صوت الاسلام اتحاد امت کا فریضہ انجام دے رہی ہے
’’میں آپ سب حضرات کا انتہائی مشکور ہوں کہ آپ حضرات نے اتنے بڑے عظیم ’’علماء امن کنونشن‘‘ میں مجھے شرکت کا موقع عنایت کیا۔
مؤتمرالعالم الاسلامی کی طرف سے مختلف ذمہ داریوں کے سلسلے میں مجھے دنیا کے مختلف حصوں میں جانا ہوتا ہے‘ دانشوروں‘ صحافیوں‘ قلمکاروں‘ سرکاری عہدیداروں سے ملاقات ہوتی ہے تو میں یہ بات محسوس کرتا ہوں کہ ملت اسلامیہ کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کا جو فریضہ ہے اس کیلئے شروع سے کام ہوتا رہا کبھی اس میں کامیابی ہوجاتی ہے کبھی ایسا لگتا ہے کہ منزل ابھی بہت دور ہے۔شاید آپ کے علم میں یہ بات ہو کہ سید جمال الدین افغانیؒ نے بھی مسلمان رہنمائوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی ہے لیکن خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہونے کے بعد انہوں نے اعتراف کیا کہ جتنی کوششیں اس نے مسلمان رہنمائوں کو اکٹھا کرنے پر صرف کیں اتنی کوششیں عامۃ المسلمین پر کرتے تو بہت زیادہ کامیابی مل جاتی جیسے کہ آج کل مجلس صوت الاسلام پاکستان عامۃ المسلمین میں کام کررہی ہے جو صحیح راستہ ہے۔
٭اگر کسی تنظیم کا مقصد درست اور منزل متعین ہو تو آیت قرآنی ’’کشجرۃ طیبۃ اصلھا ثابث وفرعھا فی السماء‘‘ کا مصداق بن جاتا ہے۔ اس کا تنا مضبوط ہوتا ہے اور اس کی شاخیں آسمان سے باتیں کررہی ہوتی ہیں لیکن منزل کو پانے کیلئے ہمیشہ وقت لگتا ہے-
٭ آج کوئی بھی ملک اور خطہ نہیں ہے کہ جہاں مسلمان نہ ہوں اور مسلمان دنیا میں ڈیڑھ ارب سے زائد ہے اور یہ بھی مسلمہ بات ہے کہ سب سے تیزی سے پھیلنے والا مذہب اسلام ہے۔ اس میں ایک چیلنج اور ایک ذمہ داری بھی ہے اور صرف 40فیصد غیر مسلم ممالک میں رہتے ہیں‘ 60فیصد مسلم ممالک میں ہی بستے ہیں۔چیلنج یہ ہے کہ وہ غیر مسلم ممالک میں رہتے ہوئے اپنے تشخص کو کیسے برقرار رکھے۔ کیونکہ حکومتی قوانین اور اندر کا تعصب بسا اوقات مشکلات پیدا کرتے ہیں تو دنیا میں بے حد متعصب اور دین دشمن ممالک بھی ہیں اور الزام تراشی مسلمانوں پر کرتے ہیں۔ بعض غیر مسلم ممالک میں کوئی اس طرح مشکلات نہیں کیا جاتا ہے ہر قسم کی آزادی حاصل ہے ۔اپنے عقائد کے مطابق عمل کرنے کی آزادی ہے‘ رکاوٹ نہیں بنتے لیکن معاملہ اس وقت سے ذرا کٹھن ہوتا چلاگیا جب یورپی یونین کے لیڈران ایک جگہ اکٹھا ہوکر یہ سوچنے لگے کہ اس اسلامی تہذیب کا مقابلہ کس طرح کیا جائے۔ جرمنی کے ایک رہنما نے کہا کہ جو مسلمان جرمنی میں آئیں گے وہ ہماری تہذیب اپنائیں گے تو وہ یہاں رہ سکیں گے ورنہ ہم یہاں رہنے نہیں دیں گے۔فرانس کے صدر سرکوزی جب میں فرانس گیا تو وہ اس وقت وزیر داخلہ تھا میں نے اس سے بات چیت کی تو اس نے کہا کہ یہاں مسلمانوں کو ہر قسم کی آزادی حاصل ہے لیکن بعد میں پتہ نہیں کیا ہوا کہ وہ بے حد متعصب ہوگیا۔ اس نے حجاب اور اسلامی لباس پر پابندی لگادی اور یہ چیزیں مختلف پالیسیوں کی وجہ سے سامنے آتی ہیں ۔ اسی طرح برطانیہ کا حال ہے اور امریکہ میں تو نائن الیون کے بعد مسلمانوں پر نہ ختم ہونے والا ظلم وستم روا رکھا گیا‘ بلاوجہ مسلمانوں پر پریشر ڈالنا اور حراست میں لینا معمولی بات تھی حتیٰ کہ پوپ بینی ڈکٹ نے بھی غلط بات کہی ‘ کہا کہ اصل خرابی (نعوذ باللہ) اس کتاب میں ہے۔ ہمارے لیے چیلنج یہ ہے کہ ہم نے اپنے کردار وعمل سے لوگوں کو متاثر کرتا ہے، اس وقت تو صرف اسلام کی کشش سے لوگ کھنچے چلے آرہے ہیں۔
٭مذہب اسلام کی کشش کی وجہ سے لوگوں کے اشتیاق اور جذبے میں اضافہ ہورہا ہے ۔ جوان طبقہ دین کی طرف آرہا ہے اور عرب میں ابھی جو اسلامی انقلاب برپا کرہے ہیں اس کی قیادت بھی نوجوان نسل ہاتھ میں ہے اس کی وجہ سے ہمیں بڑی تسلی ہوتی ہے اور خوشی ہوتی ہے کہ آج کا نوجوان مسلمان مراکش سے لیکر انڈونیشیا تک ایک سوچ رکھتا ہے اور کسی بھی معاملے میں سب میں ایک ہی طرح کا ہیجان برپا ہوتا ہے۔
٭پاکستان بننے کے بعد قائد اعظم نے کراچی میں اسٹیٹ بینک کی بلڈنگ کی بنیاد رکھتے ہوئے فرمایا کہ ’’پاکستان دنیا کے نقشوں میں ایک اور رنگ کے اضافے کیلئے نہیں بنایا۔ یہ اسلامی تجربہ گاہ ہوگا اور اسلامی بنیادی اصولوں کے مطابق ہم ادارے قائم کریں گے، قوانین اور پالیسیاں بنائیں گے ایسی پالیسیاں جس کو باقی دنیا فالو کرے گی۔استحصال سے پاک یعنی سود سے پاک، اقتصادی نظام بنانا ہوگا اور یہ نظام بنانا پاکستان کے اقتصادی ماہرین کا فرض ہے۔‘‘
لیاقت علی خان جب امریکہ کا دورہ کررہے تھے تو لوگوں نے ان سے پوچھا کہ آپ اپنا نظام اشتراکیت کی بنیاد پر رکھیں گے یا سرمایہ داری کی بنیاد پر تو لیاقت علی خان مرحوم نے کہا کہ ’’ہمیں نظام چودہ سو سال پہلے ہمارے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم دے کر گئے ہیں۔ ہمیں اس کے اپنانے میں کوئی دقت نہیں ہوگی ‘‘امریکہ میں وہ یہ بات کہہ رہے تھے ۔ آج کوئی اس طرح کی جرأت نہیں کرتا۔ مجھے اس شخص کی بڑی قدر ہے یہ وہی لیاقت علی خان ہے جنہوں نے پہلی دستور ساز اسمبلی میں قرار داد مقاصد پیش کی۔ اس وقت امت مسلمہ کو ہر سطح پر متحد اور منظم ہونے کی ضرورت ہے ‘ قرار داد مقاصد کی صورت میں آئین میں دستور موجود ہے اس کو آئین کا عملی حصہ بنانے میں جنرل ضیاء الحق کا بہت اہم کردار ہے‘ مسلمان بالخصوص پاکستان کو سودی نظام سے نکل کر معاشی نظام کو بہتر بنانا ہوگا‘ پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا ہے اور اسلام کے نام پر ہی اس کی بقاء ہے اس وقت دنیا میں مسلمان ایک ارب 40کروڑ سے زائد ہیں جن میں سے تقریباً 40فیصد غیر مسلم ممالک میں رہائش پذیر ہیں ان میں سے اکثر کو اپنے تشخص کو بچانے کے حوالے سے مختلف چیلنجز کا سامنا ہے ۔ان چیلنجز سے نمٹنے کیلئے نوجوان علماء کو اپنے آپ کو تیار کرنا ہوگا۔
٭لوگوں میں آپس میں اختلاف رائے بھی ہوجاتا ہے لیکن قرآن وحدیث میں اس سلسلے میں بڑی وسعت ہے یہ نہیں ایک عام آدمی ایک دو اسلامی آرٹیکل پڑھ کر اجتہاد کرنے لگ جائے اور کہے کہ علامہ اقبال نے تو کہا ہے کہ اجتہاد کا دروازہ بند نہیں ہوا ہے ۔علامہ نے یہ بھی تو کہا کہ اجتہاد شدہ پر عملدرآمد اجتہاد کرنے سے حد درجہ بہتر ہے۔
میں ایک بار پھر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں اللہ پاک صوت الاسلام کے اس کاوش کو قبول فرمائے۔