مذہبی ہم آہنگی اور بین المذاہب مکالمہ

عالمی اور قومی سطح پر یہ کہا جاتا ہے کہ امن کے قیام کے لئے مذہبی ہم آہنگی ضروری ہے ۔ میں اس وقت قومی حوالے سے بات کرنا چاہتا ہوں کہ اس وقت ملک میں بدامنی کی جو صورت حال ہے اس کے ساتھ مذہب کا تذکرہ معمول بن گیا ہے۔ مجھے اس سے انکار نہیں ہے کہ مذہب کا غلط یا جذباتی استعمال بھی بدامنی کا ایک باعث ہے لیکن اسے صرف مذہب کے ساتھ نتھی کردینادرست نہیں بلکہ مذہب کو بدنام کرنے کے ایجنڈے کا حصہ ہے کیونکہ ہمارے ملک میں بدامنی، لاقانونیت اور قتل وغارت کے اسباب میں زبان ونسل کے جھگڑے بھی ہیں اور علاقائی وقومی تنازعات بھی شامل ہیں۔ یہاں سیاسی بنیاد پر بھی قتل وغارت ہوتی ہے اور دیگر وجوہ سے بھی بدامنی کو فروغ ملتا ہے۔ ان سب کے پیچھے عالمی قوتوںکے وہ مفادات اور ایجنڈے ہیں جو اس علاقے اور خطے کے بارے میں انہوں نے طے کررکھے ہیں۔ اس لئے بدامنی کے سدباب اور امن کے قیام کے لئے صرف اہل مذہب کو بدنام کرتے چلے جانے کی بجائے مجموعی صورت حال کو دیکھنا ہوگا۔

اس اصولی گزارش کے بعد میں عرض کرنا چاہوں گا کہ مجھے اس سے انکار نہیں اور تسلیم کرتا ہوں کہ ہندوئوں، مسیحیوں، سکھوں اور دیگر غیر مسلموں کی ایک بڑی تعداد نے قیام پاکستان کی حمایت کی تھی اور تحریک پاکستان میں حصہ لیا تھا مگر اس کے ساتھ یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ غیر مسلم قوموں نے اس سماجی معاہدے اور سوشل کنٹریکٹ کے تناظر میں قیام پاکستان کی حمایت کی تھی جو تحریک پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح اور دیگر رہنمائوں کے ساتھ انہوں نے طے کیا تھا۔ انہوں نے یہ حقیقت تسلیم کرکے تحریک پاکستان میں شمولیت اختیار کی تھی کہ پاکستان مسلمانوں کے تہذیبی تشخص اور مذہبی شناخت کے تحفظ وبقاء کے لئے قائم کیا جارہا ہے اور اسلامی نظام کے ازسر نو تجربے کے لئے قائم کیا جارہا ہے یہ اس وقت کا سوشل کنٹریکٹ تھا جو مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان ہوا تھا اور اس سماجی معاہدے نے بالآخر 1973ء کے دستور کی شکل اختیار کی تھی جس پر سب نے اتفاق کا اظہار کیا تھا۔ اس لئے پاکستان میں غیر مسلموں کے حقوق کا تعین اسی سماجی معاہدے کے دائرے میں ہوگا اور میں اس گزارش کی ضرورت محسوس کرتا ہوں کہ جب حقوق کے باب میں اس سوشل کنٹریکٹ کو نظر انداز کردیا جاتا ہے حتیٰ کہ بعض اوقات اسے چیلنج کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا تو معاملہ بگاڑ کی طرف جانے لگتا ہے اور باہمی بے اعتمادی کی صورت حال پیدا ہونے لگتی ہے۔ میں غیر مسلم قوموں کی قیادتوں سے یہ عرض کروں گا کہ وہ اس معروضی حقیقت کو ضرور سامنے رکھیں۔
اس کے بعد میں موجودہ معروضی صورت حال میں پاکستان میں قیام امن کے لئے مسلم اکثریت سے کچھ عرض مناسب سمجھتا ہوں اس لئے کہ وہ بہرحال اس ملک کی اکثریت ہیں رولنگ کلاس ہیں اور اپنے ہم وطن بھائیوں کے حقوق ومفادات کی حفاظت ونگرانی بہرحال ان کی ذمہ داری ہے…جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد گرامی کا مفہوم یہ ہے کہ میری امت کے آخری حصے کی اصلاح بھی انہی طریقوں اور راستوں سے ہوگی جن طریقوں سے امت کے پہلے حصوں نے فلاح پائی ہے۔ اس حدیث کو سامنے رکھتے ہوئے میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین کے طرز عمل کی ایک جھلک پیش کرنا چاہوں گا کہ انہوں نے اپنے دور میں غیر مسلم باشندوں سے کیسا رویہ اختیار کیا تھا؟ اس لئے کہ ہمارے لئے اسوہ اور نمونہ وہی ہیں اور ہم نے اسی سرچشمے سے رہنمائی حاصل کرنی ہے اگر ہم آج اس سنت اور اسوہ کو اپنالیں تو بہت سے مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے۔
بخاری شریف کی روایت ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک تنازع پیش ہوا کہ ایک یہودی اور مسلمان کے مکالمے میں حضرت یونس علیہ السلام کا تذکرہ نامناسب انداز میں ہوا ہے۔ اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا …لاتفضلونی علیٰ یونس بن متی…مجھے حضرت یونس علیہ السلام پر فضیلت نہ دو۔ اس پر محدثین کرامؓ فرماتے ہیں کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت یونس علیہ السلام اور دیگر انبیاء کرام علیہم السلام پر فضیلت تو حاصل ہے لہٰذا یہاں ارشاد نبویﷺ کا مطلب یہ ہے کہ میرا حضرت یونس علیہ السلام کے ساتھ تقابل اس انداز سے نہ کرو کہ ان کی اہانت کا پہلو اس سے نکلتا ہو۔ ہمارے ہاں خطیبانہ انداز اور جذباتی ماحول میں جس طرح حضرات انبیائے کرام علیہم السلام اور آسمانی مذاہب کے درمیان تقابل کیا جاتا ہے، اس پس منظر میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی کی اہمیت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ اپنی فضیلت کا ذکر تو کیا جائے لیکن دوسرے مذہب اور اس کے بزرگوںں کا تذکرہ اس لہجے میں نہ کیا جائے جس سے ان کی توہین ہوتی ہو۔
اسی طرح بخاری شریف کی روایت ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک یہودی لبیدین اعصم نے جادو کی کارروائی کی اور اس کے اثرات بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روزمرہ معمولات میں محسوس ہونے لگے تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعہ خواب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واردات سے آگاہ کیا کہ ایک یہودی لبید بن اعصم نے کنگھی اور بالوں کے ایک گچھے پر جادو کا عمل کرکے اسے ذی اروان کے کنویں میں ایک چٹان کے نیچے چھپادیا ہے جس کے اثرات نظر آرہے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذی اروان کے کنویں سے وہ چیزیں برآمد کرلیں مگر ان کی نمائش کرنے کی بجائے وہیں انہیں مٹی کھود کر دفن کردیا۔ ام المؤمنین حضرت عائشہؓ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ آپ وہ کنگھی اور بالوں کا گچھا اپنے ساتھ لے کر کیوں نہیں آئے، اسے لوگوں کو دکھایا کیوں نہیں اور انہیں وہیں کیوں دفن کردیا؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب مجھے اللہ تعالیٰ نے اس کے شر سے بچا لیا ہے تو میں اسے عام کرکے لوگوں میں شر نہیں پھیلانا چاہتا۔
آج ہم چھوٹی چھوٹی باتوں کو پھیلادیتے ہیں اور ان میں سے بہت سی باتیں فساد اور بدامنی کا باعث بنتی ہیں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اسوۂ حسنہ میں ہمارے لئے بہت بڑا سبق ہے کہ کسی خبر کو عام کرنے سے قبل جہاں یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ وہ خبر درست ہے یا نہیں۔ وہاں یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ اس کا پھیلانا سوسائٹی میں بدامنی اور فساد کا ذریعہ تو نہیں بنے گا؟۔
مؤرخین نے امیر المؤمنین حضرت عمرؓ کے دور خلافت کا ایک واقعہ لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ نے ایک دن بازار میں ایک بوڑھے یہودی کو دکانوں پر بھیک مانگتے دیکھا تو بلاکر پوچھا کہ کیا تمہیں بیت المال سے وظیفہ نہیں ملتا؟ اور کیا وہ تمہاری ضروریات کے لئے کافی نہیں ہوتا؟ اس نے کہا کہ وظیفہ ملتا ہے اور ضروریات کے مطابق ملتا ہے تو پوچھا کہ پھر بھیک کیوں مانگ رہے ہو؟ اس نے کہا کہ مجھے سال کے بعد جزیہ بھی دینا ہوتا ہے جس کے لئے میرے پاس رقم نہیں ہے، اس کے لئے بھیک مانگ رہا ہوں۔ حضرت عمرؓ نے اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہوکر کہا کہ یہ انصاف کی بات نہیں کہ اس کی جوانی کی کمائی ہم کھائیں۔ یعنی یہ اپنی کمائی سے ہمیں جزیہ ادا کرے اور بڑھاپے میں ہم اسے لوگوں کے دروازوں پر بھیک مانگنے کے لئے چھوڑ دیں۔ پھر اس بوڑھے سے فرمایا کہ بھیک مانگنے کی ضرورت نہیں، ہم تمہارا مسئلہ حل کردیں گے۔ دوسرے دن اصحاب شوریٰ کو بلاکر مشورہ کیا اور جزیہ کے قانون میں ترمیم کردی کہ جو غیر مسلم کمانے کے قابل نہ رہے اس کا جزیہ معاف ہے۔
یہ باتیں میں نے اس لئے عرض کی ہیں کہ ہم بہرحال مسلم اکثریت کے طور پر رولنگ کلاس ہیں اور سب سے زیادہ ذمہ داری ہم پر ہی عائد ہوتی ہے، اس لئے اگر ہم ان معاملات میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات خلفائے راشدین کے طرز عمل کو اختیار کرلیں تو اپنی ذمہ داری کو زیادہ بہترطور پر پورا کرسکتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ایک بار پھر یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ہمارے ہاں بدامنی اور قتل وغارت کی سب سے بڑی وجہ علاقائی صورت حال اور اس خطے میں بیرونی قوتوں کی مداخلت ہے، اس لئے ہمیں سب سے زیادہ توجہ قومی خود مختاری کی بحالی کی طرف دینا ہوگی اور اپنے فیصلے خود کرنے کا اختیار حاصل کرنا ہوگا۔ جب تک ہماری خود مختاری مکمل اور عملی طور پر بحال نہیں ہوگی اور ہمارے فیصلے باہر ہوتے رہیں گے، امن کا قیام ممکن ہی نہیں ہے لہٰذا ہم سب کو مل کر قومی خود مختاری کی بحالی کے لئے کام کرنا ہوگا اس لئے کہ اسی سے ہمارا امن اور مستقل وابستہ ہے۔

Please follow and like us:

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا. ضرورت کے کھیتوں ک* نشان لگا دیا گیا ہے