لاہور اجتماع اور علمائے دیوبند کا مشترکہ مؤقف

’’ملک بھر کے علماء کا یہ اجتماع عام مسلمانوں کے اس احساس میں برابر کا شریک ہے کہ ہمارا ملک جن گوناگوں مسائل سے دوچار ہے اور اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نفاذ اسلام کے جس عظیم مقصد کے لئے یہ مملکت خداداد حاصل کی گئی اس کی طرف سے مجرمانہ غفلت برتی گئی ہے اور عملاً اسلامی نظام زندگی اور اسلامی نظام عدل کی طرف پیش قدمی کے بجائے ہم اس منزل سے دور ہوتے چلے گئے ہیں۔ اسی کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک بھر کے عوام ہمہ جہتی مسائل کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ملک بھر میں کسی کی جان و مال کا کوئی تحفظ نہیں ہے، قتل و غارت گری اور دہشت گردی سے ہر شخص سہما ہوا ہے اور مجرم دندناتے پھرتے ہیں۔ سرکاری محکموں میں رشوت ستانی اور بدعنوانی کا عفریت ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہا ہے اور عوام کے لئے اپنا جائز حق حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف بن گیا ہے۔ ناقص منصوبہ بندی کے نتیجے میں مہنگائی اور بجلی کی قلت نے عوام کو عذاب میں مبتلا کیا ہوا ہے، جس سے بیروزگاری میں مزید ضافہ ہو رہا ہے۔
دوسری طرف ہمارے ملک کے بہترین وسائل ان عوامی تکلیفوں کو دور کرنے اور ان کے اسباب کا ازالہ کرنے کے بجائے امریکا کی مسلط کی ہوئی جنگ میں امریکی مفادات کے تحفظ کے لئے خرچ ہو رہے ہیں، جبکہ امریکا کی طرف سے ہماری سرحدوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرکے ان پر ڈرون حملوں کا سلسلہ برابر جاری ہے، جن میں ہمارے بے گناہ شہریوں کی بہت بڑی تعداد شہید ہو رہی ہے اور یہ بات واضح ہے کہ امریکا دہشت گردی کیخلاف جنگ کے نام پر جگہ جگہ بے گناہ مسلمانوں کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنا رہا ہے، خود ہمارے شہریوں کے ساتھ امریکا میں بدترین ذلت آمیز سلوک کیا جاتا ہے اور امریکا مسلسل ہمارے بجائے بھارت کو نوازتے رہنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔
اس سب کے باوجود حکومت کی پالیسیوں میں امریکی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ملکی مفادات کو بے دھڑک قربان کیا جا رہا ہے، جب اجتماعی سطح پر مسلمانوں کو اس قسم کے مسائل درپیش ہوں تو اس وقت بطور خاص اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کر کے اس کی نافرمانیوں سے بچا جائے، لیکن ان حالات میں بھی بددینی کو فروغ مل رہا ہے، عریانی و فحاشی پر کوئی روک نہیں، نفاذ شریعت کی پرامن کوششوں کو درخور اعتناہی نہیں سمجھا جاتا۔ ان تمام حالات میں ملک کے درد مند مسلمان سخت بے چینی کا شکار ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایسا دین عطا فرمایا ہے جس میں نہ مایوسی کی کوئی گنجائش ہے اور نہ بے عملی کی، لہٰذا یہ تمام حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ ملک کے ارباب حل و عقد اور عوام ایک دوسرے کو نشانہ ملامت بنانے کے بجائے مل جل کر اپنے طرزعمل میں انقلابی تبدیلیاں لائیں، اس طرح ملک کی کشتی گرداب سے نکل سکتی ہے۔ اسی لئے علمائے کرام کا یہ اجتماع بلایا گیا تھا کہ وہ اس صورتحال پر غور کرکے قرآن و سنت کی روشنی میں وہ طریقے تجویز کریں جو ملک کو اس صورت حال سے نکالنے کے لئے ضروری ہیں، چنانچہ یہ اجتماع متفقہ طور پر سمجھتا ہے کہ مندرجہ ذیل اقدامات ناگزیر ہیں۔
(1) اس بات پر ہمارا ایمان ہے کہ اسلام ہی نے یہ ملک بنایا تھا اور اسلام ہی اسے بچا سکتا ہے، لہٰذا حکومت کا فرض ہے کہ وہ ملک میں اسلامی تعلیمات اور قوانین کو نافذ کرنے کے لئے مؤثر اقدامات کرے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارا دینی فریضہ بھی ہے اور ملک کے آئین کا اہم ترین تقاضا بھی اور اسی کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے ملک میں انتہا پسندی کی تحریکیں اٹھی ہیں۔ اگر ملک نے اس مقصد وجود کی طرف واضح پیش قدمی کی ہوتی تو ملک اس وقت انتہا پسندی کی گرفت میں نہ ہوتا، لہٰذا وقت کا اہم تقاضا ہے کہ پر امن ذرائع سے پوری نیک نیتی کے ساتھ ملک میں نفاذ شریعت کے اقدامات کئے جائیں۔ اس کے لئے اسلامی نظریاتی کونسل اور فیڈرل شریعت کورٹ کو فعال بنا کر ان کی سفارشات اور فیصلوں کے مطابق اپنے قانونی اور سرکاری نظام میں تبدیلیاں بلاتاخیر لائی جائیں اور ملک سے کرپشن، بے راہ روی اور فحاشی و عریانی ختم کرنے کے لئے مؤثر اقدامات کئے جائیں۔
(2) تمام سیاسی اور دینی جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے دوسرے مقاصد پر نفاذ شریعت کے مطالبے کو اولیت دے کر حکومت پر دبائو ڈالیں اور اس کے لئے مؤثر مگر پر امن جدوجہد کا اہتمام کریں اور عوام کا فرض ہے کہ جو جماعتیں اور ادارے اس مقصد کے لئے جدوجہد کررہے ہیں ان کے ساتھ مکمل تعاون کریں۔
(3) اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی کو قرار دیا جا رہا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دہشت گردی نے ملک کو اجاڑنے میں کوئی کسر چھوڑ نہیں رکھی۔ جگہ جگہ خودکش حملوں اور تخریبی کارروائیوں نے ملک کو بدامنی کی آماجگاہ بنایا ہوا ہے، ان تخریبی کارروائیوں کی تمام محب وطن حلقوں کی طرف سے بار بار مذمت کی گئی ہے اور انہیں سراسر ناجائز قرار دیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود یہ کارروائیاں مستقل جاری ہیں، لہٰذا اس صورتحال کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ آخر ملک بھر کی متفقہ مذمت اور فوجی طاقت کے استعمال کے باوجود یہ کارروائیاں کیوں جاری ہیں اور اس کے بنیادی اسباب کیا ہیں؟
ہماری نظر میں اس صورتحال کا بہت بڑا سبب وہ افغان پالیسی ہے جو پرویز مشرف نے غلامانہ ذہنیت کے تحت کسی تحفظ کے بغیر شروع کر دی تھی اور آج تک اسی پر عمل ہوتا چلا آرہا ہے، لہٰذا ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت امریکا نوازی کی اس پالیسی کو ترک کر کے افغانستان کی جنگ سے اپنے آپ کو بالکل الگ کرے اور امریکی افواج کو مدد پہنچانے کے تمام اقدامات سے دستبردار ہو۔
(4) یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حکومت کی غلط پالیسیوں کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم خود اپنے گھر کو آگ لگا بیٹھیں، لہٰذا ہم پورے اعتماد اور دیانت کے ساتھ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان کے موجودہ حالات میں نفاذ شریعت اور ملک کو غیر ملکی تسلط سے نجات دلانے کے لئے پرامن جدوجہد ہی بہترین حکمت عملی اور مسلح جدوجہد شرعی اعتبار سے غلط ہونے کے علاوہ مقاصد کے لئے بھی سخت مضر ہے اور اس کا براہ راست فائدہ ہمارے دشمنوں کو پہنچ رہا ہے، امریکا اسے اس علاقے میں اپنے اثر و رسوخ کو دوام بخشنے کے لئے استعمال کررہا ہے۔ اگر کوئی شخص اخلاص کے ساتھ اسے دین کا تقاضا سمجھتا ہے تو یہ اجتماع اس بات پر اتفاق کرتا ہے کہ ایسے حضرات کو حالات کے تقاضوں اور ضرورتوں سے آگاہ کرکے مثبت کردار کی ادائیگی پر آمادہ کرنے کے لئے ناصحانہ اور خیر خواہانہ روش اختیار کی جائے۔
(5) حکومت اس بات کا احساس کرے کہ اندرونی شورشوں کا پائیدار حل بالآخر پر امن مذاکرات کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ چنانچہ ملک کی پارلیمنٹ نے اس حوالے سے اپنی متفقہ قرار داد میں ایک طرف سابق حکمرانوں کی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرنے اور ڈرون حملوں اور غیر ملکی مداخلت کے بارے میں قومی خود مختاری کے تحفظ پر زور دیا تھا اور دوسری طرف اندرونی شورش کے لئے مذاکرات ہی کا طریقہ تجویز کیا تھا، لیکن پارلیمنٹ کی اس قرار داد کو عملاً بالکل نظر انداز کردیا گیا ہے، لہٰذا حکومت کا فرض ہے کہ وہ اس قرار داد کے مطابق اپنی حکمت عملی کو تبدیل کرکے خانہ جنگی کا خاتمہ کرے۔
(6) تمام مسلمانوں کو یہ سمجھنا چاہئے کہ مشکلات اور مصائب کا اصل حل اللہ تعالیٰ کے قبضۂ قدرت میں ہے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے ساتھ اس کی رحمتیں حاصل نہیں کی جا سکتیں، لہٰذا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور ہرطرح کے گناہوں سے توبہ کرکے رشوت ستانی اور ہرطرح کی حرام آمدنی، بے حیائی اور فحاشی، جھوٹ، غیبت اور دنیوی اغراض کے لئے باہمی جھگڑوں سے پرہیز کریں اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوں، شرعی فرائض کو بجالائیں اور اتباع سنت کا اہتمام کریں۔‘‘

Please follow and like us:

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا. ضرورت کے کھیتوں ک* نشان لگا دیا گیا ہے