علماء یہ عزم کریں کہ معاشرے کو امن کا گہوارہ بنائیں گے
سب سے پہلے تو میں آپ تمام حضرات کا مشکور ہوں کہ آپ حضرات بے پناہ مصروفیات کے باوجود ہماری دعوت پر یہاں تشریف لائے اور ہماری اس تقریب کو رونق بخشی، میں اپنے معزز مہما ن خصوصی صدر آزاد جموں وکشمیر کا بھی تہہ دل سے مشکور ہوں کہ ہماری درخواست پر نوجوان علماء کرام کی حوصلہ افزائی کیلئے یہاں ہمارے درمیان موجود ہیں یقینا یہ ان کی اسلام، پاکستان اور علماء کے ساتھ گہری وابستگی کی دلیل ہے، اللہ تعالیٰ انہیں اس کی بہترین جزا عطا فرمائے۔
محترم مہمان خصوصی! آج میرے لیے انتہائی مسرت اور اطمینان کا موقع ہے کہ ’’علماء امن کنونشن‘‘ جس کا آپ افتتاح کر رہے ہیں، اس میں ملک بھر بشمول آزاد جموں وکشمیر سے منتخب کیے گئے 500 نوجوان علماء کا حسین گلدستہ ہمارے سامنے ہے۔ انسانیت سے محبت کرنے والے، استحکام پاکستان پر یقین رکھنے والے دین اسلام کی خدمت کا جذبہ لیے یہ پُر عزم نوجوان درحقیقت تربیت العلماء کورس مکمل کرنے والے ان 900 سے زائد علماء کا حصہ ہیں جو ملک کے طول وعرض اور دور دراز علاقوں میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے معاشرہ کو مزین کر رہے ہیں۔
تربیت العلماء کورس مجلس صوت الاسلام پاکستان کا ترتیب دیا ہوا ایک سالہ کورس ہے جس کا مقصد نوجوان علماء کرام کو معاشرہ کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا اور معاشرہ میں اصلاح احوال کے لیے خدمات انجام دینے کیلئے تیار کرنا ہے، کراچی اور پشاور میں ہونے والے اس کورس میں 230علماء کرام سالانہ تربیت حاصل کرتے ہیں اور ہمیں فخر ہے کہ ہمارے نوجوان ساتھی اس کورس میں حاصل ہونے والی معلومات اور دیگر فوائد کو بہتر انداز میں استعمال کررہے ہیں۔
محترم مہمان خصوصی اور دیگر احباب ! دین اسلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجا جانے والا آخری دین ہے اور اب انسانیت کی فلاح وبہبود اسی دین سے وابستہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرما دیا کہ اب کوئی دوسرا دین اللہ کی بارگاہ میں قابل قبول نہیں ہے گویا کہ اب ہر انسان کی فلاح دین اسلام سے وابستہ ہے اور یہی دین اسلام قیامت تک کے انسانوں کیلئے باعث نجات ہے، اسی لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ دین اسلام میں اللہ رب العزت نے ایسی صلاحیت اور اتنی لچک رکھی ہے کہ یہ قیامت تک آنے و الے ہر زمانہ اور ہر معاشرہ کی ضروریات اور اس کے تقاضوں پر پورا اترسکتا ہے اور ہر زمانہ کے انسان یکساں طور پر اس کی تعلیمات سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔
ہمارا دین ایک زندہ دین ہے اور اس کی تعلیمات درحقیقت رب العالمین کے احکامات ہیں جو رحمۃ للعالمین سرور کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے ہم تک پہنچے، اللہ کا بہت بڑا احسان ہے کہ اللہ نے ہمیں یہ اعزاز بخشا کہ ہم خاتم النبیین کے امتی ہیں ،یہ وہ اعزاز وانعام ہے کہ جس کی انبیاء میں سے بہت سے انبیاء نے بھی تمنا کی، اس امت کا حصہ ہونا جہاں اعزاز کی بات ہے وہاں بہت بڑی ذمہ داری بھی ہے اور ان تمام ذمہ داریوں کا نچوڑ اور خلاصہ ہے’’ انسانیت سے محبت اور مخلوق کے نفع کیلئے کام کرنا‘‘
میرے ساتھیو! آج اسلام کے بارے میں ، آپ کے عقائد وکردار کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کی جاتی ہیں، اپنوں کی جلد بازی‘ ناعاقبت اندیشی اور جذباتی جملوں نے ایک طرف اسلام کو بدنام کیا تو دوسری طرف بے بنیاد پروپیگنڈے اسلام کی تعلیمات کو مسخ کرکے پیش کرنے کی کوششیں اوراسلام کے بارے میں پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں سے بھی اسلام کو نقصان پہنچا‘ آج اسلام کوایک سخت گیر اور انسانیت کیلئے خطرناک مذہب کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اسلام جس نے انسانیت کو بے پناہ علوم سے نوازا، وہ اسلام جس نے انسانیت کا کھویا ہوا احترام لوٹایا، وہ دین اسلام جس نے سیرت وکردار کو سنوارا اور انسانوں کو بتلایا کہ محبت، اخوت، عدل وانصاف کیا ہیں اور یہ کیسے معاشرہ تشکیل دیتے ہیں‘ انسانوں کی اہمیت کیا ہے اور کیسے انسانیت کو عظمت حاصل ہوتی ہے‘ یہ تمام اخلاق وصفات دینے والا دین آج اس مقام کے قابل نہیں سمجھاجارہا جو اس کا حقیقی مقام ہے، آپ سب علماء کرام ہیں آپ سے بہتر کون جانتا ہے کہ جو محبت جو نرمی اور انسانیت کی جو عظمت دین اسلام میں ہے وہ کسی دوسرے دین میں اتنے کامل اور مکمل انداز میں موجود نہیں ہیں، یہ کیسے ممکن ہے کہ جس دین کے احکامات رب العالمین نے دیئے ہوں اور جس کا آغاز رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے کیاہو وہ انسانیت کیلئے خطرناک ہو؟ ۔
میرے محترم ساتھیو! ہمارا مذہب اور دین تو جانوروں تک کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے جس دین میں چیونٹی جیسی چھوٹی سی مخلوق کو بے وجہ نقصان پہنچانے کی اجازت نہ ہو وہ بھلا انسان جیسی عظیم مخلوق کیلئے کس طرح نقصان دہ ہوسکتا ہے۔آج دنیاکے سامنے اسلام کا صحیح چہرہ پیش کرنے کی ضرورت ہے دنیا کے سامنے اسلامی تعلیمات کو حقیقی انداز میں پیش کرنے کی ضرورت ہے، اپنے نوجوانوں کو بھی ان تمام صفات سے آگاہ کرنا ضروری ہے جونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مطہرہ میں موجود ہیں،میرے خیال میں آج اسلام کی سب سے بڑی خدمت یہ ہے کہ ہم اس کا چہرہ مسخ ہونے سے بچائیں اور یہ ذمہ داری سب سے زیادہ علماء کرام پر عائد ہوتی ہے کیونکہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علماء کو انبیاء کا وارث قرار دیا ہے اور اسی وراثت کا تقاضہ ہے کہ آپ علماء دین اسلام کی ترجمانی کا فریضہ انجام دیں اور اسلام کی عمدہ تعلیمات اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کو اس طرح سے انسانوں کے سامنے پیش کریں کہ وہ انہیں اپنانے پر تیار ہوجائیں۔
میرے محترم ساتھیو! اگر آپ دین اسلام کی خدمت کا جذبہ رکھتے ہیں اور جناب نبی کریم صلی ا للہ علیہ وسلم کی وراثت کا حق ادا کرنے کا عزم رکھتے ہیں تو آپ کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ آپ لوگوں کو اللہ اور اس کے رسول کے قریب کرنے کی کوشش کریں، اسلامی احکامات پر عمل کی طرف راغب کریں اور انہیں ان تمام اعلیٰ اخلاق اور صفات سے مزین کریں ا ور انہیں تمام برائیوں ا ورتخریبی کارروائیوں سے بچانے کی کوشش کریں۔
میرے نوجوان ساتھیو! اللہ تعالیٰ نے آپ پر بہت بڑی ذمہ داری عائدکی ہے، آج جس ماحول میں آپ اپنی عملی زندگی کا آغاز کررہے ہیں یہاں قدم قدم پر ناانصافی، ظلم وتشدد، ضد وعناد اور عدم برداشت آپ کے سامنے ایک رکاوٹ کی صورت میں نظر آئیں گے، آج ہمارا ملک جن نامساعد حالات کا شکار ہے اور جس طرح سے دہشت گردی، قتل وغارت گری، کرپشن، جہالت، عصبیت، لسانیت اور فرقہ واریت کا شکار ہے اور جس تیزی کے ساتھ ہماری قوم تباہی اور بربادی کا شکارہے ان حالات میں سب سے زیادہ ذمہ داری علماء کرام پر عائد ہوتی ہے۔
ہم سب کی یہ مشترکہ ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو تعلیم سے آراستہ کریں، ان میں اسلام کی محبت وعقیدت پیدا کرنے کی کوشش کریں، انسانی جان کی عظمت کا احساس ان میں پیدا کرنے کی کوشش کریں اور مایوس نوجوانوں میں جینے کی امنگ پیدا کریں۔ میں جانتا ہوں کہ یہ راستہ نہایت کٹھن دشوار اور مشکل ہے، جب آپ اصلاح کا جذبہ لیکر اٹھتے ہیں تو آپ کو قدم قدم پر مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا، وہ گروہ ، وہ جماعتیں اور وہ قوتیں جنہوں نے بڑی محنت سے یہ ماحول پیدا کیا ہے اور جن کا گزربسر نفرت وعداوت کی تحریکوں پر ہے ۔وہ لوگ محبت واخوت، عدل وانصاف کی بات برداشت کرنے پر تیار نہیں ہوں گے لیکن آپ کو صبروتحمل سے کام لینا ہوگا اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مطہرہ کو سامنے رکھیں کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح اذیتیں، تکالیف اور مصائب کا سامنا کیا۔ آپ ﷺکی سیرت مطہرہ کا جائزہ لیں کہ آپ ؐ کی مکہ مکرمہ کی زندگی کتنی تکلیف اور مصیبت میں گزری، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصلاح، د عوت تبلیغ اور انسانیت کی عظمت کا راستہ نہیں چھوڑا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانوں سے محبت کی عظیم مثالیں قائم فرمائیں، جن لوگوں نے آپﷺ کو تکالیف پہنچائیں، وقت آنے پر آپﷺ نے نہ صرف ان کو معاف فرمایا بلکہ مشکل وقت میں ان کے کام آئے، طائف کا واقعہ آپ حضرات کے سامنے ہے، کیا عفوودرگزر کی اس سے بڑی مثال پیش کی جاسکتی ہے، آج ہمیں شدت پسندی اور تنگ نظری کا طعنہ دیا جاتا ہے، میں آپ حضرات کے سامنے واضح انداز میں کہنا چاہتا ہوں کہ وسعت نظری اور فراخ دلی کا آغاز ہی ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہوتا ہے، آپ ﷺ نے وسعت نظری کو جس طرح فروغ دیا، آج وہ ہم سب کیلئے مشعل راہ ہے، یاد کیجیے کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی آزاد کردہ باندی حضرت بریرہ رضی ا للہ عنہا کو شوہر نہ چھوڑنے کی سفارش فرمائی تو انہوں نے عرض کیا کہ یہ حکم ہے یا مشورہ؟ جب آپﷺ نے فرمایا کہ مشورہ ہے تو انہوں نے اسے ماننے سے انکار کردیا، کیا آپ ایسی کوئی مثال پیش کرسکتے ہیں کہ ایک ایسا شخص جسے بے پناہ قوت وطاقت حاصل ہو اور ایک نہایت ہی کمزور عورت اس کے مشورے کو رد کردے اور وہ اس بات پر ذرہ برابر بھی ناگواری کا اظہار نہ کرے، آج خواتین کے حقوق کا ذکر شدومد سے کیا جاتا ہے، یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام خواتین کے حقوق کا سب سے بڑا ضامن ہے ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم معاشرے میں کمزور سمجھی جانے والی خواتین کے حقوق معاشرے کے سامنے واضح کریں اور انہیں ان کے حقوق کے تحفظ کا احساس دلائیں، آج ہمارے معاشرے میں جہالت اور بے ہودہ رسم ورواج خواتین کیلئے مسائل کا باعث بنے ہوئے ہیں۔
آخر میں، میں ایک مرتبہ پھر آپ نوجوان علماء کرام کو اس بات کا احساس دلانا چاہتا ہوں کہ آج امت مسلمہ اور آپ کے ملک پاکستان کو آپ کی شدید ضرورت ہے، آج معاشرہ کو اسلامی تعلیمات اور اسلام کی عطا کردہ عمدہ صفات کی ضرورت ہے، آج ہمارے نوجوانوں کو بے راہ روی، دہشت گردی اور قتل وغارت گری سے بچانے کی اور اس کیلئے سرگرم کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے اور مجھے امید ہے کہ آپ اس سلسلے میں آگے بڑھیں گے اور امت مسلمہ میں اتحاد اتفاق، محبت واخوت اور رواداری کو فروغ دیں گے اور اسلامی تعلیمات کے فروغ کو زندگی کا مقصد بنائیں گے، میں آپ تمام حضرات کا ایک مرتبہ پھر شکریہ ادا کرتا ہوں اور توقع کرتا ہوں کہ ہمارا یہ اجتماع خیر وبھلائی اور محبت واخوت کا پیغام عام کرنے کا باعث بنے گا، میں اپنے تمام معزز مہمانوںخصوصاً آج کی تقریب کے مہمان خصوصی جناب سردار یعقوب خان صاحب کا تہہ دل سے مشکور ہوں کہ وہ ہماری دعوت پر یہاں تشریف لائے۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین