فرض شناسی اور حقوق کی ادائیگی:
اس سے پہلے کہ فرض اور حقوق شناسی پر بحث کی جائے اسلام اور عقل کے تقاضوں اور ہر ایک کے مشن کو اجاگر کرنا مناسب ہے پس عقل کا دائرہ کار انتہائی محدود اور خود غرض پر مبنی ہے جبکہ اسلام کا دائرہ عمل انتہائی وسیع اور خیر خواہی پر قائم ہے۔
ارباب عقل اس بات کو مان چکے ہیں کہ عقل کی نظر مفاد خویش کے گرد گھومتی ہے گو کہ عقول کے تفاوت کی وجہ سے ہر ایک کا دائرہ کار مختلف ہوسکتا ہے لیکن مجموعی طور پر عقل کے سوچنے کا محور خود غرضی ہی ہے خواہ بالواسطہ ہو یا بلاواسطہ۔
اکثر لوگ عقل کی نظر سے غافل ہوتے ہیں اور اسی بنا پر وہ دھوکہ کھاجاتے ہیں۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال وہ تجربہ ہے جس کے لیے ٹی وی پر چند مرد وخواتین میں آلو چھیلنے کا مقابلہ کرانا تھا کہ کون پہلے آلو چھیلنے کا مقابلہ جیتے گا؟ چنانچہ عورتوں نے پوچھا کہ اس کا فائدہ کیا ہوگا؟ اور جب جواب نفی میں ملا تو انہوں نے مقابلہ میں شرکت سے انکار کردیا، چونکہ مغرب کی ہمہ وقت یہ کوشش ہوتی ہے کہ اسلام کے اصول کو غلط ثابت کیا جائے اس لئے اس کا سرسری تجزیہ کرکے بادی النظر کے مطابق یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ عورتیں بمقابلہ مردوں کے زیادہ ہوشیار، سنجیدہ اور عقلمند ہوتی ہیں جبکہ حقیقت کچھ اس طرح ہے کہ انسان کے اندر کافی ساری صلاحیتیں ودیعت کی گئی ہیں اور یہ صلاحیتیں آزمائشوں، محنتوں اور مشکلات پیش آنے کی صورت میں ہی بڑھ سکتی ہیں ‘اگر کسی کے سامنے زندگی بھر میں کبھی بھی کوئی مشکل پیش نہ آئے تو وہ مشکل کے حل کا تصور بھی نہیں کرتا، انسانی ترقی کا سارا راز حادثات، مشکلات اور امتحانات میں ہے اور یہ مقصد جب ہی پورا ہوگا جب استعداد آزمانے کا میدان ہوگا چنانچہ مردوں کے سامنے یہ حقیقت تھی کہ آلو چھیلنے کے مقابلہ سے ہماری صلاحیتیوں کا اندازہ ہوجائے گا اس لئے ان کے ذہن میں وہ سوال نہیں اٹھا جو عورتوں کے ذہن میں جنم لے چکا تھا۔
آپ اس مثال سے اندازہ لگاسکتے ہیں کہ مقابلہ کی اس دعوت پر مردوں اور عورتوں کا ردعمل یکساں نہیں تھا کیونکہ عورت کی عقل بمقابلہ مرد کے عموماً کم ہوتی ہے اس بنا پر عورت اپنی ذات کی حد تک سوچتی ہے یا پھر زیادہ سے زیادہ اپنی اولاد کی حد تک سوچتی ہے، ہاں اگر اس کا فائدہ کسی غیر سے وابستہ ہو تو پھر اس غیر کا بھی حسب ضرورت خیال رکھتی ہے، چنانچہ عورت نہیں چاہتی ہے کہ اس کا شوہر دوسری شادی کرلے کیونکہ ایسا ہونے کی صورت میں اس کے مفادات پر زد پڑتی ہے البتہ اگر اسے طلاق کی دھمکی دی جائے تو پھر وہ بادل ناخواستہ خوشی کا اظہار کرتی ہے۔
چونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کو یہ منظور تھا کہ عورت گھر ہی میں رہے، اس لئے اللہ نے اس کے اندر عقل کی مقدار کم رکھی تاکہ وہ گھر کے ماحول کے اندر ہی سوچتی رہے۔
مردوں میں عموماً اگرچہ عقل بنسبت عورتوں کے زیادہ ہوتی ہے اور یہاں عام عقول سے ہی بحث کرنا ملحوظ ہے ورنہ بعض مرد عورتوں سے کمتر درعقل ہوتے ہیں جبکہ بعض عورتیں عام مردوں سے بھی زیادہ عقل مند ہوتی ہیں لیکن یہ ہمارا موضوع بحث نہیں ہے، یہاں صرف عقل کے عمل اور سوچنے کا دائرہ بتانا مقصود ہے۔
چنانچہ غور کرنے سے بآسانی معلوم ہوگا کہ مرد حضرات کی عقل بھی مفاد خویش کے گرد چکر لگاتی رہتی ہے وہ ہر کام میں اپنا فائدہ اور ضرورت تلاش کرتے ہیں، مثلاً جب آپ کسی شخص سے کہتے ہیں کہ تم نے جھوٹ بولا ہے تو اس کا جواب ہوگا مجھے جھوٹ بولنے سے کیا فائدہ ملتا،مجھے جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت تھی؟۔
آپ اندازہ لگائیں کہ وہ شخص جھوٹ کی نفی کے لئے دو دلیلیں دیتا ہے اور دونوں کا مقصد ایک ہی ہے یعنی فائدہ کا حصول اور ضرورت کو پورا کرنا ۔
یہ ممکن ہے بلکہ واقع بھی ہے کہ بظاہر ایک شخص اپنی ذاتی اغراض سے آگے بڑھ کر دوسروں کے فائدے کے امور بھی سرانجام دیتا ہے جیسا کہ مشاہدہ عام ہے کہ بے شمار لوگ رفاہی کاموں، فلاحی اداروں، این جی اوز اور سیاست میں حصہ لیتے ہیں اور یہ اپنی خدمت کے بجائے انسانیت کی خدمت ہے لیکن اس پر بنظر غائر غور کرنے کی ضرورت ہے، بایں طور کہ جو لوگ ایسے میدانوں میں سرگرم عمل رہتے ہیں اور وہ اپنی ذات کے مفادات سے بالاتر ہوکر محض جذبۂ دیگر کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں کیا ایسے کاموں میں بھی مفاد خویش ملحوظ ہوتا ہے؟۔
اس کا آسان حل اور جواب یہ ہے کہ اگر کسی ڈاکٹر کو ایسا دیکھا گیا ہو جو محض عقل کی بنا پر لوگوں کا علاج کرتا ہو اور ان سے کسی طرح مفادات حاصل نہ کرتا ہو ‘اس نے علاج ومعالجہ کو پیشہ نہ بنایا ہو بلکہ وہ دوسرے ذریعے سے مثلاً موچی کا کام کرکے کماتا ہو اور مفت میں لوگوں کا علاج کرتا ہو، اس کو نہ کسی ادارے سے تنخواہ ملتی ہو، نہ شہرت اس کے پیش نظر ہو اور نہ کوئی دیگر غرض تو تب ہمارا سابقہ ضابطہ ٹوٹ جائے گا لیکن میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ آج تک اس کی کوئی مثال پیش نہیں کی جاسکتی، اسی طرح کسی سیاست دان یا کسی فلاحی ادارے میں کام کرنے والے کی مثال بھی پیش نہیں کی جاسکتی ہے کہ کوئی سیاست دان بغیر شہرت کے لالچ کے بغیر ذاتی مفادات کے اور بغیر طلب عزت کے محض فضول ملک وملت اور قوم کی خدمات سرانجام دیتا ہو اور اس عمل وجذبہ کو عقل پر مبنی قرار دیتا ہو ایسا ہونا ممکن نہیں، آخر ایک شخص اپنا محبوب مال کیوں کسی کو دے؟ اپنا وقت کیوں دوسروں کے لیے وقف کرے اور اپنی محنت ومشقت کیوں ضائع کرے؟ اگر ایسا ممکن ہوتا تو دنیا میں کوئی جھگڑا نہ ہوتا آخر یہ لڑایاں مفادات کی خاطر ہی تو ہوتی ہیں!
اسی عقل نے سرمایہ دارانہ نظام کو بھی جنم دیا ہے اور اسی عقل نے کمیونزم واشتراکیت کو بھی حوصلہ دیا ہے، اس کی وجہ سے بھی بے شمار لوگ مرے ہیں اور اس کی وجہ سے بھی بے تحاشا انسانوں کی زندگیوں کے چراغ گل ہوچکے ہیں۔
اس کے برعکس اسلام کی تعلیمات کے مطابق عقل کے دائرہ ادراک، طرز عمل اور طرز سوچ سے وسیع تر میدان انسانی ہمدردی بلکہ مخلوق کی خیر خواہی کا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنے ذاتی مفادات سے آگے بڑھ کر دوسروں کی خیر خواہی کے جذبہ کے تحت ان سے نیک سلوک کرے، ان کی خدمت کرے ان سے خیر خواہی کا ثبوت دے تو اس جذبہ وسلوک پر اسے ثواب ملے گا جس کا بدلہ اور عملی نمونہ جنت ہے۔ اسلام اس بات کا درس دیتا ہے کہ بحیثیت مسلمان اگر وہ دوسروں کے نفع کا سامان کرے گا تو اس کا رب اس سے راضی ہوگا وہ اللہ کی مخلوق پر رحم کرے گا تو اللہ اس پر رحم کرے گا، وہ دوسروں کا تھوڑا سا دکھ دور کرے گا تو اللہ قیامت کے دن اس کو بڑی مصیبت سے نجات دے گا، اگر وہ اپنے مفادات پر دوسروں کے مفادات مقدم کرے گا تو اللہ اس کو جنت میں پہلے داخل کرے گا، اگر وہ اپنی ذات اور ذاتی مفادات کے بجائے دوسروں کے مفادات کیلئے کام کرے گا تو اللہ اس کو ایسے منافع وفوائد سے نوازے گا جو نہ اس نے کبھی سوچے ہوں گے اور نہ ہی ان کے بارے میں سنا ہوگا اگر وہ دوسروں کی عزت کا خیال رکھے گا تو اللہ اس کو دائمی عزت عطا کرے گا، اگر وہ اپنی دنیوی زندگی اللہ کی مخلوق کی فلاح وبہبود کیلئے وقف کرے گا تو اللہ اس کی اُخروی اور ابدی زندگی خوشیوں سے بھردے گا ، اگر وہ دوسروں کو روحانی صاف پانی پلائے گا تو اسے آب کوثر اور دیگر مشروبات پلائے جائیں گے۔
یہ ہے وہ مشن اور تقاضا جو عقل کے چھوٹے سے دائرہ کے مقابلہ میں لامحدود ہے عقل کی رو سے آدمی اپنے پانچ فٹ کے قد کے بارے میں سوچتا ہے، عورت سارا سارا دن بلکہ ساری زندگی اپنے زیادہ تر وسائل میک اپ پر خرچ کرتی ہے، مرد اپنے عیش کی فکر کرتا ہے لیکن اسلام میں یہ تصور آگے لے جایا جاتا ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جس احرام میں طواف کیا اس میں بارہ پیوند لگے ہوئے تھے۔ آپؓ نے فرمایا اگر میں چاہوں تو تم سے اچھا لباس زیب تن کرسکتا ہوں، تم سے اچھی سواری رکھ سکتا ہوں، تم سے اچھا کھانا کھاسکتا ہوں لیکن میں نے یہ چیزیں آخرت کے لئے چھوڑ رکھی ہیں، اسی پر قیاس کرکے ایک صحیح مسلمان کی زندگی لباس اور مشن کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
آمد برسر مقصد:
بہت سارے یورپی ارباب عقل کے نزدیک جن کے سرخیل قدیم یونانی ٹولہ ہے اور جسے میکانیکی نظریہ بھی کہتے ہیں اور کارل مارکس کے ہاں عقل سے ماوراء کوئی دلیل اور برہاں نہیں‘ اس لیے یہ لوگ موت کے مابعد کے بارے میں نہیں سوچتے اس لئے ان کے ہاں فرض اور حقوق کا تصور الگ ہے اور اسلام میں فرض وحقوق کا تصور ومفہوم الگ ہے‘ بحیثیت عاقل آدمی کا فرض وہ ہے جس سے اس کا مفاد خویش وابستہ ہو، مثلاً نوکری میں گڑبڑ کرنا مفاد کے خلاف ہونے کی وجہ سے غلط ہے‘ بروقت ڈیوٹی پر جانا اور اپنے ذمہ کا کام پورا کرنا اور سلیقہ سے سرانجام دینا اس کے ذمہ پر واجبی حق ہے‘ وہ جو کچھ کمائے صرف خود استعمال کرے اور اپنے بیوی بچوں پر خرچ کرے کیونکہ اس سے اس کے ذاتی مفادات وابستہ ہیں اگر اس کے ماں باپ بوڑھے ہوچکے ہیں اور ان سے مزید مفادات کی توقع نہیں کی جاسکتی تو ان سے نیک سلوک کرنا نہ فرض ہے اور نہ کوئی واجبی حق ہے‘ بحیثیت شہری ملکی قوانین کا احترام بھی ذاتی سکون کا سامان ہے اس لئے ان قوانین کا خیال رکھنا اور احترام کرنا چاہیے۔ علاوہ ازیں اس کے ذمہ کوئی حق نہیں نہ یتیم کو کھلانا لازمی ہے اور نہ ہی غریبوں‘ ناکسوں‘ بیوائوں اور فلاحی ورفاہی اداروں میں دینا لازمی ہے نہ اس کے ذمہ مسجد بنانا واجب ہے اور نہ ہی مدرسہ بنانا ناگزیر ہے حکومت کو ٹیکس دینا اگر مجبوری ہو تو بموجب جبر بادل ناخواستہ ادا کرنا پڑے گا۔
ازروئے عقل اگر حکمران اچھی حکومت کریں گے اور رعایا کو خوش رکھیں گے تو اس کا نقد فائدہ ان کو تخت حکومت پر سکون سے براجمان رہنے کی صورت میں ملے گا‘ اس لیے اچھی حکومت کرنا رعایا کو سہولت دینا‘ انصاف دینا اور عدل کرنا بالواسطہ ذاتی مفادات کا حصہ ہیں‘ کسی بھی ادارے کی اچھی کارکردگی اس کی مقبولیت میں اضافہ کرتی ہے اس لیے عقل کا تقاضا ہے کہ اداروں کا کردار بے داغ ہو‘ ملاوٹ سے ان کی اشیا پاک ہوں‘ صحافی سچ بولیں اور سچ لکھیں تاکہ لوگوں کا اعتماد بڑھتا رہے اور ادارے کو براہ راست اور ادارے کے مالک اور ورکروں کو بالواسطہ فوائد ملتے رہے۔
اسلام کا نقطۂ نظر عقل کے خلاف یا منافی نہ سمجھا جائے کیونکہ اسلام میں لغو اور بے فائدہ کام کی کبھی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی‘ بلکہ اسلام ہمیشہ فائدہ ہی اپنانے کی تلقین کرتا ہے‘ تاہم اسلام عقل سے جمپ لگواتا ہے اور اس کی صلاحیت اور بینائی کو وسعت دیتا ہے‘ عقل سرنگوں اور جھک کر دیکھتی ہے قریب کی اشیاء پر نظر رکھتی ہے اور حقیر کو اپناتی ہے جبکہ اسلام اسے دور دیکھنے‘ سر اٹھاکر دیکھنے اور غیر معمولی بلکہ لامحدود فوائد اپنانے کی تعلیم دیتا ہے‘ اسلام عقل سے کہتا ہے کہ اگر تم نے اپنی صلاحیتوں کو مزید بڑھایا اور بجائے فانی وحقیر منافع کے جاویدانی اور لافانی فوائد پر نظر کی تو تیری کامیابی لامحدود زندگی میں یقینی ہوجائے گی۔ یہ مادی فوائد تو مادہ کی محدود زندگی اور دنیا کی قلیل مدت تک رہتے ہیں جبکہ اخروی فوائد لامحدود زندگی میں سدا رہتے ہیں۔مادی منافع بمقابلہ روحانی مفادات کے قطرہ بمقابلہ سمندر سے بھی قلیل وحقیر ہیں۔
غرض اسلام عقل کو معطل نہیں کرتا بلکہ اسے مزید فعال بناتا اور صحیح طور پر استعمال کرتا ہے‘ اسی بناء پر اسلام کی نظر میں فرض اور حقوق کا دائرہ بہت زیادہ وسیع ہے‘ اسلام دنیا وآخرت دونوں کو سامنے رکھ کر حقوق کو دیکھتا ہے جبکہ عقل صرف موت تک زندگی وفوائد پر نظر رکھتی ہے۔
پس اسلام کی نظر میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے احکامات جاننا اور ان پر عمل کرنا اولین فرض اور حق ہے کہ وہ خالق ومالک ہے‘ پھر مخلوق میں سے خیر خواہی کے جذبہ اور ہمدردی کے سایہ میں جو زیادہ مستحق ‘ زیادہ محتاج اور زیادہ قریب ہے اس کا حق اولین درجہ رکھتا ہے‘ اس ضابطہ میں تمام انسان اور ساری مخلوق شامل ہے‘ اگر کوئی بلی بھی پیاس سے دوچار ہے تو اس کو پانی پلانا لازم ہے یا کوئی کتا پیاسا ہے تو اس کا پیاس بجھانا ضروری ہے اور اگر آپ پر کسی نے اعتماد کیا ہے خواہ نوکر بناکر یا امین بناکر تو اس سے وفا کرنا اور اس کی توقعات پر پورا اترنا فرض ہے خواہ وہ امیر ہو یا فقیر سب برابر ہیں۔