اسلام لفظ ’’سلام‘‘ سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے ’’سلامتی اور امن۔‘‘ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے سامنے جھکادیا جائے۔ پس اسلام سلامتی اور امن کا مذہب ہے جو خود کو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے آگے جھکادینے کی بدولت حاصل ہوتا ہے۔ اسلام امن کا خواہاں ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے پیروکاروں کو ظلم اور استحصال کے خلاف لڑنے کا حکم بھی دیتا ہے۔ بعض اوقات ظلم سے لڑنے اور اسے ختم کرنے کیلئے طاقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسلام میں طاقت کا استعمال صرف ظلم کے خاتمے، امن کے فروغ اور عدل کے قیام کیلئے ہے اور اسلام کا یہ پہلو سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے عہد سے بخوبی آشکارا ہوجاتا ہے لیکن اسلام کسی شخص یا گروہ کو اس بات کی اجازت ہرگز نہیں دیتا کہ وہ ظلم کے خاتمے کیلئے اٹھ کھڑا ہو اور طاقت کا استعمال کرتے ہوئے لوگوں کا قتل عام شروع کردے کیونکہ اس طرح سے بجائے امن قائم ہونے کے معاشرہ مزید بدامنی اور انارکی کا شکار ہوجائے گا اور ظلم بجائے ختم ہونے کے مزید فروغ پائے گا لہٰذا اسلام میں ظلم کے خاتمے اور قیام امن کیلئے طاقت کے استعمال کا حق صرف حکومت وقت کو حاصل ہے اور اس کیلئے بھی احتساب کا باقاعدہ ایک نظام قائم ہے۔
اسلام امن و آشتی کا مذہب اور ایمان امن وامان، جان، مال اور آبرو کی حفاظت کا نہ صرف داعی ہے بلکہ اسلام و ایمان کی بنیاد، اصل اور خمیر ہی سلامتی و آشتی اور تحفظ عصمت پر رکھی گئی ہے۔ رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلم ومومن کی تعریف اور اسلام کا تعارف ہی اس بنیاد کو پیش نظر رکھ کر فرمایا ہے جیسا کہ ارشاد مبارک ہے کہ ’’مسلمان وہی ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘ اس تعریف و تعارف سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام اپنے پیروکاروں کو جان، مال اور آبرو کے تحفظ کا بنیادی درس دیتا ہے اور مسلم ومومن کا تعارف اس طرح کراتا ہے کہ مسلمان نہ تو قاتل ہوتا ہے، نہ دہشت گرد، نہ تشدد پسند اور نہ شرپسند۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب غیرمسلموں کو دائرہ اسلام میں داخل فرماتے تو اس وقت ان سے چند اہم بنیادی امور پر عہدو پیمان لیتے (جسے شریعت میں بیعت اسلام کہتے ہیں) ان میں یہ عہدو پیمان سرفہرست تھا ’’ہم عہد کرتے ہیں کہ شرک، زنا، چوری اور قتل ناحق نہیں کریں گے۔‘‘) (صحیح بخاری)
اسلام نے قتل ناحق کو کفرو شرک کے ساتھ نتھی کرکے اس کی قباحت کو اجاگر کیا ہے اور کفرو شرک کی طرح قتل ناحق کی سزا دائمی جہنم بیان کی ہے۔
علامہ نووی رحمہ اللہ شرح مسلم میں فرماتے ہیں کہ
’’شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ قتل وخونریزی ہے۔‘‘
قرآن کریم نے سورۂ مائدہ میں ایک فرد کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دے کر اس کی سنگینی کو واضح کیا ہے۔ دوسرے کی جان کے درپے آزار ہونا اور اسے قتل کرنا تو درکنار اسلام تو اپنی جان اور اپنی ذات تک کے بارے میں شدید پابندی لگاتا ہے کہ خودکشی کے ذریعے جو اپنی جان کو تلف کرے گا وہ بھی دائمی جہنم کا سزاوار قرار پائے گا۔ (جمع الفوائد) قتل تو قتل اسلام نے تو کسی ہتھیار کو کھلے عام اس انداز سے لے کر چلنے پر بھی پابندی عائد کی ہے جس سے خوف و دہشت کی فضا قائم ہو۔ جیسا کہ ارشاد نبویؐ ہے:
’’جو اسلحے کی نمائش کرتے ہوئے دندناتا پھرے گا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔‘‘ (صحیح بخاری)
اسلام قتل وخونریزی کو ایک لمحے کیلئے بھی برداشت نہیں کرتا۔ ایک طرف وہ طرح طرح سے ان لوگوں کی مشکیں کستا ہے جو اس میں آلودہ ہوکر حظ اٹھانے کے عادی ہوتے ہیں دوسری طرف عوام الناس کو منع کرتا ہے کہ وہ اپنے کسی قول وعمل سے قاتل کی اعانت وحوصلہ افزائی نہ کریں۔ انگلیوں سے کنکربازی، خشت بازی کو بھی اسی اندیشے کے پیش نظر کہ اس سے کسی کو چوٹ لگ جائے اور وہ بڑھ کر جنگ کا شعلہ بھڑکادے اور انسانی زندگی کا اطمیان وسکون اس کی نذر ہوجائے، اسلام نے منع کردیا ہے۔
حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کی ڈھیلہ بازی وکنکربازی سے منع فرمایا ہے کیونکہ اس سے کسی کے دانت ٹوٹ سکتے ہیں اور آنکھیں پھوٹ سکتی ہیں۔ (صحیح بخاری)
اسلام نے ان تمام گوشوں پر نظر ڈالی ہے جہاں سے امن وامان میں رخنہ و خلل پڑنے کا اندیشہ ہوسکتا ہے اور محبت بھری فضاء میں عداوت و فساد کے مسموم جراثیم سرایت کرسکتے ہیں۔ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے عالمی و آفاقی اجتماع میں سوالاکھ سے زائد شرکاء کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ نے تم پر تمہارے خون، تمہارے مال اور آبرو کو حرام کردیا ہے اور انہیں ایسی حرمت و عزت بخشی ہے جو حرمت و تقدس تمہارے اس شہر، اس مہینے اور اس دن کو حاصل ہے۔‘‘
اسلام کی تعلیمات تو یہ ہیں کہ انسان خواہ کتنا ہی عالم و فاضل، عابد و زاہد ہو اگر وہ اوصاف اخلاق سے محروم ہے تو اس کا علم فضیلت اور عبادت و زہد سب ہیچ ہے۔ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رحمت مومن کی خوبیوں میں سے ہے لہٰذا دل کی سختی سے بچو جو تمہیں چھوڑے اس سے ملو، جو تمہیں نہ دے اسے دو اور جو تم پر ظلم کرے اسے معاف کردو، جب تم ایسا کرو گے تو تمہاری رسی اللہ تعالیٰ کی رسی سے جڑجائے گی۔
رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعے سے پورے حجاز سے ظلم کو مٹادیا‘‘۔
اندازہ لگائیے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا کام لیا جارہا ہے؟ دنیا سے ظلم کو مٹانا یہی اسلام کا سب سے بڑا مقصد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمت المسلمین یا رحمت المومنین بناکر نہیں بھیجا بلکہ رب العالمین نے آپؐ کو رحمۃ للعالمین بناکر بھیجا یعنی اللہ تعالیٰ تمام انسانوں، جنات، حیوانات، نباتات، جمادات، زمین وآسمان، چاند، سورج، ستاروں، سیاروں، سمندروں و پہاڑوں سمیت تمام مخلوق اور تمام عالموں کا رب اور خالق ومالک اور اس کا محبوب، تمام انسانوں، تمام مخلوقات اور تمام عالموں کیلئے سراپا رحمت۔کیا دنیا کوئی ایسی مثال پیش کرسکتی ہے جیسی رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کی کہ طائف کی گلیوں میں رب العالمین کا نام لینے کے ’’جرم‘‘ میں پتھر مار مار کر لہولہان کردیا گیا، سرتاپا خون مبارک بہہ رہا ہے، زخموں سے چور ہیں، چلنا دشوار ہورہا ہے، اللہ کا لاڈلا، اللہ کا محبوب، وجہ خلقت کائنات، تمام انس و جن، تمام انبیاء علیہم السلام کا سردار جس کے خون کا ایک ایک قطرہ اس تمام کائنات سے اور دنیا و مافیہا سے افضل ہے۔ سر سے لے کر پائوں مبارک تک لہو لہو ہے حتیٰ کہ بے ہوش ہوکر گرپڑے۔ رحمۃ اپنے رب کیلئے۔ اس کے باوجود جب رب العالمین کا بھیجا ہوا مقرب فرشتہ دشمنوں کو نیست ونابود کرنے کی اجازت طلب کررہا ہے تو رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم جواب دیتے ہیں :
’’میں یہ نہیں چاہتا کہ انہیں صفحۂ ہستی سے مٹادیا جائے۔ مجھے امید ہے کہ ان کی نسل میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو اللہ کی عبادت کریں گے اور کسی کو اس کا شریک نہیں کریں گے۔‘‘
اسی طرح غزوۂ احد میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہوئے، آپؐ کا دندان مبارک شہید ہوا اور آپؐ کا چہرہ مبارک بھی زخمی ہوگیا، ایسے موقع پر بھی رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم بددعا کے بجائے فرماتے ہیں کہ ’’میں لعنت کرنے والا بناکر مبعوث نہیں کیا گیا۔ میں تو ہادی اور رحمت بناکر بھیجا گیا ہوں۔‘‘
اور یہی نہیں بلکہ زخم پہنچانے والے دشمنوں کیلئے بددعا کے بجائے یہ دعا فرماتے ہیں :’’اے اللہ! میری قوم کو ہدایت عطا فرما یہ مجھے نہیں جانتے‘‘۔
کیونکہ وہ انتقام لینے کے لئے نہیں آئے، وہ ظلم وتشدد کا جواب ظلم وتشدد سے دینے کیلئے نہیں آئے، وہ دہشت گردی کا جواب دہشت گردی سے دینے کے لیے نہیں آئے۔ انہیں تو رحمۃ للعالمینﷺ بناکر بھیجا گیا ہے لہٰذا وہ تشدد پسندوں وظالموں کیلئے بھی ہدایت کی دعا کرتے ہیں۔یہی ہر مسلمان کے لیے اسلام کی تعلیمات ہیں کہ وہ لوگوں کو موت کا تحفہ دینے کے بجائے ان کی زندگی بچانے کی فکر کرے اور ناحق قتل کرنا تو درکنار ،انہیں کوئی تکلیف دہ بات بھی نہ کہے اور نہ ہی ان کی دل آزاری کرے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہم مسلمان ہونے اور رحمت اللعالمینﷺ کے امتی ہونے کے باوجود ایک دوسرے کے جانی دشمن کیوں بنے ہوئے ہیں؟ جب سب ہی مسلمان ہیں تو پھر آخر یہ باہمی نفرتیں اور دشمنیاں کیوں؟ آخر کیوں؟للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حالت میں دیکھ کر عرش کانپ اٹھتا ہے، آسمان ہلنے لگتا ہے، زمین لرزنے لگتی ہے، ملائکہ رو پڑتے ہیں، زمین سے لے کر آسمان تک بے چینی وسراسیمگی پھیل جاتی ہے۔ اس وقت حضرت جبرئیل امین علیہ ملک الجبال (پہاڑوں کے فرشتے) کے ساتھ آئے اور کہا کہ اللہ رب العالمین نے ہمیں اس لئے بھیجا ہے کہ آپ حکم کریں تو دونوں طرف کی پہاڑوں کو ملاکر ان تمام افراد کو کچل دیا جائے۔
دیکھئے! انسانی تاریخ کی انوکھی مثال۔ رب العالمین کا بھیجا ہوا رسول جو اللہ تعالیٰ کا محبوب ہے، اس کی طاقت سے بھی آگاہ ہے، اس کی قدرت سے بھی بخوبی واقف ہے، اس کے خالق و مالک ہونے پر بھی یقین رکھتا ہے۔ ایک ایسی حالت میں کہ جب زخموں سے چور ہے، لہولہان ہے، بے ہوشی کے بعد ہوش میں آیا ہے اور یہ سب کس کی خاطر؟ اپنی جان کیلئے، مال کیلئے، حصول اقتدار کیلئے، اپنے قبیلے کیلئے نہیں صرف