ایک مرتبہ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور اس طرح جنت ودوزخ کا ذکر فرمایا کہ اس کے مناظر آنکھوں کے سامنے آگئے۔ حضرت حنظلہؓ بھی موجود تھے، یہاں سے اٹھ کر گئے تو فطرت انسانی کے مطابق تھوڑی دیر میں سب مناظر بھول گئے اور بال بچوں میں مشغول ہوگئے، لیکن پھر فوراً عبرت پذیر دل نے ٹوکا کہ اتنی جلد یہ سبق بھول گئے۔ اس وقت روتے ہوئے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پاس گئے۔ انہوں نے پوچھا: خیر ہے؟ بولے: ابوبکر! حنظلہ منافق ہوگیا۔ ابھی ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبے میں جنت و دوزخ کا منظر دیکھ کر گھر آیا اور آتے ہی سب کچھ بھلاکر بیوی، بچوں اور مال و دولت کی دلچسپیوں میں مشغول ہوگیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا: میرا بھی یہی حال ہے۔ چلو آپ ﷺ کی خدمت میں چلیں، چنانچہ دونوں خدمت نبوی میں پہنچے۔ آپ ﷺ نے انہیں دیکھ کر پوچھا: حنظلہ کیا ہوا؟ گویا ہوئے: یا رسول اللہ ﷺ! حنظلہ منافق ہوگیا۔ آپ ﷺ نے جس وقت جنت و دوزخ کا ذکر فرمایا، اس وقت معلوم ہوتا تھا کہ دونوں ہی نگاہوں کے سامنے ہیں، خطبہ سن کر گھر گیا تو سب بھول بھلاکر بیوی، بچوں اور مال وجائیداد میں مصروف ہوگیا۔ یہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایا: حنظلہ! اگر تم لوگ اسی حالت پر قائم رہتے جس حالت میں میرے پاس سے اٹھ کر گئے تھے تو ملائکہ تمہاری جلسہ گاہوں، تمہارے راستوں اور تمہارے بستروں پر تم سے مصافحہ کرتے، لیکن حنظلہ! ان چیزوں کا اثر گھڑی دو گھڑی ہی رہتا ہے۔ (سیرت الصحابہؓ) منافقت کفر سے بھی بڑا جرم ہے، کیونکہ کافر تو مسلمانوں کے کھلے دشمن ہیں، لہٰذا ان کے شر سے بچنا آسان ہے بنسبت منافقین کے، کیونکہ منافقین اہل ایمان میں گھل مل کر ان کی جڑیں کاٹتے ہیں اور تاریخ شاہد ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کو سب سے زیادہ نقصان منافقین سے ہی پہنچا ہے۔ قرآن نے بھی منافقت کو سب سے بڑا جرم قرار دیتے ہوئے ان کے لئے کافروں سے بھی زیادہ سخت سزا کا اعلان کیا ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
بے شک منافقین دوزخ کے سب سے نچلے حصہ میں ہوں گے اور آپ ہرگز ان کا کوئی مددگار نہیں پائیں گے۔ (سورۃ النساء، 145)
یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرامؓ وقتی طور پر دل کی حالت بدلنے پر بھی یہ سوچ کر پریشان ہوجایا کرتے تھے کہ یہ کہیں منافقت کی نشانی تو نہیں؟
منافق اسے کہتے ہیں جو کسی مصلحت کے تحت بظاہر تو مسلمان ہو مگر اندر سے کفر کو پسند کرتا ہو اور کافروں کے طور طریق کا مداح ہو، جیسا کہ خالق کائنات نے فرمایا:
کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو زبان سے یہ کہتے ہیں کہ ہم ایمان رکھتے ہیں اللہ اور روز جزا پر، حالانکہ وہ ذرا بھی صاحب ایمان نہیں (البقرہ، ع 2)
یہ منافق مرد اور منافق عورتیں سب ایک جیسے ہیں، تعلیم دیتے ہیں بری باتوں کی اور باز رکھتے ہیں اچھی باتوں سے اور اپنے ہاتھوں کو بند رکھتے ہیں۔
یہ اللہ کو بھلا بیٹھے تو اللہ نے بھی انہیں بھلا دیا۔ فاسق لوگ یہی منافق ہی تو ہیں۔ (التوبہ: ع 8)
اللہ تعالیٰ نے منافقین کو بھی کافروں ومشرکوں کی طرح ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم میں داخل کرنے کا اعلان فرمایا ہے:
اللہ نے عہد کر رکھا ہے منافق مردوں اور منافق عورتوں اور کافروں سے دوزخ کی آگ کا جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ وہی ان کے لئے کافی ہے اور اللہ ان کو اپنی رحمت سے دور رکھے گا اور ان کا عذاب دائمی ہے۔ (التوبہ، 8)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں منافقین مفلس مسلمانوں کا مذاق اڑایا کرتے تھے اور ان پر طنز کے تیر برسایا کرتے تھے جیسا کہ آج کل بھی بعض لوگ خود کو مسلمان کہلوانے کے باوجود علمائے کرام، دیندار مسلمانوں اور شعائر اسلام کا کھلم کھلا مذاق اڑاتے ہیں، ایسے لوگوں کے بارے میں فرمایا:
یہ ان (مفلس مسلمانوں) سے مسخرہ پن کرتے ہیں۔ اللہ ان کے مسخرہ پن کو ان پر الٹ دے گا اور ان کے لئے عذاب درد ناک رکھا ہوا ہے۔ (التوبہ: ع 10)
بعض منافقین ایسے بھی تھے جن پر نفاق کی لعنت ان کی بداعمالیوں اور اسلامی احکام سے روگردانی کے نتیجے میں بطور سزا مسلط کر دی گئی، کیونکہ انہوں نے نہ صرف یہ کہ وعدہ خلافی کی بلکہ اسلامی احکام کو بھی ہلکا جانا، لہٰذا قرآن کریم نے ان کے اس جرم کو یوں بیان فرمایا:
ان میں کچھ ایسے بھی ہیں کہ جنہوں نے عہد کیا تھا کہ اگر اللہ نے اپنے فضل وکرم سے ہم کو عطا کر دیا تو ہم خوب خیر خیرات کریں گے اور خوب نیک نیک کام کریں گے، پھر جب اللہ نے ان کو اپنے فضل سے عطا کر دیا تو لگے وہ اس میں بخل کرنے اور روگردانی کرنے اور وہ تھے ہی بات سے پھر جانے والے، سو اللہ نے اس کی سزا میں ان کے دلوں میں نفاق پیدا کر دیا جو اللہ کے یہاں جانے کے دن تک ان میں رکھے گا، اس لئے کہ انہوں نے اللہ سے وعدہ خلافی کی اور اس لئے کہ جھوٹ بولتے رہے تھے۔ (التوبہ: ع 10)
بعض منافقین کی ظاہری خوشحالی اور مال ودولت واولاد جیسی نعمتیں بھی دھوکے میں ڈالنے والی تھیں، لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور خاص اس خطرے سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا:
ان کے مال اور ان کی اولاد آپ کو حیرت میں نہ ڈالیں۔ اللہ کو تو بس یہ منظور ہے کہ ان چیزوں کے واسطے سے انہیں دنیا میں بھی مبتلائے عذاب رکھے اور ان کا دم بھی ایسی حالت میں نکلے کہ یہ کافر ہوں۔ (التوبہ: ع 11)
ایک پیغمبر بالخصوص سردارالانبیاء علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی سفارش اور دعائے مغفرت کس قدر اہمیت کی حامل ہے۔ ہر مسلمان کو معلوم ہے اور قرآن مجید خود اس کی اہمیت بار بار جتا چکا ہے، اس کے باوجود منافقین کے بارے میں رب کائنات نے واضح طور پر فرما دیا کہ ان کے حق میں شافع محشر صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش اور دعائے مغفرت بھی کام نہ دے گی۔ فرمایا:
آپ ان کے حق میں استغفار کریں یا ان کے حق میں استغفار نہ کریں (دونوں برابر ہیں)۔ اگر آپ ان کے حق میں ستر بار بھی استغفار کریں تب بھی اللہ ان کی مغفرت نہیں کرے گا۔ (التوبہ: ع 10)
آپ ﷺ نے اپنی رحمدلی کی بناء پر ایک رئیس المنافقین کی نماز جنازہ پڑھائی اور ستر کے عدد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ فرمایا کہ میں استغفار ستر سے زیادہ بار کروں گا تو اس پر یہ حکم قطعی طور پر نازل ہوگیا کہ:
اور ان میں کوئی مر جائے تو اس پر کبھی نماز نہ پڑھئے اور نہ ہی اس کی قبر پر کھڑے ہوں۔ (التوبہ: ع 11)
بدقسمتی سے موجودہ دور میں منافقت کا مرض روز بروز پھیلتا چلا جا رہا ہے اور تشویشناک بات یہ ہے کہ اسے بیماری کے بجائے ایک فن تصور کیا جانے لگا ہے، منافقت کو کامیابی کی سیڑھی سمجھا جاتا ہے خواہ اس ’’کامیابی‘‘ کے حصول کیلئے اسلام کو نقصان پہنچانا پڑے، ملک کی جڑیں کاٹنی پڑیں یا قوم کا سودا کرنا پڑے، سب کچھ کر گزرنے کو تیار ہیں، حتیٰ کہ بعض لوگ تو اسلام اور شرعی احکام سے نفرت کے باوجود محض اس وجہ سے خود کو مسلمان کہلواتے ہیں تاکہ مسلمانوں کو دھوکا دے سکیں، جب کہ عمومی زندگی میں تو یہ لگتا ہے کہ جیسے ہم منافقوں کے معاشرے میں رہ رہے ہیں۔ ہم باہم ملتے ہیں تو دلوں میں کدورت کے باوجود چہرے پر بناوٹی تبسم اور زبان شہد میں ڈبوکر، جھوٹ ہماری عادت، وعدہ خلافی ہماری پہچان، بے ایمانی وبد دیانتی ہمارا کاروباری اصول اور گالم گلوچ ہمارا تعارف بن چکے ہیں۔ اس کے باوجود ہم پکے سچے مومن بھی ہیں اور نفاق سے بری وبے زار بھی۔ آپ ہی اپنی ادائوں پر غور کیجئے ہم کچھ عرض کریں گے تو شکایت ہو گی۔