طلباء و نوجوانوں کی سیرت و کردار
کسی ملک کی ترقی اور استحکام اور کسی معاشرہ کے تحفظ اور اس کے باعزت زندگی گزارنے کے بہت سے سرچشمے، بہت سی شرطیں اور بہت سی علامتیں ہیں، مثلاً کوئی ملک بڑی فوجی طاقت کا ملک ہے، کسی ملک کے پاس معدنی، حیوانی، زراعتی دولت کا بہت بڑا ذخیرہ ہے، کسی ملک میں جامعات سے بڑے دوستانہ ہیں اور کسی ملک کے تعلقات عظیم ترین سلطنتوں اور عظیم ترین ملکوں سے بڑے دوستانہ ہیں اور اس ملک کو ان پر بڑا اعتماد ہے، کسی ملک میں انسانی ذہانت کا بڑا ذخیرہ ہے، وہاں بہت انسانی توانائی پائی جاتی ہے۔ وہاں کے لوگ جسمانی طور پر بہت صحت مند ہیں۔ یہ سب چیزیں کسی ملک کی طاقت و استحکام اور کسی ملک کی عزت اور اس کے احترام کی علامتیں سمجھی جاتی ہیں۔ میں ان کا انکار نہیں کرتا، لیکن اگر میرے سامنے کسی ملک کی بڑائی، کسی ملک کے استحکام کا، اور کسی معاشرے کے باعزت زندگی گزارنے کا ذکر آئے اور کسی ملک کی تعریف کی جارہی ہو تو میں ایک سوال کروں گا، وہ یہ کہ ’’مجھے یہ بتایئے کہ وہاں کے اسکولوں اور کالجوں سے لے کر یونیورسٹیوں کے طلباء تک نئی نسل کے تعلیم یافتہ نوجوانوں میں کس درجہ کا احساسِ ذمہ داری پایا جاتا ہے، ان میں ضبط نفس کی کتنی طاقت ہے، ان میں اپنے تاثرات کو حد اعتدال میں رکھنے کی کتنی صلاحیت ہے، ان میں کسی ملک کے صالح نظام اور جائز قوانین کے احترام کی کتنی عادت ہے، اور ان میں احساس شہریت (civic sense) کتنا پایا جاتا ہے؟‘‘ میں تاریخ کے ایک طالبعلم کی حیثیت سے بھی اور تاریخ کے حدود سے نکل کر زندہ معاشروں میں چلنے پھرنے اور لوگوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے ایک انسان کی حیثیت سے بھی اس نتیجہ پر پہنچا ہوں۔ میں صرف کتابوں کے صفحات اور گزشتہ تاریخ پر اس کی بنیاد نہیں رکھتا، بلکہ اکبر الہٰ آبادی مرحوم کے اس شعر پر عمل کرتا ہوں
نقشوں کو تم نہ جانچو لوگوں سے مل کے دیکھو
کیا چیز جی رہی ہے، کیا چیز مر رہی ہے
میرے نزدیک کسی ملک کے بقاء و ارتقاء اور اس کی سا لمیت اور اس کی عزت و احترام کے جانچنے کا معیار یہ نہیں ہے کہ جو پختہ کار و پختہ سن نسل اس وقت موجود ہے، یا جس نے بڑھاپے کی منزل میں قدم رکھا ہے، وہ بہتر سے بہتر ہے، یہ بات اطمینان کے لئے کافی نہیں کہ کسی ملک کی ادھیڑیا بوڑھی نسل بڑی پاکباز ہے، بڑی زندہ دل ہے، بڑی صلاحیتوں کی مالک ہے، دیکھنے کی بات یہ ہے کہ جس نوجوان نسل کو اس نسل کی جگہ لینی ہے اور ملک کی باگ ڈور سنبھالنا ہے اور جس سے اس ملک کی قسمت و ابستہ ہے، جس سے اس ملک کا تاریخی تسلسل قائم ہے، وہ نسل کس درجہ کا اخلاقی معیار رکھتی ہے؟ کس درجہ اس کی اپنی طبیعتوں پر قابو اور کنٹرول ہے؟ کس درجہ اس کے اندر برائیوں سے بچنے کی طاقت ہے اور کس درجہ اس میں مخلصانہ اور باہمت جدوجہد پائی جاتی ہے؟
میرے نزدیک کسی ملک و قوم کی صلاحیت، عزت و طاقت کا یہ اصل معیار ہے، اگر کسی ملک کو سب کچھ حاصل ہے، لیکن اس ملک کے نوجوان اور خاص طور پر تعلیم یافتہ نسل صحیح اور ضروری نظام کا احترام کرنا نہیں جانتی، وہ ملک و ملت کے مفاد پر اپنے ذاتی مفاد کو ترجیح دیتی ہے، اس میں اپنے ذاتی مفادات کو ملک کے وسیع تر طویل تر مفادات کے لئے قربان کرنے کی صلاحیت نہیں ہے تو وہ ملک اور قوم سخت خطرہ میں ہے۔ اس لئے کہ اس کی نئی نسل میں قابل تحفظ و قابل احترام روایات کے (جن سے اس ملک کا امتیاز اور اس ملت کا اعزاز ہے) احترام کا جذبہ نہیں پایا جاتا، ضبط نفس کی اس میں عادت نہیں ہے، وہ بارود اور پیٹرول کی طرح ہے، جو فوراً آگ پکڑ لیتے ہیں۔ اگر مسلمانوں کے کسی طبقہ کی بھی حالت یہ ہو کہ کسی خلاف طبیعت چیز کو برداشت کرنا ان کے لئے ناممکن ہو اور وہ ہر مسئلہ کو وقار کا مسئلہ بنا لیں تویہ بات بڑی خطرناک ہے۔
جذبات کے اظہار اور شرعی حدود میں رہ کر جوش و جنوں کے اظہار کے مواقع قوموں اور ملتوں کی زندگی میں کبھی کبھی آنے چاہئیں، جب کسی ملت کی اجتماعی توہین ہو، یا شعائر اللہ اور اصول دین کا مذاق اڑایا جائے یا ذاتِ نبوی (علیہ الف الف سلام) کی شان میں معاذ اللہ گستاخی ہو، یا کسی مسلمان کی عزت و آبرو خطرے میں پڑ جائے۔ یہ دینی عزت کا معاملہ ہوتا ہے ایسے معاملات میں کوئی بھی مسلمان خاموش نہیں رہ سکتا۔
کسی ملک کے باقی رہنے کی اور اپنے مقاصد اور اپنی صحیح منزل تک پہنچنے کی ضمانت اس وقت تک نہیں دی جا سکتی، جب تک کہ وہاں کے نوجوانوں میں قوتِ برداشت اور معاملہ کو سمجھنے کی صلاحیت نہ ہو، کچھ چیزوں کو اپنی مرضی کے خلاف دیکھنے اور گوارا کر لینے کی صلاحیت نہ ہو، جن قوموں نے دنیا میں عظیم سلطنتیں قائم کی ہیں۔ ان میں یہ وصف نمایاں طریقہ پر موجود تھا۔ میں ترکی گیا تو میں نے دیکھا کہ ترک قوم میں ہماری مشرقی قوموں کے مقابلہ میں قوت برداشت کہیں زیادہ ہے، کہیں میں نے شور ہوتے نہیں دیکھا نظام کا احترام عام ہے، مشتعل ہو کر دنگا فساد کرنے کا کوئی واقعہ کم سے کم میرے سامنے نہیں آیا، یہ بے صبری، جلد بازی، فوراً جوش اور غصہ میں آجانا معاشرے کے مریض ہونے کی علامت ہے۔
میں اس وقت آپ حضرات کی توجہ ایک تاریخی حقیقت کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ اس عظیم جامعہ (جامعہ کراچی )میں، اس مسئلہ پر کچھ ریسرچ کا کام ہو، میں نے جب برطانیہ کی تاریخ پڑھی، تو معلوم ہوا کہ سترھویں صدی کے اختتام تک برطانیہ کی اخلاقی حالت بہت کمزور تھی اور کوئی علامتیں برطانوی معاشرہ میں ایسی نہیں پائی جاتی تھیں کہ برطانیہ ایک دن ایک عظیم طاقت قرار پائے گا اور ہندوستان جیسی عظیم مملکت پر اس کا قبضہ ہوگا اور بڑی کامیابی اور خوبی کے ساتھ (خواہ ہندوستانی نقطۂ نظر سے وہ استبداد اور ظلم قرار دیا جائے) وہ پورے ملک کو اپنے کنٹرول میں رکھے گا، آپ اگر اس وقت کی شاعری، اس وقت کے افسانے، اس قت کا لٹریچر پڑھیں اور اس وقت کے اخبارات کے فائل مل جائیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اس سوسائٹی کے متعلق کوئی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی تھی کہ یہ سوسائٹی اتنا بڑا کردار ادا کرے گی اور ایشیا میں سب سے بڑی طاقت بن جائے گی اور لوگ کہیں گے کہ برطانوی حکومت میں آفتاب غروب نہیں ہوتا، لیکن ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہندوستان میں قدم رکھنے کے بعد جب یہ نظر آنے لگا کہ ہندوستان برطانیہ کی تحویل میں جانے والا ہے اور برطانیہ کے قدم اس ملک میں جم جائیں گے، اچانک برطانوی سوسائٹی میں ایک تبدیلی ہوئی۔ اس کے اندر یہ احساس پیدا ہوگیا کہ ہم ایک بہت بڑی شہنشاہیت کے مالک بننے والے ہیں، ہمیں رکیک اور پست حرکتوں سے، اپنے ملک سے بے وفائی کرنے سے، اپنی سلطنت کا نام بدنام کرنے سے احتراز کرنا چاہئے۔ اچانک یہ انقلاب رونما ہوا۔ اس انگریزی دور میں، انگریزوں نے یہاں قانون کی حکمرانی کی مثالیں قائم کردیں اور سب لوگ ٹھیک ٹھیک کام کر رہے تھے۔ شہر کے کسی آدمی کو ہمت نہیں تھی کہ قانون کے حدود سے تجاوز کرے۔ اسٹیشنوں پر دیکھتے تھے کہ ہر کام وقت پر ہورہا ہے، ہر شخص مستعد اور چست ہے۔
یہ بات اس سے زیادہ وسیع اور عمیق دائرہ میں عربوںکو پیش آئی کہ اسلام کی دولت ان کے پاس آجانے کے بعد صحرا نشین عرب جب صحرا سے نکلے اور دنیا کی عظیم ترین سلطنتوں رومۃ الکبری اور سلطنت ساسانیہ کے وارث ہوئے، تو اچانک ان کا ذہن بلند ہوگیا اور جیسا کہ آپ کے پاکستان کے شاعر اور اسلام کے شاعر مولانا ظفر علی خان مرحوم نے کہا ہے
بات کیا تھی کہ نہ روما سے نہ ایراں سے دبے چند بے تربیت اونٹوں کے چرانے والے
جن کو کافور پہ ہوتا تھا نمک کا دھوکہ بن گئے خاک کے اکسیر بنانے والے
عربوں کا ذہن ایک دم بلند ہوگیا کہ اب وہ عرب بسوس، داحس و غبرا (اسلام سے قبل ) کازمانہ نہیں رہا کہ ایک گھوڑے کے آگے بڑھ جانے پر ،ایک گھوڑے کے پیچھے رہ جانے پر، پہلے پانی ، بعد میں پانی پینے پر، لڑائی کا سلسلہ چالیس چالیس برس تک جاری رہتا۔ بات کیا تھی آغاز کہاں سے ہوا؟ ایک قبیلہ کے سردار کا گھوڑا پیچھے رہ گیا، ایک کا آگے بڑھ گیا، بس اس نے اپنی توہین سمجھی اور سیکڑوں آدمیوں کی جانیں چلی گئیں۔ ان ہی عربوں کو آپ دیکھیں گے کہ سلطنت پانے کے بعد، یعنی جب مسلم امپائر قائم ہوا، تو ان کی حالت بالکل دوسری تھی، وہ نہایت متحمل، نہایت اصول پسند، نہایت وسیع النظر اور وسیع القلب بن گئے۔ یہی ہمارے آزاد ہونے والے ممالک میں ہونا چاہئے تھا۔ مصر میں، شام میں، عراق میں، الجزائر میں اور مجھے کہنے کی اجازت دیجئے کہ پاکستان میں۔ ایک دم سے ذہن بدل جانا چاہئے تھا اور احساس ذمہ داری، احساس فرض اور احترام قانون کی کارفرمائی ہونی چاہئے تھی۔
دوستواور عزیزو! آپ کو اللہ نے اتنی بڑی مملکت عطا کی ہے، اتنا بڑا اعزاز بخشا ہے، خدمت و عزت کے ایسے زریں اور نایاب مواقع دیئے ہیں۔ آپ کو اب اس پستی، گراوٹ، اشتعال پذیری، خود غرضی، تنگ نظری، تنگ دلی، قانون شکنی، ایذاء رسانی سے بلندہونا چاہئے۔ جس کو اللہ اتنا بڑا موقع دے، اتنا عظیم ملک اس کی تحویل میں آجائے، وہ ایسی چھوٹی چھوٹی چیزوں میں پڑے؟ اللہ نے آپ کو انسانیت کی خدمت کا، اسلام کی ترقی اور نام اونچا کرنے کا موقع دیا اور آپ اتنے چھوٹے چھوٹے مسئلوں پر مشتعل ہو جاتے ہیں؟ ’’کچھ آئو تائو نہیں دیکھتے‘‘ آپ کے لئے اقبال کا یہ شعر ہے
تو ہماکا ہے شکاری، ابھی ابتداء ہے تیری
نہیں مصلحت سے خالی یہ جہانِ مرغ و ماہی
آپ مرغ و ماہی کے شکاری نہیں ہیں، آپ ہماکے شکاری ہیں۔ آپ بڑی بڑی قوموں اور ملکوں کے مسئلوں کے حل کرنے کی کوشش کیجئے، ان کو حل کرنے کی صلاحیت پیدا کیجئے۔ آپ کا کام روزمرہ کے شہری معاملات میں الجھنا اور ان میں اپنی طاقت ضائع کرنا نہیں ہے۔ ذرا سی کوئی بات آپ کی مرضی اور معیار کے مطابق نہیں ہوئی کہ آپ بالکل آپے سے باہر ہو جاتے ہیں، یہ مسلم نوجوانوں تعلیم یافتہ نوجوانوں کے شایان شان نہیں۔
مولانا ابو الحسن علی ندویؒ
Please follow and like us: