ہمارا ایمان ہے کہ قرآن کریم اللہ پاک کا پاک کلام ہے، یہ کلام پاک اللہ تعالیٰ کا قیامت تک زندہ معجزہ کے طور پر زندہ رہے گا۔ یہ وہی کلام مجید ہے جو آج سے تقریباً1437برس قبل جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا۔ دنیا کے سارے باشعور لوگ اس کا مطالعہ کرنے کے بعد اس کے منِ جانب اللہ ہونے کے قائل ہو ہی جاتے ہیں اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ لوگ اس کا مطالعہ کرتے رہیں گے اور اس کے اعجاز کے سامنے سر تسلیم خم کرتے رہیں گے…
مکہ المکرمہ میں آج سے چودہ سو برس پہلے جو معاشرہ قائم تھا، اس میں بڑے بڑے ضدی، ہٹ دھرم اور انا وعناد کے حامل سرداروں نے انسانیت کو یرغمال بناکر رکھ تھا۔ یہ سردار لوگوں کو قرآن کریم کے معجزانہ الفاظ کو سننے نہیں دیتے تھے۔ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم اور آپﷺ پر ایمان لانے والے سابقون الاولون کو حرم پاک میں نماز پڑھنے نہیں دیتے تھے کہ اس طرح مبادا حرم پاک میں موجود عوام الناس قرآن کریم کی آیات مبارکہ سن کر متاثر نہ ہوجائیں۔ ایک سردار نے تو اپنی ایک باندی کو اس کام پر لگایا تھا کہ کہیں بھی اور جب کبھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی کو قرآن کریم سنائیں تو تم وہاں شور مچائو اور گانا گائو یا کنستر میں پتھر ڈال کر بجائو تاکہ وہاں موجود لوگ قرآن کریم کی آیات وتعلیمات کو دل جمعی کے ساتھ نہ سن سکیں۔
اسی قرآن کریم کی آیات کریمہ کو جب مکہ المکرمہ کے سب سے طاقتور اور ایک ہی بات کے حامل سلیم الفطرت نوجوان عمرؓ بن خطاب نے جب بہت طیش کی حالت میں بھی سنا تو ان کا اندرون تبدیل ہوئے بغیر نہ رہا۔وہ شخص جو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا کام ختم کرنے کی نیت سے نکلے تھے، دار ارقم میں سرور عالمﷺ کے دستِ مقدس پر ایسا ایمان لائے اور ایسے کارنامے سرانجام دیئے کہ ایک مغربی اسکالر منٹگمری واٹ نے لکھا کہ ’’اگر ایک عمرؓ اور آتے تو ساری دنیا اسلام کے سایۂ عافیت میں آجاتی‘‘۔
لبید جیسے شاعر نے جن کے قصائد کبھی خانہ کعبہ پر آویزاں کئے جاتے، جب قرآن کریم کی آیات کریمہ کا مطالعہ کیا تو شاعری ترک کردی ۔ کئی ایک ادب شناسوں نے ترکِ شاعری کا سبب پوچھا تو بہت مختصر لیکن بلیغ جواب دیتے ہوئے کہا ’’ابعد القرآن‘‘ یعنی کیا قرآن کریم کی موجودگی میں بھی کسی دوسرے کلام یعنی شاعری وغیرہ کی ضرورت رہ جاتی ہے۔
برصغیر ہند انڈونیشیا، ملائشیا اور دنیا کے بہت سارے دیگر خطوں اور علاقوں میں لوگوں نے قرآن کریم کی تعلیمات کو حاملینِ قرآن کے سراپا قرآن اخلاقیات سے متاثر ہوکر اسلام قبول کیا اور برصغیر میں باب الاسلام سندھ میں محمدؒ بن قاسم فاتح کی حیثیت سے آیا۔ مفتوح آبادی کے دلوں میں فاتحین کے خلاف عموماً معاندانہ جذبات ہوتے ہیں لیکن مسلمان فاتحین جب تک قرآن کریم کی تعلیمات کا عملی مجسمہ اور نمونہ بن کر دنیا میں آگے بڑھتے رہے۔ وہاں کے عوام ان کا استقبال کرتے رہے ۔ا سپین میں وہاں کے بادشاہوں نے اپنے کرپٹ آمرانہ نظام حکومت کے ذریعے عوام کا بھرکس نکال کر رکھ دیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ طارق بن زیاد کے ساتھ وہاں کے لوگ مل کر اپنے بادشاہوں کے خلاف لڑے اور یوں پورا اسپین مسلمانوں کے ایسے قبضہ میں آیا کہ سات صدیاں بیت گئیں۔ لیکن جب مسلمان نے قرآن وسنت کی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر مادی مفادات کی چھینا جھپٹی میں آپس میں لڑ لڑ کر خانہ جنگیوں کا شکار ہوئے اور وہاں کے عوام کو عدل وانصاف جان مال آبرو کی حفاظت اور امن وامان کی ضمانت دینے میں ناکام ہوتے چلے گئے تو سپین کی سرزمین ان کے پائوں سے کھسکنے لگی اور لاکھوں مسلمان قتل ہوئے اور باقی ماندہ بہت ذلت کے ساتھ اسپین سے ہمیشہ کے لئے نکلے۔ اس عمل کو ایک دنیا نے دیکھا اور دنیا کی تاریخ میں یہ صفحہ ایک ’’سانحۂ عظیم‘‘ کے طور پر محفوط ہوگیا۔
علامہ اقبالؒ کے دلِ حساس کو اس واقعہ نے اتنا حزیں کردیا کہ اپنی شاعری میں کئی مقامات پر اس کا بہت پراثر انداز میں ذکر کیا…’’شکوہ‘‘ میں اسپین سے مسلمانوں کے اخراج کی طرف ان الفاظ میں اشارہ کیا تھا۔
بت صنم خانوں میں کہتے ہیں مسلمان گئے
ہے خوشی ان کو کہ کعبے کے نگہبان گئے
منزل دہر سے اونٹوں کے حدی خوان گئے
اپنی بغلوں میں دبائے ہوئے قرآن گئے
خلافت عباسیہ کو چنگیز اور ہلاکو کے ہاتھوں ان ہی اسباب کی بناء پر تباہی وبربادی کا منہ دیکھنا پڑا۔ لیکن ہلاکوجیسے سفاک حکمران وفاتح کی اولاد نے جب بعض اللہ والوں کی زبانوں سے قرآن کریم کی تعلیمات اخذ کیں تو قبلائی خان اور اس کی نسلیں حلقہ بگوش اسلام ہوئیں۔
اسی طرح خلافت عثمانیہ کو برطانیہ نے لارنس آف عریبیا کے ذریعے عرب وعجم میں تقسیم کرکے ختم کردیا لیکن ان ہی رابطوں کے ذریعے قرآن کریم کے نسخے اور تفاسیر یورپ پہنچ گئے۔ جہاں استشراق کے نام سے مسیحی ویہودی اسکالروں کی ایک کھیپ تیار ہوئی جو اسلام سے لوگوں بالخصوص یورپ کو بدظن رکھنے کی مہم چلارہی تھی لیکن قرآن کریم کا معجزہ ملاحظہ کیجیے کہ ’’آپ اپنے دام میں صیاد آگیا‘‘ کے مصداق تھا سن کار لائن ، مارٹن لینگز (ابوبکر سراج الدین) محمد اسد، مریم جمیلہ اور مریم ریڈلے اور بہت سارے دیگر قرآن کریم کے بارے میں ایسی کتب لکھ کر گئے کہ آج کے یورپ پر ان کا بہت گہرا اثر ہے اور آج یورپ میں قرآن کریم کو صاحبان علم ودانش اللہ تعالیٰ کی کتاب (منزل من اللہ) ماننے پر مجبور ہیں۔ اگرچہ کچھ ایسے بھی ہیں جو قرآن کریم کو (نعوذ باللہ من ذالک) جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصنیف قرار دیتے ہیں جو سراسر بے بنیاد ہے لیکن وہ بھی یہ بات تسلیم کرنے پر دلائل کے پیش نظر مجبور ہیں کہ قرآن کریم اسی صورت میں آج بھی ہے جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں نازل ہوا تھا۔
لیکن اب دنیا میں ایک نیا دور ہے۔ گلوبل ویلج ہے، آج انسانی تہذیب کو ایک نیا معرکہ درپیش ہے۔ ایک طرف اس سمٹتی سمٹاتی دنیا کے لئے نئے ورلڈ آرڈر کے لئے کوششیں جاری ہیں جبکہ دوسری طرف اس کو دہشت گردی سے سخت خطرات لاحق ہیں۔
انسانی عقل وذہن سے وجود میں آئی تہذیب میں جمہوریت، لبرل ازم کیپٹل ازم اور سائنسی تخلیقات وایجادات نقطۂ مراج کو چھوچکی ہیں اور دوسری طرف ایشیا اور افریقہ میں بعض ایسے خطے ہیں جہاں لاعلمی، جہالت اور علم ودانش کے فقدان کے سبب ایک ایسی کشمکش برپا ہے جس نے ایک ہنگامہ برپا کر رکھا ہے۔
گزشتہ تیس چالیس برس سے اسلام اور قرآن وسنت کے خلاف ایک ایسا معرکہ پروان چڑھا ہے جس میں ایک فریق کی طرف سے عناد، تعصب اور مادی مفادات کے سبب قرآن کریم کی تعلیمات کو جاہلیت قدیم کی طرح انسانیت سے چھپایا جارہا ہے اور نتیجتاًجدید جاہلیت ایک عجیب انداز میں سر اٹھارہی ہے جبکہ دوسری طرف قرآن کریم کی تعلیمات اور احادیث مبارکہ کو ان کے صحیح تناظر ،مقام اور پس منظر کے ساتھ پیش کرنے میں کوتاہی کا ارتکاب ہوا ہے، لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ علماء اسلام آج کی نئی دنیاکے لئے قرآن کریم اور سنت مبارکہ کو انسانیت کے لئے سراپا رحمت وہدایت تعلیمات کو دعوت واسلوب کے نئے لہجہ میں منظم انداز میں مسجد ومنبر ومحراب سے پیش کیا جائے۔ قوی امید ہے کہ پاکستان اور عالم اسلام کو درپیش مسائل حل ہونے میں ایک فیصلہ کن کردار ادا کرنے میں بہت آسانی رہے گی۔
بھارت اور بدقسمتی سے افغانستان (جو ایک مسلم اور پڑوسی ملک ہے،اسلامی دنیا میں قرآن وسنت کی عصری تقاضوں کے مطابق دعوت وتبلیغ کی عدم موجودگی سے ناجائز فائدہ اٹھاکر ہماری نوجوان وبے چین نسل اور اسلامی علوم سے بے خبر لوگوں کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت ہنگامی بنیادوں پر مدارس، مساجد اور منبر ومحراب سے قرآن کریم کی تعلیمات کو ایسے انداز میں علم وعمل کے حامل علماء کے ذریعے عام کرے جس طرح کبھی چودو سو سال قبل ہوا تھا۔ یہ معجز نما آواز نہ صرف عالم اسلام کے نوجوانوں کو متبادل تعمیری بیانیہ فراہم کرے گی بلکہ یورپ، افریقہ اور امریکہ تک لوگوں کے قلوب واذہان کو اپنی گرفت میں لے گی اور یوں اس عالمگیر معاشرے کو عالمگیر تہذیبی اصول وضوابط میسر آئیں گے اور انسانیت سکھ کا سانس لے گی۔