ہندو بر ادری کے مسائل و مشکلا ت
ملین آبادی کے ملک پاکستان میں اس وقت اقلیتوںکی آبادی 5فیصد ہے جن میں ہندو، سکھ، عیسائی، پارسی اور دیگر مذاہب کے لوگ شامل ہیں۔قائد اعظم نے پاکستان میں غیر مسلموں کو پرامن زندگی کی یقین دہانی کرائی تھی مگر آپ کے انتقال کے بعد بہت سی چیزیں بدل گئیں۔ 1919ء میں قرار داد مقاصد منظور ہوئی، پھر 1956ء سے 1973ء تک آئین بنتے اور ٹوٹتے رہے، اس دوران سیاسی رہنمائوں نے اپنے اپنے مفادات کے لئے اقلیتوں کو مختلف طریقوں سے مطمئن رکھا اور 1973ء کے آئین میں آرٹیکل 88-8 کے تحت مساوی اور بنیادی حقوق کی بات تو کی گئی مگر ملک کا صدر بننے پر پھر بھی کوئی پیش رفت نہ ہوئی۔
اقلیتوں کا کردار اور ہندو کمیونٹی
پاکستان کی ہندو برادری نے قیام پاکستان سے پہلے اور بعد میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ اس وقت بھی کئی بڑے نام۔ تجارت، بزنس، کھیل، قانون وانصاف میں اپنا اپنا کردار ادا کررہے ہیں جن میں رانا بھگوان داس جیسی قد آور شخصیات قابل ذکر ہیں جبکہ زراعت کے شعبے میں بالخصوص سندھ میں اس وقت بھی 50فیصد لوگ اس ملک کی زرعی ترقی کے لئے کوشاں ہیں۔
ہندو برادری کو درپیش چیلنجز
پاکستان میں مساوی بنیادی حقوق ہونے کے باوجود اس وقت بھی ہندو برادری کئی مسائل کا سامنا ہے جن میں (1) شادی بل/پرسنل لاء (2) جبری تبادلے (3) پانچ فیصد کوٹہ پر عملدرآمد (4) تعلیمی نصاب میں قابل غور مواد (5) عبادت گاہوں پر حملے (6) زکوٰۃ فنڈز کا کوئی متبادل نظام نہ ہونا۔(7) غیر مسلموں پر صدر اور وزیر اعظم بننے کی پابندی۔ (8) اسمبلی میں محدود نشستیں۔
مسائل کا حل
اقلیتوں کو درپیش مسائل کا حل عدالتی فیصلے کی روشنی میں واضح ہے جن میں 19جون 2014ء کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کا واضح اور تاریخی فیصلہ شامل ہے جس میں ہندوئوں کی شادی کے بل 5فیصد کوٹے کا نفاذ، عبادت گاہوں کے تحفظ کے لئے خصوصی سیکورٹی فورس کے قیام کے احکامات شامل ہیں مگر ابھی تک اس فیصلے پر بھی نہیں ہوا۔
ہمارے تین بل ابھی تک سندھ اسمبلی میں زیر التواء ہیں جن میں ہندو شادی بل، اقلیتوں کے تحفظ کا بل اور سندھ اقلیتی حقوق کمیشن شامل ہیں۔ مزید براں سندھ اسمبلی کی جانب سے ایک نصاب کے حوالے سے کیے گئے فیصلہ کی ہم تائید وحمایت کرتے ہیں جس میں انہوں نے نصاب سے نفرت انگیز مواد نکالنے اور قائد اعظم محمد علی جناح کی 11اگست کی تقریر کو شامل کیا ہے۔
(3) 2نکاتی ایجنڈے پر مشتمل نیشنل ایکشن پلان میں بھی اقلیتوں کے تحفظ اور نفرت انگیز تقاریر ومواد کے خاتمے کی ایک شق شامل ہے۔
(4) آئین اور ریاستی پالیسیوں کو قائد اعظم کے وژن کے مطابق تشکیل دیا جائے۔
(5) تمام شعبہ جات بشمول فوج میں اقلیتوں کے 5فیصد کوٹے پر عمل درآمد یقینی بنایا جانا چاہیے۔
(6) اسمبلیوں میں زیر التواء تمام بلز پر فوری قانون سازی ہونی چاہیے۔
(7) اکثریت اور اقلیتوں کے درمیان قومی ہم آہنگی کو فروغ دیا جائے۔
(8) تعلیمی نصاب میں مایۂ ناز غیر مسلم شخصیات کی جنہوں نے پاکستان کے لیے قربانیاں دیں ، خدمات کو بھی اجاگر کیا جائے۔
(9) اقلیتوں کے مذہبی تہوار کا جشن قومی سطح پر بھی منایا جائے۔
(10) مختلف شعبوں میں اقلیتوں کو بھی اعلیٰ خدمات پر ایوارڈ سے نوازا جائے۔
(11) بین المذاہب ہم آہنگی کی اشاعت وترویج کے لئے میڈیا کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
نتیجہ
اس عالمی بین المذاہب کانفرنس کے پلیٹ فارم سے دنیا کو یہ پیغام دیا جائے کہ پاکستان میں مذہبی اقلیتیں محفوظ ہیں جو مسائل میں نے ذکر کیے ہیں یہ اندرونی مسائل ہیں۔ وزارت مذہبی امور بھی منظم اقدامات کے تحت اس کانفرنس کے ثمرات معاشرے کے ہر پہلو تک پہنچائیں۔ مفتی ابوہریرہ محی الدین اور ان کی قائم کردہ یونائٹ سے ہمیں امیدیں وابستہ ہیں۔ اتنا بڑا قدم اٹھانا ان کی ہمت ہے، میں وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف صاحب کی خدمات کا بھی اعتراف کرتا ہوں جو اقلیتوں کے مسائل کے لیے ہر جگہ پہنچتے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭
مبر سا ؤ تھ کو نسل برائے اقلیتی امور ممبر سینڑل کمیٹی آل پاکستان مینارٹی الائنس ،چیئر مین ہندو پنچایت حیدرآباد
Please follow and like us: