مفتی ابوہریرہ محی الدین

ایسے لوگوں کو روکنا ہوگا جو اسلام اور علماء کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں،

صدر مجلس، مہمان خصوصی جناب سردار محمد یوسف صاحب وفاقی وزیر مذہبی امور وبین المذاہب ہم آہنگی، علماء کرام، میرے شیخ المشائخ خواجہ خواجگان حضرت خواجہ خلیل احمد صاحب، عزیز احمد صاحب، محترم اراکین پارلیمنٹیرینز اور ملک بھر سے آئے ہوئے معزز علماء کرام اور میرے عزیز ساتھیوں ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
واللہ جانئے اس تقریری مقابلے کے انعقاد پر میری 6مہینے کی محنت ہے اور میں نے یہ 6مہینے رات دن ایک کیے ہیں اور پورے پاکستان سے اپنے ان نوجوانوں کو آگے لایا اور ان کی حوصلہ افزائی کے لئے پہلا انعام 10لاکھ روپے ، دوسرا انعام 5لاکھ اور تیسرا انعام  ڈھائی لاکھ روپے کا رکھا۔
میں اللہ وتبارک وتعالیٰ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ جس تاریخی قدم کا ہم نے آغاز کیا تھا آج وہ نہایت ہی شاندار اور پروقار طریقے سے اختتام پذیر ہورہا ہے۔ میں اپنے اُن ساتھیوں کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے اتنے شاندار طریقے سے اس تقریب کو کنونشن سینٹر میں سجایا ہے۔ میں ان ساتھیوں کی عظیم کاوشوں کو سلام پیش کرتا ہوں۔ ایک طویل فہرست ہے میرے پاس جن کا شکریہ ادا کرنا ہے مگر نقیب محفل میرے پیچھے کھڑے ہیں جب انہوں نے اپنے والد محترم کو نہیں چھوڑا تو مجھے کہاں چھوڑیں گے مگر چیئرمین مجلس صوت الاسلام کی حیثیت سے میرے بھی کچھ حقوق ہیں، کچھ انصاف کے تقاضے ہیں اور کچھ میرے اختیارات بھی ہیں۔ آپ مانتے ہیں کہ نہیں مانتے (اس پر ہال میں موجود ہزاروں شرکاء نے ڈیسک بجاکر مفتی ابوہریرہ محی الدین صاحب کے اختیارات کی تائید کی) اس کے بعد مفتی ابوہریرہ محی الدین نے مزید کہا کہ تھوڑا سا وقت اگر اوپر نیچے ہوگیا تو میں اس کی پیشگی معذرت چاہتا ہوں۔
آپ جانتے ہیں مجلس صوت الاسلام پاکستان کا نام کچھ عرصے سے آپ کے سامنے ہے۔ مجلس صوت الاسلام نوجوان علماء پر مشتمل غیر سیاسی اصلاحی جماعت ہے۔ میرے عزیزان محترم ہمارے کوئی لمبے چوڑے مقاصد نہیں ہیں۔ ہمارے اہم اور بنیادی مقاصد یہ ہیں کہ ہمارا جو نوجوان فارغ التحصیل ہوتا ہے ،چاہتے ہیں کہ جب وہ بات کرے تو دلیل کے ساتھ، حکمت کے ساتھ، صبروتحمل کے ساتھ، برداشت کے ساتھ، اعتدال کے ساتھ، بردباری کے ساتھ اور اسلام کی عمدہ اخلاقی تعلیمات سے مزین ہوکر وہ معاشرے میں اپنی خدمات کو انجام دے۔
آپ جانتے ہیں مجلس صوت الاسلام پاکستان نے مختلف موقعوں پر سیمینارز منعقد کرکے اس ملک عزیز سے وابستہ ان نوجوانوں کو بتایا کہ دیکھیے شدت پسندی، تخریب کاری، دہشت گردی اور قتل وغارت گری ان تمام چیزوں سے بالاتر ہوکر اپنے ملک کے اندر صحیح اسلامی تعلیمات کو عام کرنا ہے اور ان تمام شکوک وشبہات کو دور کرنا ہے جو پوری دنیا اس وقت مذہبی طبقہ کے متعلق لگارہی ہے۔
ہمارے دینی مدارس میں پڑھائے جانے والے نصاب کی جہاں تک بات ہے توہم مانتے ہیں اس نصاب میں عصری علوم کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔ ہمارا یہ نوجوان کمپیوٹر، عصری علوم میں ماہر ہونا چاہیے کیونکہ جب وہ گفتگو کرے گا تو اس کی گفتگو اس ماحول میں زیادہ کارآمد ہوگی جس ماحول سے آج ہم گزر رہے ہیں اور اس عصری علوم کا سیکھنا ہمارے لئے ناگزیر ہے مگر جہاں تک تعلق ہے دہشت گردی کا، جہاں تک تعلق ہے قتل وغارت گری کا تو معذرت کے ساتھ ،میں سمجھتا ہوں کہ الحمدللہ دینی مدارس کا کردار روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ نا تو یہاں سے کبھی دہشت گردی کو سامنے لایا گیا نہ یہ سبب بنے ہیں مگر ہمیں سوچنا ضرور ہے۔ ہمیں دیکھنا ضرور ہے کہ کیا وجہ ہے کہ وہ لوگ جو مذہب کا نام استعمال کرکے جو اس ٹوپی اور داڑھی کو استعمال کرکے اپنے مقاصد کے لئے، اپنے غیر ملکی ایجنڈے کے لئے علماء کو، مدارس کو اور مذہب کو بدنام کرتے ہیں۔ ریاست سے بھی پہلے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ایسے لوگوں کو روکیں جو اپنے مذموم مقاصد کے لئے مذہب اور علماء کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں، ہم کیوں گھبراتے ہیں۔ مدارس یا مدرسہ کوئی پرچون کی دکان نہیں ہے کہ یہاں سے اٹھاکر وہاں منتقل کردیا جائے یا اس کو تالا لگادیا جائے گا۔ مدرسہ ایک قوت ہے جو قیامت تک ان شاء اللہ قائم ودائم رہے گا۔ مدرسے کو اب کسی سے خوف نہیں ہے۔ میرے عزیزو! کسی سے خوف نہیں ہے۔
ہم 21ویں آئینی ترمیم کی حمایت کرتے ہیں۔ کوئی اگر مذہب کے نام پر چاہے وہ کوئی عالم ہے یا کوئی بھی مذہب کی آڑ لیتا ہے تو ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کو بے نقاب کرے، ہم اس کے ساتھ ہیں، یہ قتل وغارت گری بند ہونی چاہیے۔ اسلام کے نام پر قتل وغارت کا جو سلسلہ جاری ہے۔میرے عزیزان محترم بہت ہوگیا، بہت ہوگیا۔ اگر مگر کی سیاست ہمیں چھوڑنی ہوگی۔ اچھے اور برے کے لفظ کو چھوڑنا ہوگا، یہ ملک آج جل رہا ہے، آج ہمارا گھر جل رہا ہے، آج ہم ایسی عجیب فضا میں جی رہے ہیں جہاں ہمیں کوئی تحفظ نہیں اور ہم جارہے ہیں اپنی دفاعی پوزیشن میں۔ کیوں جارہے ہیں ہم اپنی دفاعی پوزیشن میں، ہم نے کچھ نہیں کیا۔ ہمارے مدرسے کھلے ہیں۔ آئیے! اگر میرے مدرسے کا آڈٹ کرنے سے دہشت گردی کم ہوتی ہے یا دہشت گرد ختم ہوتے ہیں، میں سب سے پہلے حکومت کو دعوت دیتا ہوں، آئیے میرے مدرسے کا آڈٹ کیجیے۔
الحمدللہ 1977ء سے ہم مدرسے کا آڈٹ کرارہے ہیں۔ آج بھی ہمارا مدرسہ آڈٹ شدہ ہے۔ ہمیں کسی چیز کا کیا خوف ہے۔ ہمارے پاس پیسہ دینے والے موجود ہیں، آئیے ہم سے پوچھئے کہ ہمیں کون پیسہ دیتا ہے، ہم آپ کو بتائیں گے یہ غیور عوام کی محنت ہے۔ انہی غیور عوام کی خون پسینے کی کمائی ہے جو مدارس میں لگتی ہے۔ لہٰذا آپ ان این جی اوز کی طرف توجہ کریں جو دوسری طرف سے آکر اسلام پر یلغار کرتی ہیں، پاکستان پر حملہ کرتی ہیں، اس کی اخلاقیات پر یلغار کرتی ہیں، نوجوانوں پر حملہ کرتی ہیں۔ ضرورت ہے کہ ان کا آڈٹ کرایا جائے، ان کو لگام دی جائے۔ مدارس سے وابستہ افراد کسی بھی قسم کی دہشت گردی میں ملوث نہیں ہیں۔ ہاں اگر کچھ ہیں تو اب موقع ہے کہ ان کو بے نقاب کیا جائے۔ ان کو پکڑا جائے، ہمارا بھی مؤقف یہ ہے۔ 21ویں ترمیم کا میں نے بغور مطالعہ کیا۔ کہیں اس ترمیم میں یہ ذکر نہیں ہے کہ مدرسے کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ معذرت کے ساتھ، کہیں نہیں ہے۔ 
الحمدللہ! یہ اسلامی ملک ہے ہم کیوں گھبراتے ہیں ۔ جن درندہ صفت دہشت گردوں نے پشاور میں اسکول پر حملہ کیا۔ معصوم بچوں کو شہید کیا ہم ان دہشت گردوں پر لعنت بھیجتے ہیں، یہ درندہ صفت دہشت گرد اس کے بعد بر ملا کہتے ہیں کہ ہم نے اسلام کی خدمت کی، ملک کی خدمت کی۔ 
عزیزان محترم !یہ ملک کی خدمت نہیں، یہ اسلام سے غداری ہے، یہ ملک سے غداری ہے، ہمیں ان دہشت گردوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ہوگا۔ آواز بلند کرنا ہوگی اور ان شاء اللہ یہ نوجوان علماء حکومت کی ہر اس پالیسی کا ساتھ دیں گے جو دہشت گردی ختم کرنے اور فرقہ واریت کی جڑیں نکالنے میں ممدوومعاون ہوگی۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ملک ایک اسلامی فلاحی ریاست ہو، جہاں اقلیتوں کو وہ حقوق حاصل ہوں جو اسلام نے انہیں دیئے ہیں، جہاں ہر انسان حفاظت سے رہ سکے۔
میں تمام حضرات کا خاص طور پر سردار یوسف صاحب کا تہہ دل سے مشکور ہوں کہ یہ ہمارے نمائندے بیٹھے ہیں وہ ہم میں سے ہیں۔ ان کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ آپ کو یقین نہیں آئے گا کہ جب میں نے ان سے کہا کہ میں ایک تقریری مقابلہ منعقد کرنا چاہتا ہوں تو انہوں نے پہلے مقابلے سے لے کر آج اختتامی تقریب تک ہمارا ساتھ دیا۔ جہاں بھی کوئی کمی بیشی یا رکاوٹ آئی، انہوں نے دور کی جب بھی ضرورت پڑی سردار صاحب نے ہماری مدد کی۔
میری حکومت کو تجویز ہے کہ دینی مدارس کے معاملات کو جتنا یہ سمجھتے اور جانتے ہیں اتناوزارت کو علم نہیں۔ لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ دینی مدارس کے حوالے سے تمام معاملات وفاقی وزارت مذہبی امور کے ماتحت کئے جائیں۔ وزارت داخلہ کا ایک سپاہی مدرسے کے مہتمم کے پاس جاکر پوچھتا ہے کہ یہ واسکٹ کہاں سے آئی ہے، کتنے کی ہے۔ دوسرا سوال یہ ہوتا ہے کہ آپ کے پاس سواری ہے تو یہ کہاں سے آئی ہے، ان کے فضول سوالوں کا جواب نہ ہمارے پاس ہے نہ دینا چاہتے ہیں۔جہاں تک مدارس کے نصاب میں اصلاحات کا تعلق ہے تو اس کے لئے وزارت مذہبی امور کے نمائندوں کو ہمارے ساتھ بیٹھنا چاہیے اور بات کرنا چاہیے۔ باقی رہا رجسٹریشن کا معاملہ تو الحمدللہ مدارس رجسٹرڈ ہیں۔ جہاں پر کوئی شک وشبہ ہے تو یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ سب کو اعتماد میں لے۔ 
آخر میں، میں تمام علماء کرام وطلبہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو اس تقریب میں شریک ہوئے۔ بالخصوص میجر (ر) محمد عامر صاحب اور فاٹا کے پارلیمنٹیرینز کا کہ ان لوگوں نے اس تقریب کو رونق بخشی۔

Please follow and like us:

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا. ضرورت کے کھیتوں ک* نشان لگا دیا گیا ہے