علماء کی ذمہ داریاں مئی 1984ء
عزیزانِ گرامی! دنیا کے صالح و صحت مند تغیرات و انقلابات اور انسانی عزیمت کی فتوحات کی تاریخ پر اگر کوئی کتاب مستقل طور سے لکھی جائے تو نائبین انبیاء اور افراد امت کی زبان سے جو جملے نکلے ہیں ان میں ایک جملہ کو سب سے نمایاں اور ممتاز مقام دیا جائے گا اور اس کو آب زر سے لکھا جائے گا۔ یہ جملہ ایسا ہے جس نے حالات کی رفتار کو ایسا بدلا ہے جس کی مثال ملل وادیان کی تاریخ میں ملنی مشکل ہے ۔ جزیرۃ العرب کے ایک حصہ میں اور بعض قبائل میں ارتداد نے سر اٹھایا۔ یہ نازک ترین مرحلہ تھا۔ ابھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا سے پردہ فرمایا ہے اور اس کو کچھ ہی مہینے گزرے ہیں کہ عرب جن کو ساری دنیا میں اسلام پھیلانا تھا اور جن کو ایک امت مبعوثہ کی طرح اسلام کی دعوت دینی تھی، وہ خود ارتداد کے خطرے سے دوچار ہورہے ہیں۔ ایسا نازک وقت پوری تاریخ اسلام میں نہیں آیا۔ اُس وقت حضرت ابوبکر صدیقؓ کی زبان سے ایک فقرہ نکلا جس نے تاریخ کا رخ اور واقعات کا دھارا بدل دیا اور خطرہ کا کہرا اس طرح چھٹ گیا جس طرح آفتاب کے نکلنے سے چھٹ جاتا ہے۔ آپ نے فرمایا ’’اَیُنْقَصُ الدین و اناحیُّ‘‘ (کیا دین میں کوئی قطع و برید ہوسکتی ہے اور میں زندہ ہوں) ابوبکر زندہ ہو اور پھر اللہ اور رسول اللہ کے دین میں کوئی قطع و برید ہو کوئی کتربیونت ہو، کوئی انتخاب کا مسئلہ ہو کہ اس رکن کو لیں گے اور اس رکن کو چھوڑیں گے۔
یہ وراثت ہے جو امت کی طرف عمومیت سے اور نائبین رسول اور علماء حقانیین کی طرف خصوصیت سے منتقل ہوئی ، یعنی ان کو سمجھنا چاہئے کہ ہمارے ہوتے ہوئے کسی ملک میں اسلام کا زوال کسی طرح سے قابل برداشت تو کیا، قابل تصور بھی نہیں۔ ہم کسی ملک میں موجود ہوں اور وہاں اسلام کا زوال ہوجائے۔ یہ بات ممکن نہیں۔ یہ احساس بنیاد ہے سارے انقلابات اور دینی جدوجہد کی تاریخ کی۔ جس کی ترجمانی صدیقؓ امت نے کی تھی اور ہر دور کے نائبین رسول کو یہ روشنی دکھائی تھی۔
’’وجعلھا کلمۃ باقیۃ فی عقبہ لعلھم یرجعون‘‘
اس روشنی میں علماء اپنا احتساب کریں، کہ انہوں نے اس جملہ کو کہاں تک اپنا اصول اور دستور العمل بنایا؟ وہ یہ دیکھیں کہ ان کے ہوتے ہوئے اسلام یا اسلامی معاشرہ کے زوال کا کوئی جواز ہے؟ مسلمانوں کی پچھلی تاریخ میں ہمارے سامنے بڑی عبرتناک مثالیں۔ جن ملکوں میں اسلام کا زوال ہوا، یا وہاں اسلام دشمن طاقتیں غالب آئیں، آپ اگر تحقیق کریں گے تو ان میں کچھ ایسی چیزیں پائیں گے جن سے اس دور میں سبق لیا جاسکتا ہے۔ ان میں ایک چیز تھی علماء کا شدید اختلاف اور دوسری چیز یہ تھی کہ علماء کا عوام سے رابطہ نہیں تھا، ان کی شخصیتیں اتنی مؤثر نہیں رہ گئی تھیں کہ عوام کے قلوب میں دین کا احترام اور علماء کا وقار قائم رکھتیں۔ میں اپنے تاریخ کے مطالعہ اور عالم اسلام سے قریبی واقفیت کی بناء پر کہتا ہوں کہ اعتقادی اور سیاسی انتشار اس ملک (پاکستان ) کے لئے سخت خطرناک ہے۔ یہاں مذہبی گروپ ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں۔ بعض بحثیں جو علمی انداز میں ہوسکتی تھیں، ان کو عوام میں لے آیا گیا ہے اور ان کی بنیاد پر متحارب کیمپ اور متوازی محاذ بن گئے ہیں۔ یہ سخت خطرناک بات ہے۔ ہمارے بزرگوں حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کے مسلک اور ان کے مکتب فکر کے لوگوں کی ہندوستان میں یہی روایت رہی ہے ۔ آپ درس کے حلقوں اور علمی مجلسوں میں اختلافی مسائل پر آزادی کے ساتھ گفتگو کیجئے، ان مسائل پر کتابیں لکھئے، مگر ملک کو دائو پر نہ لگایئے۔
دوسری بات یہ ہے کہ عوام کے ساتھ آپ کا رابطہ ہونا چاہئے۔ میں نے محسوس کیا کہ علماء کا عوام سے جو ربط ہونا چاہئے اس میں کمی ہے، بلکہ میں کہہ سکتا ہوں کہ ہندوستان میں علماء کا عوام سے ربط یہاں سے زیادہ ہے۔ وہاں سیاسی میدان میں بھی، علمی ادبی اور تحقیقی میدان میں بھی علماء پیش پیش ہیں اور ان کا مقام تسلیم کیا جاتا ہے۔وہاں کا اعلیٰ تعلیم یافتہ (Intellectual Class) علماء سے متوحش نہیں ہے۔ ہم ادبی اور علمی مجلسوں میں جاتے ہیں اور الحمد للہ وہاں علماء کو عزت کے ساتھ لیا جاتا ہے، عوام سے آپ کا ربط بڑھنا چاہئے۔ایسا نہ ہو کہ عوام آپ کے ہاتھ سے نکل جائیں۔
تیسری بات جو عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ ہماری زندگی عوام کی زندگی سے ممتاز ہو، دیکھنے والا کھلی آنکھوں دیکھے کہ یہ دنیا کے طالب نہیں ہیں، ان کے یہاں مال و دولت معیار نہیں ہے۔ ہمارے کام زیادہ تر حسبتہً للہ ہوں، جیسا کہ ہمارے اسلاف کا طریقہ رہا ہے جب تک ہمارے طبقہ علماء میں یہ اخلاقی امتیاز نہ ہوگا، ایثار کا مادہ نہ ہوگا، ان کی شخصیت مؤثر اور قابل احترام نہیں ہوگی، دل و دماغ میں دین کا گہرا اثر اور وقار نہیں ہوگا۔ علماء کا وقار اس سے نہیں بڑھے گا کہ یہ مدرسہ اتنا بڑا ہے، وہ مدرسہ اتنا بڑا ہے ، وہاں اتنے طالب علم پڑھتے ہیں اور وہاں کے جلسے اتنے کامیاب ہوتے ہیں۔ اس سے علماء کا وقار نہیں قائم ہوگا۔ علماء کا وقار قائم ہوتا ہے ذاتی نمونے سے۔
ایک واقعہ آپ کو سنا دوں ، بڑا مؤثر ہے۔ شیخ سعید حلبی ایک بزرگ عالم تھے۔ ایک دن دمشق کی مسجد میں سبق پڑھا رہے تھے۔ اس دن ان کے پائوں میں تکلیف تھی تو شیخ سعید درس دے رہے تھے۔ ابراہیم پاشا جو محمد علی خدیو، بانی سلطنت خدیویہ کا فرزند تھا اور بڑا باجبروت حاکم و سپہ سالار تھا، جس کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی اور جس سے لوگ کانپتے تھے۔ وہ دروازہ کی طرف سے مسجد میں داخل ہوا، حضرت کے پائوں میں تکلیف تھی اس لئے دروازہ کی طرف پائوں پھیلائے ہوئے تھے۔ جب وہ قریب آیا تو طالب علموں نے دیکھا کہ وہ ہے اور اُس کے ساتھ حفاظتی دستہ بھی ہے، جلاد اور پہرہ دار بھی ہیں۔ طالب علم سمجھے کہ حضرت کو ہزار تکلیف ہو، پائوں سمیٹ لیں گے۔ شیخ نے بالکل جنبش نہیں کی ، پائوں پھیلائے رہے۔ وہ سامنے آیا اور کھڑا ہوگیا۔ مؤرخ نے لکھا ہے کہ طالب علموں نے اپنے کپڑے سمیٹ لئے کہ اب جلاد کو حکم ہوگا کہ تلوار چلاکر شیخ کو شہید کردے گا ،مگر اس پر ایسا جلال طاری ہوا کہ کچھ بولا نہیں، سبق سنتا رہا اور پھر چلا گیا، بعد میں شیخ سعید حلبی کے لئے اشرفیوں کا ایک توڑا بھیجا۔ سلام کہلوایا اور کہا کہ یہ قبول فرمایئے میں آپ سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ جو جملہ شیخ نے جواب میں کہا وہ جملہ سننے کے قابل ہے۔ انہوں نے کہا ’’اپنے ولی نعمت سے میرا سلام کہنا اور کہنا کہ جو پائوں پھیلاتا ہے وہ ہاتھ نہیں پھیلاتا، ’’الذی یمدُّ رجلہ لایمدُّیدہ‘‘ اگر مجھے ہاتھ پھیلانے ہوتے تو میں اس وقت پائوں نہ پھیلاتا پائوں سمیٹ لیتا، لیکن یہ علامت ہے کہ میں ہاتھ پھیلانے والا نہیں تھا، جو پائوں پھیلاتا ہے ہاتھ نہیں پھیلاتا ہے۔ یہ جوہر علماء میں، دین کے خادموں میں ہونا چاہئے۔ اگر یہ جوہر نہیں ہے تو میں صاف کہتا ہوں کہ آپ کی ساری علمی قابلیت اور آپ کی ساری خطابت سب بے اثر ہے‘ جب تک کہ آپ کا عملی نمونہ نہ ہو۔
تہذیبی و لسانی تعصب، صوبائی تعصب بھی اس ملک کے لئے سخت خطرناک ہے۔ اسی تعصب نے بنگلہ دیش کو پاکستان سے کاٹ دیا۔ اس لسانی تعصب، صوبائی تعصب کے خلاف علماء کو دورے کرنے چاہئیں اور اس کے خلاف اسلام کے احکام بیان کرنے چاہئیں‘ اس حمیت جاہلیہ نے ملکوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور کئی اسلامی سلطنتوں کا چراغ گل ہوگیا۔
یہ ممکن ہے کہ آپ اپنی زبان کا جادو لوگوں کے دل و دماغ پر بٹھادیں اور اپنی علمی قابلیت کا سکہ جمادیں، لیکن حقیقی احترام عملی نمونہ، سیرت کی بلندی، زہد و استغناء، روحانیت اور اخلاق عالیہ سے پیدا ہوتا ہے۔ علمی و فکری حیثیت سے بھی ‘ اخلاقی اور روحانی حیثیت سے بھی مؤثر شخصیتیں پیدا ہونی چاہئیں۔ ہمارے اکابر ایسے تھے، ہمارے اکابر ایسے تھے، ہر وقت اس کی رٹ لگانا اور اس کا وظیفہ پڑھنا کچھ کام نہیں دیتا۔ کوئی ملت اور کوئی دعوت تاریخ سے نہیں چلتی، تحریک سے چلتی ہے۔ ہم پاکستان میں دعوت و مسلک، تاریخ سے چلانا چاہتے ہیں۔ لوگ کہہ دیں گے کہ صاحب سن چکے، بہت سن چکے، سنتے سنتے طبیعت بھر گئی، آپ کے اکابر ایسے تھے، ایسے تھے ’’پدرم سلطان بود، پدرم سلطان بود‘‘ بتایئے آپ کون ہیں؟ کام شروع کیجئے، تاریخ بہت سنائی جاچکی، کتابیں بہت لکھی گئیں، پورا کتب خانہ تیار ہے، اب حرکت اور عمل، جدوجہد و قربانی اور پرُ کشش و سحر انگیز زندگی کی ضرورت ہے۔
وہی دیرینہ بیماری وہی نا محکمی دل کی
علاج اس کا وہی آب نشاط انگیز ہے ساقی
مولانا ابو الحسن علی ندوی کا خطاب
Please follow and like us: