عہد فاروقی میں حضرت ابو الدرداءؓ شام کے گورنر تھے۔ ایک مرتبہ حضرت عمرؓ گورنر سے ملاقات کے لئے شام گئے۔ رات کے وقت گورنر ہائوس پہنچے‘ وہاں روشنی کا انتظام نہیں تھا‘ ایک کونے میں سواری کا پالان‘ چند اینٹوں کا بستر اور سردیوں میں اوڑھنے کے لئے ایک چادر گورنر ہائوس کا کل اثاثہ تھا۔ حضرت عمر فاروقؓ نے اظہار تعجب کیا تو حضرت ابو درداءؓ نے فرمایا: کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث نہیں سنی کہ تمہارے پاس اتنا مال ہونا چاہئے جتنا مسافر کا زاد راہ ہوتا ہے۔ یہ سن کر حضرت عمرؓ رونے لگے حتیٰ کہ صبح ہوگئی۔
عالمی ادارے ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے کرپٹ ترین ممالک میں پاکستان ’’ترقی‘‘ کرکے 42سے 34ویں نمبر پر آگیا ہے جبکہ مزید ’’ترقی‘‘ کی پیش گوئیاں بھی کی جارہی ہیں‘ کیا یہ محض اتفاق ہے یا اس عالمی ادارے کی پاکستان سے دشمنی کا نتیجہ ہے یا پھر اعداد وشمار کی غلطی پاکستان کی بدنامی کا باعث بنی؟ ان نکات پر غور کیا جاسکتا تھا اگر ہمارے چاروں طرف کرپشن کا سیلاب نہ آیا ہوتا لیکن یہاں تو یہ حال ہے کہ حج جیسے مقدس فریضے کو بھی کرپشن کی بھینٹ چڑھادیا گیا ۔ حج کوٹہ الاٹ کرنے سے جو رشوت کا بازار گرم ہوتا ہے تو حجاج کی واپسی تک یہ سلسلہ چلتا ہی رہتا ہے۔ حتیٰ کہ اس مرتبہ تو خود سعودی حکومت نے حکومت پاکستان کو خط لکھ کر عازمین حج کے لئے رہائش گاہوں کے حصول میں کرپشن کی نشاندہی کی ہے۔ ان حرکتوں کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک طرف تو عازمین حج کو سعودی عرب پہنچ کر مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ دوسری جانب ملک کی جو رسوائی ہوتی ہے وہ الگ۔
اس کرۂ ارض پر آباد ممالک میں سے اسلامی ممالک کی تعداد ایک تہائی سے بھی کم ہے لیکن کرپٹ ترین ممالک میں اسلامی ممالک ہی سرفہرست ہیں اور یہ فہرست پڑھ کر ایک مسلمان کا سر شرم سے جھکتا ہی چلا جاتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اور کرپشن کی روک تھام کے لئے اس کا ’’چیک اینڈ بیلنس‘‘ سسٹم فول پروف ہے‘ اس کے باوجود اسلامی ممالک میں کرپشن کا راج چہ معنی دارد؟
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
بات دراصل یہ ہے کہ اسلامی نظام میں کوئی سقم نہیں اور یہ آج بھی اسی طرح قابل عمل ہے جس طرح چودہ سو سال قبل تھا۔ سعودی عرب سمیت بہت سے اسلامی ممالک میں آج بھی اسی نظام کی بدولت کرپشن برائے نام ہے‘ صرف یہی نہیں بلکہ اکثر ترقی یافتہ غیر مسلم ممالک کا کرپشن فری سسٹم بھی اسلامی نظام عدل کا مرہون منت ہے اور آج بھی کئی غیر اسلامی ممالک میں ’’عمر لاز‘‘ کے نام سے تشکیل دیئے گئے اصول اسلام کی حقانیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ لیکن آج ہم نیچے سے لے کر اوپر تک مفاد پرستی کا شکار ہوچکے ہیں۔ نہ تو ہمارے دلوں میں خوف خدا ہے اور نہ ہی قانون کا ڈر۔ ہر شخص اس اصول پر عمل پیرا ہے کہ
لے کے رشوت پکڑا گیا‘ دے کے رشوت چھوٹ جا
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ خلافت سے قبل شہزادوں کی سی زندگی بسر کرتے تھے‘ خلافت کی ذمہ داری آپڑی تو سارا دن سلطنت کی ذمہ داریاں پوری کرتے اور رات کو رب کائنات کے حضور گریہ وزاری کرتے۔ بیوی کے پوچھنے پر فرمایا: میری سلطنت کے اندر جتنے بھی غریب‘ مسکین‘ یتیم‘ مسافر‘ گمشدہ‘ مظلوم اور قیدی موجود ہیں ان سب کی ذمہ داری مجھ پر ہے۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز ان سب کے بارے میں مجھ سے باز پرس کرے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سب کے متعلق مجھ پر دعویٰ کریں گے‘ اگر میں خالق کائنات کی بارگاہ میں جواب دہی نہ کرسکا تو میرا انجام کیا ہوگا؟ جب ان باتوں کو سوچتا ہوں تو میری طاقت گم ہوجاتی ہے‘ دل بیٹھنے لگتا ہے اور آنکھوں سے بے دریغ آنسو بہنے لگتے ہیں۔
صرف حکمران ہی نہیں بلکہ عوام بھی ایسے ایماندار اور خوف خدا رکھنے والے تھے کہ ان کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ جیسا کہ ایک مرتبہ جنگ کے خاتمے پر جب مال غنیمت جمع کیا جارہا تھا تو ایک نقاب پوش مجاہد ایک ایسا تاج لے کر آیا جس میں ہیرے جڑے ہوئے تھے اور اپنے امیر کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی بہت ہی قیمتی چیز معلوم ہوتی ہے لہٰذا میں اسے جمع کرانے آیا ہوں تاکہ ضائع نہ ہو جائے۔ امیر نے اس کی ایمانداری سے متاثر ہوکر حیرت سے اس کا نام پوچھا تو وہ نقاب پوش یہ کہتا ہوا واپس لوٹ گیا کہ میں نے جس کے لئے یہ عمل کیا ہے وہ مجھے اور میرے نام کو بخوبی جانتا ہے۔
یہ تو خیر مسلمانوں کے دور عروج کی بات ہے اور ظاہر ہے کہ مسلمانوں کو عروج ملا ہی اس مضبوط وبے داغ کردار کی وجہ سے تھا لیکن ابھی پچھلی صدی کی بات ہے‘ جب پاکستان بنا تو اس قوم کی ایمانداری کی ایسی ایسی داستانیں رقم ہوئیں کہ دنیا بھر میں ہمارا سر فخر سے بلند ہوگیا۔
قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے مجھے زرعی زمین کی الاٹمنٹ کی درخواست دی۔ میں نے چھان بین کے بعد چند بے گھر زمین اسے الاٹ کردی۔ کئی برس گزرنے کے بعد ایک روز مجھے ڈاک سے ایک فائل موصول ہوئی جس کے ساتھ ایک خط بھی تھا جس میں لکھا تھا کہ حکومت نے مجھے یہ زمین الاٹ کی تھی جس پر کھیتی باڑی کرکے میں نے بچوں کی شادیاں کردیں‘ ایک چھوٹا سا مکان بھی بنالیا اور حج کی سعادت بھی حاصل کرلی ہے۔ اب مجھے اس زمین کی ضرورت نہیں رہی لہٰذا سرکار کو شکریے کے ساتھ واپس کررہا ہوں۔
ہمارا یہی کردار تھا جس کی بنیاد پر دنیا بھر میں پاکستانی لیبر کو پسند کیا جاتا تھا‘ پاکستانی قوم کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا‘ پاکستانی مصنوعات پر اعتماد کیا جاتا تھا اور ہم ایک باوقار قوم کی حیثیت سے جانے جاتے تھے مگر کرپشن کے اس ناسور نے ہمیں کہیں کا نہ چھوڑا‘ غیر تو غیر آج ہم خود بھی ایک دوسرے پر بھروسہ کرنے کیلئے تیار نہیں۔ ہر شخص دوسرے کو چور‘ غاصب‘ بے ایمان اور بدعنوان قرار دینے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور صرف کررہا ہے مگر اپنے گریبان میں جھانکنے کیلئے تیار نہیں۔ امانت‘ دیانت اور صداقت دنیا کے سب سے سچے مذہب اسلام کی شناخت اور بنیادی اوصاف ہیں جس میں یہ اوصاف نہیں اس میں ایمان نہیں‘ ہم جس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں ان کا کردار ایسا شفاف تھا کہ اعلان نبوت کی وجہ سے پورا معاشرہ دشمن ہوگیا‘ اپنے پرائے ہوگئے مگر اس کے باوجود یہ حقیقت تسلیم کرنے پر مجبور تھے کہ آپؐ صادق اور امین ہیں‘ خلفاء راشدین کے بے شمار مخالفین تھے‘ ان کے خلاف بغاوتیں بھی ہوئیں حتیٰ کہ انہیں شہید بھی کیا گیا مگر ان پر کرپشن کا الزام لگانے کی کسی کو جرأت نہ ہوسکی۔ یہی وہ مضبوط کردار تھا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے چہار اطراف عالم کے انسانوں کو حلقہ بگوش اسلام کردیا اور انہیں ملت واحدہ کی لڑی میں پرودیا۔
آج بھی اگر ہم من حیث القوم یہ عہد کرلیں کہ ہمیں ہر قیمت پر ’’کرپشن فری‘‘ معاشرہ تشکیل دینا ہے اور ہر شخص سب سے پہلے خود کو ’’کرپشن فری‘‘ بنانے کی کوشش کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرکے ترقی یافتہ اقوام میں شامل نہ ہوسکیں مگر اس کے لئے قربانی کی ضرورت ہے‘ اجتماعی قربانی۔