سیاسی مفا دات کے لیے مذ ہب کے استعمال سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں،
سب سے پہلے میں عزت مآب جناب سردار محمد یوسف صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور ان کے ساتھ اپنے نوجوان بھائی مفتی ابوہریرہ محی الدین صاحب اور ان کی پوری ٹیم اور رفقاء کارکا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ جنہوں نے حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اور گونا گوںں مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے ایک عظیم الشان کانفرنس منعقد کی ۔اس کے لیے وہ مبارکباد کے مستحق ہیں اور ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے عزم کو اور بلند کرے او رجو مشن انہوں نے شروع کیا ہے اس کو بہت آگے تک لے جائے۔ میرے خیال میں ابھی یہ پہلا قدم اٹھایا ہے،آپ جن مشکل حالات میں دیگر ممالک سے تشریف لائے ہیں اور ہماری حوصلہ افزائی فرمائی ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ آئندہ بھی آپ حضرات اسی طرح سرپرستی اور تعاون فرماتے رہے تو یونائٹ کا کام بہت آگے جائے گا۔ بات یہ ہے کہ یہاں دو دن بات ہوئی اقلیتوں کے حوالے سے مذہب کے حوالے سے، اصل بنیادی مسئلہ صرف ایک ہے وہ ہے انسانیت کی فلاح اور بہبود، ہمارے درمیان جو نفرتیں ہیں، کم فہمیاں ہیں ان کی وجہ صرف مذہب نہیں اور بھی بہت ساری وجوہات ہیں، کلچر کے حوالے سے ایک دوسرے سے میں نفرتیں پیدا کی جاتی ہیں، تہذیب کے حوالے سے ایک دوسرے سے نفرتیں پیداکی جاتی ہیں اور اسی طرح غالب اور مغلوب کے حوالے سے بھی ایک دسرے میں نفرتیں پیدا کی جاتی ہیں، مذہب کے حوالے سے جو بات ہے میرے خیال میں اس کا نمبر سب سے آخر میں آتا ہے، کیونکہ مذہب کو صرف اپنے مقاصد کے حصول کیلئے بطور آلہ کار استعمال کیا جاتا ہے، جب اسرائیل کی بات ہو تو یہودیت کو بطور مذہب استعمال کیا جاتا ہے، جب یورپ کی بات ہو تو عیسائیت کو بطور مذہب استعمال کیا جاتا ہے اور جب اس خطے کی بات ہو تو یہاں اسلام کو بطور مذہب استعمال کیا جاتا ہے، مقاصد ہر ایک کے اپنے اپنے ہوتے ہیں ۔ ترجیحات ہر ایک کی اپنی اپنی ہوتی ہیں تو میں یہ سمجھتا ہوں چونکہ یہ پہلا قدم ہے۔ میری گزارش آپ حضرات سے یہ ہے کہ جب انسانیت کی فلاح وبہبود کو لیکر بات کرنی ہے تو پھر تمام برائیوں کی جڑ تک پہنچنا ہوگا جو یہاں مسائل پیدا ہوتے ہیں ان کی جڑ تک پہنچنا ہوگا۔ صرف اوپر اوپر سے تراشنے سے کچھ نہیں ہوگا۔
اللہ تعالیٰ اس کوشش کو بار آور کرے اور اس کے درخت کو پھل پھول سے مالا مال کرے اور ہم جو امید اور امنگ لیکر اس سفر پہ نکلے ہیں اللہ تعالیٰ ہماری راہنمائی کرے اور ہمیں اس مشن پر کامیاب کرے اور ہم سے جتنی بھی انسانیت کی فلاح وبہبود کیلئے خدمت ہوسکے وہ ہم کریں اور آخر میں پاکستان میں رہنے والے مختلف مذاہب کے حضرات سے میں کہوں گا کہ اگر سکھ برادری اس قسم کا کوئی پروگرام کرے تو میں یونائٹ سے امید رکھتا ہوں کہ وہ بھی پوری آب وتاب کے ساتھ اس پروگرام میں شریک ہوں گے اگر اس نوعیت کا کوئی پروگرام ہمارے ملک کی عیسائی برادری کرے تو یونائٹ اس میں بھی شریک ہو اور اگر اس نوعیت کا پروگرام ہندو برادری کرے تو اس میں بھی یونائٹ شریک ہو۔ہمیں ہمدردی اور رواداری کے لیے ایک دوسرے کے پروگراموں میں شرکت کرنا چاہیے۔ یہ صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے یہ انسانیت کا مسئلہ ہے اور انسانیت کو سامنے رکھ کر سوچنا ہے مذہب ہر ایک کا اپنا اپنا ہے۔ وآخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین
مولانا جواجہ عزیز احمد (عا لمی مجلس تحفظ ختم نبوت )
Please follow and like us: