پانچویں اور چھٹی صدی عیسوی کے ماہرین معاشریات اور فلاسفر اخلاق، اخلاقی تبدیلی کے سلسلے میں ایک فکر اور ایک نظریہ کے قائل تھے اور بڑی مضبوطی سے اُس پر کار بند تھے، وہ نظریہ یہ تھا کہ انسانی اخلاق میں تبدیلی ممکن نہیں ہے۔
اس نظریہ کی حمایت میں وہ حسب ذیل دلائل دیا کرتے تھے۔
الف: انسان دو چیزوں کا مجموعہ ہے، خَلَقْ اور خُلُقْ
خَلَقْ اُس کی جسمانی ساخت اور اُس کی ترکیب کا نام ہے اور خُلُقْ نفس کی ایک پختہ اور راسخ کیفیت کا نام ہے۔ انسان کے خلق میں تبدیلی کہ ہاتھ کا کام پائوں کرنے لگیں، کانوں سے سماعت کے بجائے سونگھنے کا کام لینا شروع کردیا جائے یا آنکھ سے بصارت کے بجائے سماعت کا کام لینا شروع کردیا جائے، جس طرح یہ سارے امور ناممکن ہے جبکہ خلق کے یہ مظاہر مادی اور جسمانی وجود رکھتے ہیں، اِن کو دیکھا بھی جا سکتا ہے‘ ہاتھ مس بھی کیا جاسکتا ہے اور گرفت میں بھی لایا جاسکتا ہے جبکہ انسانی خُلُقْ (اخلاق) ایک ایسی غیر مرئی اور روحانی کیفیت ہے کہ اُسے نہ دیکھا جاسکتا ہے، نہ ہاتھ سے مس کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی پکڑا جاسکتا ہے۔ جب ایک مادی وجود میں تبدیلی ممکن نہیں ہے تو ایک غیر مادی اور غیر مرئی کیفیت میں تبدیلی کیسے ممکن ہے۔
ب: اِس نظریہ کے قائلین کی جانب سے دوسری دلیل یہ دی جاتی تھی کہ انسان مجموعہ ہے عناصر اربعہ کا، آگ، ہوا، مٹی اور پانی اُس کے عناصر میں شامل ہیں، اِن چاروں میں سے کسی عنصر کو انسان میں سے نکالا جاسکتا ہے اور نہ ہی اِن عناصر کی فطری صلاحیت کو ختم کیا جاسکتا ہے، مثلاً آگ ایک عنصر ترکیبی ہے نہ تو یہ کیا جاسکتا ہے کہ انسان میں سے اِس عنصر کو بالکلیہ نکال باہر کردیا جائے اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ آگ تو رہے حرارت نہ ہو، لہٰذا ان عناصر کی فطری خواص میں انسان میں سے نکلنا ممکن نہیں اور اِس کے بغیر انسان خُلُقْ میں تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔
ج: انسان کو خالق کائنات نے عقل و شعور عطا فرمایا ہے اور وہ اپنے اِسی شعور سے کام لیتے ہوئے، اپنے لئے نظریہ و فکر اور عمل و اخلاق کی راہ منتخب کرتا ہے اور اُس راہ کو اپنی منزل کے حصول کے لئے سب سے بہتر طریقہ اور راستہ سمجھتا ہے۔ وہ کسی اور طریقے کو نہ صحیح سمجھتا ہے اور نہ اس پر گامزن ہونا پسند کرتا ہے۔ عقل و شعور کی اِس طاقت کی وجہ سے انسانی اخلاق میں تبدیلی ممکن نہیں ہے۔
بادی النظر میں یہ دلائل واقعاتی حقائق کے مطابق بھی محسوس ہوتے ہیں اور ناقابل شکست بھی۔ اللہ جل مجدہٗ نے انسانی تخلیق جن عناصر ترکیبی سے کی ہے، اُن عناصر کے خواص کو دیکھتے ہوئے یہی محسوس ہوتا ہے کہ انسانی خلق میں تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ انسان کو عقل و خرد کی جو بے پناہ طاقت عطاء فرمائی گئی ہے۔ اُس کو دیکھ کر بھی یہی تصور ذہنوں میں ابھرتا ہے لیکن نفس انسانی کے اِس خالق و مالک نے ببانگ دہل یہ اعلان کیا۔
’’فالھمہا فجورہا و تقوٰہا‘‘
پروردگارِ عالم نے انسانی اخلاق کو درست سمت عطا کرنے کے لئے انبیاء علیھم السلام کی بعثت کا سلسلہ شروع فرمایا۔ ہر نبی علیہ السلام نے مبعوث ہو کر اپنے زمانہ اور اپنی قوم میں پائی جانے والی اخلاقی خرابیوں کے خلاف اعلانِ جنگ کیا اور قوم میں سے اُن اخلاقی خرابیوں کو نکال پھینکنے کی طاقت بشری کی حد تک انتہائی کوشش کی ، ایسے بھی صاحب استقلال انبیاء گزرے جو اس سعی میں مسلسل ساڑھے نو سو برس مصروف عمل رہے لیکن کچھ لوگوں نے اِن انبیاء کی تعلیمات کو تسلیم کیا اور اکثریت نے انکار کی روش کو اختیار کیا۔ اقوام میں حق و باطل اور غلط و صحیح کا یہ امتزاج ابتداء آفرینش میںبھی تھا۔
ہابیل اور قابیل دونوں حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے تھے، ایک نے ایمان قبول کیا اور ایک نے کفر کی راہ اختیار کی، اِسی طرح نوح علیہ السلام کے بیٹے کنعان نے حضرت نوح علیہ السلام کے ساتھ کشتی میں سوار ہونے سے انکار کردیا، یہی روش اولادِ آدم میں رہی کیونکہ جس طرح نسبی اعتبار سے کسی کا شجرہ نسب ہابیل کے واسطہ سے آدم تک پہنچتا ہے تو کسی کا قابیل کے توسط سے اِسی طرح نظریاتی اور فکری اعتبار سے بھی کوئی ہابیل و نوح کی اولاد ٹھہرتا ہے اور کوئی قابیل و کنعان کی۔
انبیاء علیھم السلام کی بعثت اور رسل علیھم السلام کی رسالت کا سلسلہ چلتا رہا، لوگوں کی ہٹ دھرمی کی روش بھی قائم رہی اور اخلاقی تبدیلیوں کا سلسلہ بھی آہستہ آہستہ آگے بڑھتا رہا۔
حتیٰ کہ انسان اخلاقی پستی اپنی انتہائی حدود کو چھونے لگی، ضد اور ہٹ دھرمی کی کیفیات انتہائوں کو چھو رہی تھیں اور انہی کیفیات کو دیکھ کر علماء اخلاقیات اور فلاسفر معاشریات نے یہ نعرہ بلند کیا کہ انسانی اخلاق میں تبدیلی ممکن نہیں، تو اللہ عزوجل انسانی اخلاق میں ایسی معجزانہ تبدیلی کا فیصلہ کیا کہ اس سے پہلے انسان بصیرت یا انسانی بصارت نے ایسی تبدیلی کا مشاہدہ نہ کیا تھا اور ایسی تبدیلی تا قیامت، اُس تبدیلی کے آثار، اُس کے ثمرات و نتائج سامنے آتے رہیںگے۔
دشمن اُس تبدیلی کی راہ میں روڑے اٹکا کر بھی اُسے روکنے کی کوشش کریںگے اور حرص و لالچ کے ذریعے بھی اِس راہ کومسدود کرنے کی کاوش کریںگے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت و رسالت سے شروع ہونے والے اس اخلاقی انقلاب کو روکنے کی آج بھی اُسی طرح کوششیں کی جارہی ہیں زمانہ جاہلیت قدیمہ کا یا جاہلیت جدیدہ کا، شرک و بت پرستی کا ہو یا سائنسی ترقی کا، شخصی پروپیگنڈہ کا ہو یا ذرائع ابلاغ کے طوفان کا، کفر و طاغوت کی طاقتیں اِس اخلاقی انقلاب کو ناکام کرنے کی ہمہ تن کوششوں میں گزشتہ چودہ سو برس سے مصروف پیکار ہیں اور قیامت تک رہیں گی لیکن اِس اخلاقی انقلاب کے نظام اور اس کی ہستی نے جو اخلاقی تبدیلی پیدا کی ہے، اُس کو آج دشمن بھی تسلیم کرنے پر مجبور ہے۔
انسانی افکار و اخلاق میں تبدیلی کے دو بنیادی سرچشمے ہیں۔
الف: اللہ کی کتاب مبین۔
ب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ مبارکہ
اللہ کی کتاب مبین مکمل اور جامع ضابطۂ اخلاق ہے، اِس کتابِ مبین نے پہلے اپنے کلام معجز ہونے کا سکہ جمایا۔ فصحاء عرب، بلغاء قریش اور ادباء بنو مطلب کو کھلا چیلنج دیا کہ ’’و ان کنتم فی ریب مما نزلنا علیٰ عبدنا فأتو بسورۃ من مثلہٖ ‘‘ اپنے اعجاز کی برہان قائم کرنے کے بعد اِس کتاب مبین نے انسانیت میں اخلاقی انقلاب کی بنیاد رکھی ، اور نوع انسانی کو اخلاقی زوال و انحطاط سے بچنے کیلئے ایسے بنیادی اصول دیئے کہ اِن اصولوں کو اپنا کر قیامت تک انسانیت اپنے آپ کو اخلاقی زوال و انحطاط سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔
انسان میں اِس اخلاقی انقلاب کا دوسرا بڑا سر چشمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور ہستی ہے، جس طرح کتاب مبین مکمل اور جامع ضابطہ اخلاق ہے، محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی اِس کا مکمل اور جامع نمونہ ہے، ایسا مکمل نمونہ کہ آپ کی شریک حیات ام المؤمنین حضرت عائشہ سے پوچھا گیا کہ آپؐ کا اخلاق کیا تھا تو آپ نے جواب میں فرمایا:’’کان خلقہُ القرآن‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس اخلاقی نمونہ کے جامع ہونے کے ساتھ ساتھ دو پہلو بڑے نمایاں ہیں۔
الف: تاریخ انسانی اور تہذیب انسانی کا کوئی ایسا خُلُقْ نہیں جو کسی بھی دور میں اور کسی بھی انسانی تہذیب میں حسنِ خُلُقْ کے نام سے یاد کیا جاتا ہو اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی میں موجود نہ ہو اور کوئی ایسا خلق نہیں جو انسانی تہذیب میں بُرے خلق کے طور پر معروف ہو اور نبی کریمؐ کی ذاتِ گرامی اُس بُرے خلق سے پاک نہ ہو۔
دوسرا اہم اور قابل غور پہلو یہ ہے کہ ہر حسن خلق جس اعلیٰ ترین اور بلند ترین معیار پر آپ کو محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ملے گا، نہ صرف انسانی تاریخ کا ماضی اُس کی مثل پیش نہیں کر سکتا بلکہ ابد الآباد تک وہ حسن خلق اُس اعلیٰ ترین معیار پر کسی اور انسان میں نظر نہیں آسکتا۔
آپ کی ذاتِ مبارک میں صداقت و دیانت نظر آئیگی تو وہ بھی اِسی عدیم المثال معیار کے ساتھ، شجاعت و سخاوت دکھائی دے گی تو وہ بھی اِسی بے مثل معیار کے ساتھ، تدبر، حکمت اور فہم و فراست نظر آئیگا تو وہ بھی اِسی بے بدل معیار کے ساتھ، انفرادی زندگی کا حسن نظر آئیگا تو وہ بھی اِسی بے میل معیار کے ساتھ، عائلی اور معاشرتی زندگی کا حسن نظر آئیگا تو وہ بھی اِسی بے نظیر معیار کے ساتھ، خطابت اور وعظ و نصیحت کا ادبی معیار نظر آئیگا وہ بھی اِسی حیران کن کیفیات کے ساتھ کہ اُس بلاغت و فضاحت پر بلغاء عرب حیران اور ادباء عجم بھی پریشان نظر آئیں گے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ربع صدی سے بھی کم عرصہ میں ایسا اخلاقی انقلاب برپا کیا کہ
جو نہ تھے خود راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے
وہ کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کردیا
ایسا اخلاقی انقلاب کہ فلاسفر اخلاق آج بھی انگشت بدنداں ہیں کہ انبیاء سابقین کی صدیوں پر محیط محنت بھی ایسا جامع، مؤثر اور ہمہ گیر انقلاب برپا نہیں کر سکی جو انقلاب اِسی ہستی بے بدل نے 23 برس کی قلیل مدت میں برپا کردیا۔
ایسا مؤثر انقلاب کے آج چودہ سو برس سے زائد گزر جانے کے بعد بھی انسانیت اخلاقی پستی سے بچنا یا باہر آنا چاہتی ہے‘ جہالت کے اندھیروں سے نکلنا چاہتی ہے، انفرادی اصلاح کی خواہش مند ہے یا اجتماعی انقلاب کی، امن و امان قائم کرنا چاہتی ہے یا جان و مال کے تحفظ کا نظام، معاشی فلاح و بہبود چاہتی ہے یا سیاسی نظم و نسق، اُس کے لئے راہِ ہدایت ہے تو صرف اور صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ مبارکہ، اُس کے لئے وقت کے فتنوں، دشمن کی دشنام طرازیوں، طاغوتی طاقتوں کے حملوں سے بچنے کے لئے اگر کوئی پناہ گا ہے تو وہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ ہے۔
ہزارروں درود اور لاکھوں سلام محمد عربیؐ کے نام۔
’’محمد عربی ﷺ کا اخلاقی انقلاب
Please follow and like us: