اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہے
سب سے پہلے میں اپنی معزز مہمان محترمہ فرح انور پنڈت ’’امریکی صدر کی نمائندہ خصوصی برائے اسلامی ممالک ‘‘کو اس تقریب میں یہاں موجود علماء کرام، جامعہ کے اساتذہ اور طلباء کی جانب سے خوش آمدید کہتا ہوں۔
امریکی صدر جناب بارک حسین ابامہ نے صدر منتخب ہونے کے بعد عالم اسلام کے لئے آپ کو نمائندہ خصوصی مقرر کرکے امت مسلمہ اور اسلام سے جس یکجہتی کا اظہار کیا ہے اس پر ہم ان کے مشکور ہیں اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ باہمی تبادلہ خیال اور ایک دوسرے کے قریب آنا ہی واحد حل ہے جس سے دنیا امن و سلامتی کا مرکز بن سکتی ہے ۔
مجھے بتلایا گیا ہے کہ آپ اپنے دورہ پاکستان کے دوران مختلف مدارس کا دورہ کر رہی ہیں ہم آپ کے اس عمل کو سراہتے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ اس کے ذریعے سے اقوام عالم اور دینی مدارس کے بارے میں خوش آئند پیغام پہنچے گا اور دینی مدارس کے بارے میں موجود غلط فہمیوں کا ازالہ بھی ہوسکے گا ،کیونکہ ہمارا یہ پختہ یقین ہے کہ مدارس کے بارے میں پائے جانے والے خدشات کی سب سے بڑی وجہ ہمارے درمیان پائی جانے والی خلیج ہے جس کا ختم ہونا دینی مدارس کے بھی مفاد میں ہے اسی میں اقوام عالم کا بھی فائدہ ہے۔ مدارس کے نام آتے ہی یا طالب علم کا نام سنتے ہی یا ایک عالم کی شکل و صورت دیکھتے ہی اسے دہشت گرد سمجھنا نا صرف یہ کہ عدل و انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے بلکہ امریکہ کے مفاد میں بھی نہیں ہے، اس رویئے کی وجہ سے باہمی نفرتوں میں اضافہ ہورہا ہے، اور یہ میں صرف امریکہ کی بات نہیں کر رہا بلکہ بہت سے ممالک میں مذہب اسلام سے تعلق رکھنے والوں کو دہشت گرد شمار کر لیا جاتا ہے، ہر مسلمان پر شک و شبہ کا اظہار کرنا یہ ایک ایسا عمل ہے جس سے آپ نفرت کو عام کر سکتے ہیں محبت نہیں پھیلائی جا سکتی۔
اس موقع پر میں یہ بھی کہنا چاہوںگا آپ دینی ادارے میں موجود ہیں آپ ایک مسلمان خاندان سے تعلق رکھتی ہیں آپ سے بہتر کون جانتا ہے کہ ہمارا پیارا مذہب اسلام سلامتی اور امن کا مذہب ہے۔ اسلام کا امن و سلامتی کا جو پیغام ہے وہ ہر ایک کے لئے ہے۔ اسلام نے جان کی حرمت جو بیان کی ہے وہ ہر ایک جاندار کے لئے ہے، ہمارا مذہب اللہ تعالیٰ کی کسی بھی مخلوق کو حتیٰ کہ زمین پر چلنے والی چیونٹی کو بھی جان کا تحفظ فراہم کرتا ہے اور پھر انسان تو اللہ کی اعلیٰ مخلوق ہے ، یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک مذہب جس نے جانوروں کو ،کیڑے مکوڑوں کو حتیٰ کہ درختوں کے لئے بھی امن و سلامتی کی بات کی ہو وہ مذہب انسان جو کہ اللہ کی سب سے اعلیٰ مخلوق ہے اس کے لئے کیسے تباہی اور بربادی کا سبب بن سکتا ہے۔
ہم ہمیشہ سے یہ کہتے آئے ہیں کہ دہشت گردی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ہم آج بھی دہشتگردی کی بھرپور مذمت کرتے ہیں، دینی مدارس انہی اسلامی تعلیمات کے امین ہیں، قرآن آپ بھی پڑھتی ہیں اور ہر جگہ الحمد للہ موجود بھی ہے، اسی قرآن و حدیث کی تعلیم دینی مدارس میں دی جاتی ہے، جب قرآن امن و سلامتی والی کتاب، جب اسلام امن و سلامتی والا مذہب ہے تو یہ دینی مدارس کس طرح دہشت گردی کا سبب بن سکتے ہیں جو قرآن و حدیث کی تعلیم کو عام کرنے کے لئے بنائے گئے ہوں۔ ہمیں تو فخر ہے کہ ہم نے دینی مدارس کے ذریعے معاشرے کے لاکھوں نادار غریب ،یتیم اور بے سہارا بچوں اور بچیوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا بلکہ اُن کو تمام ضروریات مہیا کرکے معاشرے کا کارآمد فرد بنا دیا۔
مجھے افسوس ہے کہ بار بار امریکی عہدیدار اور مغربی ذرائع ابلاغ کی طرف سے دینی مدارس کے کردار اور نصاب کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا جاتا ہے اور وہ دینی مدارس جو ایک بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں جو صرف اور صرف تعلیم اور معاشرے میں امن و سکون کے لئے خدمات سر انجام دے رہے ہیںان کو یکسر نظر انداز کردیا جاتا ہے کہیں بھی ان مدارس کے علیحدہ کردار کی توصیف نہیں کی جاتی، جہاں تک نصاب کا تعلق ہے ۔ ہم نے ہمیشہ دینی مدارس کے نصاب میں مثبت تبدیلی کا خیر مقدم کیا ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مدارس کا نصاب جدید دور کے مطابق کرنا یہ مدارس کے مفاد میں ہے اور مدارس ضرورت کے مطابق نصاب بدلتے رہتے ہیں یہ کوئی اہم ایشو نہیں، اور آپ کو یہ سن کر خوشی ہوگی کہ آپ جس دینی ادارے میں موجود ہیں، یہاں طلباء دینی علوم کے ساتھ ساتھ بہت سے دنیاوی علوم و جدید فنون کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، اس کے علاوہ ہم نوجوان علماء کی تربیت کے لئے ’’تربیت علماء کورس ‘‘کے نام سے ایک کورس کروا رہے ہیں جن کو ٭انگلش لینگویج،٭اسلامک بینکنگ، ٭کمپیوٹر کورسز،٭جغرافیہ،٭ تقابل ادیان اور دیگر اہم ترین موضوعات پڑھائے جاتے ہیں۔ جس کے شرکاء بھی یہاں موجود ہیں تاکہ یہ علماء معاشرے کے جدید تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بہترین خدمات انجام دے سکیں۔
آخر میں میں اپنی معزز مہمان کے سامنے ایک سوال رکھنا چاہونگا ہمیشہ یہ سوال کیا جاتا ہے کہ دینی مدارس معاشرے کے لئے کیا کر رہے ہیں‘ یا یوں سوال کیا جاتا ہے کہ علماء معاشرے کے لئے کیا خدمات انجام دے رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ بھی ایک سوال ہے کہ معاشرہ دینی مدارس کے لئے کیا کر رہا ہے ؟صاحبان اقتدار جو ہمیشہ تشویش کا اظہار کرتے ہیں وہ مدارس کے لئے کیا کر رہے ہیں۔ میں کوئی لمبی بحث نہیں کرنا چاہتا، صرف اتنا ضرور پوچھنا چاہتا ہوں، کہ امریکی حکومت کے طلباء کے لئے لا تعداد پروگراموں میں سے کیا کوئی ایسا پروگرام بھی ہے جس میں ہمارے مدارس کے طلباء کو بھی شریک کیا جاتا ہو‘ دینی مدارس کے اساتذہ کرام، آئمہ مساجد میں سے کتنوں کو یہ موقع فراہم کیا گیا کہ وہ سہولت سے ویزہ حاصل کر کے امریکہ جائیں اور وہاں کے معاشرے میں موجود خصوصیات کا مشاہدہ کر سکیں‘ اگر جواب نفی میں ہے تو پھر آپ کی بھی ذمہ داری ہے کہ آپ عالم اسلام کے لئے نمائندہ خصوصی ہونے کی حیثیت سے آپ ہماری ان گذارشات کو ذ مہ داران تک پہنچائیں اور فعال کردار ادا کرکے دینی مدارس کے طلباء و اساتذہ کو بھی مناسب مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ ان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہو سکے اور دونوں معاشروں کو قریب دیکھنے کا موقع مل سکے اور جو مثبت تجاویز سامنے آئیں ان پر عمل کیا جائے۔