قیامت اور میدان حشر

تمام تعریفیں اس مالک کائنات کے لیے ہیں جس نے ہمیں انسان اور مسلمان پیدا فرمایا اور ہمیں اپنے دین کی سمجھ کے لیے کچھ وقت نکالنے کی توفیق دی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے کہ اللہ رب العزت جس کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتے ہیں اسے اپنے دین کی سمجھ عطا فرماتے ہیں۔ اللہ رب العزت کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں اپنے دین کی سمجھ کے لیے منتخب فرمایا۔ 
مسلمان کے لیے جن عقائد پر ایمان لانا ضروری ہے ان میں سے ایک اہم عقیدہ ـــ’’قیامت کا وقوع ‘‘ہے۔علامہ طحاویؒ عقائد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
ہم مرنے کے بعد اٹھائے جانے پر ، اعمال کے بدلے پر ، قیامت کے واقع ہونے پر ، حساب کتاب کے پیش کیے جانے پر ، ثواب و عقاب پر اور میزان پر ایمان لاتے ہیں۔ (عقیدۃ الطحاویہ:26)
ہر مسلمان کے لیے اس بات پر ایمان لانا ضروری ہے کہ قیامت قائم ہوگی اور سب دوبارہ زندہ کرکے میدان حشر میں جمع کیے جائیں گے جہاں میزان عدل قائم ہوگا اور سب کا حساب وکتاب ہوگا اور اسی کی بنیاد پر سزا و جزا کا فیصلہ ہوگا ۔ 
قیامت کا وقوع سلسلۂ فنا کا آخری مرحلہ ہے جو اجتماعی طور پر واقع ہوگااور سب کچھ ایک ہی جھٹکے میں ختم ہوجائے گا۔ جس دن یہ عمل سرانجام پائے گا اسے یوم قیامت کہتے ہیں۔ قیام کا وقوع قطعی و یقینی ہے اور یہ کب آئے گی اس کا علم صرف اللہ رب العزت کو ہے اس کے علاوہ کوئی نہیں جانتا کہ قیامت کب آئے گی۔
وَأَنَّ ا لسَّاعَۃَ ء َاتِیَۃٌ لَّا رَیْبَ فِیہَا وَأَنَّ اللَّہَ یَبْعَثُ مَنْ فِی لْقُبُورِ(الحج:7)
اور بے شک قیامت آنے والی ہے اس میں ذرا شبہ نہیں اور اللہ تعالیٰ (قیامت میں) قبر والوں کو دوبارہ پیدا کر دے گا۔
احادیث مبارکہ میں قیامت کے بارے میں کچھ نشانیاں بتا دی ہیں کہ جب یہ نشانیاں ظاہر ہوں تو سمجھ لیں قیامت کا وقت قریب آگیا ہے۔علامات قیامت دو طرح کی ہیں ۔
( 1) علامات صغری
احادیث کی روشنی میں چند اہم علامات صغری یہ ہیں:دین پر عمل کرنا ہاتھ میں آگ لینے جیسا ہوگا، لوگ سخت دل ہوجائیں گے،ہر کام میں بخل عام ہوجائے گا،سود عام ہوجائے گا اور حلال و حرام کی تمیز ختم ہوجائے گی، مساجدزیادہ اور نمازی کم ہوجائیں گے، اچانک اموات زیادہ ہوجائیں گی، زلزلے کثرت سے آئیں گے،زنا و شراب عام ہوجائے گی، یہود ونصاریٰ کی نقل عام ہوجائے گی، نااہل لوگ حکمران بن جائیں گے، مسلمان آپس میں لڑیں گے، گھٹیا لوگ مالدار بن جائیں گے، وقت تیز رفتاری سے گذرے گا، جھوٹ عام ہوجائے گا،کافر مسلمانوں پر ٹوٹ پڑیں گے، موت سے نفرت ہوجائے گی، اہل علم دنیا سے اٹھا لیے جائیں گے، ایمانداری ختم ہوجائے گی،اولاد نافرمان ہوگی، عمارتوں پر فخر کیا جائے گا اور ہر گھر میں فتنہ پیدا ہوجائے گا۔ہم اپنے حالات کا جائزہ لیں تو مذکورہ تمام علامات پوری کرنے میں ہم نے کسی قسم کی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
(2) علامات کبریٰ ۔ 
اسی طرح علامات کبری میں دجال کا ظاہر ہونا،ظہور مہدی رضی اللہ عنہ ، نزول عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام ، خروجِ یاجوج ماجوج، دھوئیں کا پیدا ہونا، دابتہ الاض کا نکلنا، آفتاب کا مغرب سے طلوع ہونااور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات۔
قیامت کا ظہور مسلم ہے اور تمام مسلمانوں کے لیے اس بات پر ایمان لانا ضروری ہے ۔ اللہ رب العزت فرماتے ہیں :
وَیَوْمَ یُنفَخُ فِی الصُّورِ فَفَزِعَ مَن فِی السَّمَـٰوَتِ وَمَن فِی الْأَرْضِ إِلَّا مَن شَآء َ اللَّہُ وَکُلٌّ أَتَوْہُ دَاخِرِینَ۔(النمل: 87) اور جس دن صور میں پھونک ماری جائے گی سو جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے سب گھبرا جائیں گے سوائے ان لوگوں کے جن کو اللہ اس گھبراہٹ سے محفوظ رکھنا چاہے اور سب کے سب اسی کے سامنے دبے جھکے رہیں گے۔
اور یہ ایسا خوفناک منظر ہوگا کہ بڑے بڑے پہاڑ بادلوں کی طرح اڑتے پھریں گے۔ ارشاد ربانی ہے:وَتَرَی الْجِبَالَ تَحْسَبُہَا جَامِدَۃً وَہِیَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ صُنْعَ اللَّہِ الَّذِیٓ أَتْقَنَ کُلَّ شَیْء ٍ إِنَّہُ خَبِیرُ بِمَا تَفْعَلُونَ ۔(النمل: 88) اور تم جن پہاڑوں کو دیکھ کر ذرا بھی نہ ہلنے کا گمان کرتے ہو وہ بادلوں کی طرح اڑتے پھریں گے یہ خدا کا کام ہوگا جس نے ہر چیز کو (مناسب انداز پر) مضبوط بنا کر رکھا ہے یہ یقینی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کو تمہارے ہر عمل کی پوری خبر ہے۔
دنیا میں بہت سے لوگ ایسے موجود ہیں جو قیامت اورمرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کا سرے سے انکار کرتے ہیں اور عقل کے ناکام گھوڑے دوڑاتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب انسان مر کے مٹی میں مل جاتا ہے تو اس کے لیے دوبارہ زندہ ہونا کیسے ممکن ہے ؟ایسے ہی افراد کو اللہ رب العزت تنبیہہ فرماتے ہیں :
زَعَمَ الَّذِینَ کَفَرُوٓاْ أَن لَّنْ یُبْعَثُواْ قُلْ بَلَیٰ وَرَبِّی لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ وَذَالِکَ عَلَی اللَّہِ یَسِیرٌ ۔(التغابن:7)
کافر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ہرگز ہرگز دوبارہ زندہ نہ کیے جائیں گے آپ کہہ دیجئے کیوں نہیں؟ واللہ ضروردوبارہ زندہ کیے جاؤ گے پھر جو جو کچھ تم نے کیا ہے تم کو سب جتلادیا جائیگا اوریہ دوبارہ زندہ کرنا اللہ تعالیٰ کے لیے بالکل آسان ہے۔ اور فرمایا :ہَـٰذَا یَوْمُ الْفَصْلِ الَّذِی کُنتُم بِہِ تُکَذِّبُونَ(الصفت:21)یہ وہی فیصلہ کا دن ہے جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے۔
قرآن مجید کی مذکورہ و متعدد دیگر آیات میں قیامت کے وقوع اور قیامت کے منظر کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ جس کا تقاضا ہے کہ ان تمام باتوں پر ایمان لانا ضروری ہے۔ تاکہ انسان کو ہر وقت یہ بات یاد رہے کہ اس کو ایک دن اللہ رب العزت کے سامنے پیش ہونا ہے اور اچھے برے اعمال کا سامنا کرنا ہے۔ 
ایک بار صور پھونکے جانے کے بعد سب کچھ ختم ہوجائے گا اور ایک طویل عرصہ تک فنا کی کیفیت رہے گی اور پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا اور سب دوبارہ زندہ ہو جائیں گے اسی کو بعث بعد الموت کہتے ہیں۔ ارشاد ربانی ہے: ثُمَّ إِنَّکُمْ یَوْمَ الْقِیَـٰمَۃِ تُبْعَثُونَ(المومنون: 16) پھر تم قیامت کے روز دوباہ زندہ کیے جاؤ گے۔دوبارہ زندہ کیے جانے کے بعد سب کو ایک میدان میں جمع کیا جائے گا جہاں پر حساب و کتاب کا عمل شروع ہوگا تاکہ ہر کسی کو اس کے اعمال کا بدلہ دیا جائے۔ قیامت کی طرح بعث بعد الموت پر ایمان لانا بھی ضروری ہے۔
ارشاد ربانی ہے: 
یَوْمَ یَجْمَعُکُمْ لِیَوْمِ الْجَمْعِ ذَلِکَ یَوْمُ التَّغَابُنِ وَمَن یُؤْمِن بِاللَّہِ وَیَعْمَلْ صَالِحًا یُکَفِّرْ عَنْہُ سَیِّـَاتِہِ وَیُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِی مِن تَحْتِہَا الْأَنْہَـٰرُ خَالِدِینَ فِیہَآ أَبَدًا ذَالِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ (التغابن:9) جس دن تم سب کو ایک جمع ہونے کے دن جمع کرے گا یہی دن ہے نفع و نقصان کے تعیین کا، اور جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہوگا اور نیک کا م کرتاہوگا اللہ تعالیٰ اس کے گناہ دور کردے گا اوراس کو جنت کے ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے سے نہریں جاری ہونگی جس میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے ۔اسی طرح فرمایا : وَنَضَعُ الْمَوَازِینَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیَـٰمَۃِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْـًا وَإِن کَانَ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَیْنَا بِہَا وَکَفَیٰ بِنَا حَاسِبِینَ (الانبیاء :47)اور (وہاں) قیامت کے روز ہم میزان عدل قائم کریں گے (اور سب کے اعمال کا وزن کریں گے سو کسی پر اصلاً ظلم نہ ہوگا اور اگر (کسی کا) عمل رائی کے دانہ کے برابر بھی ہوگا تو ہم اس کو (وہاں) حاضر کر دیں گے اور ہم حساب لینے والے کافی ہیں۔ 
ہر انسان کے دائیں اور بائیں دو فرشتے ہیں جو ہر اچھے اور برے اعمال لکھتے رہتے ہیں ان کو کراما کاتبین کہتے ہیں۔ یہ انسان کی ایک ایک لمحے کی رپورٹ بناتے ہیں جو قیامت کے دن انسان کے سامنے رکھی جائے گی اور اس دن زبان نہیں بلکہ اعضا ء بولیں گے کہ اس شخص نے ان اعضاء کو استعمال کرتے ہوئے کیا کیا کارنامے سرانجام دیے، اس وقت کسی قسم کے مکرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰی اَفْوَاہِ ہِمْ وَتُکَلِّمُنَا اَیْدِیْھِمْ وَتَشْہَدُاَرْجُلُہُمْ بِمَاکَانُوْا یَکْسِبُوْنَ(یس:۶۵)آج ہم مہر لگادیں گے ان کے منہ پر اور بولیں گے ہم سے ان کے ہاتھ اور بتلائیں ان کے پاؤں جو وہ کماتے تھے۔
اس کے ساتھ ہی اللہ رب العزت نے بتادیا کہ اس دن کامیابی اور ناکامی کا معیار کیا ہوگا؟ جو نیکیاں لے کر آئیں گے وہ کامیاب اور برائیوں والے ناکام ہوجائیں گے۔ اللہ رب العزت فرماتے ہیں :
وَالْوَزْنُ یَوْمَِذٍ الْحَقُّ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِینُہُ فَأُوْلَـِٰٓکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ۔ وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِینُہُ فَأُوْلَـِٰٓکَ الَّذِیْنَ خَسِرُوٓاْ أَنفُسَہُم بِمَا کَانُواْ بِـَایَـٰتِنَا یَظْلِمُونَ۔(اعراف:8) 
اور اس روز وزن بھی ٹھیک واقع ہوگا پھر جس شخص کا پلّہ بھاری ہوگا سو ایسے لوگ کامیاب ہونگے۔ اور جس شخص کا پلّہ ہلکا ہوگا سو وہ لوگ ہونگے جنہوں نے اپنا نقصان کرلیا بسبب اس کے کہ ہماری آیتوں کی حق تلفی کرتے تھے۔
اسی طرح فرمایا :
مَن جَآء َ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہُ خَیْرٌ مِّنْہَا وَہُم مِّن فَزَعٍ یَوْمَِذٍ ء َامِنُونَ ۔ وَمَن جَآء َ بِالسَّیِّئَۃِ فَکُبَّتْ وُجُوہُہُمْ فِی النَّارِ ہَلْ تُجْزَوْنَ إِلَّا مَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ۔(النمل: 89،90)
جو شخص نیکی (یعنی ایمان) لائے گا سو اس شخص کو اس (نیکی کے اجر) سے بہتر (اجر) ملے گا اور وہ لوگ بڑی گھبراہٹ سے اس روز امن میں رہیں گے۔ اور جو شخص بدی (یعنی کفر و شرک) لائے گا تو وہ لوگ اوندھے منہ آگ میں ڈال دیے جائیں گے اور (ان سے کہا جائے گا کہ) تم کو ان ہی عملوں کی سزا دی جا رہی ہے جو تم (دنیا میں) کیا کرتے تھے۔ 
مذکورہ قرآنی آیات سے بہت اچھی طرح سے واضح ہوجاتا ہے کہ ایک دن ایسا ضرور آئے گا جس دن ہمیں تمام اچھے برے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔ اللہ رب العزت نے ہمیں یہ تمام باتیں اس لیے بتائی ہیں تاکہ ہم اس دنیا میں اچھے اعمال کریں اور برے اعمال سے بچیں اسی میں ہماری کامیابی ہے۔ اگر دنیا میں نیک اعمال کیے ہوں گے تو اللہ رب العزت کے فضل سے کامیاب ہوجائیں گے اور اگر دنیا میں برے اعمال کیے تو آخرت میں ناکامی مقدر بن جائے گی۔ ناکام لوگ پھر اللہ رب العزت سے درخواست کریں گے کہ ہمیں ایک بار دنیا میں لوٹا دے تاکہ ہم نیک عمل کرکے لائیں لیکن اس وقت کسی ندامت و شرمندگی کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ 
یہ عقائد ہم سے تقاضا کرتے ہیں کہ ہم نہ صرف ان پر ایمان لائیں بلکہ ان مواقع پر کامیابی حاصل کرنے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو اپنے لیے عملی نمونہ بناتے ہوئے تمام وہ کام کریں جن سے اللہ رب العزت کی ذات خوش ہوتی ہے اور تمام ان کاموں سے بچیں جن سے اللہ ناراض ہوتا ہے۔
یہ بات اپنی جگہ پر مسلم ہے کہ نجات کے لیے ہمارے نیک اعمال کافی نہیں ہوں گے یقینا ہمیں اللہ رب العزت کے فضل کی ضرورت ہو گی۔ اگر نیک اعمال کیے ہوں گے تو اللہ رب العزت کا فضل بھی میسر ہوسکے گا۔صرف گناہوں کی صورت میں اس فضل سے بھی محروم رہیں گے۔ انسان ہونے کے ناطے اپنی کوتاہیوں پر اللہ رب العزت سے معافی مانگتے رہیں کیونکہ اللہ رب العزت توبہ کرنے والوں کو پسند فرماتے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی توبہ کرنے والے کے بارے میں ارشادفرمایا گناہ سے توبہ کرنے والا ایسے ہی ہے کہ جیسا اس نے گناہ کیا ہی نہ ہو۔ 
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنی زندگیوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کے مطابق اس طرح سے گذاراکہ خود اللہ رب العزت نے اپنی رضامندی کی سند ان کو عطا فرمادی ۔ اس کے باوجود بھی صحابہ کرامؓ آخرت کے معاملے میں ڈرتے رہتے تھے ۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور آخرت میں اپنے رحم و کرم سے ہماری نجات فرمائے۔ آمین ۔

Please follow and like us:

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا. ضرورت کے کھیتوں ک* نشان لگا دیا گیا ہے