مغرب وامریکہ اور مشرق کے مسلمانوں کے درمیان حالات و معاملات کی تاریخ صدیوں پر پھیلی ہوئی ہے۔ یورپ میں مسلمانوں کے ہاتھوں سپین سے علوم کی روشنی پھیلنے سے پہلے مغرب کے مذہبی اجارہ داروں کے ہاتھوں اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کے بارے میں جو خیالات ، افکار اور عقائد پائے جاتے تھے، اُن کو آج مغربی تاریخ کی کتب میں پڑھ کر ہنسی کے ساتھ افسوس بھی ہوتا ہے کہ تعصب آخر انسان کی آنکھوں پر کیسی پٹی باندھ دیتا ہے۔
پھر زمانہ بدلا، مغرب اور مشرق کے درمیان رابطے ہوئے، لیکن یہ رابطے صلیبی لڑائیوں کی صورت میں ہوئے اور صلیبی لڑائیوں کے پیچھے مغربی کلیساوں کے متعصب اور تنگ نظر پادریوں کی اسلامی تعلیمات کے خلاف برسوں کی غلط فہمیاں کار فرماتھیں۔ ہسپانیہ میں مسلمانوں کی ترقی سے متاثر ہو کر پیرس میں اُسی طرز پر مدرسے قائم کئے گئے جس طرح آج ہمارے ہاں برطانیہ اور دیگر اور یورپی ممالک کے مشہور علمی اداروں آکسفورڈ وغیرہ کی طرز پر قائم کئے جاتے ہیں۔ اِس قسم کے علمی اداروں کے طفیل دُنیاآگے بڑھی، مغرب میں سائنسی اور صنعتی انقلاب برپا ہوا جس کے ذریعے مغرب اور مشرق کے درمیان ایک نیا میلاپ ہوا جس میں مغرب استعمار کی صورت میں تقریباً اسلامی دُنیا پر چھا گیا۔
اسلامی دُنیا پر مغربی استعمار کی مدت کم و بیش دو صدیاں رہی جس کے دوران اسلامی دُنیا تین چار طبقوں میں تقسیم ہو کر رہ گئی۔ ایک وہ لوگ تھے جن کی قیادت علمائِ حق اور آزادی کے متوالوں نے کی اور استعمار کی راہ میں سختی کے ساتھ مزاحم ہوئے۔ استعمار کی بے پناہ طاقت کے مقابلے میں اگر چہ وہ اُس وقت بظاہر کامیاب و کامران نہ ہوئے لیکن بیش بہا قربانیوں سے آزادی کی ایک ایسی شمع جلائی جس نے آگے جا کر اسلامی دُنیا کو روشن کیا۔
علمائے حق کا دوسرا طبقہ وہ تھا جنہوں نے زمینی حقائق کو بھانپ کر مسلح مزاحمت تو نہ کی لیکن قلم کے ذریعے آنے والی نسلوں کی رہنمائی کی اور اسلام کی حقانیت کو جدید پیمانوں اور تقاضوں کے مطابق پیش کر کے مسلمانوں کی نوجوان نسل کو مغربی مشنریوں اور مستشرقین کی فریب کاریوں سے محفوظ رکھا۔
ہاں ایک طبقہ ایسا بھی تھا جنہوں نے انگریز سرکار یا استعمار کو "ظل اللہ" سے تعبیر کر کے اُن کی اطاعت کو اطاعت آمیز سمجھا اور بہت بڑا نقصان کیا۔ مجبوری مقہوری کے تحت کسی استعمار کو برداشت کرنا ایک بات ہے اور اُس کی تعریفیں کرنا یا اُس کیلئے جواز تلاش کرنا بالکل دوسری بات ہے۔
چوتھا طبقہ وہ تھا جو شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار رہا اور آگے بڑھ کر استعمار کا ہاتھ پاؤں بنا رہا جس کی بناء پر دو صدیوں تک اسلامی دُنیا میں استعمار اور سامراج دندناتا رہا اور مسلمانوں کی تاریخ اور دینی اقدار کے بارے میں بہت منظم انداز میں غلط فہمیاں پیدا کرتا رہا۔ لیکن اِس کے باوجود اسلام دینِ حق ہونے کی بناء پر بہت ساری مشکلات کے باوجود آگے بڑھ کر اِسی استعماری دور میں یورپ کی طرف پیش قدمی کرتا رہا اور وہاں کے کم و بیش ہر ملک میں قدم جماتا چلا گیا، یہاںتک کہ بعض مغربی ممالک میں اسلام کے ماننے والے تعداد کے لحاظ سے دوسرے نمبرپر آگئے۔ لیکن نائن الیون کے بعد ایک نئی صورت حال واقع ہو گئی۔ امریکہ اور مغرب نے اِس واقعہ کو بنیاد بنا کر ایک طرف عراق اور افغانستان جیسے ملکوں پر قیامت برپا کرتے ہوئے قبضہ کیا اور دوسری طرف اپنے مخصوص علماء اور سکالرز کے ذریعے اسلام پر دہشت گردی اور انتہا پسندی کے وہ الزامات لگائے جس کے اثرات کے تحت گذشتہ دس سالوں میں مسلمانانِ عالم کو بد ترین حالات سے گزرنا پڑا۔ لیکن اسلام کی حقانیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ اور مغرب کی بھر پور عسکری ، تہذیبی اور ترغیبی و تحریصی یلغار کے باوجود اسلام ہے کہ امریکہ اور مغرب میں برابر نقب لگا تا چلا جارہا ہے۔
یہ صورتحال دیکھ کر امریکہ اور مغرب نے آج ایک طرف مذہبی ہم آہنگی کے نام پر اپنے سکالرز، علماء اور ڈالرز کے ذریعے مسلمان ممالک میں کچھ علماء، سکالرز اور این جی اوز کے نام سے لوگوں کو مشغول رکھا ہے اور دوسری طرف بھر پور انداز میں مغرب اور امریکہ میں اسلام اور مسلمانوں کی شبیہ کو بدنام اور خراب کرنے کی کوششیں مسلسل جاری ہیں۔ اس کے باوجو امریکی صدر رمضان المبارکٔ میں امریکی مسلمانوں کو افطار پر بلاتے ہیں اور عید مبارکٔ کا کارڈ وغیرہ بھیجتے ہیں اور قاہرہ میں اسلام اور مسلمانوں کی ستائش اور تعریف کرتے ہیں لیکن اُسی امریکہ بہادر کی ناک کے نیچے ڈنمارک، ناروے اور ہالینڈ وغیرہ میں کبھی دل آزار کارٹون اور خاکے شائع ہوتے ہیں اور کبھی "فتنہ" نامی فلموں کے ذریعے اسلام کا منّور چہرہ مسخ کرنے کی کوشش ہوتی ہیں۔ یہاں تک کہ پوپ بینڈکٹ نے علی الاعلان کہا کہ اسلام تشدد اور تلوار کے ذریعے پھیلا ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے اور اُن پر عرصۂ حیات تنگ کرنے کیلئے جتنے کام کئے گئے، اتنا ہی اسلام قبول ہوتا چلا گیا۔ مغرب میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف برپا طوفان کے سبب دُنیا بھر کے مسلمانوں کا ایمان پہلے سے زیادہ راسخ ہو رہا ہے اور اپنے دین اور تہذیب و ثقافت کی طرف اِن کا رحجان دن بدن بڑھ رہا ہے۔ جس کی وجہ سے مغربی ممالک کی بے چینی اور بے قراری میں اضافہ ہو رہاہے اور اب اُنہوں نے اِس کے رد عمل کے طور پر مسلمانوں کے مذہبی تشخص ، کلچر اور اسلامی علامتوں کو نشانہ بنانا شروع کیا ہے۔ جس میں تازہ ترین سوئٹزرلینڈ میں مساجد کے میناروں پر جس طرح پابندی لگائی گئی ہے اور اور فرانس میں حجاب یا برقعہ پر پابندیاں لگوانے کی جو تجاویز پیش کی جارہی ہیں وہ مغرب کی تازہ کارستانیوں کی علامت ہے۔ جرمنی نے تو اِس سلسلے اپنے گذشتہ ریکارڈ کو توڑتے ہوئے اپنے ہاں کے مسلمان دانشوروں اساتذہ اور بعض دیگر حضرات کی اپنے ڈھنگ پر تربیت کیلئے یونیورسٹیوں میں اسلامک سٹڈیز کے مراکز کھولنے کا منصوبہ بنایا ہے۔یہاں پر جن جرمن نو مسلم پروفیسروں کو تربیت دینے پر مامور کیا اُنہوں نے بلکل اسی طرح نبی ﷺ کے وجود پر ہی سوال اُٹھا دیا تھا جس طرح مغرب کے بعض دانشوروں نے موسیٰ ؑ کے بارے میں اُٹھایا تھا۔ یہ سب یورپ کے دیگر ملکوں کی طرز پر اسلام کو اپنی ضرورت کے مطابق ڈھالنے کی کوشش ہے ۔ لیکن یہ بات اب ہر کسی کی سمجھ میں آگئی ہے کہ مساجد کی میناروں سے سویٹزرلینڈ یا یورپ کے کسی اور ملک کو کوئی خطرہ نہیں ہے بلکہ اب تو یورپ کے کئی ممالک نے اِس پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ سویٹزرلینڈ جیسے خوشحال ملک میں مسجد کی میناروں کو اتنا بڑا مسئلہ قرار دینا کہ اِس پر ملک میں ریفرنڈم کرانا بذات خود ایک بہت بڑا سوال ہے لیکن اسلام کی حقانیت کا اندازہ اِس سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ اس ملک میں میناروں پر پابندی کے حق میں صرف ۴۳ فیصد ووٹ پڑے ہیں اِس کا مطلب یہ ہے کہ ۵۷ فیصد لوگ مسلمانوں کے حق میں ہیں لیکن اسلام مخالف عناصر نے حکومتِ سویٹزرلینڈکو فریب دیکر ریفرنڈم کر اکر میناروں پر پابندی کا بِل پارلیمنٹ میں پیش کر دیا۔
فرانس میں پہلے سکولوں میں مسلمان استانیوں اور بچیوں کے اسکارف لینے پر اُنگلیاں اُٹھائی گئیں۔ فرانس یورپ کا وہ ملک ہے جہاں مسلمانوں کی آبادی سب سے زیادہ ہے۔ اب مسلمان بچیوں اور خواتین پر حجاب اور اسکارف وغیرہ پر مطلقاً پابندی کیلئے چند ممبران پارلیمنٹ نے خطوط کے ذریعے حکومت کی توجہ اِس طرف مبذول کرائی اور فرانس کی حکومت نے فی الفور ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جس نے نقاب و حجاب پر پابندی کی خلاف ورزی کرنے والوں پر ۷۰۰ یورو جرمانہ اور دوبارہ خلاف ورزی پر اُس مسلمان خاندان کی شہریت یا رہائشی پرمٹ کینسل کرنے کی سفارش کی۔ لیکن یہ فیصلہ سیکولر یورپ کے منہ پر ایک ایسا طمانچہ ثابت ہوا کہ کتھولک چرچ اور یورپ کے معتدل اور انصاف پسندحلقوں نے اِس فیصلے کی سنگینی پر حکومت کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ حکومت فرانس کے اِس غیر منصفانہ فیصلے کا اثر مسلمان ممالک میں آباد عیسائیوں پر لامحالہ پڑے گا۔
اِن اقدامات سے پتہ چلتا ہے کہ اب مغرب میں بات صرف اسلام اور مسلمانوں کے امیج اور تصور کو مسخ کرنے تک محدود نہیں رہی بلکہ اب اسلام اور مسلمانوں کے دین سے وابستہ شعائر اور علامتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور یورپ میں ایسے حالات پیدا کئے جارہے ہیں کہ مسلمان مجبور ہو کر مغرب کو خیر باد کہدیں۔ اِس کے پیچھے مغرب کی یہ نفسیات کام کر رہی ہیں کہ ان سب کار گزاریوں کے باوجود یورپ میں اسلام کی مقبولیت بڑھتی جارہی ہے جس کی وجہ سے یورپی ملکوں کی حکومتوں پر دہشت اور خوف طاری ہے جس کی وجہ سے وہ اسلام کا راستہ روکنے کیلئے اُلٹے سیدھے اقدامات کرہے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ اب اِن کی ہر چال اور ہر تدبیر اُلٹی پڑ رہی ہے اور اُن کے اپنے اقدامات کی وجہ سے ہزیمت اُٹھانی پڑ رہی ہے۔ اسلام کی حقانیت کا ثبوت یہ ہے کہ اِن سارے مذموم و مکروہ اقدامات کے باوجود ہر یورپی ملک میں نہ صرف مسلم آبادی روز بروز بڑھ رہی ہے بلکہ انصاف پسند اور معتدل مزاج لوگوں میں اسلام اور اسلامی شعائر کی طرف رحجان بڑھ رہا ہے۔ سچ کہا ہے شاعر نے کہ،
؎ پھونکوں سے یہ چراغ بجھایانہ جائیگا۔
مذہبی ہم آہنگی اور مغرب کا رویہ
Please follow and like us: