مفتی محمد محی الدین(ر ئیس جا معہ اسلامیہ کلفٹن )

آئیے مل کر طوفان کا راستہ رو کیں،
آپ اس کانفرنس کے اغراض ومقاصد سے بخوبی واقف ہیں کہ مجلس صوت الاسلام پاکستان کوئی سیاسی یا لسانی تنظیم نہیں ہے بلکہ یہ محض انسانیت کی فلاح اور امن وآشتی کی طرف دعوت فکر کا نام ہے، مجلس صوت الاسلام کی ضرورت موجودہ حالات نے خود ہی پیدا کردی ہے جہاں مذہبی منافرت زوروں پر ہے، انسان دوست لوگ اپنی آواز بلند کرنے سے خوف زدہ ہیں، انسان کو انسان سے اور بھائی کو بھائی سے لڑانے کی سرتوڑ کوششیں کی جارہی ہیں، ہر طرف آہ وبکاء کا عالم ہے اور دنیا بھر میں کمزوروں کا خون بہانے، ان کی املاک کو نقصان پہنچانے اور ان کی فکری اور عملی زندگی کا عرصہ تنگ سے تنگ تر کرنے کا سلسلہ زور وشور سے جاری ہے خصوصاً اقلیتوں کے حقوق کو بے دردی سے پامال کیا جاتا ہے اور ستم ظریفی یہ ہے کہ اسے کار خیر اور ثواب کا کام بلکہ دین ومذہب کا حصہ گردانا جاتا ہے اور مذہبی منافرت پھیلانے کو مذہب کا جزو قرار دیا جاتا ہے۔
مجلس صوت الاسلام پاکستان وہ واحد تنظیم ہے جس نے ان نامساعد حالات میں اپنی آواز بلند کرنے کی سعی جمیل فرمائی اور دنیا کو منافرت سے پاک کرنے کا بیڑا اٹھایا خواہ وہ منافرت لسانی ہو یا قومی، جغرافیائی ہو یا پھر مذہبی ہر قسم کی بے جا نفرت کے خلاف ہر پلیٹ فارم اور ہر فورم پر خواہ وہ تعلیمی میدان ہو یا ذرائع ابلاغ ہوں ہر سطح پر مجلس نے محبت کا درس دیا ہے ۔
اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے مجلس کی آواز دنیا بھر میں سنی گئی اور اسے انسانیت دوست معاشرہ میں پذیرائی حاصل ہوئی جس کی مثال آج آپ کے سامنے ہے۔
عزیزان من! میں آج اس عظیم الشان بین الاقوامی مذہبی ہم آہنگی کانفرنس کی وساطت سے اقوام عالم کو بتانا چاہتا ہوں کہ اس وقت عالمی وریاستی سطح پر قومی، لسانی اور مذہبی اعتبار سے جو انتشار پھیلایا جارہا ہے اس کے پیچھے خواہ کوئی بھی ہو وہ سن لے کہ اگر اس طوفان کا راستہ نہ روکا گیا تو یہ ناسور کسی ایک ملک تک محدود نہیں رہے گا بلکہ یہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا، یہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ عالمی اور بین الاقوامی قضیہ ہے کیونکہ آج کے تیز ترین مواصلات اور سائنسی آلات نے دنیا کو ایک گلوبل ویلج میں تبدیل کیا ہے، موجودہ دنیا میں نہ کوئی بات چھپائی جاسکتی ہے اور نہ ہی کوئی مسئلہ علاقائی رہتا ہے بلکہ ہر خبر اور ہر واقعہ عالمگیریت کی شکل اختیار کرتا ہے۔
عزیزان گرامی! مذاہب خواہ جیسے بھی ہوں کوئی مذہب ظلم اور عدوان کا درس نہیں دیتا یہ آج کے بعض پیروکار ہیں جو انتہا پسندانہ خیالات کی تبلیغ کو اپنا مشن بنائے ہوئے ہیں، یہ لوگ دعوت اور عداوت میں فرق نہیں جانتے اور فساد کو جہاد کہتے ہیں، یہ بات درست ہے کہ آدمی دوسروں تک اپنا پیغام پہنچانے کا حق رکھتا ہے مگر اس کے لئے مخصوص لوگ ہوتے ہیں جن کا سینہ حکمت سے لبریز ہوتا ہے ہر کس وناکس کو دعوت وتبلیغ کی اجازت نہیں ہے۔ اس کے ساتھ انسانی برادری کا حق ملحوظ رکھنا بھی ہر شخص پر لازم ہے اور نرمی وملاطفت کا دامن تھامے رکھنا ہر وقت ضروری ہے کیونکہ سارے لوگ حضرت آدمؑ کی اولاد ہیں اور آدمؑ مٹی سے تخلیق کئے گئے تھے، اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:’’ یاایھا الناس اتقوا ربکم الذی خلقکم من نفس واحدۃ‘‘ (سورۂ نساء، آیت 1)
’’اے لوگو! اپنے پروردگار سے تقویٰ اختیار کرو جس نے تم (سب) کو ایک ہی جان سے پیدا کیا‘‘ اس آیت کے تحت حضرت شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ اور مولانا عبدالماجد دریا بادیؒ اور دوسرے مفسرین لکھتے ہیں ’’ وحدت نوع انسانی کا یہ سبق اپنے عملی اور دور رس نتائج کے لحاظ سے نہایت اہم ہے، آخری جد اعلیٰ ہر گورے اور ہر کالے کے، ہر وحشی اور ہر مہذّب کے، ہر ہندی اور ہر چینی کے، ہر حبشی اور ہر فرنگی کے ایک ہی ہیں اور وہ آدم ہیں۔ اللہ سے تعلق کے بعد وہ تعلق ہے جو افراد انسانی میں باہم پایا جاتا ہے، اس لئے بنی نوع انسانی کی رعایت اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا ہم پر ضروری ہے اور باہمی معاملات وتعلقات میں اس وحدت کی رعایت کرنا لازم ہے۔ (تفسیر عثمانی، تفسیر ماجدی اور ایسر التفاسیر) 
افسوس کہ آج ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت انسان کو انسان سے لڑایا جارہا ہے اور اقلیتوں پر عرصۂ حیات تنگ کرنے کی عالمی سطح پر گھنائونی سازش کی جارہی ہے، لیکن میں واضح کردینا چاہتا ہوں کہ جو لوگ اکثریت کے گھمنڈ یا خوش فہمی میں مبتلا ہیں وہ یاد رکھیں کہ آج کوئی مذہب سو فیصد مضبوط نہیں ہے، اگر کوئی مذہب ایک جگہ مستحکم پوزیشن میں ہے تو دوسری جگہ وہ کمزور ہے بالکل عالمی موسم کی طرح جو نہ ہمیشہ سرد رہتا ہے اور نہ گرم، اگر ایک خطے میں گرمی ہوتی ہے تو دوسرے میں سردی رہتی ہے، اس لئے ضروری ہے کہ باہمی تعلقات اور رہن سہن کے ایسے اصول پر عمل کیا جائے جس کے مطابق کسی کی حق تلفی نہ ہو، فقہاء کرام کہتے ہیں کہ اگر کسی غیر مسلم کا حق دبایا گیا تو اس کا کوئی حل سوائے اس کے کچھ نہیں کہ یا تو حق لوٹایا جائے یا قیامت کے دن اللہ کے سامنے جواب دہی کے لیے تیار رہے، کیونکہ کسی پر ظلم کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ولایجرمنکم شنان قوم علیٰ ان الا تعدلوا، اعدلوا ھو اقرب للتقوی‘‘ (مائدہ، آیت: 8) ’’اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو، انصاف کیا کرو کہ یہی پرہیزگاری کی بات ہے۔‘‘
مفکر اسلام علامہ سید سلیمان ندویؒ اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں، ہر قسم کا برا سلوک اور بے رحمانہ برتائو جو ایک انسان دوسرے انسان اور ایک قوم دوسری قوم کے ساتھ کرتی ہے اس کا اصل سبب یہی ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کے حق میں عدل سے کام نہیں لیا جاتا۔ یہ آیت پاک انسان کے اسی مادۂ فاسد کے سرچشمہ کو بند کرتی ہے اور حضرت ابوہریرہؓ کی مرفوع حدیث ہے : لاتباغضوا ولا تحاسدوا ولا تدابروا وکونوا عباداللہ اخواناً (مستدرک حاکم) آپس میں ایک دوسرے سے کینہ نہ رکھو، ایک دوسرے سے حسد نہ کرو اور نہ ایک دوسرے سے منہ پھیرو اور سب مل کر خدا کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی بن جائو۔
اس حدیث پاک میں انسانی برادری کا وہ نقشہ کھینچا گیا ہے جس پر سچائی سے عمل کیا جائے تو یہ شر اور فساد سے بھری ہوئی دنیا دفعتاً جنت بن جائے، فرمایا :’’ من لا یَرْحَمُ لَا یُرْحَمُ ‘‘ (بخاری) جو رحم نہیں کرتا اس پر (بھی) رحم نہیں کیا جاتا (یعنی) جو بندوں پر رحم نہیں کرتا اس پر خدا رحم نہیں کرتا۔ مستدرک حاکم (اور ترمذی) میں ہے ’’أِرْحَمُوْا مَنْ فِی الْاَرْضِ یَرْحَمُکُمْ مَّنْ فِی السَّمَائِ‘‘ تم زمین والوں پر رحم کرو تو آسمان والا تم پر رحم فرمائے گا۔ یہ حدیث رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کی شان رحمت کو کتنی عمومیت کے ساتھ ظاہر کرتی ہے، ایک حدیث میں اس شجرکاری کو بھی صدقہ اور ثواب قرار دیا گیا ہے جس سے انسان اور پرندے کھاتے ہیں۔ یعنی اس فیض کے عموم میں انسانیت کی قید بھی نہیں ہے۔ (سیرت النبی ،ص ۲۹۹، ج۶)
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کی مخلوق پر رحم وشفقت اللہ کو کتنی پسند ہے، بہت سارے اسلاف کے متعلق ثابت ہے کہ وہ اپنے نفلی صدقات سے عیسائی پادریوں کی مدد کیا کرتے تھے، اسی طرح صحابہ کرامؓ اپنے غیر مسلم رشتہ داروں کے ساتھ مالی تعاون کیا کرتے تھے، غرض ہر انسان کا دوسرے انسان پر حق ہے اور اس حق میں عدل وانصاف اور شفقت ومہربانی سرفہرست ہے۔
ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ ایک ذمی بوڑھا جو اندھا بھی تھا ایک دروازہ پر کھڑا بھیک مانگ رہا ہے، حضرت عمرؓ نے پیچھے سے اس کے بازو پر ہاتھ مارا اور پوچھا کہ تم کو بھیک مانگنے کی ضرورت کیا پڑی؟ کیا تمہیں بیت المال سے وظیفہ نہیں ملتا؟ اور کیا وہ تمہاری ضروریات کے لیے کافی نہیں ہوتا؟ اس نے کہا کہ وظیفہ ملتا ہے اور ضروریات کے مطابق ملتا ہے! تو پوچھا کہ پھر بھیک کیوں مانگ رہے ہو؟ اس نے کہا کہ مجھے سال کے بعد جزیہ بھی دینا ہوتا ہے جس کے لئے میرے پاس رقم نہیں ہے اس لئے بھیک مانگ رہا ہوں، حضرت عمرؓ اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لائے اور اپنے گھر سے اس کو کچھ دیا، پھر اس کو بیت المال کے خزانچی کے پاس بھیجا اور کہلوایا کہ ’’اس کو اور اس جیسے لوگوں کو دیکھو اور ان کا جزیہ سرکاری خزانے سے ادا کرو‘‘۔ خدا کی قسم! ہم انصاف نہیں کریں گے اگر ہم اس کی جوانی کی کمائی تو کھائیں اور اس کے بوڑھے ہونے پر اس کی مدد چھوڑ دیں۔
سامعین گرامی! آپ نے دیکھا کہ اس شفقت میں مذہب کا اختلاف آڑے نہیں آنے دیا بلکہ محض انسانیت کے ناتے نہ صرف اس شخص کا مسئلہ حل کردیا بلکہ اس جیسے تمام ذمیوں کی مشکل حل کردی، چنانچہ قرآن کریم نے ’’قیدی‘‘ کو کھلانے کا ثواب بیان کیا ہے اور ظاہر ہے کہ صحابہ ؓ کے قبضے میں غیر مسلم ہی قید ہوکر آتے تھے، لیکن افسوس ہے کہ جو دین سراپا پیار ومحبت اور شفقت ومہربانی کا مجموعہ ہے آج بعض ناعاقبت اندیش بزبان قال وحال اسے مار دھاڑ کا مذہب قرار دے کر عالمی دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اسلام میں غلطی کرنے پر لوگوں کو ذبح کرنا بڑے ثواب کا کام ہے، العیاذ باللہ کتنی ناپاک جسارت ہے اللہ ان کو سمجھنے کی توفیق دے۔

عالم زیب خان
اقلیتوں کے لئے حکو متی اقدامات،
آج اسلام آباد میں منعقدہ عالمی بین المذاہب کانفرنس میں مجھے ’’اقلیتوں کے حقوق کے متعلق حکومتی یا وزارتی اقدامات ‘‘ جیسے اہم عنوان پر گفتگو کے لیے کہا گیا ہے ۔ میں ’’یونائٹ‘‘ کو اس عالمی بین المذاہب کانفرنس کے انعقاد پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے اپنے موضوع کی جانب آتا ہوں۔میں اپنی گفتگو کو مختلف حصوں پر تقسیم کروں گا۔

ملازمتوں میں کوٹہ
2009 سے وفاقی حکومت کے تمام اداروں کی ملازمتوںمیں اقلیتوں کیلئے 5فیصد کوٹہ لازمی ہے۔
اس کے علاوہ وہ اوپن میرٹ پر بھی ملازمتوں میں شریک ہوسکتے ہیں۔ہر شعبے میں اقلیتوں کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے۔
11 اگست یوم اقلیت
’’آپ آزاد ہیں۔آپ کو اس مملکت پاکستان میںاپنے مندر میںیا عبادت کی کسی بھی جگہ جانے کی آزاد ی ہے ۔آپ کاتعلق خواہ کسی بھی مذہب، ذات یانسل سے ہو اس کا ریاست سے کوئی تعلق نہیں‘‘۔ہم ابتداقائد اعظم محمد علی جناح کے بنائے ہوئے اس بنیادی اصول سے کرتے ہیں کہ ہم سب ایک ریاست کے برابر کے شہری ہیں۔میرے خیال میں ہم سب کو یہ اپنے آئیڈیل کے طورپر مدنظر رکھنی چاہئے۔پھر آپ دیکھیں گے کہ وقت کے ساتھ ساتھ تمام تفریق مٹ جائے گی اور ریاست کے تفویض کردہ حقوق سب کو برابر ملیں گے، مذہبی طور پر سب آزاد اور حقوق کے لحاظ سے سب ریاست کے شہری ہیں۔

پارلیمنٹ میں اقلیتوں کی نشستیں
قومی اسمبلی میں اقلیتوں کیلئے 10 اورسینیٹ میں 4 نشستیں مخصوص ہیں۔
صوبائی اسمبلیوں میں ان کی 23 نشستیں ہیں:۔ 
پنجاب( 8 )سندھ( 9 )کے پی کے( 3)بلوچستان( 3)
اقلیتوں کے مذہبی تہوار وتقریبات
(i)ہندو کمیونٹی کی دیوالی اور ہولی (ii)مسیحی کمیونٹی کی کرسمس اور ایسٹر(iii)سکھوں کیلئے بیساکھی اور گورو نانک کا جنم دن(iv)بدھ کمیونٹی کیلئے روشنیوں کا تہوار(v) کالاش لوگوں کیلئے چہلم(vi)بہائی کمیونٹی کیلئے عید رضوان(vii)پارسی کمیونٹی کیلئے نوروز۔
ان تمام کمیونٹیز کے ایام کی تقریبات حکومت پاکستان کی جانب سے منائے جاتے ہیں اور وزارت مذہبی امور وبین المذاہب ہم آہنگی اس کا اہتمام کرتی ہے۔

اقلیتوں اور ان کے ٹی او آر ز کیلئے قومی کمیشن
1 ) بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ایک قومی پالیسی کی تیاری۔
2 ) امتیازی تصورکئے جانے والے قوانین پر غور، ہدایات فراہم کرنا حکومت کے ضابطے کے مطابق عملدرآمد کیلئے احکامات دینا۔
3 ) حکومت کو ایسے اقدامات کی سفارش کرنا جن سے قومی زندگی کے ہر شعبے میں اقلیتوں کی مکمل شرکت کویقینی بنایاجاسکے۔
4 ) ان کے مذہبی تہواروں اورثقافتی تقریبات میں اقلیتی ارکان کی مکمل اور موثر شرکت کو یقینی بنانا۔
5 )کسی بھی اقلیتی کمیونٹی کی جانب سے حکومت پاکستان سے کی جانے والی شکایات پر توجہ دینا اور ان شکایات کی جانچ پڑتال کے انھیں دور کرنے کیلئے حکومت کو مناسب سفارشات پیش کرنا۔ 
6 ) اس بات کویقینی بنانا کہ اقلیتی کمیونٹی کی عبادت گاہیں محفوظ اوربہتر حالت میں عبادت کی ادائیگی کے قابل رہیں۔
7 ) اقلیتوں کی پراپرٹیز کی فروخت/خرید اورمنتقلی کیلئے این او سی کے معاملات پر غور کرنا۔

حقوق انسانی کاقومی کمیشن
حکومت نے حقوق انسانی کا ایک قومی کمیشن قائم کیاہے۔
یہ حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں پر از خود کارروائی کرنے کامجاز ہے۔
حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کے شکار لوگوں کی مالی امداد کیلئے فنڈ مختص کئے جاتے ہیں۔

اقلیتی امور اور حقوق انسانی 
کی وزارت
پچھلے دور حکومت نے بین المذاہب ہم آہنگی کی وزارت قائم کی تھی جو اس دور میں مذہبی امور میں ضم کی گئی ہے مگر اس کا یہ شعبہ فعال انداز میں اقلیتوں کے امور کے سلسلے میں کام کررہا ہے اسی طرح حکومت نے 23 نومبر2014 کو حقوق انسانی کی ایک نئی وزارت قائم کی ہے۔
چھوٹی ترقیاتی اسکیموں کیلئے مختص کئے گئے فنڈز
یہ وہ اقدامات وخدمات ہیں جو پاکستان میں حکومت کی جانب سے غیر مسلم کمیونٹیز کے لیے انجام دی جارہی ہیں۔ امید ہے کہ ان اقدامات میں دن بہ دن بہتری آئے گی۔
٭٭٭٭٭

Please follow and like us:

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا. ضرورت کے کھیتوں ک* نشان لگا دیا گیا ہے