فلاحی معاشرہ اور فلاحی ریاست کی اصطلاح یورپ میں جمہوریت کی ترویج وتنفیذ کے بعد بتدریج معروف ومشہور رہی ہے۔ ورنہ ملوکیت اور بادشاہت کے ادوار اور زمانوں میں انسان بے چارے کو اس کے بارے میں اگر علم تھا بھی، تو خواہش کے باوجود اسے فلاحی معاشرے کے ثمرات اور فیوض میسر ہونا تصور سے باہر تھا۔ فلاح (Welfare)کا اصل اور حقیقی تصور اللہ تعالیٰ کے رسولوں نے بنی نوع انسان کو اپنے عمل وکردار کے ذریعے دیا۔
تاریخ انسانی میں جہاں کہیں جابر وقاہر بادشاہوں کی حکومت رہی ہے وہاں انسانیت پر ظلم وستم ہی ہوتا رہا ہے۔ جب کبھی زمین پر کہیں بھی ظلم وبربریت انتہا تک پہنچنے لگتا تو اللہ تعالیٰ اپنی اشرف المخلوقات پر رحم فرماتے ہوئے کوئی نبی و رسول بھیجتا۔ جیسا کہ فرعون کے دست بردسے بنی اسرائیل کو نکالنے کے لیے موسیٰ علیہ السلام بھیجے گئے۔
انبیاء کرام میں سے بعض نے اپنی دعوت وتبلیغ اور اپنے کردار واخلاق سے فلاحی معاشرے کے خدوخال واضح فرمائے اور بعض کو اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق عطا فرمائی کہ عملی صورت میں فلاحی ریاست قائم کرکے انسانی تاریخ میں کامیاب معاشرے کے افراد کے کردار کو ہمیشہ کے لیے امر کردیا۔ تاریخ اور انسانی معاشروںمیں ’’آج بھی ہر کمالے راز والے اور ہر فرعون را موسیٰؑ‘‘ کی مثال بیان کی جاتی ہے، اسی طرح حضرت دائود علیہ السلام اور حضرت سلیمانؑ کی قائم کردہ ریاستیں اور حکومتیں فلاحی معاشروں کی اعلیٰ ترین مثالیں رہی ہیں۔
اور پھر جب انسان کے ہاتھوں ’’خشکی اور سمندروںمیں فساد برپا ہوا‘‘ تو اللہ تعالیٰ نے خاتم النبیینﷺ کی بعثت فرماکر قیامت تک بنی نوع انسان کے سامنے وہ اصول اور احکام وقوانین نازل فرمائے جس کی عملی صورت مدینہ طیبہ کی مدنی ریاست کی صورت میں بے نظیر مثال کے طور پر سامنے آئی۔
جناب رسول اللہ ﷺ اور خلفائے راشدین کے مبارک ادوار میں انسانی تاریخ کا جو معاشرہ قائم ہوا وہ فلاحی معاشروں میں سرفہرست ٹھہرا۔ فلاح کے لفظی معنی کامیابی کے ہیں اور اس کامیابی کے حصول کے لیے ریاست اور معاشرے کا فلاحی ہونا لازمی ہے۔
فلاح (کامیابی) کی دو قسمیں ہیں۔ ایک دنیاوی کامیابی اور دوسری دنیوی واخروی دونوں قسم کی کامیابیوں سے تعبیر ہے۔ اسلام میں صحیح عقائد اور تقویٰ وعمل کا انجام ’’فلاح‘‘ بیان ہوا ہے، اسلامی تعلیمات کے مطابق اصل فلاح وکامیابی سے مراد آخرت میں رضائے الٰہی اور اس کی رحمت ومغفرت کا حصول ہے۔ ہاں اس کے ساتھ دنیا میں بھی خوشحالی اور سعادت وکامرانی نصیب ہوجائے تو سونے پہ سہاگہ اور سبحان اللہ ۔ ورنہ اصل فلاح آخرت کی فلاح ہے یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں اور دیگر مذاہب اور معاشروں کے عوام کے ہاں فلاح اور فلاحی معاشرے کے فکر وتصور میں بنیادی فرق ہے۔
آج کے عالمی تہذیبوں پر مشتمل معاشروں میں فوز وفلاح کا حصول علماء اسلام کی رہنمائی اور کردار کے بغیرممکن نہیں۔ اس لیے آج کے اس کمپلیکس دور میں علماء اسلام کا فرض ہے کہ وہ مغربی فلسفہ تہذیب ومعاشرہ کا گہرا مطالعہ کرکے قرآن وحدیث کی روشنی میں آج کے دور کے لیے اسلامی فلاحی ریاست اور معاشرے کے قیام کے لیے ٹھوس علمی بنیادوںپر اپنے عوام کی رہنمائی کریں۔ ارشاد ربانی ہے کہ ’’تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو بھلائی کی طرف بلائے اور نیک کاموںکا حکم دے اور برے کاموں سے روکے اور یہی لوگ فلاح (کامیابی) ونجات پانے والے ہیں‘‘۔
فلاح اور کامیابی کی طرف لوگوںکوبلانے والی جماعت علماء کی ہے۔ آج اگرچہ عالم اسلام میں صحیح معنوں میں کوئی اسلامی فلاحی ریاست نہیں ہے، ہاں درجہ بندی کے لحاظ سے بعض اسلامی ممالک کی معاشرتی، سماجی اور معاشی حالت بعض سے بہتر ہے۔ اگرچہ یہ بات بھی آج تشریح طلب ہے کہ آج کے دور میں اسلامی فلاحی ریاست سے کیا مراد ہے ، کیا سعودی عرب ،ترکی، پاکستان، ایران اور اسی طرح دیگر اسلامی ممالک فلاحی ریاستیں ہیں؟ میرے خیال میں اس حوالے سے ماہرین عمرانیات وسیاست کا جواب مختلف نہ ہوگا۔ کیونکہ آج اسلامی ریاستوں میں سے کسی ایک میں بھی آئیڈیل صورت حال موجود نہیں ہے۔ لیکن اگر ہم تھوڑی دیر کے لیے زیادہ مثالی ریاست کا تصور پس پشت ڈال دیںتو پاکستان جیسے ملک میں جسکا قیام ہی اسلامک ویلفیئر اسٹیٹ ‘‘ ہی کا مرہون منت ہے۔ اگر عوام کو مثالی (آئیڈیل) سہولتیں دینا ممکن نہیں تو کم ازکم معاشرتی اور سماجی لحاظ سے عوام کو مصیبت میں ڈالنے والی بعض رسوم ورواج پر قانون سازی کے ذریعے پابندی تو لگوائی جاسکتی ہے۔
اگرچہ پاکستان میں قانون سازی کی کمی نہیں بلکہ نفاذ قانون کا فقدان معاشرتی بگاڑ میں زیادہ کردار ادا کرتا ہے۔ اس وقت دیگر بہت ساری معاشرتی خرابیوں اور بگاڑ کے ساتھ ایک بڑی خرابی ہمارے شادی بیاہ کے معاملات میں رونما ہوچکی ہے۔ حالانکہ اسلامی تعلیمات کی رو سے سب سے آسان کام نکاح کا انعقاد اور عمل ہے، پاکستان میں جس چیز نے اس اہم مقدس اور ضروری دینی عمل کو مشکل بنادیا ہے وہ غیر اسلامی رسوم ورواج ہیں۔ پاکستان میں لاکھوں لڑکیاں جہیز، زیورات اور مصنوعی دھوم دھام کے سبب شادی ونکاح کی عمر سے گزرچکی ہیں۔ اس سے جو معاشرتی خرابیاں جنم لیتی ہیں وہ ایک تحقیق طلب کام ہے۔
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کے لیے دو خاندانوں اور نکاح میں بندھنے والے دو افراد (مرد،عورت) کی رضامندی بنیادی چیز بتائی ہے۔ کفو یعنی عقیدے، تعلیم، دولت، قدوقامت اور نسب وغیرہ کو بھی اہمیت حاصل ہے لیکن جہیز، برآت، دلہا میاںکو کار، بیٹی کو پلاٹ یا مکان اور ولیمہ پر لاکھوں روپے خرچ کرنا کسی طرح بھی مستحسن کام نہیں ہے۔
جہیز وبرآت کے لوازمات ہمارے ہاں ہندو معاشرے کی باقیات ہیں، ہندومت میں بیٹی کے لیے وراثت میں کوئی حصہ نہیں، اس کے علاوہ بیٹی کو بوجھ سمجھا جاتا ہے اس لیے اس سے برأت (نجات) حاصل کرنے کے لیے شادی کے موقع پر کچھ دے دلاکر رخصت کردیا جاتا ہے۔ اسلام نے تو عورت کو باپ اور خاوند دونوں کے ہاں وراثت میں حصہ دلایا ہے۔ اس کے علاوہ اسلامی تعلیمات کی رُو سے ولیمہ اور جہیز (اگر یہ زیورات اور کپڑوں) کی صورت میں ہو تو یہ دلہا میاں کے ذمے ہے۔ حضرت علیؓ نے اپنی زرہ چار درہم میں بیچ کر دو درہم میں کچھ گھریلو استعمال کی چیزیں اور دو میں ولیمہ کا انتظام کیا گیا۔ اللہ اللہ خیر سلا۔
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے جہیز پر پابندی کا قانون لانے کا عندیہ دیکر بہت مثبت اور دور رس معاشرتی اثرات مرتب کرنے والی بات کی ہے۔ انہوں نے علماء پر بھی زور دیا ہے کہ فلاحی معاشرے کے قیام میں وہ اپنا کردار ادا کریں۔ وزیر اعلیٰ چاہیں تو صوبے کے چیدہ چیدہ علماء، دانشوروں اور زندگی کے دیگر شعبوں کے نمائندہ لوگوں کی ایک روزہ کانفرنس کا انعقاد کرائیں تاکہ اس میں مذکورہ قانون سازی کے حوالے سے علماء کی آراء سامنے آسکیں اور ساتھ ہی علماء کو ہدف دیا جائے کہ جمعہ کے خطبات میں ان تمام رسوم کی بیخ کنی کے لیے وعظ وتقاریر کا انتظام کریں جو غیر اسلامی ہیں اور معاشرے کے بگاڑ میں مضر اثرات کی حامل ہیں۔ ویسے بھی علماء کا فرض ہے کہ خطبات میں اور عام مجالس میں اور اپنے اپنے محلوں میں عوام کی دینی رہنمائی کے لیے حکمت وموعظت کے ساتھ دعوت وتبلیغ کا کام تیز کریں۔ اسکولوں میں قرآن کریم ناظرہ کے لازم کرنے کا اہتمام کیا جائے ،علماء کو ایک موقع میسر آرہا ہے کہ نئی نسل کو قرآن کریم کی تعلیمات سے آراستہ کرواکر فلاحی معاشرے کے قیام کے لیے نئی نسل کی جماعتیں تیار کریں۔
فلاحی معاشرے کے قیام میں علماء کا کردار
Please follow and like us: