آئین کی اسلامی شقوں
وفاقی شرعی عدالت میں شریعت کا علم جاننے والوں کا تقرر کیا جائے
اگر درج بالا عبارت کے درج میں مشکلات پیدا ہوں، اور یہ موجودہ حالات سے بھی ظاہر ہے، تو آرٹیکل 30 کے حذف پر زور دیا جائے، حذف سے درج بالا دفعات کا قانونی، عدالتی اور آئینی تحفظ خود بخود نکھر جائے گا۔ ہمارے خیال میں درج کے مقابلہ میں حذف زیادہ مؤثر اور سہل ذریعہ ہے۔
آرٹیکل 203…
آرٹیکل 203 (ج)
’’قانون‘‘ میں کوئی رسم یا رواج شامل ہے جو قانون کا اثر رکھتا ہو۔ مگر اس میں دستور، مسلم شخصی قانون، کسی عدالت یا ٹریبونل کے ضابطہ کار سے متعلق کوئی قانون یا اس باب کے آغاز نفاذ سے دس سال کی مدت گزرنے تک کوئی مالی قانون محصولات یا فیسوں کے عائد کرنے اور جمع کرنے یا بنکاری یا بیمہ کے عمل اور طریقہ سے متعلق کوئی قانون شامل نہیں ہے۔
آرٹیکل 203 (ب) کے جدول… ج… میں ’’قانون کے احاطۂ کار کو انتہائی محدود کیا گیا ہے۔ آئین، عائلی قوانین، کریمینل پروسیجر کوڈ… عدالت کا ضابطۂ کار… سودی بینکاری، انشورنس، ٹیکسز اور ظالمانہ محصولات کو قانون کے احاطۂ کار سے خارج کئے گئے ہیں۔ جب آئین میں قرار دیا گیا، کہ تمام مخالف اسلام قوانین کی جگہ متبادل اسلامی قوانین لے لیں گے تو پھر ضرورت ہے کہ قانون کے دائرہ کار میں وسعت لائی جائے۔
اس لئے… دفعہ 203… ب کے جزو… ج … کو اس طرح ہونا چاہئے۔
ج… ’’قانون‘‘ میں کوئی رسم یا رواج، حکم یا فیصلہ شامل ہے جو قانون کا اثر رکھتا ہو بشمول مسلم شخصی قوانین، کسی عدالت یا ٹریبونل کے ضابطہ کار سے متعلق کوئی قانون، آئین کی کوئی دفعہ یا شق۔
آرٹیکل 203 (ج)
وفاقی شرعی عدالت میں ماہرین فقہ کی بجائے مغربی تعلیمی اداروں کے فارغ التحصیل اور سیکولر ذہن کے اور عصری قوانین کے ماہرین کو زیادہ سے زیادہ نمائندگی دی گئی ہے، بلکہ اسلامی قانون کے ماہرین کی کھپت کو بڑی چالاکی سے صفر کردی گئی ہے یہی وجہ ہے کہ شریعت کورٹ اور شریعت اپیلیٹ بنچ میں قیام سے لیکر تاحال دو علماء کرام کی شمولیت ممکن ہوسکی ہے اس لئے اسلامی قوانین کی عملی حاکمیت کے اظہار کے لئے آرٹیکل 203 (ج) کی ذیلی دفعہ …3… میں درج ذیل اضافہ ہونا چاہئے:
چیف جسٹس ایسا شخص ہوگا جو عدالت عظمیٰ کا جج ہو یا رہ چکا ہو، یا بننے کا اہل ہو یا جو کسی عدالت عالیہ کا مستقل جج رہ چکا ہو یا، کسی مستند دینی ادارہ کا سند یافتہ عالم ہو اور کم از کم پندرہ سال کی مدت سے اسلامی تحقیق یا تدریس کے کام وابستہ رہا ہو۔
(سابق دفعہ 203ج …3… چیف جسٹس ایسا شخص ہوگا جو عدالت عظمیٰ کا جج ہو یا رہ چکا ہو یا بننے کا اہل ہو یا جو کسی عدالت عالیہ کا مستقل جج رہ چکا ہو۔)
آرٹیکل 203 ج کی ذیلی دفعہ 3 کے جدول … الف… میں زیادہ سے زیادہ تین جج علماء کرام کی جگہ کم از کم تین جج علماء کرام کی عبارت ہونی چاہئے… یعنی…
(الف) ججوں میں زیادہ سے زیادہ چار ایسے اشخاص ہوں گے جن میں سے ہر ایک کسی عدالت عالیہ کا جج ہو یا رہ چکا ہو یا بننے کا اہل ہو اور کم سے کم تین جج علماء کرام ہوں گے جو کسی مستند دینی ادارہ یا مدرسہ میں دینی ادارہ کے سند یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ کم از کم پندرہ سال کی مدت سے اسلامی تحقیق یا تدریس کے کام سے وابستہ رہے ہوں۔
آرٹیکل 203 (ج) کی ذیلی دفعہ 4 (ب)…
4… (ب) صدر کسی بھی وقت تحریری حکم کے ذریعہ:
(لف) کسی جج کے تقرر کی شرائط تبدیل کرسکے گا۔
(ب) کسی جج کو کوئی اور عہدہ تفویض کرسکے گا اور
(ج) کسی جج کو ایسے دیگر کارہائے (امور) منصبی انجام دینے کا حکم دے سکے گا جو وہ مناسب سمجھے۔
درج بالا… آرٹیکل 203 (ج) کی ذیلی دفعہ 4 (ب) کو اپنی تمام مشمولات کے ساتھ حذف کیا جائے۔
آرٹیکل 203 (د) ک ذیلی دفعہ …2… کے جدول … ب… میں… تو اس اپیل کے فیصلہ سے پہلے مؤثر نہیں ہوگا… کے بعد درج ذیل اضافہ کیا جانا چاہئے… مگر اپیل کی میعاد (6ماہ) کے اندر سماعت نہ ہونے کی صورت میں مذکورہ فیصلہ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ کہلایا جائے گا… جدول (ب) کی مجوزہ عبارت درج ذیل ہے:
(ب) وہ حد جس تک وہ قانون یا حکم بہ ایں طور منافی ہے اور اس تاریخ کی صراحت کرے گی جس پر وہ فیصلہ مؤثر ہو۔ مگر شرط یہ ہے کہ ایسا کوئی فیصلہ اس میعاد کے گزرنے سے پہلے جس کے اندر عدالت عظمی میں اس کے خلاف اپیل داخل ہوسکتی ہو یا جبکہ اپیل بہ ایں طور پر داخل کردی گئی ہو تو اس اپیل کے فیلہ سے پہلے مؤثر نہیں ہوگا۔ مگر شرط یہ ہے کہ اپیل کی معیاد (6 ماہ) گزرنے کے بعد شریعت کورٹ کا فیصلہ خود بخود قابل اطلاق ہوجائے گا۔
آرٹیکل 203 (ھ) عدالت عظمیٰ میں شریعت کورٹ کے فیصلہ کے خلاف اپیل سے متعلق ہے:
دفعہ بالا کی ذیلی دفعہ 1 میں وفاق یا کسی صوبہ کو شریعت کورٹ کے فیصلہ کے خلاف عدالت عظمیٰ میں اپیل کی میعاد چھ ماہ قرار دی گئی ہے۔ اور اس میعاد کے اندر اپیل نہ آنے کے باوجود بھی شریعت کورٹ کا فیصلہ قابل اطلاق نہ ہ وگا۔ (یعنی اپیل بمعنی دائمی التواء اور اسٹے ہو جانا) اس لئے قرین انصاف یہ ہے کہ اس عرصہ کو زیادہ سے زیادہ تین ماہ پر لایا جائے، اور عدالت عظمیٰ کی سماعت کی انتہائی میعاد چھ ماہ قرار دی جائے، تاکہ بیسیوں زیر التواء شرعی فیصلوں کی قسمت کا فیصلہ ممکن ہوسکے۔
ذیلی دفعہ… 1… کی عبارت اس طرح سے ہونی چاہئے:
1… اس آرٹیکل F-203 کے تحت عدالت کے سامنے کسی کارروائی کا کوئی فریق جو مذکورہ کارروائی میں عدالت کے قطعی فیصلہ سے مجروح ہو مذکورہ فیلصہ سے ساٹھ یوم کے اندر عدالت عظمی میں اپیل داخل کرسکتا ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ وفاق یا کسی صوبہ کی طرف سے اپیل مذکورہ فیلصہ سے 3 ماہ کے اندر داخل کی جاسکے گی۔
اسی دفعہ کی ذیلی دفعہ2… کی عبارت کا متن اس طرح سے ہونا چاہئے۔
2… وفاقی شرعی عدالت کے کسی فیصلہ، حکم قطعی یا سزا کے خلاف کوئی اپیل عدالت عظمی میں قابل سماعت ہوگی۔
مگر شرط یہ ہے کہ عدالت عظمی کی سماعت کی میعاد چھ ماہ ہوگی، سماعت نہ ہونے کی صورت میں مذکورہ فیصلہ عدالت عظمی کا فیصلہ کہلایا جائے گا۔
اسی دفعہ کی ذیلی دفعہ 3… کے جزو… ب… میں زیادہ سے زیادہ دو علماء کی بجائے… کم از کم دو علماء… کی عبارت ہونی چاہئے۔ اور عبارت… اجلاس میں شرکت کے لئے بطور ارکان بغرض خاص مقرر کرے گا… کو حذف کیا جانا چاہئے۔
اس دفعہ کی ذیلی دفعہ 3 کے جزو… الف اور جزو …ب… کی عبارت اس طرح سے ہونی چاہئے۔
(الف) عدالت عظمی کے تین مسلمان جج۔
(ب) کم از کم دو علماء جو کسی مستند دینی ادارہ میں کم از کم پندرہ سال کی مدت سے اسلامی تحقیق یا تدریس سے وابستہ رہے ہوں۔
آرٹیکل228 کی ذیلی دفعہ 3 کے جدول (ج) میں ترمیم کرکے اس کو درج ذیل طریقہ سے لکھا جائے۔
کم از کم چار ارکان ایسے ہوں جن میں سے ہر ایک کسی مستند دینی ادارہ یا مدرسہ میں کم از کم پندرہ سال کی مدت سے اسلامی تحقیق یا تدریس کے کام سے وابستہ چلا آرہا ہو۔
اسی دفعہ کی ذیلی دفعہ 3 کے جزو…ب… میں ترمیم کرکے… کم از کم کی جگہ… زیادہ سے زیادہ تحریر کادیا جائے جس کی عبارت اس طرح سے ہونی چاہئے۔
(ب)… زیادہ سے زیادہ دو ارکان ایسے اشخاص ہوں جن میں سے ہر ایک عدالت عظمیٰ یا کسی عدالت عالیہ کا جج ہو یا رہا ہو۔
٭٭٭٭٭
مفتی نذیر احمد خان
Please follow and like us: