ڈائریکٹر الشریعہ اکیڈمی گجرانوالہ
مجلس صوت الاسلام پاکستان نے گزشتہ کئی ماہ سے دینی مدارس کے طلبہ کے درمیان تقریری مقابلوں کا جو سلسلہ شروع کر رکھا تھا وہ 8 جنوری کو مکمل ہوگیا ہے۔ مجلس صوت الاسلام پاکستان کی یہ مہم در اصل کئی سالوں سے جاری ہے کہ دینی مدارس کے طلبہ میں خطابت کے عصری تقاضوں کا ذوق بیدار کیا جائے اور انہیں بیان و خطابت کی فنی ضروریات کے ساتھ ساتھ عصر حاضر کے اسلوب اور معروضی حالات و مسائل کے ادراک کی طرف متوجہ کیا جائے، تاکہ وہ اسلام کی دعوت و دفاع اور معاشرہ کی اصلاح و تنظیم کے لیے زیادہ بہتر خدمات سر انجام دے سکیں۔ اس مقصد کے لیے مجلس صوت الاسلام کے زیر اہتمام خطابت کا ایک سالہ تربیتی کورس بھی جاری ہے جس کے تحت اسلام آباد، کراچی، پشاور اور کوئٹہ میں علماء کرام کی باقاعدہ کلاسیں بیٹھتی ہیں اور دینی و عصری موضوعات پر مختلف اصحاب علم و دانش کے محاضرات ہوتے ہیں۔
ایک ہفتہ وار لیکچر جمعرات کو تین بجے میں بھی دیتا ہوں جو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ سے آن لائن ہوتا ہے۔ اس کورس کی افادیت کا اندازہ کورس میں شریک ہونے والے دینی مدارس کے فضلاء کے تاثرات سے کیا جا سکتا ہے جو وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہتے ہیں۔ اس سے ہٹ کر مختلف مواقع پر خطابات کے انعامی مقابلے بھی منعقد کیے گئے اور نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والوں کو گراں قدر انعامات سے نوازا گیا۔
اس سلسلہ کا سب سے بڑا اور طویل سلسلہ گزشتہ چھ ماہ سے جاری تھا جس کے تحت پہلے علاقائی سطح پر، پھر صوبائی سطح پر اور اس کے بعد قومی سطح پر انعامی مقابلوں کا انعقاد کیا گیا۔ 8 جنوری کو کنونشن سینٹر اسلام آباد میں فائنل پروگرام تھا جس میں ملک بھر سے علماء کرام اور اصحاب فکر و دانش کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ جامعہ اشرفیہ لاہور کے نائب الرئیس حضرت مولانا حافظ فضل الرحیم نے تقریب کی صدارت کی۔ وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف مہمان خصوصی تھے۔ جبکہ دیگر خصوصی مہمانوں میں صاحبزادہ خواجہ خلیل احمد آف کندیاں شریف، مولانا خواجہ عزیز احمد، مولانا سعید یوسف خان، مولانا اشرف علی، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، جناب صدیق الفاروق، میجر (ر) محمد عامر اور دیگر سرکردہ شخصیات شامل تھیں۔
ملک کے مختلف حصوں میں منعقد ہونے والے انعامی تقریری مقابلوں کے دوران منتخب ہونے والے بارہ طلبہ نے اس مقابلہ میں شرکت کی۔ وفاقی اردو یونیورسٹی کراچی کے وائس چانسلر جناب ڈاکٹر محمد ظفر اقبال کی سربراہی میں مولانا محمد یوسف خان، ڈاکٹر محمد سعد صدیقی، ڈاکٹر دوست محمد خان، اور راقم الحرف پر مشتمل پانچ رکنی پینل نے منصفین کے فرائض سر انجام دیے۔ معاشرہ کے مختلف طبقات میں عدم برداشت کے بڑھتے ہوئے رجحانات، مذہبی اقلیتوں کے حقوق اور انسانی جان کی قدر و حرمت جیسے موضوعات پر ان طلبہ نے گفتگو کی۔ یہ دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی کہ دینی مدارس کے طلبہ میں دور حاضر کے مسائل و مشکلات کے ادراک کے ساتھ ساتھ عصری اسلوب اور ضروریات سے آگاہی کا ذوق بھی بڑھ رہا ہے۔
مجلس صوت الاسلام پاکستان کے بانی مولانا مفتی محی الدین نے تقریب سے خطاب کے دوران بتایا کہ انہوں نے 1977ء کے دوران اپنے مدرسہ جامعہ اسلامیہ کلفٹن کراچی میں اس نام سے طلبہ میں کام کا آغاز کیا تھا جس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ طلبہ میں اعتدال اور خوش اسلوبی کے ساتھ گفتگو کرنے کا رجحان پیدا کیا جائے، دلیل اور منطق کے ذریعہ اپنی بات سمجھانے کا ذوق اجاگر کیا جائے اور بیان و گفتگو میں تشدد اور منافرت کا عنصر کم سے کم کرنے کی کوشش کی جائے۔ ان کی اس مہم کو ان کے لائق بیٹوں مولانا مفتی ابوہریرہ، مولانا مفتی ابوذر اور ان کے دیگر رفقاء نے آگے بڑھایا اور آج یہ جدوجہد ملک گیر سطح پر منظم ہوگئی ہے جو مولانا مفتی محی الدین اور ان کے رفقاء کے خلوص و محنت کی آئینہ دار ہے۔ 8 جنوری کے اس قومی انعامی تقریری مقابلہ میں خطاب کرنے والے طلبہ کی گفتگو سن کر اندازہ ہوا کہ کوئی کام خلوص اور تسلسل کے ساتھ کیا جائے تو وہ کس طرح کامیابی کی منزل کی طرف بڑھتا ہے۔
قومی انعامی مقابلہ میں مدرسہ اسلامیہ ٹیپو مارکیٹ اسلام آباد کے عثمان فیاض نے پہلی پوزیشن حاصل کر کے دس لاکھ روپے کا انعام حاصل کیا۔ جامعہ محمدیہ چائنہ چوک اسلام آباد کے عبد اللہ فضل دوم پوزیشن کے ساتھ پانچ لاکھ روپے کے انعام کے مستحق قرار پائے۔ جبکہ مدرسۃ الحسنین گرین ٹائون فیصل آباد کے مصطفی عزیز نے تیسری پوزیشن حاصل کی اور انہیں اڑھائی لاکھ روپے کا انعام دیا گیا۔
تقریب کے مہمان خصوصی سردار محمد یوسف کے تفصیلی خطاب سے قبل مختلف مقررین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور راقم الحروف نے بھی کچھ گزارشات پیش کیں۔ مولانا قاری محمد حنیف جالندھری نے اپنے خطاب میں دہشت گردی کے حوالہ سے پارلیمنٹ کے منظور کردہ آئینی ترمیمی بل پر تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ اس میں مذہب اور مسلک کو بطور خاص عنوان بنا کر دیگر حوالوں سے دہشت گردی کا ارتکاب کرنے والوں کو دہشت گردی کے اس دائرہ سے نکال دیا گیا ہے۔ جس کا مطلب یہ سمجھا جا رہا ہے کہ یہ آئینی ترمیم بل اور اس کی بنا پر شروع کی جانے والے قومی پالیسی میں دینی مدارس کو بطور خاص ہدف بنایا گیا ہے۔ جو کہ ملک بھر کے دینی حلقوں اور مدارس کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم حکومت اور قوم کے ساتھ ہیں لیکن دہشت گردی کو الگ الگ دائروں میں تقسیم کرنے کو ہم دینی مدارس کے خلاف سیکولر لابیوں کی منفی مہم کا حصہ سمجھتے ہیں۔ ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ بلا تفریق سب دہشت گردوں کو خواہ وہ لسانی بنیادوں پر ہوں یا علاقائی حوالوں سے ہوں، قومیتوں کے نام پر ہوں یا کسی بھی عنوان سے دہشت گردی کا ارتکاب کر رہے ہوں، یکساں طور پر فوجی عدالتوں میں لایا جائے اور مذہب کے نام سے دہشت گردی کی تفریق نہ کی جائے۔ جبکہ کانفرنس کے متفقہ اعلامیہ میں دہشت گردی کے خلاف قومی جنگ کی حمایت کی گئی ہے اور بلا تفریق تمام دہشت گردوں کے خلاف یکساں کارروائی کا مطالبہ شامل کر کے اسے متوازن بنا دیا گیا ہے۔ مجلس صوت الاسلام پاکستان کو دینی مدارس کے طلبہ میں عصر حاضر کے مسائل و مشکلات کے ادراک اور خطابت و بیان کے عصری اسلوب کو اجاگر کرنے کی اس جدوجہد میں مسلسل پیش رفت پر مبارک باد پیش کرتا ہوں، اور دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ مزید ترقیات و ثمرات اور قبولیت و رضا سے بہرہ ور فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔