مملکت خداداد پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا جب تک مسلم لیگ نے اسلام کا لبادہ نہیں اوڑھا تھا تب تک یہ تحریک کامیاب نہیں ہورہی تھی، اسلام کے نعرے پر مسلمانوں نے مسلم لیگ کا ساتھ دیا، چونکہ لیبل اسلام کا لگایا تھا اس لئے سازشی اور مسلم دشمن عناصر نے اُس وقت سے سازشیں کرنا شروع کردیں اور پاکستان کو اسلامی اسٹیٹ کے بجائے سیکولر اسٹیٹ بنانے کی تگ و دو شروع کردی، اسلام کے نام پر ایک نئے ملک کا قیام ان شرپسندوں کی آنکھوں میں تنکا بن گیا۔ فکری، نظریاتی، معاشی، معاشرتی ہر قسم کے حملے کرکے پاکستان کو موجودہ حالت میں پہنچا دیا، تاہم وہ جماعت جنہوں نے برصغیر میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے داخلے کے وقت سے ہی اس خطے پر برطانوی راج کی مزاحمت کا آغاز کردیا تھا اور مختلف اوقات، مراحل اور علاقوں میں سراج الدولہؒ سے لے کر شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ کی تحریک ریشمی رومال تک مسلح مزاحمت اور اس کے بعد سے 1947ء تک عدم تشدد پر مبنی جدوجہد کے ذریعے برطانوی تسلط سے وطن عزیز کی آزادی کے لئے متحرک کردار ادا کیا تھا، ان کا مقصد اور ایجنڈا یہ تھا کہ مسلمانوں کے لئے اور اسلام کے نام پر قائم ہونے والی اس نئی ریاست میں معاشرتی ڈھانچے کی تشکیل اسلامی شریعت اور احکام و قوانین کی بنیاد پر ہو اور پاکستان ایک نظریاتی اسلامی ملک کے طور پر دنیا میں اپنا کردار ادا کرے۔
سراج الدولہؒ، ٹیپو سلطانؒ، شاہ عبدالعزیزؒ، شاہ اسماعیل شہیدؒ، حاجی شریعت اللہؒ، سردار احمد خان کھرلؒ، تیتومیرؒ، فقیر ایپیؒ، حاجی صاحب ترنگزئیؒ اور 1857ء کے ہزاروں مجاہدین سمیت ان گروہوں میں سے جس گروہ کو جہاں موقع ملا، اس نے اپنے زیر تسلط علاقے میں اسلامی شریعت کا اجرا و نفاذ کرکے آزادی کی جدوجہد میں حصہ لینے کے مقصد کو واضح کیا حتیٰ کہ برصغیر کے بڑے علاقے میں مسلح جدوجہد ترک کرکے جب پر امن اور عدم تشدد پر مبنی تحریک آزادی کو آگے بڑھایا گیا تو بھی مقصد آزادی یہی قرار پایا کہ برطانوی تسلط سے نجات پانے کے بعد مسلم معاشرہ میں اسلامی شریعت کے اجرا و نفاذ کا اہتمام کیاجائیگا۔ چنانچہ مسلم لیگ کا دو قومی نظریہ، مولانا محمد علی جوہر کی تحریک خلافت اور مجلس احرار اسلام کی حکومت الہٰیہ اسی جذبہ اور نظریہ کی ترجمان اور عکاس تھی۔
دوسری طرف وہ عناصر اور طبقات جنہوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے سو سالہ اور باقاعدہ برطانوی راج کے نوے سالہ دور میں ایک نو آبادیاتی نظام کے کل پرزوںکا کردار ادا کیا تھا اور اپنے فکر و مزاج کو اسی کے مطابق ڈال کر اپنا مستقبل اس کے ساتھ وابستہ کرلیا تھا، پاکستان کے معاشرتی اور سیاسی ڈھانچے میں کوئی نظریاتی اور تہذیبی انقلاب ان کے مزاج اور مفادات کے خلاف تھا، اس لئے انہوں نے نو آبادیاتی نظام کو برقرار رکھنے اور اپنا تمام وزن اس کے پلڑے میں ڈالنے کا فیصلہ کیا اور اب تک وہ ایسا ہی کر رہے ہیں۔
ان عناصر و طبقات کو تین معاملات میں برتری حاصل رہی ہے:
٭ برطانوی دور میں سیاسی، انتظامی اور معاشی نظم و نسق ان کے ہاتھ میں تھا جو آزادی اور قیام پاکستان کے بعد بھی انہی کے ہاتھ میں رہا۔
٭ بین الاقوامی رجحانات بالخصوص نئی عالمی استعماری قوتوں کی پشت پناہی بھی انہیں حاصل چلی آرہی ہے، اس لئے کہ جن قوتوں نے خلافت عثما نیہ کو ختم کراکے اس کے مرکز ترکی کو سیکولر جمہوریہ بنانے میں کامیابی حاصل کرلی تھی، انہیں اسلام کے نام پر ایک نئے ملک کا قیام اور ایک اسلامی معاشرے کی تشکیل کسی طرح گوارا نہیں تھی جبکہ سرمایہ دارانہ بلاک اور سوشلسٹ بلاک کے درمیان جاری عالمی سرد جنگ میں سرمایہ دارانہ بلاک کی ضرورت یہ تھی کہ سوویت یونین کے خلاف مسلمانوں کے مذہبی رجحانات بالخصوص ان کے جذبہ جہاد سے فائدہ اٹھایا جائے۔ اس لئے مغربی بلاک نے یہ حکمت عملی طے کی کہ مسلمانوں کے جذبہ جہاد سے تو سوویت یونین کے خلاف فائدہ اٹھایا جائے، لیکن ان کے نفاذ شریعت کے پروگرام کو کسی جگہ بھی کامیاب نہ ہونے دیا جائے۔ سرمایہ دارانہ بلاک کی یہ حکمت عملی پاکستان کے ان داخلی عناصر و طبقات کی پشت پناہ بن گئی جو اس ملک میں نو آبادیاتی نظام کے تسلسل کو باقی رکھنے میں اپنی عافیت محسوس کر رہے ہیں۔
٭ ملک کے تعلیمی نظام پر بھی انہی کا کنٹرول تھا، اس لئے اس بات کا بطور خاص اہتمام کیا گیا کہ ریاستی تعلیمی اداروں میں ایسے رجال کار اور افراد تیار نہ ہونے پائیں جو نو آبادیاتی نظام میں کسی قسم کی تبدیلی اور اسلامی شریعت کے احکام و قوانین کے نفاذ و اجرا کا ذریعہ بن سکیں۔
اس تناظر میں وہ عناصر و طبقات جو برطانوی تسلط سے آزادی کا اصل مقصد نو آبادیاتی نظام کا خاتمہ اور اسلامی احکام و قوانین کے اجرا و نفاذ کو قرار دیے ہوئے تھے، انہوں نے پر امن سیاسی، جمہوری اور دستوری جدوجہد کے ذریعے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا اور پاکستان کو پہلی دستور ساز اسمبلی میں قرار داد مقاصد کی منظوری سے لے کر 1973ء کے دستور میں ملک کو اسلامی ریاست قرار دلوانے اور ملک کے تمام قوانین کو قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کی ضمانت حاصل کرنے تک تمام مراحل پر امن سیاسی اور دستوری جدوجہد کے ذریعے طے کئے۔ انہیں دو سو سالہ تحریک آزادی کے شاندار پس منظر کے ساتھ ساتھ پاکستانی عوام کی اسلام کے ساتھ جذباتی وابستگی اور نفاذ اسلام کے لئے دینی قوتوں کے متحرک کردار کی پشت پناہی حاصل تھی اور ملک کی رائے عامہ ان کے ساتھ تھی، اس لئے وہ تمام تر رکاوٹوں کے باوجود مسلسل پیش رفت کرتے رہے۔
اس دوران ایک اور اہم واقعے نے نفاذ شریعت کے حوالے سے حکمران طبقات سے عوام کی مایوسی میں اضافہ کیا۔ وہ یہ کہ بہاول پور، سوات، قلات، خیر پور اور دیگر ایسی ریاستوں میں جہاں برطانوی استعمار کے تسلط کے دوران بھی عدالتی سطح پر شرعی قوانین کی عمل داری موجود تھی، پاکستان کے ساتھ ان کے الحاق کے ساتھ ہی ان میں شرعی قوانین کا نظام ختم کردیا گیا جس نے عوام اور دینی حلقوں میں اس سوچ کو پختہ کردیا کہ آزادی کے مقصد کے حصول، نو آبادیاتی نظام کے خاتمہ اور اسلامی شریعت کی عمل داری کے لئے جو کچھ کرنا ہے، خود انہی کو کرنا ہے اور ملک کی رولنگ کلاس سے اس کے لئے کسی حمایت یا سہولت کی توقع عبث ہے۔
اس پس منظر میں جب افغانستان میں سوویت یونین کی باقاعدہ افواج کی آمد کے بعد وہاں جہاد کے عنوان سے قومی خود مختاری اور آزادی کی جنگ شروع ہوئی تو پاکستان کے دینی حلقوں اور عوام کا اس طرف متوجہ ہونا ایک فطری امر تھا۔
چنانچہ ایسا ہی ہوا اور جونہی جہاد افغانستان نے روسی فوجوں کی افغانستان سے واپسی اور عالمی سطح پر سوویت بلاک کے بکھر جانے کا ہدف حاصل کرلیا، مجاہدین کے بارے میں سرمایہ دارانہ بلاک کا طرز عمل تبدیل ہوگیا۔ افغانستان میں مجاہدین کی مستحکم حکومت بنوانے کی بجائے ان کے مختلف گروپوں کو باہمی خانہ جنگی کے لئے کھلا چھوڑ دیا گیا بلکہ اس خانہ جنگی کی حوصلہ افزائی کرکے مجاہدین کو بتدریج کمزور کرتے چلے جانے کی حکمت عملی طے کر لی گئی جس کے نتیجے میں تاریخ انسانی کا یہ اندوہناک المیہ سامنے آیا کہ جن ممالک اور قوتوں نے جہاد افغانستان کے ثمرات دونوں ہاتھوں سے سمیٹے، انہوں نے جنگ لڑنے اور قربانیاں دینے والے مجاہدین کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔
مگر ان سب نے جہاد افغانستان کے ثمرات سے اپنی اپنی جھولیاں بھرنے کے بعد مجاہدین کو تنہا چھوڑ دیا۔ جہاد افغانستان سے بیرونی قوتوں نے اپنے اپنے مقاصد حاصل کرلئے، لیکن جنگ لڑنے اور اس میں لاکھوں جانوں کی قربانی دینے والوں کا اپنا مقصد کہ افغانستان ایک اسلامی ریاست بنے اور اس میں شریعت اسلامی کا نفاذ ہو، ادھورا رہ گیا۔
مجاہدین کے مختلف گروپوں کو اکٹھا بٹھانا، ان کا کوئی مشترکہ ایجنڈا طے کرنا اور ان کے مستقبل کی حدود اور دائرہ کار کا تعین کرنا جہاد افغانستان میں ان کو سپورٹ کرنے والوں اور ان کی قربانیوں سے فائدہ اٹھانے والوں کی ذمہ داری تھی، لیکن جب سب نے اپنا اپنا حصہ وصول کرکے گھروں کی راہ لی اور مجاہدین کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا تو ظاہر ہے کہ اب مجاہدین کے مختلف گروپوں نے اپنا اپنا ایجنڈا خود ہی طے کرنا تھا جو انہوں نے کیا اور اسی کے تلخ نتائج نہ صرف جنوبی ایشیا کے پورے خطے کو بلکہ مجاہدین سے لاتعلقی اختیار کرنے والوں کو بھی بھگتنا پڑ رہے ہیں۔
جنگ میں حصہ لینے والے مجاہدین کا ایک بڑا حصہ افغانستان کے ان باشندوں پر مشتمل ہے جنہوں نے سوویت یونین کے فوجی تسلط سے آزادی اور اپنے ملک کے اسلامی نظریاتی تشخص کی بحالی کیلئے جنگ لڑی۔ انہوں نے جب دیکھا کہ جہاد افغانستان کے نتیجے میں سوویت فوجوں کی واپسی اور مجاہدین کی حکومت قائم ہو جانے کے باوجود جہاد کے اصل مقصد یعنی نفاذ شریعت کی طرف کوئی موثر پیش رفت نہیں ہورہی بلکہ بدامنی، افراتفری، لاقانونیت اور خانہ جنگی بڑھتی جارہی ہے تو وہ طالبان کی صورت میں سامنے آئے اور ملک کے ایک بڑے حصے میں پانچ سال تک پر امن حکومت قائم کرکے جہاد افغانستان کے منطقی ہدف کو دنیا کے سامنے واضح کردیا اور اب وہ امریکی اتحاد کی فوجوں کے خلاف اسی طرح جنگ لڑ رہے ہیں جیسے انہوں نے سوویت یونین کی فوجوں کے خلاف لڑی تھی اور وہ اسے بھی آزادی اور خود مختاری کی جنگ سمجھتے ہیں۔
جہاد افغانستان میں شامل مجاہدین کا دوسرا بڑا حصہ ان ہزاروں پاکستانی نوجوانوں پر مشتمل ہے جو سوویت فوجوں کی واپسی کے بعد وطن واپس آئے۔ ان کے مستقبل کے بارے میں ان کی راہنمائی اور ان کے جذبات و تجربات کو صحیح رخ پر لگانے کے لئے منصوبہ بندی پاکستان کے قومی حلقوں کی ذمہ داری تھی، مگر ایسا نہیں ہوا۔ شاید کچھ ذمہ دار حلقوں نے انہیں اس لئے کھلا چھوڑ دیا ہو کہ ان سے کشمیر میں اسی طرح فائدہ اٹھایا جاسکے جس طرح افغانستان میں ان سے فائدہ اٹھایا گیا تھا، مگر غالباً عالمی قوتوں نے ایسا نہیں ہونے دیا جس کے نتیجے میں مجاہدین کے ان گروپوں نے بھی اپنا اپنا ایجنڈا خود طے کیا اور اپنے اپنے ذہنی رجحانات کے مطابق میدان کا رمنتخب کرلیا۔ بہت سے افراد کی صلاحیتیں فرقہ وارانہ کشمکش کو بڑھانے میں استعمال ہوئیں جب کہ بہت سے گروہوں نے پاکستان کو افغانستان پر قیاس کرتے ہوئے نفاذ شریعت کے لئے مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کرلیا اور ملک کی رولنگ کلاس کا طرز عمل اس مسلح جدوجہد کے لئے بتدریج راستہ ہموار کرتا چلا گیا۔
مثلاً سوات میں نفاذ شریعت کے لئے جب جدوجہد شروع ہوئی تو طالبان کا کہیں بھی کوئی وجود نہیں تھا اور اس تحریک کا پس منظر صرف اتنا تھا کہ سوات کے عوام مطالبہ کر رہے تھے کہ انہیں ان کے ریاستی دور کا وہ عدالتی نظام واپس کر دیا جائے جو نہ صرف برطانوی دور میں بلکہ 1969ء تک پاکستان کے دور میں بھی رائج رہا ہے۔ ان کے خیال میں شرعی قوانین پر مبنی وہ عدالتی نظام انہیں سستا اور فوری انصاف مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے عقیدہ و مذہب سے بھی مطابقت رکھتا ہے، اس لئے وہی ان کے لئے زیادہ موزوں ہے۔ ان کا یہ موقف قبول کرلیا گیا اور ایک آرڈیننس کے ذریعے انہیں یہ نظام مہیا کرنے کا اعلان کردیا گیا، لیکن وہ آرڈیننس محض الفاظ کا ہیر پھیر تھا جس کی حقیقت واضح ہونے کے بعد عوام کے جذبات میں شدت پیدا ہوئی اور رفتہ رفتہ یہاں تک جا پہنچی کہ غیروں کی لگائی ہوئی آگ پر پاکستانی مسلمان اور پاک فورسز آپس میں دست و گریباں ہیں۔ اپنے ہی بھائیوں کو قتل کرکے پاکستان اور مسلم دشمن عناصر کی خواہش کی تکمیل کر رہے ہیں سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ یہ کیا ہورہا ہے؟ کیوں ہورہا ہے۔ درمیاں میں کونسا طبقہ ہے جو اپنے مفادات کیلئے محب وطن مسلمانوں کا قتل عام کرارہا ہے۔
ہماری نئی نسل کو جس نے مغربی نظام تعلیم کے زیر سایہ تعلیم پائی ہے‘ یہی بتایا گیا ہے کہ قرآن کریم صرف ایک مذہبی کتاب ہے اور چونکہ سوسائٹی کے ساتھ مذہب کا تعلق پرانی بات ہوگئی ہے جسے آج کی دنیا نے ترک کردیا ہے اس لئے سوسائٹی کے اجتماعی معاملات میں مذہب کا کوئی عمل دخل باقی نہیں رہا اور قرآن کریم کے بارے میں اس نسل کی صرف اتنی عقیدت ہے کہ قرآن کو صرف ایک متبرک چیز سمجھتے ہیں اور تاریخی دستاویز اور برکت کے حصول کا ذریعہ تصور کرتے ہیں۔ حلف اٹھانے اور تعویذات کی رسوم کیلئے اس مقدس کتاب کو استعمال کرنا (نعوذ باللہ) اس کا صحیح حق سمجھ لیا گیا ہے ۔ملک وقوم کے اجتماعی شعبوں کے مسائل کے بارے میں اس کا حوالہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے اور دستور وقانون کے معاملات طے کرنے کے سلسلے میں یہ لوگ مغربی جمہوریت اور وہاں سے تعلیم حاصل کرنے والے طبقے کے وضع کردہ اصولوں اور اپنی عقل کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں۔
اسی ذہنیت کے باعث ملک کی دستور سازی اور قانون سازی کی جدوجہد میں ایک عرصہ تک یہ بات کہی جاتی رہی کہ قرآن کریم اور اس کے ساتھ سنت رسولؐ دستور وقانون کا ذریعہ یعنی ’’سورس آف قانون‘‘ تو ہوسکتے ہیں لیکن خود انہیں قانون قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ بحث اب بھی جاری ہے اور پاکستان میں نفاذ شریعت کی راہ میں حائل رکاوٹوں میں سے ایک اہم رکاوٹ ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی سیکرٹری اطلاعات محترمہ فوزیہ وہاب صاحبہ کا یہ کہنا کہ ’’امیر المومنین حضرت عمر بن الخطاب ؓ ملک کے حاکم اعلیٰ ہونے کے باوجود اس لئے عدالت کے سامنے پیش ہوگئے تھے کہ اس وقت صرف قرآن کریم موجود تھا اور کوئی باقاعدہ دستور نافذ نہیں تھا۔‘‘ اس پر ملک کے علمی ودینی حلقوں میں بحث وتمحیص کا سلسلہ جاری ہے اور اصحاب علم ودانش اپنے اپنے نقطہ نظر کا اظہار کررہے ہیں۔
ہمارے خیال میں محترمہ فوزیہ وہاب کے ان ریمارکس کے پیچھے بھی یہی ذہنیت کارفرما ہے کہ قرآن وسنت کو اصولی راہ نما کا درجہ تو دیا جاسکتا ہے لیکن قانون ودستور وہی ہوگا جو ہم بنائیں گے اور ہم پر پابندی بھی اسی دستور وقانون کی ضروری ہے جو خود ہمارے ہاتھوں تشکیل پائے ۔ اسی موڑ پر دو نظریوں اور دو افکار کے مابین تصادم ہوتی ہے۔ ایک طرف مغربی افکار کے زیر اثر حکومت کرنے والا حلقہ ہے اور دوسری جانب اسلام پسند وقرآن پسند طبقہ ہے۔اس صورت حال میں اگر جناب نبی کریم ﷺ کے ارشادات گرامی اور خلفائے راشدین کے طرز عمل پر ایک نظر ڈالی جائے تو مغربی اداروں میں جدید تعلیم یافتہ طبقے کے نقطہ نظر کی تائید نہیں ہوتی اور وہاں واضح طور پر یہ بات ملتی ہے کہ قرآن وسنت کو اسلامی ریاست میں خود دستور وقانون کی حیثیت حاصل ہے چنانچہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے تاریخی خطبہ میں جہاں امت مسلمہ کو قیامت تک کیلئے راہنما اصولوں سے نوازا اور ہدایات دیں وہاں یہ بھی فرمایا کہ
’’تم پر اگر کسی حبشی غلام کو بھی حکمران بنادیا جائے تو اس کی اطاعت تم پر واجب ہے جب تک وہ قرآن کریم کے مطابق تم پر حکومت کرے‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اسلامی ریاست میں حکمران اور رعیت کے درمیان حکمرانی اور اطاعت کی اساس قرآن کریم کو قرار دیا ہے اور اسی وجہ سے خلیفۂ اول سیدنا صدیق اکبرؓ نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین کی حیثیت سے منصب خلافت سنبھالا تو اپنے پہلے خطبہ میںواضح اعلان کیاکہ:
’’اگر میں تمہیں کتاب اللہ اور سنت رسولؐ کے مطابق چلائوں تو میری اطاعت تم پر واجب ہے اور اگر اس سے ہٹ جائوں تو میری اطاعت تم پر ضروری نہیں ہے‘‘
سوال یہ ہے کہ دستور کسے کہتے ہیں؟ دستور کی عمومی تعریف یہ ہے کہ یہ وہ معاہدہ ہوتا ہے جس کے مطابق ایک ملک کے باشندے اکٹھے رہنے کا عہد کرتے ہیں اور حکومت اور رعایا کے درمیان معاملات اس کے دائرے میں طے پاتے ہیں۔ اسے جدید اصطلاح میں ’’سوشل کنٹریکٹ ‘‘کہا جاتا ہے اور ملک کے تمام طبقات پر اس کی پابندی ضروری ہوتی ہے۔
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ کے مذکورہ بالا ارشادات میں قرآن کریم اور سنت رسولؐ کی اصلی پوزیشن کو واضح کیا گیا ہے کہ وہ ریاست کے تمام معاملات کو چلانے کی اساس ہیں اور حکومت اور عوام کے درمیان کنٹریکٹ کی بنیاد ہیں جبکہ حضرت ابوبکرؓ نے اس کے ساتھ اس جملے کا بھی اضافہ فرمایا کہ
’’اگر میں کتاب وسنت کے مطابق سیدھا چلوں تو میری اطاعت کرواور اگر ٹیڑھا چلنے لگوں تو مجھے سیدھا کردو‘‘
گویا رعایا کو یہ حق حاصل ہے کہ اگر حکمران قرآن وسنت کی پابندی سے انحراف کریں تو وہ ان کا محاسبہ کریں اور انہیں سیدھا کرنے کے وہ تمام ذرائع اختیار کریں جو اس دور کے حالات کے مطابق انہیں میسر ہوں۔
حضرت عمر بن الخطابؓ نے جب شہادت سے قبل چھ افراد پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی اورہدایت کی کہ وہ لوگوں کی مشاورت کے ساتھ خود میں سے کسی کو خلیفہ منتخب کرلیں تو اس کمیٹی نے بحث ومباحثہ کے بعد سارے اختیارات حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کے حوالے کردیئے اور انہیں’’بادشاہ گر‘‘ کی حیثیت حاصل ہوگئی‘ بخاری شریف کی روایت کے مطابق وہ مسلسل تین دن اور تین راتیں مختلف طبقات اور شخصیات سے مشاورت کرتے رہے اور جب اس طویل ترین مشاورت کے بعد انہوں نے حضرت عثمان بن عفانؓ کو امیر المومنین بنانے کا فیصلہ کرلیا تو سب لوگوں کو نماز فجر کے بعد مسجد نبویؐ میں جمع کیا اور اپنی عوامی مشاورت کی رپورٹ دیتے ہوئے اس بات کا اعلان کیا کہ لوگوںکی بھاری اکثریت حضرت عثمانؓ کو خلیفہ بنانے کے حق میں ہے ۔بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے حضرت عثمانؓ کو خلیفہ بنانے کا اعلان کرکے ان سے یہ فرمایا کہ
’’أبایعک علی سنۃ اللہ ورسولہ والخلیفتین من بعدہ‘‘
’’میں تمہارے ہاتھ پر اس شرط کے ساتھ بیعت کرتا ہوں کہ تم اللہ تعالیٰ کے قانون اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پابندی کروگے اور ان کے دو خلفاء یعنی حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمرؓ کی روایات کی پاسداری کروگے۔‘‘
یعنی قرآن کریم‘ سنت رسولؐ اور خلفاء رسول‘ کے احکام ہدایات کو حکمران اور رعیت کے درمیان معاہدے کا درجہ حاصل ہے اور اسی کو آج کی زبان میں ’’دستور‘‘ کہا جاتا ہے اور جب ہماری طرف سے ملک کے دستور میں غیر مشروط طور پر قرآن وسنت کو ’’سپریم لاء‘‘ قرار دینے کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے۔
محترمہ فوزیہ وہاب کی مذکورہ بالا گفتگو کے جن قابل اعتراض پہلوئوں پر مختلف حلقوںکی طرف سے اظہار خیال کیا جارہا ہے ہمیں ان حلقوں سے اتفاق ہے لیکن ہمارے نزدیک اس کے اس پہلو کو (کہ قرآن وسنت کو بالادستی دلائی جائے ) اجاگر کرنے کی زیادہ ضرورت ہے جو بدقسمتی سے خود ہمارے دینی حلقوں میں بھی زیادہ قابل توجہ نہیںرہا اور بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ خدانخواستہ ہم نے بھی اس حوالہ سے مغرب کی سیکولر ذہنیت کو عملاً قبول کرلیا ہے ۔