالیں جمع کی جائیں تو ایک ضخیم جلد بن جائے گی‘ اس لئے مختصراً اتنی سی بات کو کافی سمجھ لینا چاہیے کہ انسان اپنے دور کے حالات اور ماحول کے اثرات کا قیدی ہوتا ہے۔ آج کی دنیا میں بھی اس کی بے شمار مثالیں پائی جاتی ہیں، ہمارے پڑوس میں ایسے ممالک ہیں جہاں ماحول کے زیر اثر بہت سے ارباب عقل کے افکار ونظریات کا محور عامیانہ سوچ ہے ،کوئی ہر قسم کے جانوروں کو بغیر ذبح کھانے کے پرزور حامی ہیں تو کوئی حلال گائے کے کھانے کے بھی خلاف ہیں۔
جب یورپ میں بادشاہت کا دور دورہ تھا تو ارباب عقل ودانش بادشاہت کو بادشاہوں کا موروثی واجبی حق گردانتے تھے مگر جب حالات تبدیل ہوگئے اور عوام نے بادشاہت کو مسترد کردیا تو اب وہاں کے اہل عقل نے جمہوریت کے حق میں دلائل کے انبار لگادیئے۔
جس طرح ایک فقیر اور معذور آدمی اپنے علاقے اور جائے پیدائش میں رہنے بسنے پر مجبور ہوتا ہے، وہ اس سے نکلنے کو غلطی سمجھتا ہے جبکہ امیر اور ہمت والا شخص دوسرے علاقوں کے اسفار اور بیرون ممالک کے دورے کرتا رہتا ہے اور جس طرح زمین کی کشش ثقل سے نکلنے کے لئے خلائی جہاز کی کم ازکم رفتار فی سیکنڈ سات میل یعنی گیارہ کلو میٹر ہونی چاہیے ورنہ وہ کبھی بھی خلا کا سفر نہیں کرسکے گا۔ بعینہ اسی طرح گندے ماحول کی گرفت سے نکلنے کے لئے بڑی ہمت، ذہانت، عقلمندی کے علاوہ سماوی دین حق اور غیب کی رہنمائی درکار ہے ورنہ انسان ہمیشہ زمانے کے حوادث سے بننے والے حالات کے ساتھ چلنے کا محتاج رہے گا۔
آج کی دنیا میں اس کی ایک چھوٹی سی مثال اسلامی حدود کی ہے چونکہ دور حاضر میں مسلمانوں کے ہاتھوں میں کوئی چیز اپنی نہیں رہی ،اس کی زبان، ثقافت، تعلیم وتہذیب اور صنعت وتجارت سے لے کر تخت حکومت اور سیاست تک ہر چیز یورپ وامریکہ سے آتی ہے حتیٰ کہ ہماری سوچ بھی وہاں سے درآمد کی جاتی ہے، اس لئے ہمارے ملکی بھائیوں کو ایک دوسرے کا قتل عام تو خوشی سے قبول ہے لیکن اسلامی حدود میں سے کوئی ایک بھی ان کے لئے قابل قبول نہیں، ہمارے ارباب اختیار اور ارباب عقل اس پر تقریباً متفق ہیں کہ یہ وحشیانہ سزائیں ہیں اس لئے یہ قابل نفاذ نہیں، اگر صرف ایک شہر کراچی میں سالانہ کم ازکم پندرہ سو لوگ قتل کئے جاتے ہوں تو وہ کوئی وحشیت نہیں بلکہ جمہوریت کی برکت سے ایک مبارک عمل ہے لیکن شرعی حدود کا نفاذ ملک کے لئے اور قوم کے لئے تباہی ہے اور حد یہ کہ اب ارباب عقل سزائے موت کو سرے سے ختم کرنے کے لئے سرگرم ومتحرک ہوگئے ہیں۔
ان ارباب عقل نے کبھی ٹھنڈے دماغ سے نہیں سوچا کہ ہم یہ باتیں لاشعوری میں کررہے ہیں یا کسی کی ایما پر؟ ارے عقلمندو! یہ سزائیں اگر وحشیانہ ہیں تو وحشی لوگوں کے لئے ہیں نا، کسی شریف انسان اور بے ضرر آدمی کے لئے تو نہیں ہیں، اسلام کا فلسفہ یہ ہے کہ ایک کو لٹکائو ! سب کو بچائو!
دراصل بات پھر وہیں جاتی ہے کہ یہ لوگ مفاد خویش کے اسیران ہیں جبکہ اسلام کی نظر مفاد عامہ پر رہتی ہے، جو لوگ حدود کے خلاف پروپیگنڈا کررہے ہیں وہ اس لئے کہ اگر حدودکی برکات دنیا نے دیکھ لی تو اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا دور شروع ہوجائے گا اور جدید تیز ترین مواصلاتی دور میں اسلام تیزی سے پھیلے گا، کیونکہ جب ہندوستان اور دوسرے مفتوحہ ممالک میں اسلامی حدود اور عدل وانصاف کی مثالیں قائم ہوئیں تو غیر مسلموں نے اپنے اپنے مذاہب ترک کرکے اسلام کو سینے سے لگادیا، آج ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک میں مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد کہاں سے آئی؟ کیا یہ سب عرب ہیں، کیا ان کو زبردستی مسلمان بنایا گیا ہے؟ نہیں نہیں ہرگز نہیں بلکہ یہ اسلامی فلسفہ کو غور سے پڑھنے سے اخلاقاً مجبور ہوکر اسلام کو خوشی سے قبول کرنے والوں کی نسلیں ہیں۔
دراصل سزائے موت، قتل وغارت گری اور فساد معاشرے کے سیل رواں کے آگے ایک بند ہے اگر اس ڈیم کو مسمار کیا گیا تو پھر قتل عام کے سیلاب کے آگے کوئی رکاوٹ نہیں رہے گی، اس طرح وہ گھر گھر داخل ہوکر تباہی مچائے گا لیکن ان عقلمندوں کی عقلیں عمومی پروپیگنڈوں کی زد میں آچکی ہیں اور بری طرح پھنس چکی ہیں، ممکن ہے کہ جب موجودہ حالات حد سے زیادہ متجاوز ہوجائیں گے تو پھر یہی ارباب عقل بجائے ماورائے عدالت قتل کرنے کے قانونی راستہ پر آجائیں لیکن اس وقت تک ناقابل تلافی نقصان ہوچکا ہوگا۔

Please follow and like us:

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا. ضرورت کے کھیتوں ک* نشان لگا دیا گیا ہے