نوجوان علماء استحکام پاکستان کو زندگی کا مشن بنائیں
’’ آپ سب حضرات قابل مبارکباد ہیں اور اس عزم اور ارادہ کو لیکر آئے ہیں کہ دو تین دن سے جہد مسلسل کررہے ہیں کہ ملک پاکستان میں امن کا قیام ہو‘ اسلام کا بول بالا ہو اور ہر انسان کی عزت نفس محفوظ ہو۔ اس سلسلے میں اکابرین اور نوجوان علماء کرام کے مقالات اور تجاویز سن کر آپ حضرات لائحہ عمل بھی تیار کررہے ہیں۔
٭میری خوشی کی کوئی انتہا نہیں کہ آج میں اپنی زندگی اور جوانی کی محنت کا پھل دیکھ رہا ہوں ۔
1977ء میں جامعہ اسلامیہ کی بنیاد ڈالی اور آج تک یہاں نہ کوئی دہشت گردی ہوئی اور نہ فرقہ واریت اور نہ جلسے جلوس اور ریلیاں نکالی گئیں۔ جلوس اور ریلیان مغربی تہذیب کا حصہ اور ہمارے لیے فتنہ ہیں جس میں تاجروں اور مریضوں کا خیال نہیں رکھا جاتا اور ایذائے مسلم کا باعث بنتے ہیں۔اسلامی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو کسی شخص کو یہ حق نہیں کہ وہ شارع عام کو بلاک کردے۔ یہی وجہ ہے کہ میں اپنے طلبہ بھائیوں سے ہمیشہ جلسے جلوس اور ریلیوں سے اجتناب کا کہتا ہوں تاکہ لوگوں کیلئے مشکلات کا باعث نہ بنیں۔خطرناک دہشت گردی کے دور میں بھی جامعہ اسلامیہ میں غیر مسلک کے لوگ بے دھڑک آتے تھے اور نماز پڑھتے تھے‘ کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتا تھا۔ اسی جذبہ کے تحت مجلس صوت اسلام کا قیام عمل میں لایا گیا۔ مجلس صوت الاسلام کی طرف سے آپ حضرات کا انتخاب خالص اللہ کی طرف سے ہے اس لیے کہ جو علوم آپ حضرات نے حاصل کیے ہیں اس سے بڑھ کر کوئی علوم اس کرہ ارض میں نہیں ہے۔ قرآن وحدیث کا علم آپ حضرات نے حاصل کیا ہے یہ ایسا علم ہے جو انسان کو انسان بناتا ہے اور انسانوں کے درمیان محبت پیدا کرتا ہے ، اخلاق سکھاتا ہے، تہذیب سکھاتا ہے ‘ دنیا میں رہنے کا ڈھنگ سکھلاتا ہے۔
٭معاشرے کی خرابی تعلقات کی خرابی کی بنیاد پر مبنی ہے‘ اگر صاحب اقتدار اور تاجروں کا تعلق کتاب اللہ کے علم رکھنے والوں کے ساتھ ہو تو یہ ساری خرابیاں دور ہوجائیں گی‘ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ صاحب اقتدار کو چاہیے کہ وہ نیچے آئیں اور اپنے ماتحتین کے ساتھ رابطہ قائم رکھے‘ علماء اور عوام سے رابطہ رکھے اور کوئی بھی ریاست ان تعلقات کے بغیر پائیدار اور پرامن حکومت قائم نہیں کرسکتی۔ دینی اور دنیوی اعتبار سے اعلیٰ مخلوق کا تعلق چھوٹی مخلوقوں کے ساتھ قائم کرکے ہی معاشرہ پرامن اور راہ راست پر لایا جاسکتا ہے۔
٭میرے عزیز فضلائے کرام! امت نے آپ پر خرچ کیا ہے‘ ایک محنت کش مزدور اپنی مزدوری سے پیسے نکال کر‘ ایک تاجر اپنی تجارت سے پیسے نکال کر‘ ڈاکٹرز اور انجینئرز اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے اپنی کمائی سے حصہ نکال کر آپ حضرات کی ضروریات کو پوری کرتے ہیں اور آپ عالم دین بن کر نکلتے ہیں ‘ معاشرہ‘ اساتذہ اور امت آپ سے یہ امید رکھتے ہیں کہآپ اٹھیں اور اسلامی فلاحی معاشرہ کی تشکیل نو کریں کیونکہ اغیار اور سامراج نے ہمارا سارا سسٹم تباہ وبرباد کردیا۔ہمیں فرقوں میں بانٹ دیا، ہمیں لڑادیا‘ جماعتوں میں تقسیم کردیا‘ مذہبی اور سیاسی جماعتیں بن گئیں‘ اس صورتحال میں آپ حضرات امت کے کریم ہیں‘ آپ کو آگے بڑھ کر اس امت کو سنبھالنا ہوگا‘ کیونکہ آپ حضرات دینی علوم‘ صحافت‘ اسلوب دعوت وخطابت اور اسلوب لکھائی سے آگاہ ہیں۔آپ آگے بڑھیں امت کے انتشار وافتراق کو ختم کریں۔ نفرتوں کی دیوار یں گرادیں، اکابر علماء کرام‘ پروفیسروں اور ماہرین علوم وفنون وادب نے آپ حضرات کی تربیت کی ہیں ۔
٭ متشدد تحریکیں نوجوان علماء کرام کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ میں تمام تحریکوں سے اپیل کرتا ہوں کہ ان نوجوان علماء کرام کیلئے راستے مسدود نہ کریں‘ جو اصلاح معاشرہ کے لیے کام کرنے کا جذبہ رکھتے ہیںیہ علماء جدید علوم سے آراستہ ہیں اور معاشرہ کی صحیح رہنمائی کرسکتے ہیں اور صرف ایک کام امامت یا خطابت یا تدریس پر اکتفاء نہ کریں، تمام صحابہ‘ امام‘ یا مدرس نہیں تھے بلکہ تاجر بھی صنعت کار اور دوسرے جائز معاشی جدوجہد بھی کرتے تھے۔ اپنی جوانی کو کسی کا محتاج نہ بنائیں ‘تجارت کریں ‘اللہ نے اس میں برکت رکھی ہے۔ یہودی اور عیسائی پیشوائوں کی طرح جامد ہوکر مت بیٹھ جائیے۔ایک ٹائم مفت تدریس تو کچھ وقت تجارت کیلئے اور حلال معاش میں لگائیں۔
٭یاد رکھیں اگر پاکستان مستحکم اور سلامت ہے تو ہم مستحکم اور سلامت ہیں‘ وطن سلامت تو ہماری مسجدیں سلامت‘ وطن سلامت تو ہمارے مدرسے سلامت‘ وطن سلامت تو ہماری عزت سلامت ورنہ تاشقند اور بخارا میں کیا ہوا‘ ہمارے سامنے ہے۔ ہم مسجد کی حفاظت کرتے ہیں ملک کی نہیں ‘مدرسے کا خیال کرتے ہیں ملک خیال نہیں کرتے جبکہ ہماری مسجدوں‘ مدرسوں اور عزتوں کی سلامتی پاکستان کی سلامتی اور خیال میں مضمر ہے۔
اپنے ملک کو مستحکم‘ پرامن اور فلاحی ریاست بنانے کیلئے ‘بلندیوں پر لے جانے کیلئے ‘اسلام کا قلعہ بنانے کیلئے آپ معاشرہ کا حصہ بنیں اور ہر ممکن اقدام اٹھائیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ پاک آپ سب حضرات سے دین کا کام لے‘ امت میں اتحاد کا کام لے اور آپ حضرات کی دینی خدمات کو قبول کریں۔‘‘