اس دنیا میں دو قسم کے سسٹم رائج ہیں ایک وہ ہے جسے لوگ اپنے طور پر بناتے ہیں خواہ اس کا تعلق نظریہ سے ہو یا عمل سے ،مختلف زمانوں اور مختلف علاقوں کی تہذیبوں اور ثقافتوں کے متعلق ہم بخوبی جانتے ہیں کہ کچھ لوگ ایک رسم بناتے ہیں اور پھر اسے فروغ دیتے ہیں کچھ عرصہ بعد یا دور افتادہ علاقہ میں اس رسم ورواج کے اثرات یا تو کم ہوجاتے ہیں یا وہ پہنچ نہیں پاتے اس لئے ما بعد میں اور دور دراز علاقوں میں دوسری رسومات مقبول ہوجاتی ہیں۔ اس طرح یہ سلسلہ ہمیشہ چلتا رہتا ہے عام آدمی اس سسٹم پر بہت مطمئن ہوتا ہے۔
دوسرا سسٹم وہ ہے جو اللہ عزوجل نے اپنے بندوں کے لئے منتخب اور پسند کیا ہے اور لوگوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اسی سسٹم کے مطابق زندگی بسر کریں۔
جو کام انسان اپنے طور پر کرتے ہیں ممکن ہے ان میں بہت سے کام لوگ عقل کی روشنی میں کرتے ہوں چونکہ عقل اللہ عزوجل کی جانب سے بہت بڑی نعمت ہے اور چیزوں کی صحت اور سقم معلوم کرنے کا ایک عمدہ پیمانہ بھی ہے اس لئے ہم اطمینان کرسکتے ہیں کہ جو چیز عقل کی رو سے صحیح معلوم ہوتی ہے وہ درحقیقت بھی صحیح ہوگی، لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بہت سی چیزیں ایسی بھی ہیں جن کے بارے میں خود ارباب عقل اختلاف کرتے ہیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جو عقل کے دائرہ ادراک سے باہر ہیں ورنہ ان میں عقلمندوں کا اختلاف نہ ہوتا۔
دوسری طرف اللہ تبارک وتعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام بھی بھیجے ہیں جنہوں نے لوگوں کو سمجھانے کی بھرپور کوششیں کی ہیں جس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ انسانی عقل انسان کی تمام ضروریات حل کرنے اور تمام مسائل سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ورنہ پھر انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا کوئی فائدہ نہیں رہتا حالانکہ اللہ تبارک وتعالیٰ فضول اور بے فائدہ کام ہرگز نہیں کرتا اور یہی وجہ ہے کہ ان انبیائؑ نے وہ باتیں ہرگز نہیں چھیڑی ہیں جس کے سمجھنے کے لئے عقل کافی ہے مثلاً ۔محسوسات، دنیاوی کام کاج، مشینوں کے بنانے کے طریقے اور تعمیرات وغیرہ جیسی انسانی ضروریات سے انبیاء علیہم السلام نے بحث نہیں کی ہے کیونکہ ان چیزوں کی تعمیر وترقی کے لئے عقل کافی ہے، ہاں البتہ ان اشیاء کے لئے کچھ اصول ضرور بیان کئے ہیں تاکہ ان کے استعمال کو شریعت کے دائرہ کے اندر لایا جاسکے۔
اللہ عزوجل کی بتائی ہوئی باتوں کو شریعت کہتے ہیں جس کا سلسلہ آدم علیہ السلام سے شروع ہوا تھا اور حضرت محمد نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم پر مکمل ہوا لہٰذا اب یوں کہنا چاہیے کہ تمام شریعتیں اسلام کے دائرہ میں داخل ہوکر ایک ہی دین کے نام سے مسمّٰی ہوگئیں جس کا نام ’’اسلام‘‘ ہے۔
اسلام کیا ہے؟ آسان لفظوں میں ہم اسے سلامتی سے تعبیر کرسکتے ہیں جو پامالی اور حق تلفی، ظلم اور عددوان کا بالکل مخالف مفہوم ہے، یعنی خالق کے حقوق کو پورا پورا ادا کرنا اور مخلوق کے حقوق کا پورا پورا خیال رکھنا اسلام کہلاتا ہے۔
چونکہ ہم اپنے طور پر یہ جاننے سے قاصر ہیں کہ خالق کے حقوق کیا کیا ہیں اور مخلوق کے حقوق کیا کیا ہیں؟ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اللہ کے رسولؐ کے بتلائے ہوئے ارشادات کی روشنی میں ان حقوق کے جاننے اور ان پر عمل کرنے کی حتیٰ المقدور کوشش کریں کہ اللہ عزوجل نے کامیابی کو اسی سے منسلک کیا ہے، اللہ نے اپنے نبیﷺ کو کامیابی کے سارے راز بتلائے ہیں اور آپ علیہ السلام نے بغیر کسی بخل کے وہ سب باتیں ہمیں بتلائی ہیں۔
اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ میں ازخود کامیابی کا راستہ تلاش کرلوں گا تو وہ سوائے سعی لاحاصل کے کچھ بھی نہیں پائے گا کامیابی کا واحد راستہ یہی ہے۔ ضرورت صرف اسے سمجھنے کی اور عمل کرنے کی ہے۔
لیکن عموماً ہوتا یہ ہے کہ عام آدمی اپنے ماحول سے جتنا سبق سیکھتا ہے اتنا وہ اپنی عقل سے نہیں سیکھتا اور کم ہی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ماحول کے اثرات سے محفوظ رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے مسلمان یہ جانتے ہوئے کہ یہ کام غلط ہے یا شریعت کے خلاف ہے پھر بھی اس سے بچنے کی کوشش نہیں کرتے کیونکہ وہ ماحول کے اثرات سے اس قدر متاثر ہوتے ہیں کہ ماحول کا ساتھ دینا وہ بہرحال ضروری سمجھتے ہیں۔
ملتیں جب بھی مٹتی ہیں ان کے پیچھے یہی سوچ کار فرما ہوتی ہے کہ جب ماحول بدلتا ہے تو پھر اہل ملت کے معیار بھی بدلنے لگتے ہیں لوگ آہستہ آہستہ نیکی ترک کرنے لگتے ہیں اور ماحول کی برائیوں میں شامل ہوتے رہتے ہیں۔
بالفاظ دیگر ماحول سے ہمارے عمل کا گہرا تعلق ہے جب ماحول اچھا ہوتا ہے تو ہم نیکی کی طرف بڑھنے لگتے ہیں مگر جب حالات نیکی کے خلاف ہوجاتے ہیں تو ہم نیکی کے بجائے بدی کو ترجیح دینے لگتے ہیں، آج کے اعمالِ مسلم میں رشوت ستانی، کرپشن، دھوکہ دہی، جھوٹ بولنا، جھوٹی قسمیں کھانا جیسی چیزیں جزو لاینفک کے طور پر شامل ہوگئی ہیں حتیٰ کہ جب رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ داخل ہوجاتا ہے تب بھی معاشرہ میں چند روز کے علاوہ کوئی واضح تبدیلی نظر نہیں آتی، یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ماحول ہمارے عمل پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے خدانخواستہ اگر حالات اس تیز رفتاری سے آگے بڑھتے چلے گئے تو بعید نہیں کہ ایک وقت ایسا بھی آجائے گا کہ نیکی نام کی کوئی چیز ہمارے معاشرہ میں باقی نہیں رہے گی۔