معاشرے میں خصوصاً عالمی سطح پر مدارس کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور عمومی طور پر مدارس کو دہشت گردی اور شدت پسندی کا مرکز بناکر پیش کیا جاتا ہے حالانکہ دینی مدارس کی اکثریت دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف ہے بلکہ کئی مدارس اور ایک بہت بڑی تعداد میں علماء اور طلباء دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں۔
ہمارے خیال میں مدارس کے بارے میںیہ شکوک وشبہات غلط فہمیوں اور دوریوں کا نتیجہ ہیں یہی وجہ ہے کہ مجلس صوت الاسلام پاکستان نے فیصلہ کیا کہ دینی مدارس کے روشن چہرے کو عالمی سطح پر روشناس کرنے کے لیے سب سے پہلے دینی مدارس کے دروازے ہر ایک کے لیے کھولنے چاہیے اور معاشرے کے مختلف طبقات خصوصاً غیر ملکی سفراء کو مدارس میں مدعو کرنا چاہیے تاکہ یہ شخصیات نہ صرف ہمارا نظام تعلیم دیکھیں بلکہ اساتذہ اور طلباء سے براہ راست ملاقات کریں اور دینی مدارس کے بارے میں اپنے خدشات دور کرسکیں اور پھر یہ شخصیات دینی مدارس کے وکیل بن کر ان کا دفاع کریں۔
یہ پالیسی انتہائی مشکل اور صبر آزما تھی کیونکہ ایک طرف مختلف ممالک کے سفراء کو مدارس کے دورے پر آمادہ کرنا تو دوسری طرف دینی مدارس کے تحفظات کو مدنظر رکھنا کسی چیلنج سے کم نہ تھے مگر الحمدللہ ہماری جدوجہد رنگ لائی اور یہ پالیسی کامیاب رہی، سب سے پہلے جامعہ اسلامیہ کلفٹن نے غیر ملکی سفراء اور میڈیا سے تعلق رکھنے والے غیر ملکیوں کے لیے اپنے دروازے کھولے اور ہماری درخواست پر امریکہ، برطانیہ، فرانس، پولینڈڈ، نیدر لینڈ سمیت کئی اسلامی اور غیر مسلم ممالک کی سفارتی شخصیات نے جامعہ کا دورہ کیا اور مدارس کے انتظام اور نصاب کے بارے میں بنیادی معلومات حاصل کیں پھر آہستہ آہستہ یہ سلسلہ بڑھتا چلا گیا اور تحفظات دور ہونے پر کئی مدارس نے اس سلسلے کا آغاز کیا اور ہماری پالیسی کی کامیابی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ بعد میں مدارس کی تنظیمات نے بھی یہ پالیسی اپنائی اور باقاعدہ تقریبات میں مختلف ممالک کے سفراء کو بطور مہمان خصوصی مدعو کیا گیا اور انہیں مدارس کے دورے کی ترغیب دی گئی۔
ہمارا ہمیشہ سے یہ یقین رہا ہے کہ غلط فہمیوں اور باہمی نفرتوں کی بنیاد لاعلمی اور دوریاں ہیں اور یہ پالیسی اس بات کی دلیل ہے کہ آپس میں روابط، ایک دوسرے کو جاننا اور خدشات کو بات چیت کی ذریعے دور کرنا ہی مستقبل میں امن وسکون کی ضمانت ہے۔