’’قرار داد مقاصد‘‘ کا آئین سے ’’بالاتر دفعہ‘‘ کی حیثیت سے خاتمہ اسلامائزیشن کی دستوری جدوجہد کا راستہ روکنے کے مترادف ہے
جسٹس (ر) نسیم حسن شاہ نے اس کی حیثیت کو متنازع بنایا‘ آئین میں اس کو پھر سے بالاتر دفعہ کی حیثیت دلانے کے لئے مذہبی
’’قرار داد مقاصد‘‘ ایک بار پھر میڈیا میں زیر بحث ہے‘ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب افتخار محمد چودھری نے قرار داد مقاصد کے بارے میں جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کے کردار پر تبصرہ کرتے ہوئے چند ریمارکس دیے ہیں جن پر ’’قرار داد مقاصد ‘‘ پھر سے گفتگو کا عنوان بن گئی ہے‘ قرار داد مقاصد پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے ملک کے دستور کی بنیاد اور اساس کے طور پر منظور کی تھی اور شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ نے دستور ساز اسمبلی کے منتخب ممبر کی حیثیت سے اس کی تیاری اورمنظوری میں اہم کردار ادا کیا تھا‘ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم اور تحریک پاکستان کے ممتاز رہنما لیاقت علی خان مرحوم کی پیش کردہ اس قرار داد کا متن درج ذیل ہے۔
’’اللہ تعالیٰ ہی کل کائنات کا بلا شرکت غیرے حاکم مطلق ہے۔ اس نے جمہور کے ذریعے مملکت پاکستان کو جو اختیار سونپا ہے وہ اس کی مقررہ حدود کے اندر مقدس امانت کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔
٭مجلس دستور ساز نے جو جمہور پاکستان کی نمائندہ ہے آزاد وخود مختار پاکستان کے لئے ایک دستور مرتب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
٭جس کی رو سے مملکت اپنے اختیارات واقتدار کو جمہور کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کرے گی۔
٭جس کی رو سے اسلام کے جمہوریت‘ حریت‘ مساوات‘ رواداری اور عدل عمرانی کے اصولوں کا پورا اتباع کیا جائے گا۔
٭جس کی رو سے مسلمانوں کو اس قابل بنادیا جائے گا کہ وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی کو قرآن وسنت میں درج اسلامی تعلیمات ومقتضیات کے مطابق ترتیب دے سکیں۔
٭جس کی رو سے اس امر کا قرار واقعی اہتمام کیا جائے گا کہ اقلیتیں‘ اپنے مذاہب پر عقیدہ رکھنے‘ عمل کرنے اور اپنی ثقافتوں کو ترقی دینے کیلئے آزاد ہوں۔
٭جس کی رو سے وہ علاقے جو اب تک پاکستان میں داخل یا شامل ہوجائیں‘ ایک وفاق بنائیں گے‘ جس کے صوبوں کو مقررہ اختیارات واقتدار کی حد تک خود مختاری حاصل ہوگی۔
٭جس کی رو سے بنیادی حقوق کی ضمانت دی جائے گی اور ان حقوق میں جہاں تک قانون واخلاق اجازت دیں‘ مساوات‘ حیثیت ومواقع کی نظر میں برابری‘ عمرانی‘ اقتصادی اور سیاسی انصاف‘ اظہار خیال‘ عقیدہ‘ دین‘ عبادت اور جماعت کی آزادی شامل ہوگی۔
٭جس کی رو سے اقلیتوں اور پسماندہ وپست طبقات کے جائز حقوق کے تحفظ کا قرار واقعی انتظام کیا جائے گا۔
٭جس کی رو سے نظام عدل گستری کی آزادی پوری طرح محفوظ ہوگی۔
٭جس کی رو سے وفاق کے علاقوں کی صیانت‘ آزادی اور جملہ حقوق‘ بشمول خشکی وتری اور فضا پر صیانت کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔
تاکہ اہل پاکستان فلاح وبہبود کی منزل پاسکیں اور اقوام عالم کی صف میں اپنا جائز وممتاز مقام حاصل کریں اور امن عالم اور بنی نوع انسان کی ترقی وخوشحالی کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کرسکیں‘‘۔
جبکہ لیاقت علی خان مرحوم نے دستور ساز اسمبلی میں یہ قرار داد مقاصد پیش کرتے ہوئے جو خطاب کیا تھا اس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ
’’آپ کو یاد ہوگا کہ قائد اعظمؒ اور مسلم لیگ کے دیگر رہنمائوں نے ہمیشہ واشگاف الفاظ میں اعلان کیا کہ اسلامیان ہند نے پاکستان کا مطالبہ صرف اس لیے کیا تھا کہ مسلمان علیحدہ رہن سہن اور نظام حیات کے حامل ہیں۔ ان کے ہاں اسلام (صرف) خدا اور بندے کے تعلق کا معاملہ نہیں جس کا امور مملکت سے کوئی واسطہ نہ ہو‘ یہ امر قطعی ہے کہ اسلام سماجی رویے کے معاملے میں واضح ہدایات کی پیروی کا حکم دیتا ہے۔ اسلام محض شخصی عقیدے اور عمل کا مذہب نہیںبلکہ یہ ایک مکمل دستور حیات اور لائحہ عمل فراہم کرتا ہے‘‘۔
اس قرار داد کے ذریعہ ہمیشہ کیلئے یہ بات طے پاگئی کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کا اعلان کرتے ہوئے ریاست اور حکومت کے اختیارات کو اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کی ضمانت دی گئی ہے۔
مارچ 1949ء میں منظور کی جانے والی یہ قرار داد ملک کے ہر دستور کا حصہ رہی ہے مگر اسے دستور کے دیباچے کا درجہ دیا جاتا رہا ہے تاہم جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے اپنے دور حکومت میں جو دستوری ترامیم کیں اور جن کی عوام کی منتخب پارلیمنٹ نے باقاعدہ منظوری دی‘ ان ترامیم میں سے ایک ترمیم کے ذریعے قرار داد مقاصد کو دستور کے دیباچے سے نکال کر اس کے باقاعدہ اور واجب العمل حصے میں شامل کردیا جو قرار داد مقاصد کو دستور میں اس کا صحیح مقام دینے کی ایک سنجیدہ کوشش تھی اور اس سے دستور اور قانون کے ان حصوں پر عدالتی نظرثانی کی راہ ہموار ہوگئی جو اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کے اصول پر قرآن وسنت کے منافی تھے۔لیکن یہ صورت حال زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی اور جب لاہور ہائی کورٹ نے ایک کیس میں ایک قدم اور بڑھاتے ہوئے یہ قرار دیا کہ قرار داد مقاصد کو دستور پاکستان میں ’’بالاتر دفعہ‘‘ کی حیثیت حاصل ہے اس لیے دستور میں اگر کوئی دفعہ اس سے متصادم ہے تو اس پر ’’قرار داد مقاصد‘‘ کی بالاتری ہوگی اور قرآن وسنت سے متصادم کوئی دستوری شق قائم نہیں رہ سکے گی تو اس وقت سپریم کورٹ آف پاکستان نے لاہور ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ قبول کرنے سے انکار کردیا اور اس وقت کے چیف جسٹس جناب جسٹس (ر) نسیم حسن شاہ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے فل بنچ نے فیصلہ صادر کیا کہ قرار داد مقاصد کی حیثیت دستور میں بالاتر دفعہ کی نہیں بلکہ دوسری دفعات کے ساتھ برابر کی دفعہ کی ہے اور اگر دستور کوئی شق اس سے متصادم ہے تو اس کا فیصلہ قرار داد مقاصد کی بنیاد پر نہیں کیا جائے گا بلکہ پارلیمنٹ یا عدالت عظمیٰ ہی اس کے بارے میں فیصلے کی مجاز ہوگی۔اس طرح جسٹس نسیم حسن شاہ کے قائم کردہ بنچ نے ’’قرار داد مقاصد‘‘ کو غیر مؤثر بنادیا۔
جسٹس نسیم حسن شاہ اور سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے ’’قرار داد مقاصد‘‘ کی بنیاد پر عدالت کے ذریعہ قانون سازی کے عمل کو بریک لگ گئی اور اس حوالہ سے ہم ایک بار پھر زیرو پوائنٹ پر واپس چلے گئے ۔حال ہی میں اٹھارویں آئینی ترمیمی بل کے موقع پر پارلیمنٹ کی مقرر کردہ دستوری ترامیم کمیٹی نے پورے دستور پر نظرثانی کا بیڑہ اٹھایا تو ایک بار پھر یہ تجویز سامنے آئی کہ قرار داد مقاصد کو موجودہ پوزیشن سے واپس لے جاکر پھر سے آئین کی بالاتر دفعہ کی حیثیت دی جائے لیکن پارلیمنٹ اور مذکورہ کمیٹی نے اس تجویز کو آگے نہ بڑھنے دیا اور پارلیمنٹ کی منظور کردہ آئینی ترامیم میں اس کو شامل نہ کیا جاسکا۔
’’قرار داد مقاصد‘‘ پر سیکولر حلقوں اور ان کے بین الاقوامی پشت پناہوں کی بے چینی اور اضطراب کا اظہار اس کی منظوری کے بعد سے ہی مسلسل جاری ہے جو مختلف حوالوں سے وقتاً فوقتاً سامنے آتا رہتا ہے۔
’’قرار داد مقاصد‘‘ اس وقت عجیب مخمصے کی حالت میں ملک کے دینی حلقوں اور سیکولر طبقوں کے درمیان موضوع بحث نہیں ہوتی ہے۔ رائے عامہ کی اکثریت کو یہ شکایت ہے کہ اسے دستور میں بالاتر دفعہ کی حیثیت کیوں حاصل نہیں اور اس کی بنیاد پر قانون سازی کا عمل کیوں رکا ہوا ہے؟ جبکہ سیکولر حلقوں کا شکوہ یہ ہے کہ یہ سرے سے دستور میں موجود کیوں ہے اور اس کی بنیاد پر ملک میں اسلامائزیشن اور قانون سازی کی باتیںکیوں کی جاتی ہیں؟
ہمیں یقین ہے کہ دینی حلقے اور رائے عامہ تمام تر بین الاقوامی دبائو کے باوجود جس طرح اب تک ’’قرار داد مقاصد‘‘ کے تحفظ میںکامیاب ہیں کسی روز اس کی بنیاد پر ملک میں اسلامائزیشن اور قانون سازی کے عمل میں پیش رفت کا بھی یقیناً آغاز کرسکیں گی۔مگر اس کے لئے دینی جماعتوں کو پارلیمنٹ کے اندر بہت مؤثر آواز اٹھانی ہوگی‘ علامہ شبیر احمد عثمانی نے تن تنہا پارلیمنٹ میں ’’قرار داد مقاصد‘‘ منظور کرالی تھی مگر اب اتنی بڑی تعداد میں دینی رہنما اور لیڈر قانون ساز اسمبلی میں موجود ہوکر بھی اس کو مؤثر نہ بناسکیں اور آئین میں بالاتر دفعہ کی حیثیت نہ دلاسکیں تو سب کے لئے لمحہ فکریہ ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ عوامی سطح پر بھی اور میڈیا کے محاذ پر بھی سب کو کوششیں تیز کرنی چاہئیں۔تاکہ ملک کو اس کی نظریاتی اساس مل سکے اور اسلامائزیشن کی آئینی ودستوری جدوجہد نتیجہ خیز ہوسکے ‘ہماری سیاسی مذہبی جماعتوں کو شریعت کے نفاذ کیلئے ’’قرار داد مقاصد‘‘ کو دستوری جدوجہد کا نقطہ آغاز بناکر اور اس پر مسلسل محنت کرنی چاہئے۔