بسم اللہ الرحمن الرحیم
مسرت کا مقام
میرے لیے یہ نہایت مسرت کا موقع ہے کہ آج میں ملک بھر کے اور دیگر ممالک سے تشریف لانے والے نامور علمائے کرام اور ممتاز اسکالرز کے درمیان موجود ہوں، یہ ہم سب کیلئے بہت بڑا اعزاز ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان علماء اور اسکالرز کی میزبانی کا موقع فراہم کیا۔ میں دنیا بھر سے آنے والے اپنے معزز مہمانوں کو سرزمین پاکستان پر خوش آمدید کہتا ہوں۔
میں ’’مجلس صوت الاسلام پاکستان‘‘ اس کی ذیلی’’ تنظیم صلاح المسلمین‘‘ اور وزارت مذہبی امور کا شکر گزار ہوں جنہوں نے بین الاقوامی سیرت کانفرنس کی اس بابرکت مجلس کا اہتمام کیا اور اس میں مجھے شرکت کا موقع فراہم کیا۔
حالات کا تقاضا
معزز حاضرین! موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ ہم سب اتحاد واتفاق کا مظاہرہ کریں اور اپنے تمام تر فروعی اختلافات کو بھلاکر ملک وقوم اور ملت اسلامیہ کے وسیع تر مفاد میں ایک دوسرے کی طاقت بنیں اور محبت واخوت سے تمام مسائل اور مشکلات کا سامنا کریں۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمارے پاس اتحاد واتفاق قائم کرنے کا سب سے مضبوط راستہ اور وسیلہ موجود ہے اور وہ ہے سیرت النبی ﷺ اور قران مجید۔
نبی کریمؐ کی سیرت سرچشمہ ہدایت ہے
بلاشبہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک ذات مسلمانوں کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کیلئے ہدایت کا سرچشمہ ہے، مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں فخر ہے کہ رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کامل اور مکمل صورت میں ہمارے پاس محفوظ ہے اور یہ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی بابرکت سیرت ہی ہے، جس سے ہر شعبہ ہائے زندگی کے افراد اپنی زندگی گزارنے کے اصول نہایت آسانی سے حاصل کرسکتے ہیں۔ آج ہمیں اپنے محبوب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی کو مشعل راہ بنانے اور اس سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے اور مجھے یقین ہے کہ جیسے جیسے ہم سیرت پاک سے راہنمائی حاصل کرکے اپنی زندگی تبدیل کرتے جائیں گے، ہمارا معاشرہ خیر اور بھلائی کا مرکز بنتا چلا جائے گا۔
چند دن پہلے اسلام آباد میں ایک بہت ہی افسوسناک واقعہ رونما ہوا، جس میں حملہ آوروں نے وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور شہباز بھٹی کی جان لے لی، ان لوگوں نے مسلمانوں اور مسیحیوں کے درمیان تعلقات کو نقصان پہنچانے اور دنیا میں پاکستان کے وقار کو مجروح کرنے کی کوشش کی۔ میں ان عناصر کو سخت تنبیہ کرتا ہوں کہ وہ ایسے بزدلانہ واقعات سے کبھی بھی اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے، کیونکہ ہمارے ملک کی مسیحی برادری بڑی محب وطن اور وہ ملک کی حفاظت کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کیلئے ہروقت تیار ہے۔
دین اسلام اقلیتوں کے حقوق کا محافظ ہے
میں یہاں یہ بات کرنا چاہتا ہوں کہ دین اسلام اور پاکستان کے آئین میں اقلیتوں کو تمام حقوق اور مکمل آزادی حاصل ہے۔ ہمارے پرچم کا سفید حصہ اقلیتوں کی واضح طور پر نمائندگی کرتا ہے جس کا تصور ہمارے عظیم قائد محمد علی جناح نے دیا تھا۔ ہمیں اپنے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی رواداری اور مذہبی ہم آہنگی کی اس عظیم مثال کو نہیں بھولنا چاہئے، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران کے ایک مسیحی وفد کی مہمان نوازی خود کی اور انہیں اپنا ذاتی مہمان بنایا، انہیں مسجد نبوی میں رہنے کی جگہ اور اپنی عبادت کرنے کی اجازت دی۔ یہ عظیم مثال ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ اس موقع پر مشکوٰۃ شریف سے دو احادیث بیان کرنا چاہتا ہوں جن کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’تمام مخلوق اللہ تعالیٰ کا کنبہ ہے، مخلوق میں اللہ کے نزدیک بہترین وہ ہے کہ جو اس کنبے سے احسان کرے۔ وہ مسلمان جو لوگوں سے مل جل کر رہتا ہے اور ان کی ایذاء پر صبر کرتا ہے اس مسلمان سے افضل ہے جو ان کے ساتھ مل جل کر نہیں رہتا اور ان کی ایذاء پر صبر نہیں کرتا‘‘۔
تعلیمات نبوی کے فروغ میں علماء کرام کی ذمہ داری
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اتنی کامل ہے کہ آج بھی کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھے سیرۃ مطہرہ سے اپنے لئے کوئی راہنمائی نہیں ملی۔ ایک نہایت فکر انگیز اور قابل توجہ امر یہ بھی ہے کہ سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور نبی رحمت کے مبارک تعلیمات سے دور ہونے اور سیرت کا علم نہ رکھنے کی وجہ سے ہمارے نوجوانوں کی زندگی میں شدت پسندی اور عدم برداشت کا رجحان پروان چڑھ رہا ہے، اس مشکل صورتحال میں ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہمارے علمائے کرام اور دانشور حضرات بطور عالم اور دینی اسکالرز اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں۔ معاشرے خصوصاً نوجوانوں کی راہنمائی کیلئے سیرۃ مطہرہ کی تعلیمات کو فروغ دینے کی جدوجہد کریں اور مسلم نوجوانوں کو سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنانے کی دعوت دیں، وہ معاشرے کو تحمل وبرداشت، رواداری، محبت واخوت، علم وعمل سمیت ان تمام پاکیزہ صفات سے روشناس کرانے کی کوشش کریں جن پر ہمارے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں پہلا اسلامی معاشرہ قائم فرمایا تھا۔
سیرۃ کو اپناکر ہم دنیا کیلئے رول ماڈل بن سکتے ہیں
میرا کامل یقین ہے کہ اگر امت کے نوجوان سیرت پاک کو اپنی زندگی میں اپنالے تو نہ صرف یہ کہ ہماری تمام مشکلات ختم ہو جائیں گی، بلکہ ان مبارک تعلیمات کے ذریعے ایک ایسا فلاحی معاشرہ بھی تشکیل پائے گا جو نہ صرف امت مسلمہ کیلئے بلکہ پوری دنیا کیلئے ایک رول ماڈل بنے گا اور اس سے ہمارے ملک کی نیک نامی میں بھی اضافہ ہوگا۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم سب کا یقین ہے کہ ہمارے محبوب نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور ان کی مبارک زندگی انسانی زندگی کے تمام شعبوں کیلئے ہدایت کا منبع ہے اور انسانی زندگی کے تمام شعبوں میں سیرت طیبہ سے روشنی حاصل کی جاسکتی ہے اور کسی بھی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والا مسلمان سیرت مطہرہ کو اپناکر سعادت اور کامیابی حاصل کرسکتا ہے۔ ایک عالم دین کی یہ سب سے بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرہ میں موجود ہر طبقہ کی راہنمائی کا فریضہ انجام دیں اور مسلمان چاہے اس کا تعلق کسی بھی طبقہ اور شعبہ سے ہو اسے سیرۃ مطہرہ کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرے اور اس مبارک فریضہ کو خوبصورتی سے انجام دینے کیلئے ایک عالم دین کو دینی علوم کے ساتھ ساتھ دنیا کے دیگر مختلف علوم بھی حاصل کرنا چاہئے۔
دینی مدارس کے ذمہ داران سے گزارش
اس اجتماع میں دینی مدارس کے ذمہ داران کی ایک بڑی تعداد بھی موجود ہے۔ میں ان کی خدمت میں گزارش کروں گا کہ وہ دینی مدارس کے طلبہ کو دیگر علوم حاصل کرنے کی طرف بھی متوجہ کرنے کی کوشش کریں، تاکہ وہ معاشرے کی ضروریات کو سمجھ کر بہتر انداز میں دین کی خدمت کرسکیں۔ اس موقع پر میں حکومتی اداروں کو بھی کہوں گا کہ وہ دینی اداروں کے ساتھ مل کر کام کریں اور سرکاری سطح پر ایسے اداروں کی مدد اور راہنمائی کی جائے جو دینی مدارس کے طلباء کو دنیاوی علوم بھی فراہم کر رہی ہے۔ خاص طور پر میں وزارت مذہبی امور سے بھی یہ درخواست کروں گا۔
سیرت پر کام کرنے والے اداروں اور حکومت کے درمیان ربط ضروری ہے
سیرت طیبہ کو عام کرنا اور پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک تعلیمات کو معاشرے تک پہنچانا ایک نہایت ہی مبارک عمل ہے اور مجھے خوشی ہے کہ ہمارے ملک میں کئی ادارے اور تنظیمیں اس اہمیت سے بخوبی آگاہ ہیں اور وہ سیرت پر مختلف انداز سے کام کر رہی ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ ان تمام اداروں کا مقصد ایک ہے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات معاشرے میں عام کرنا اور دور حاضر کے مسائل کو سیرت پاک کی روشنی میں حل کرنا، ان تمام اداروں کو مربوط ہوکر اس مقدس جدوجہد میں مصروف ہونا چاہئے۔ اس طرح حکومت اور ان اداروں کے درمیان ایک مضبوط رابطہ قائم ہونا چاہئے۔ ہماری حکومت کی بھرپور کوشش ہے کہ سیرت النبی کی خدمت میں مصروف اداروں اور تنظیموں کی مشکلات دور کی جائیں اور ان سے ہرممکن تعاون کیا جائے۔
مجلس صوت الاسلام کی خدمات قابل قدر ہیں
میں سمجھتا ہوں کہ مجلس صوت الاسلام پاکستان کے نوجوان علمائے کرام معاشرے میں دین اسلام کی تعلیمات کیلئے، امن وامان، محبت واخوت اور رواداری کے قیام کیلئے جو خدمات انجام دے رہے ہیں، وہ قابل قدر ہیں۔ مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ ہمارے نوجوان علمائے کرام معاشرے کی خامیوں سے آگاہ ہیں اور وہ بھی شدت پسندی، انتہا پسندی اور عدم برداشت کو اسلامی معاشرے کیلئے خطرہ سمجھتے ہوئے اس کے خلاف جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں، ایسے نوجوان علماء ہمارے معاشرے کی ضرورت ہیں اور مجھے پورا یقین ہے کہ مستقبل میں ہماری قوم کے نوجوان ان تمام خامیوں پر قابو پاکر اس مملکت خداداد کو حقیقی معنوں میں ایک اسلامی فلاحی ریاست میں تبدیل کر دیں گے۔
عالم اسلام کے استحکام کیلئے او آئی سی کے عظیم کردار کا خواہشمند ہوں
معزز حاضرین اور اہل فکر ونظر! میری اس بات سے اتفاق کریں گے کہ آج کے دور میں اسلامی ممالک کو باہمی اقتصادی تعاون کی اشد ضرورت ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جو اسلامی امہ کو معاشی اعتبار سے استحکام کی منزل کی جانب لے جاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسلامی دنیا کو بے پناہ وسائل اور قدرتی خزانوں سے نوازا ہے، اب یہ ہمارا فرض ہے کہ ان وسائل اور مواقع سے دور اندیشی اور مہارت کے ساتھ استفادہ کریں۔ اگر تمام اسلامی ممالک باہمی تعاون اور اخوت کے جذبے سے سرشار ہوکر ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہوجائیں اور ایک دوسرے کے ساتھ اپنے تجربات، مہارت، علم وہنر کا تبادلہ کرتے ہوئے تجارت کے شعبے میں تعاون کو فروغ دیں تو یقینی طور پر وہ ترقی کے منازل تیزی کے ساتھ طے کرتے چلے جائیں گے۔ میں موجودہ عالمی حالات کے پیش نظر اسلامی ممالک کے تنظیم کے عظیم کردار کا خواہش مند ہوں۔
چیلنجز سے نمٹنے کیلئے پاکستان OICسے تعاون کیلئے تیار ہے
پاکستان او آئی سی (OIC) کے ڈھانچے کے اندر رہ کر اسے فعال بنانے کیلئے اصلاحاتی عمل میں مدد دے سکتا ہے، تاکہ یہ تنظیم اسلامی ممالک کی اقتصادی، سیاسی، عالمی تعلقات اور تعلیم کے شعبوں کو عصرحاضر کے ابھرتے ہوئے چیلنجوں سے نمٹنے کے قابل بناسکیں۔ حالات حاضرہ کا معروضی مطالعہ اور تجزیہ ثابت کرتا ہے کہ علاقائی منڈیوں اور تجارت کے تصور کو بروئے کار لاتے ہوئے یورپ اور مشرق بعید کے ممالک نے متاثر کن ترقی کی ہیں۔
عالم اسلام متحد ہوکر اسلام دشمنوں کا مقابلہ کرسکتا ہے
میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر اسلامی ممالک اتحاد اور اعتماد کی فضا میں ایک دوسرے کے ساتھ اقتصادی شعبے میں تعاون کریں تو اس کے نتیجے میں نہ صرف ترقی اور خوشحالی ان کا مقدر ہوگی، بلکہ وہ ان عناصر کا مقابلہ بھی جرأت مندی اور حوصلہ مندی کے ساتھ کرنے کے قابل ہوں گے جو اس وقت عالمی میڈیا اور سیاست میں اسلام دشمنی کا راستہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔
میں یہاں موجود جملہ ارباب دانش کے علاوہ خاص طور پر اسلامی ممالک سے آئے ہوئے معزز مہمانوں اور فاضل ماہرین کی توجہ اس جانب مبذول کراتے ہوئے توقع کرتا ہوں کہ وہ میرے ان خیالات وتصور سے اپنے اپنے ممالک کے متعلقہ حکام، رائے عامہ تشکیل دینے والے اداروں اور شخصیات اور خاص طور پر پالیسی سازوں کو ضرور مطلع کریں گے۔
عالمی سیرت کانفرنس کا انعقاد باعث سعادت ہے
میں اس عالمی سیرت کانفرنس کے انعقاد پر تنظیم صلاح المسلمین اور مجلس صوت الاسلام پاکستان کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور مجھے امید ہے کہ اس کانفرنس کے دوران ایسی تجاویز پیش کی جائیں گی جو اسلامی جمہوریہ پاکستان اور امت مسلمہ کیلئے سعادت اور خیروبرکت کا باعث بنے گی۔
مجھے یہ بھی توقع ہے کہ ہمارے ملک کے نوجوان دنیا بھر کے ان علمائے کرام کے علم سے استفادہ کریں گے اور مستقبل میں اس کانفرنس کے دور رس نتائج مشاہدہ کیے جائیں گے۔
آخر میں، میں دوسرے ممالک سے تشریف لانے والے معزز مہمانوں کا اپنی اور حکومت پاکستان کی طرف سے شکریہ ادا کرتا ہوں، انہوں نے پاکستانی قوم کے ساتھ جس اخوت اور یکجہتی کا اظہار کیا ہے وہ ہمارے لیے باعث فخر ہے۔
میں اپنی تقریر کو سورۂ اٰل عمران کی آیت نمبر 103کے ترجمے کے ساتھ ختم کروں گا اور وہ ترجمہ ہے۔ ’’اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامو اور تفرقہ مت ڈالو اور اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کر دی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی بن گئے اور تم دوزخ کی آگ کے گڑھے کے کنارے پر پہنچ چکے تھے، پھر اس نے تمہیں اس گڑھے سے بچالیا۔ یوں ہی اللہ تمہارے لیے اپنی نشانیاں کھول کر بیان فرماتا ہے کہ تم ہدایت پائو۔
رب العزت سے دعا گو ہوں کہ وہ ہمیں اسلام، عالم اسلام اور انسانیت کی خدمت کرنے کیلئے قبول اور رہنمائی عطا فرمائے۔ آمین۔
پاکستان پائندہ باد۔
محترم سید یوسف رضا گیلانی صاحب وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان
Please follow and like us: