مملکت اردن کی وزارت اوقاف کے مدیر العام شیخ سمیح احمد عثامنہ کا عالمی سیرت کانفرنس سے فکر انگیز خطاب

وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان عالی جناب سید یوسف رضا گیلانی، دیگر وزراء عالی مقام اور علمائے کرام و حاضرین! 
السلام و علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
میں آپ حضرات کی خدمت میں خلوص و محبت بھرا سلام پیش کرتا ہوں اور یہ محبت و عقیدت بھرا سلام آپ کی خدمت میں ان بھائیوں کی جانب سے بھی پیش کرتا ہوں جوکہ مملکت اردن میں مقیم ہیں۔
اس مبارک عالمی سیرت نبوی کانفرنس کے انعقاد پر میں آپ حضرات کو بھرپور مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
حضرات محترم! آپ سے یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ اسلام جن بنیادوں پر قائم ہے، امن کی اساس توحید خداوندی و اقرار رسالت ہے اور ساتھ ہی ساتھ نماز کے ذریعے خالق سے دائمی ربط، روزے کے ذریعے نفس کی اصلاح و تربیت، زکوٰۃ کے ذریعے اجتماعی تکافل و ہمدردی اور حج بیت اللہ کے ذریعے پوری امت مسلمہ کا اتحاد و اتفاق اور اسلام کے نظم و ضبط کے ایسے اصولوں سے زندگی کو مربوط کرنا جو انسان کو تمام پہلوئوں سے رہنمائی فراہم کرتے ہوں۔


جی ہاں برادران اسلام! تاریخ شاہد ہے کہ اسلام نے ایک مضبوط و مربوط اور قوی امت کو تیار کیا اور ایک عظیم الشان تہذیب کو وجود بخشا اور بلند و معزز اصول و اقدار کی نوید جاں فزا سنائی جو پوری انسانیت کو بھلائی بخشنے والی تھی، یہ بھی یاد رہے کہ اسلام کی نظر میں تمام انسان باہم دیگر حقوق، ذمہ داری، عدل، سلامتی، عمومی امن اور اجتماعی ہمدردی و تکافل کے اعتبار سے ایک دوسرے کے برابر ہیں، نیز بہتر پڑوس اور اموال کی حفاظت میں اور اسی طرح ایفاء عہد اور ان تمام اقدار میں ایک دوسرے کے برابر ہیں جن کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم لیکر تشریف لائے۔
اور یہ تمام کے تمام میدان دنیا کے تمام مذاہب و ادیان اور انسانی برادریوں میں کچھ مشترک حدود کی تشکیل دیتے ہیں، جیسا کہ آپ جانتے کہ تمام ادیان کی بنیاد ایک ہے اور مسلمان تو سب ہی رسولوں پر ایمان رکھتا ہے، چنانچہ وہ تمام پیغمبران عالی مقام کے مابین کسی ایک کی تفریق نہیں کرتا اور ان تمام رسولوں میں سے ایک کا بھی انکار درحقیقت اسلام سے بغاوت ہے اور یہ صورتحال ایک ایسی وسیع القدر بنیاد کو وجود بخشتی ہے، جس کی رو سے دیگر ادیان اسلام سے مربوط ہو سکتے ہیں، جیسا کہ اسلام نے بلاتفریق رنگ و نسل و مذہب انسان کی قدر و عظمت کو ظاہر کیا ہے، چنانچہ فرمان الٰہی ہے ’’ولقد کرمنا بنی آدم‘‘
اسلام نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ دعوت دین کا منہج نرمی و سہولت پر مبنی ہے، جیساکہ فرمان الٰہی ہے ’’ادع الیٰ سبیل ربک بالحکمۃ و الموعظۃ الحسنۃ‘‘
اسلام دعوت اور رہنمائی میں شدت پسندی اور سخت گیری کو رد کرتا ہے، جیساکہ فرمان ہے ’’ فبما رحمۃ من اللہ لنت لھم و لوکنت فظاً غلیظ القلب لانفضوا من حولک‘‘ جیساکہ اسلام نے بتایا ہے کہ اس کے پیغام کا ہدف ہمدردی کو عملی زندگی میں بروئے کار لانا اور تمام انسانوں کی بھلائی پیش کرنا ہے، جیساکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ’’ و ما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین‘‘
جی ہاں حضرات عالی مقام! اسلام جس وقت دیگر لوگوں کے ساتھ برابری کی سطح پر معاملہ کی دعوت دیتا ہے اسی وقت وہ باہمی تسامح اور عفو و درگزر کی بھی ترغیب دیتا ہے، یہ دونوں صفات مؤمن کی عظمت مرتبت کا پتہ دیتی ہیں، ’’وجزاء سیئۃ سیئۃ مثلہا فمن عفا واصلح فاجرہ علی اللہ‘‘ 
اور اسلام نے دیگر لوگوں کے معاملات میں، ان کے حقوق کے تحفظ میں اور انہیں مالی اعتبار سے نقصان نہ پہنچانے کے بارے میں انصاف و عدل کا اصول مقرر کیا ہے ، ’’ولا یجرمنکم شناٰن قوم علیٰ الا تعدلوا، اعدلوا ھو اقرب للتقویٰ ‘‘
اسلام نے تمام معاہدات و میثاق کا احترام واجب قرار دیا ہے اور ان معاہدات کی صراحتوں کا بھی پورا خیال رکھا ہے، نیز غداری و خیانت کو حرام قرار دیا ہے ’’واوفوا بعہد اللہ اذا عاہدتم‘‘ اور انسانی زندگی کو اس کا بلند مقام عطا کیا ہے، لہٰذا ایسے لوگوں سے قتال روا نہیں رکھا جو ہمارے صلح پسند اور امن پسند شہری ہیں اور نہ ہی ان کی جائیدادوں پر دست درازی کو روا رکھا ہے، وہ شہری جو اپنی مائوں کی گود میں بچے ہوں یا اپنی درسگاہوں میں طلبہ کی صورت میں ہوں یا بوڑھے لوگ اور خواتین ہوں، ان سب پر زیادتی و سرکشی ظلم ہے، یہ چاہے قتل کی صورت میں ہو یا کسی بھی طرح کی ایذا رسانی کی صورت میں ہو وہ درحقیقت عام انسانی زندگی کے خلاف زیادتی ہے اور اسلام کی نظر میں یہ بدترین جرم ہے، اس لئے کہ انسانی زندگی بشری معاشرے اور بنو آدم کی تہذیب کی اساس ہے۔ ’’من قتل نفساً بغیر نفس او فساد فی الارض فکانما قتل الناس جمیعاً‘‘
محترم حضرات! دین اسلام ایک توازن، اعتدال، میانہ روی اور سہولت پسندی پر قائم ہے ’’وکذٰلک جعلناکم امۃ وسطاً لتکونوا شہداء علی الناس‘‘ 
اور یہ دین ہمیشہ سے انتہا پسندی، غلو اور شدت پسندی کا شدید مخالف رہا ہے، وجہ یہ ہے کہ یہ صفات ایسے عوامل ہیں جو عقل و خرد کو اپنے گھیرے میں لیکر برے انجام تک پہنچا دیتے ہیں اور ذہن و فکر و نظر کے اعتبار سے انسانی طبقات سے بالکل باہر اندھی روش پر چلا دیتے ہیں اور اسلام شدت پسندی اور انتہا پسندی کو نہ صرف رد کرتا ہے بلکہ اسلام ان کو بغاوت کے زمرے میں شمار کرکے ان کے خلاف اعلان جنگ کرتا ہے، کیونکہ یہ امت اسلامیہ کی خاصیت نہیں بلکہ تمام ہی اقوام عالم اور تمام ادیان کے لوگ اس کو اسی نظر سے دیکھتے ہیں۔ جی ہاں اور ہم بھی ان صفات کی مذمت اور نکیر کرتے ہیں، کیونکہ اسلام ان گروہوں اور ان صفات کے خلاف اعلان جنگ کرتا ہے۔
محترم حضرات! اہل اسلام کے غیروں کے ساتھ تعلقات میں اصل چیز باہمی صلح و امن ہے، لہٰذا جہاں کوئی سرکشی کی صورتحال نہیں وہاں کوئی قتال نہیں ہوگا اور باہمی مؤدت، عدل اور نیک سلوک ہی کا برتائو ہوگا، فرمان خداوندی ہے ’’ لا ینہاکم اللہ عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین ولم یخرجوکم من دیارکم ان تبروھم وتقسطوا الیہم، ان اللہ یحب المقسطین‘‘ اسلام دین و اخلاق کے نقطۂ نگاہ سے دہشت گردی کی مخالفت کرتا ہے اور اس کی مذمت کرتا ہے اور ہر ایسا مفہوم جو غلط سازشوں کی تعبیر پیش کرتا ہو، اس کے مآخذ چاہے جو بھی ہوں اور وہ سازشیں جو انسانی جانوں سے یوں کھیلتی ہوں جیسے کہ وہ بغاوت پر اتری ہوں اور اللہ کے احکام سے تجاوز کر رہی ہوں، ایسی تمام سازشیں بھی اسلام کی نظر میں مذموم اور قابل نفرت ہیں۔
حضرات گرامی! انتہا پسندی بہر صورت اسلام کی نظر میں ایک نامانوس چیز ہے ، شدت پسندی اپنی تمام تر شکلوں کے ساتھ اسلام سے علیحدہ اور اسلام اس سے بری ہے، جو شخص اعتدال و تسامح کی روش پر قائم ہو اور اللہ تعالیٰ نے اس کے دل کو نور بخشا ہو وہ کبھی بھی دعوت الی الاسلام میں غلو کا مرتکب، انتہا پسند اور متشدد نہیں ہوسکتا۔
محترم حضرات! اس دین اسلام کا عظیم الشان طریقہ جس سے نسبت کا ہمیں شرف حاصل ہے۔ یہ ہمیں ایک ہی لڑی میں مربوط ہونے اور موجودہ بشری معاشرہ میں باہمی میل جول سے رہنے کی دعوت دیتا ہے، اسی طرح ہمیں اس معاشرے کو ہر ممکن قوت و وسائل بشری کے ذریعے آگے بڑھانے اور ترقی دینے کی دعوت دیتا ہے، اس کے لئے ہمیں تمام ہی اقوام عالم کے لئے عدل پسند ہونے کا ثبوت دینا پڑے گا اور یہ عظیم ترین امید و توقع دراصل ان حضرات علماء امت کے وجود سے وابستہ ہے اور یہ ذمہ داری ان پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اسلام کی روشنی اور اس کی حقیقی ضیاء پاشیوں سے اس نسل نو کے ذہنوں کو منور کر دیں جو ہماری موجودہ زندگی کی زینت اور ہمارے مستقبل کا سرمایہ ہیں۔ اس کا طریقہ یہ ہوگا کہ ہم ان کو جہل و تاریکی کے راستوں کی طرف پھسلنے کے تمام اندیشوں سے بچانے کی کوشش کریں، اسی طرح تباہی و بربادی اور ذلت و پسماندگی کے راستوں سے بھی ان کو بچانے کی سعی کریں اور ہم ان کیلئے عدل و سماحت اور میانہ روی و خیر کی راہیں روشن کریں اور ہم نوجوان نسل کو اس طور پر تیار کریں کہ وہ اس انتہا پسندی اور شدت پسندی کی ہلاکت خیزی سے دور ہو جائیں جو روح و بدن کیلئے تباہ کن ہے۔
ہم علماء کرام کی طرف امید بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں کہ وہ آگے بڑھ کر ہمارے اس قافلہ کو آگے بڑھانے اور ہماری ترجیحات کو عملی جامہ پہنانے میں اپنا کردار ادا کریں اور ہم امید کرتے ہیں کہ علماء کرام ہی امت کیلئے دین و اخلاق، کردار اور درست کلام میں قیادت کا مثالی کردار پیش کریں۔
اور اللہ تعالیٰ سے میں استدعا کرتا ہوں کہ امت کیلئے خوشحالی ترقی اور سربلندی کے راستے آسان فرمائے۔

Please follow and like us:

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا. ضرورت کے کھیتوں ک* نشان لگا دیا گیا ہے