گزشتہ دو دہائیوں سے راقم الحروف کا یہ معمول ہے کہ مدرسے کی تعطیلات میں ملک وبیرون ملک کے اسفار اور فکری اور دعوتی تقریبات میں شرکت اور عالم اسلام کے حالات کا مطالعہ کا موقع مل جاتا ہے‘ اس سال شوال کے وسط سے رمضان المبارک کے وسط تک ایک ماہ کیلئے امریکا کی مختلف ریاستوں اور شہروں میں اجتماعات سے بیانات کا موقع ملا جس کا خلاصہ یہ ہے۔
اسلام آفاقی مذہب ہے، اس کی تعلیمات پوری نسل انسانی کے لئے دارین میں کامیابی و کامرانی کا ذریعہ ہیں، اسلامی نظام حیات ہر دور میں انسانی سوسائٹی کے لئے مفید، مؤثر اور کارآمد ہے جس نے سوسائٹی کی ضروریات اور مسائل کو ’’نظام فطرت‘‘ ہونے کے سبب حل کیا ہے، یہ حقیقت مسلم ہے کہ پوری انسانیت کے تمام مسائل کا حل اسلام ہی پیش کرسکتا ہے ،اسلام کے مقابلے میں دوسرا نظام اس وقت مغرب کا ہے جس کی بنیاد وحی کے بجائے عقل پر ہے جس طرح انسانی عقل ناقص ہے اسی طرح اس کے بل بوتے پر بنایا جانے والا نظام بھی ناتمام اور ناقص ہوگا۔ اس وقت مغرب کے لئے پریشانی کی بات یہ بنی ہوئی ہے کہ اس نے انسانی عقل اور سوسائٹی کی خواہشات پر مبنی جو نظام دنیا کے سامنے پیش کیا تھا وہ غیر فطری ہونے کی وجہ سے کامیابی کی طرف نہیں بڑھ رہا بلکہ انسانی سوسائٹی کو مزید انتشار اور خلفشار کا شکار بنا کر مکمل ناکامی کے کنارے پر کھڑا ہے اور اس کے متبادل کے طور پر اسلام کے سوا کوئی اور نظام سامنے نہیں آرہا، مغرب کی دانش گاہیں اس پر غور کر رہی ہیں اور اس پر بحث و تمحیص کا سلسلہ ایک عرصے سے جاری ہے
مغرب کی دانش گاہوں کے لئے اس بات کو تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ کار باقی نہیں رہا کہ اسلام ہی آج انسانی سوسائٹی کو اس دلدل سے نجات دلا سکتا ہے جس میں مغرب نے اسے نام نہاد آزادی اور نام نہاد حقوق کے نام سے پھنسا دیا ہے اور آج دنیائے انسانیت کو جو مسائل اور مشکلات درپیش ہیں اسلام کے علاوہ کسی اور کے پاس ان کا حل نہیں، لیکن مغرب کی فکر و دانش کا گیئر آج بھی اسی جگہ پھنسا ہوا جس جگہ تک پہنچ کر قیصر روم کو قریش کے سردار ابو سفیان سے یہ کہنا پڑا تھا کہ ’’مجھے یہ امید نہیں تھی کہ وہ نبی ؐ بھی تم میں سے ہوگا‘‘آج اسی تعصب نے ایک بڑی دنیا کو اسلام جیسی نعمت سے محروم کررکھا ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات اور حضورؐ کے پیغام کو تو سچ مانتے ہیں مگر ان کو تکلیف یہ ہے کہ یہ عظیم نبی بنی اسرائیل سے کیوں نہیں ‘ یہ بنی اسماعیل سے کیوں مبعوث ہوئے؟۔
چند سال قبل برطانیہ کے شہر نوٹنگھم میں جامعۃ الہدیٰ کے پرنسپل مولانا ضیاء الحق سیاکھوی سے میں نے فرمائش کی کہ یہاں کے کسی بڑے پادری صاحب سے ملاقات کرادیں میں ان سے تبادلۂ خیال کرنا چاہتاہوں، انہوں نے نوٹنگھم کے سب سے بڑے پادری سے ملاقات کا وقت لیا، اس ملاقات میں راقم الحروف کے علاوہ ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسیٰ منصوری اور مولانا ضیاء الحق سیاکھوی کے علاوہ ایک آئرش نومسلم حاجی عبدالرحمن بھی شریک تھے۔
میں نے پادری سے سوال کیا کہ اس وقت مغربی سوسائٹی میں بے پردگی، بدکاری، شراب، سود اور حرام خوری کے حوالہ سے جو کچھ ہورہا ہے اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ یہ سب کچھ غلط ہورہا ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کے خلاف ہورہا ہے، میں نے عرض کیا کہ اس کی اصلاح کے لئے آپ کیا سوچ رہے ہیں اور آپ کیا کر سکتے ہیں؟ انہوں نے بڑی صاف گوئی کے ساتھ کہا کہ ہمارے پاس اس کا کوئی علاج نہیں ہے ہم تو آپ لوگوں کی طرف دیکھ رہے ہیں اس لئے کہ یہاں کی سوسائٹی کو اس دلدل سے نکالنے کیلئے جو روشنی درکار ہے، اس کی چمک ہمیں صرف آپ لوگوں کی آنکھوں میں دکھائی دے رہی ہے، پادری صاحب کی یہ بات غلط نہیں ہے مگر دوسری طرف مغرب کا المیہ یہ ہے کہ جن آنکھوں میں اسے یہ چمک نظر آرہی ہے انہی آنکھوں سے اسے خوف بھی محسوس ہورہا ہے اور اس کی سوئی اس مقام پر آکر اٹک گئی ہے کہ انسانی سوسائٹی کو موجودہ بحران سے نکالنے کا جو نسخہ قابل عمل بلکہ واجب العمل ہوتا جارہا ہے وہ مسلمانوں کے پاس ہے اور مسلمانوں نے اپنی تمام تر عملی کوتاہیوں، خرابیوں اور کمزوریوں کے باوجود اس نسخے کو سنبھال کر رکھا ہوا ہے، مغربی دنیا کی خدمت میں عرض ہے کہ مغربی دنیا کو مسلمانوں کے دینی مدارس کی مخالفت اور کردار کشی کرنے کے بجائے ان کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ جس نظام کی آنے والے دور میں خود مغرب کو ضرورت پیش آسکتی ہے اور یقینا پیش آئے گی وہ نظام انہی مدارس نے بچا کر اور سنبھال کر محفوظ کر رکھا ہے اس نظام سے دنیا کی کوئی بھی قوم کسی وقت بھی استفادہ کر سکتی ہے، یہ ایک زندہ حقیقت ہے جس کی چمک دن بدن واضح تر ہوتی جارہی ہے لیکن اس کی روز افزوں چمک سے چندھیا جانے والی آنکھیں جھنجھلاہٹ کا شکار ہورہی ہیں۔
دینی تعلیم اور دینی مدارس سے متعلق امریکی ریاست کے مختلف شہروں میں جو گفتگو مختلف مجالس میں ہوئی وہ میں آپ حضرات سے عرض کرنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ دینی مدارس جو آج دنیا کے مختلف حصوں میں دین کی تعلیم دے رہے ہیں‘ قرآن وسنت کی روشنی پھیلارہے ہیں اور آسمانی تعلیمات نسل انسانی کے سامنے پیش کررہے ہیں‘ ان کے بارے میں ایک سوال عام طور پر کیا جاتا ہے کہ ان کی تعلیم کا آج کی عملی زندگی میں کیا تعلق ہے؟ انسانی معاشرہ کے مسائل سے کیا تعلق ہے؟ اور پریکٹیکل لائف میں یہ تعلیم ہمیں کس جگہ کام آتی ہے۔
ہماری عملی زندگی کے مختلف دائرے ہیں‘ فرد کی زندگی ہے‘ خاندان کی زندگی ہے‘ سوسائٹی کی زندگی ہے اور گلوبل انسانی معاشرہ کی زندگی ہے اور پھر ان کے بھی بیسیوں پہلو ہیں جن پر گفتگو کی ضرورت ہے اس کے صرف ایک پہلو پر کچھ عرض کرسکوں گا اور وہ فرد کے دائرے کا پہلو ہے‘ مغرب میں فرد کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور جس جگہ میں بیٹھ کر ہم یہ گفتگو کررہے ہیں یہاں کے فلسفہ حیات کی بنیاد ’’انڈویجول ازم‘‘ یعنی فرد کی آزادی اور اہمیت پر ہے اس لئے اسی حوالہ سے ایک دو گزارشات پیش کروں گا۔
میں اس انسانی معاشرہ کا ایک فرد ہوں جس کے افراد کی تعداد اس وقت ساڑھے چھ ارب سے زیادہ بتائی جاتی ہے ان میں سے ایک میں بھی ہوں اور اس معاشرتی اجتماعیت کی ایک اکائی ہوں‘ اگر ایک فرد کے طور پر اپنے مقام اور کردار کے حوالہ سے بات کروں تو مجھے سب سے پہلے اپنا تعارف درکار ہے کہ میں کون ہوں اور اس انسانی معاشرہ میں میرا مقام اور کردار کیا ہے؟
کسی بھی چیز کے مقام وکردار کا تعین کرنے سے پہلے اس کی پہچان ضروری ہوتی ہے‘ یہ میرے سامنے مائیک ہے جس کے ذریعہ میں آپ حضرات سے مخاطب ہوں اس کے صحیح تعارف کے لئے مجھے تین سوالوں کا جواب درکار ہے (1) یہ کیا ہے؟ (2) یہ کیوں ہے؟(3) اسے کس نے بنایا ہے؟۔
یہ کیا ہے؟ میں دیکھنا ہوگا کہ یہ کس چیز سے بنا ہے‘ اس کا میٹریل کیا ہے‘ اس میں کون کون سے پرزے ہیں‘ اس کا نیٹ ورک کیا ہے اور اس کا میکنزم کیا ہے؟
یہ کیوں ہے؟ میں دیکھا جائے گا کہ اس کا مقصد کیا ہے‘ یہ کیا کام کرتا ہے اور کس غرض سے اس کا استعمال کیا جاتا ہے؟ جبکہ اسے کس نے بنایا ہے میں یہ سوال فطری طور پر ذہن میں آتا ہے کہ یہ کون سی فرم نے بنایا ہے؟ یہ میڈان چائنا ہے‘ میڈان جاپان ہے‘ میڈان کوریا ہے یا میڈان جرمنی ہے؟
ان تینوں سوالوں کا جواب حاصل کئے بغیر میرے ذہن میں کسی بھی چیز کا تعارف مکمل نہیں ہوتا اور میں اس سے صحیح طور پر استفادہ نہیں کرسکتا‘ اسی طرح ان تینوں سوالوں کا جواب مجھے اپنی پہچان کے لئے بھی درکار ہے اور ان سوالوں کا جواب حاصل کئے بغیر میں نہ خود کو پہچان سکتا ہوں اور نہ ہی انسانی معاشرہ میں اپنے مقام وکردار کا صحیح طور پر تعین کرسکتا ہوں۔
میں اس بات کے اعتراف میں کوئی حجاب محسوس نہیں کرتا کہ ان میں ایک سوال پر آج کی سائنس خوب بحث کررہی ہے اور میڈیکل سائنس کا موضوع ہی یہ ہے کہ انسان اپنے جسم‘ اپنی مشینری اور اپنے میٹریل کے حوالہ سے کیا ہے؟ انسانی باڈی میڈیکل سائنس کا سبجیکٹ ہے اور وہ اسی پر کئی سالوں سے بحث کرتی آرہی ہے کہ انسانی چمڑے کے اندر چھپی ہوئی کائنات کی اس پیچیدہ ترین مشینری میں کیا کچھ ہے؟ یہ کیسے کام کرتی ہے‘ اس کی ضروریات کیا ہیں اور اس کے نفع ونقصان کا دائرہ کیا ہے؟ ہزاروں میڈیکل سائنٹسٹ اس پر بحث کررہے ہیں‘ ہزاروں لیبارٹریوں میں انسانی جسم کے اعضا کی ہزاروں بار چیر پھاڑ کی جاچکی ہے جواب بھی جاری ہے‘ ایک محاورہ ہمارے ہاں چلتا ہے کہ ’’بال کی کھال اتارنا‘‘ میں عرض کیا کرتا ہوں کہ یہ محاورہ کہیں اور فٹ بیٹھتا ہو یا نہیں میڈیکل سائنس پر ضرور صادق آتا ہے‘ اس لئے کہ ہمارے میڈیکل سائنٹسٹ نہ صرف بال کی کھال اتارتے ہیں بلکہ کھال کی بھی کھال اتار دیتے ہیں اور یہ عمل جاری ہے جو قیامت تک جاری رہے گا‘ یہاں ضمناً ایک اور بات بھی عرض کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہزاروں سال کی اس محنت اور تگ ودو کے باوجود آج بھی دنیا بھر کے میڈیکل سائنٹسٹ اجتماعی طور پر یا کوئی سائنس دان ان انفرادی طور پر یہ دعویٰ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے کہ اس انسانی باڈی کو مکمل طور پر سمجھ لیا گیا ہے اور اب اس میں کسی اور چیز یا صلاحیت کے انکشاف کا کوئی امکان باقی نہیں رہا‘ کیونکہ تحقیق قیامت تک چلتی رہے گی‘ نئی نئی باتیں سامنے آتی رہیں گی اور قیامت تک اس میں انکشاف ہوتے رہیں گے اور اس پس منظر میں قرآن کریم کے اس ارشاد کا مطلب سمجھ میں آجاتا ہے کہ…
’’وان تعدو انعمت اللہ لا تحصوھا‘‘
’’اگر تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو انہیں شمار نہیں کرسکوگے‘‘۔
یہ آیت کریمہ ہمیں بتاتی ہے کہ تم تو اپنے وجود کے اندر کی نعمتوں کو شمار نہیں کرسکتے کائنات میں ہر طرف بکھری ہوئی نعمتوں کو کیسے شمار کرسکوگے؟ لیکن اس پہلو پر مزید کسی گفتگو کی بجائے اصل موضوع کی طرف آتا ہوں کہ میڈیکل سائنس مجھے میرے بارے میں صرف ایک سوال کا جواب دینے کی کوشش کررہی ہے کہ میں کیا ہوں؟ لیکن دوسرے دو سوال کہ میں کیوں ہوں؟ اور مجھے کس نے بنایا ہے؟ اس کے بارے میں نہ صرف میڈیکل سائنس بلکہ جنرل سائنس بھی مکمل طور پر خاموش ہے اور سائنس کا کوئی شعبہ سرے سے اس سوال کو ٹچ ہی نہیں کررہا کہ انسان کو کیوں بنایا گیا ہے اور کس نے بنایا ہے؟ عجیب سی بات لگتی ہے کہ میں اپنے کرتے پر ٹانکے ہوئے ایک بٹن کے بارے میں تو جانتا ہوں کہ یہ کیوں بنایا ہے اور کس مقصد کیلئے بنایا ہے؟ اور پورے کرتے کے فنکشن پر غور نہیں کرتا۔ان دو سوالوں کا جواب کہ مجھے کس نے بنایا ہے اور کس مقصد کیلئے بنایا ہے؟ مجھے وحی الٰہی میں ملتا ہے‘ آسمانی تعلیمات میں ملتا ہے‘ قرآن کریم میں ملتا ہے اور جناب نبی اکرمؐ کے ارشادات میں ملتا ہے اور ان باتوں کی معلومات مجھے ان مدارس کی تعلیم سے حاصل ہوتی ہیں‘ یہ دو سوال آج کی کسی یونیورسٹی کا سبجیکٹ نہیں ہیں‘نہ آکسفورڈ کے مضامین میں یہ سوال شامل ہیں‘ نہ کیمبرج اس پر گفتگو کرتی ہے اور نہ ہی ہاورڈ یونیورسٹی کے مضامین کا یہ باقاعدہ حصہ ہے‘ اس لئے میں عرض کرنا چاہوں گا کہ دینی مدرسہ کی تعلیم کے بغیر تو میں اپنی پہچان اور تعارف مکمل نہیں کرسکتا انسانی معاشرہ میں اپنے مقام اور کردار کا ادراک کس طرح حاصل کرسکتا ہوں اور سوسائٹی میں اپنا دائرہ کار صحیح طور پر کیسے متعین کرسکتا ہوں؟
اس کے ساتھ ہی ایک اور سوال بھی ایک فرد کی حیثیت سے میری زندگی سے تعلق رکھتا ہے جس کے بغیر اپنے کردار اور انسانی معاشرت میں اپنے حصے کے بارے میں میرا علم مکمل نہیں ہوسکتا وہ یہ ہے کہ میرا فیوچر کیا ہے اور میرا مستقبل کیا ہے؟ آج کی دنیا نے تو فیوچر دنیا کی باقی ماندہ زندگی کو قرار دے رکھا ہے جس کے بارے میں کسی کے پاس کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ وہ منٹوں میں ہے‘ گھنٹوں میں ہے‘ دنوں میں ہے‘ ہفتوں میں ہے یا سالوں میں ہے؟ یہ ہی گارنٹڈ زندگی ہمارا فیوچر کہلاتی ہے جبکہ اصل فیوچر کی طرف سرے سے ہماری توجہ ہی نہیں ہے‘ ہمارا مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ زندگی صرف اس دنیا کی زندگی کا نام نہیں بلکہ اس سے آگے زندگی کے بہت سے مراحل ہیں اور بہت لمبے مراحل ہیں‘ قبر کی زندگی ہے‘ حشر کی زندگی ہے‘ پل صراط کا مرحلہ ہے اور اس سے آگے جنت اور جہنم کی ان لمیٹڈ زندگی ہے اور زندگی کے وہ طویل ترین مراحل بھی ہمارے مستقبل کا اور ہمارے فیوچر کا حصہ ہیں‘ سوال یہ ہے کہ ہمارے مستقبل اور فیوچر کے یہ مراحل آج کی سائنس اور تعلیم کا کس قدر حصہ ہیں؟ آکسفورڈ‘ کیمبرج اور ہاورڈ سمیت دنیا کی کوئی سی یونیورسٹی کا یہ سبجیکٹ ہے کہ قبر کیا ہے اور اس میں انسان کے ساتھ کیا معاملات پیش آنے والے ہیں۔
مجھے اس بات سے انکار نہیں ہے کہ اس دنیا کی باقی ماندہ زندگی کیلئے مجھے ضرور اسباب مہیا کرنے چاہیں اس کیلئے محنت کرنی چاہیے‘ اس کو بہتر بنانے کیلئے کام کرنا چاہیے لیکن اس سے آگے جو میرا اصل فیوچر ہے اور یقینی فیوچر ہے جس نے بہرحال آکر رہنا ہے اس کی تیاری کرنا ‘ اس کیلئے اسباب فراہم کرنا اور اس کے لئے محنت کرنا بھی میری ضرورت ہے اور یہ معلوم کرنا بھی میری ضرورت ہے کہ مجھے اس زندگی سے آنکھیں بند ہونے کے بعد فنا ہوجانا ہے یا کسی اور جہاں میں منتقل ہونا ہے اور اگر مجھے ایک اور جہاں میں جانا ہے اور یقیناً جانا ہے کہ جسے ہم آنکھیں بند ہونا کہتے ہیں یہ حقیقت میں آنکھیں بند ہونا نہیں بلکہ ایک اور جہاں میں آنکھیں کھلنا ہے جہاں مجھے حساب کتاب کا مرحلہ پیش آئے گا سوال جواب سے گزرنا ہوگا‘ الم وراحت کی کیفیات پیش آئیں گی اور سزا وجزا کا سامنا کرنا ہوگا وہاں میرے ساتھ کیا ہونا ہے اور مجھے کیا کرنا ہے ؟اس کی تعلیم مجھے وحی الٰہی سے ملتی ہے‘ آسمانی تعلیمات سے ملتی ہے اور قرآن وسنت سے ملتی ہے جس کی تعلیم یہ مدرسہ دیتا ہے اور صرف تعلیم نہیں دیتا بلکہ اس کا عملی ماحول بھی فراہم کرتا ہے اور اس کے لئے تربیت بھی مہیا کرتا ہے ۔؟یہ اس مدرسے کا معاشرے میں بنیادی کنٹری بیوشن ہے جس کو فراموش یا نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
مدرسہ انسان کی بنیادی پہچان ہے
Please follow and like us: