مولانا سید سلمان الحسینی الندوی 

بعد الحمد والصلوٰۃ!

برادران اسلام! یہ کانفرنس جس کا موضوع ’’سیرت نبویؐ کے تناظر میں اسلامی تعلیمی نظام‘‘ ہے۔اس کی زبان عربی ہونی چاہیے تھی‘ کیونکہ جب عصری تعلیم یافتہ لوگ اکٹھا کہیں جمع ہوتے ہیں تو انگریزی زبان میں گفتگو کرتے ہیں اور اس پر وہ فخر کرتے ہیں ‘ تو ایسے علماء کرام جنہوں نے شریعت اسلامیہ اور سیرت نبویہ کو پڑھا ہے اور ایک طویل زمانہ لغت عربیہ کی فضاء میں گزارا ہے۔جنہوں نے اس لغت کو بچپن میں پڑھا اور بڑے ہوکر اس کو سمجھا اور قرآن کریم کی تفسیر اور سنت نبویہ کی توضیح کا کام بھی کیا‘ وہ سب کچھ اسی لغت عربیہ میں ہے تو آخر کیوں نہ یہ لغت عربیہ ہماری کانفرنسوں اور سیمیناروں کی رسمی زبان قرار پائے؟ یہاں بھی مناسب تو یہی تھا لیکن ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ہم اپنے اصل مآخذ سے دور ہوچکے ہیں‘ ہم صرف عربی زبان سے ہی نہیں بلکہ دیگر مصادر ومآخذ سے بھی دور ہوچکے ہیں‘ اس لیے مناسب لگتا ہے کہ میں اسی زبان میں نظام تعلیم سے متعلق کچھ گفتگو کروں۔ آپ حضرات مجھے اجازت دیں کہ میں عربی زبان میں گفتگو کروں لیکن میں یہ بھی چاہوں گا کہ آپ حضرات سے کچھ اردو زبان میں بھی گفتگو کروں جو کہ ہماری مادری زبان بلکہ برصغیر ہندو پاک کی رائج الوقت زبان ہے۔


حضورﷺ کا تعلیمی انقلاب اور معاصر دنیا
برادران عزیز! وہ تعلیمی نظام جس کو ہم نے قرآن کریم میں پڑھا ہے اور جس کو عملی طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتداء وحی کے وقت سے لیکر اپنی مبارک زندگی کے آخری یوم تک نافذ کیا جس کا آغاز اللہ تعالیٰ نے سورۂ علق کی ابتدائی آیات سے کیا اور وہ آیات اس نبی مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائیں جو کہ ساری دنیا کیلئے نبیٔ مرسل بناکر بھیجے گئے تھے‘ یہ آیات لوح محفوظ سے منتخب کرکے اس کتاب عزیز میں نازل فرمائی ہیں جس کیلئے جبرئیل کو مامور کیا گیا۔ یہ سورۂ علق کی آیات ہیں جو تعلیمی منہج کو واضح کررہی ہیں‘ ان آیات نے نبی علیہ السلام کی معاصر دنیا میں ایک عظیم تعلیمی انقلاب برپا کردیا۔ یہ وہ معاصر دنیا تھی جس کے پوشیدہ حقائق سے اللہ نے پردہ ہٹایا ہے اور اس کی خامیوں وخرابیوں کا پردہ چاک کیا ہے۔ چنانچہ اللہ پاک نے فرمایا کہ : ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَھُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ۔درحقیقت خرابی ہر طرف عیاں وبیاں تھی‘ہر میدان میں فساد برپا تھا‘ خرابی پوری دنیا پر چھائی ہوئی تھی ‘ اس وقت کی ایرانی ساسانی سلطنت اور رومی بازنطینی سلطنت‘ ہندوستان کی قدیم سلطنت اور عراق ومصر کی سرزمین پر یہ خرابی چھائی ہوئی تھی‘ اس وقت کے ان ممالک کے حکام ہوں کہ رعایا سب ہی بدترین جاہلیت میں مبتلا تھے، وہ اس خرابی اور فساد کو اپنی زندگی میں لئے چل رہے تھے اور ہر طرف یہ خرابی پھیلی ہوئی تھی۔
حضور ﷺ کے قائم کردہ نظام تعلیم کے مقاصد
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کوجب مبعوث فرمانے کا ارادہ کیا جو کہ تمام انبیاء کے سلسلے کو ختم کرنے والے ہیں اور ساری دنیا ساری انسانیت کیلئے نبی بن کر تشریف لائے نیز وہ نبی رحمت اور نبی ہدایت ہیں‘ تو اللہ تعالیٰ نے ان ابتدائی آیات کوسب سے پہلے نازل فرمایا جو تعلیمی منہج کی اساس قرار پائیں اور یہ منہج کچھ مخصوص طبقوں اور صرف مدارس‘ جامعات اسلامیہ کیلئے ہی مخصوص نہیں تھا‘ جو ہماری زبانوں پر جاری اصطلاحات کے مطابق ہو‘ یہ منہج درحقیقت پورے عالم انسانی کیلئے تھا۔ پوری انسانیت کیلئے تھا‘ پورے جزیرۃ العرب اور تمام براعظموں کیلئے تھا‘ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس منہج کے ذریعے پوری انسانیت کو مخاطب کیا ہے جس میں عام وخاص سب ہی شامل ہیں تاکہ اس منہج کو عملی زندگی میں جگہ دی جائے۔
لوگ اس زمانے میں بھی لکھتے پڑھتے اور تعلیم حاصل کرتے تھے چنانچہ رومی مملکت اور ساسانی مملکت میں علوم کے مراکز موجود تھے۔اس دور میں اغریقی فلسفہ تھا‘ ایرانی جنگجوں کی تاریخ تھی‘ ہندی آداب کا ذخیرہ بھی تھا ‘چنانچہ وید کی کتابیں تھیں جن میں عہد قدیم وجدید کا بیان تھا‘ اور مدینہ منورہ میں ایسے گھر بھی موجود تھے جن میں تعلیم وتعلم کا سلسلہ جاری تھا‘ مطلب یہ ہے کہ اس زمانے میں بھی لوگ تعلیم حاصل کرتے تھے‘ لیکن وہ لوگ علم کے نام پر جاہلیت سیکھتے تھے‘ وہ بندوں اور ان کے خالق کے مابین دوری پیدا کرتے تھے‘ یعنی کہ خالق ومخلوق میں دوری پیدا کرتے تھے‘ چنانچہ ان کا علم لوگوں اور ان کے رب کے درمیان رکاوٹ کا کام کررہا تھا۔ اس لئے جب پہلی وحی نے آکر لوگوں کو ان کے خالق سے مربوط کیا‘ بندوں کو ان کے معبود سے جوڑ دیا ‘خالق سے مخلوق کو جوڑ دیا اور تمام عرب وعجم اور تمام مشرقیوں اور مغربیوں سے یہ کہہ دیا کہ ’’اپنے اس رب کے نام سے پڑھئے جس نے ساری کائنات کو وجود بخشا‘‘ اور یہ صرف تسمیہ نہیں کہ انسان ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم ‘‘پڑھ لے ‘پھر وہ ربوبیت والوہیت کی مخالفت پر اتر آئے اور اسماء وصفات کے معانی کے خلاف بلکہ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت مطلقہ کے خلاف‘ شریعت اسلامیہ اور زبانی مناہج تعلیم کے خلاف اٹھ کھڑا ہواورکہے بسم اللہ‘ یہ بسم اللہ کا مذاق نہیں تو اور کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے ’’اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ‘‘ جو فرمایا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پرا ایمان رکھتے ہوئے اس کے نام سے پڑھیے۔
مدارس‘ نبویﷺ نظام تعلیم کے ایک جزء پر ہی قانع کیوں؟
اللہ کی صفات پر ایمان رکھتے ہوئے پڑھیے! ہم کیا کچھ پڑھتے ہیں‘ ہم یہ نحو وصرف وادب وبلاغت وحدیت وتفسیر وفقہ واصول کی کتب پڑھتے ہیں جو ہمارے مدارس اسلامیہ کے بالکل محدود ماحول میں پڑھائی جاتی ہیں‘ یا یہ کہ اللہ تعالیٰ ہم سے یہ چاہتے ہیں کہ آسمانوں، زمینوں اور ذرات وکواکب کو بھی پڑھیں، ہم جمادات، نباتات وحیوانات وانسان کو پڑھیں، ہم یہ ساری چیزیں پڑھیں، اللہ تعالیٰ ہم کو ان تمام چیزوں بلکہ تمام کائنات کے پڑھنے کا حکم دیتے ہیں، نیز یہ زمینی سیارہ بھی ہماری تعلیم وتحقیق کا محور ہے جو ہمارے لیے ہی بنایا گیا ہے ’’خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعاً‘‘ اور جب اللہ نے انسانی وجود کو پیدا کرنا چاہا تو فرشتوں سے کہا: ’’اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃ‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے زمین کی خلافت پر فائز کرنے اور اس زمین کو آباد کرنے اور انسان کو تمام مخلوقات سے استفادہ کی قوت دینے کیلئے اور اپنی مشیت ومرضی کے مطابق اس پوری کائنات پر برتری دینے کیلئے انسان کے حق میں فرمایا ’’وَعَلَّمَ آدَمَ الْاَسْمَائَ کُلَّہَا‘‘ اللہ تعالیٰ نے کوئی اسم کوئی مسمیٰ اور کوئی چیز نہیں چھوڑی جس کا علم آدمؑ کو نہ دیا ہو‘ چنانچہ امام رازی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ اسماء سے یہ مراد نہیں کہ جن اسماء سے آواز دی جاتی ہو‘ بلکہ اس سے مراد صفات وخصائص وممیزات ہیں‘ اللہ تعالیٰ نے اشیاء کے خصائص وصفات واستعمالات وفوائد اور منافع سکھادیئے‘ تاکہ بنی آدم اس زمین پر اللہ کے خلیفہ ہوسکیں اور محض اللہ کیلئے زمین اور اس میں موجود اشیاء کو مسخر کرسکیں‘ اس کے بعد اللہ نے اس اہم مقصد کیلئے انبیاء کرام کو مبعوث فرمایا‘ اور آخر میں خاتم النبیین محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو منتخب فرمایا اور آپ کو صرف عرب قوم کیلئے یا صرف مسلم اُمّہ کیلئے ہی رسول نہیں بنایا بلکہ آپ علیہ السلام کو تمام عالم کیلئے رسول بناکر بھیجا گیا ’’وَمَا اَرْسَلْنَاکَ اِلّاَ رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ‘‘ وَمَا اَرْسَلْنَاکَ اِلّاَ کَافَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْراً وَّنَذِیْراً‘ قُلْ یٰا اَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعاً۔
عالِم دین کا دائرہ علم کیا ہونا چاہیے؟
درحقیقت حضرت نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام اس تعلیمی منہج کو لیکر تشریف لائے جس سے آغازہے ‘ اس لیے کہ اخلاق نبویہ اور وہ سمع وطاعت کا جذبہ جس کا درس حضور نے دیا اور وہ فرائض وواجبات اور ذمہ داریاں‘ لوگوں کے حقوق‘ خواتین کے حقوق‘ بچوں کے حقوق‘ حاکم ورعایا کے حقوق اور یہ تمام موضوعات جن کو ہم پڑھتے ہیں‘ یہ سارے کے سارے اس علم پر مرکوز ہوجاتے ہیں جس کو وحی الٰہی نے نازل کیا ہے‘ چنانچہ وحی الٰہی ہی کو اس علم کی اساس ہونا چاہیے تاکہ ہندوئوں‘ بدھسٹوں ‘ نصرانیوں اور یہودیوں کو مخاطب کیا جاسکے‘ یعنی کہ تمام اقوام وملل اور قبائل کو مخاطب کیا جاسکے‘ ہماری رسالت کو بین الاقوامی رسالت لازماً ہونا چاہیے اور پھر اس تعلیم کی گفتگو ہم اس عالمی دائرہ میں پوری وسعت کے ساتھ کرسکیں اور یہ کہ ہمیں تعلیمی منہج جو اختیار کرنا ہے وہ ایک اصطلاح کے تحت صرف علماء کیلئے نہیں محدود ہونا چاہیے ‘ہم تو اللہ تعالیٰ کی ذکر فرمودہ اصطلاح کے مطابق علماء کو مراد لیتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’اَلَم تَرَاَنَّ اللہَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَائِ مَائً فَاَخْرَجْنَا بِہ ثَمَرَاتٍ مُّخْتَلِفاً اَلْوَانُہَا وَمِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌ بِیْضٌ وَّحُمْرٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُہَا وَغَرَابِیْبُ سُوْدo وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَابِّ وَالْاَنْعَامِ مُخْتَلِفاً اَلْوَانُہٗ کَذٰلِکَ اِنَّمَا یَخْشَی اللہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَاء‘‘ یہاں اس آیت کریمہ میں علماء سے کون سے علماء مراد ہیں؟ کیا ایسا ممکن ہے کہ آیت کا آخری حصہ ابتدائی حصے سے یا درمیانی حصے سے منقطع ہوجائے؟۔ یہ آیت کریمہ جب علماء کے بارے میں گفتگو کرتی ہے تو علماء دین ‘علماء علوم عصریہ ‘علماء نباتات‘ علماء جمادات‘ علماء حیوانات‘ علماء انسان‘ علماء افلاک‘ علماء ہیٔت‘ علماء طبعیات‘ علماء فیزیالوجی‘ علماء کیمیالوجی‘ علماء ٹیکنالوجی اور دیگر مخلوقات کے متعلق علم رکھنے والے علماء مراد ہیں۔یہ آیت کریمہ ایک علم کو خصوصی طور پر مراد نہیں لیتی کہ دوسرے علم کو ترک کردے بلکہ یہ آیت کریمہ ایسے تمام علوم کو ذکر کرنا چاہتی ہے جو عالم دنیا کے اندر بکھرے ہوئے ہیں جن کا سیکھنا اور حاصل کرنا اللہ کی نظر میں انسان کیلئے مقصود تھا‘ تاکہ انسان اس علم کو حاصل کرکے تمام پہلوئوں سے پوری دنیا کو فائدہ پہنچاسکے‘ اللہ تعالیٰ نے اپنے ارادہ کی روشنی میں اہل خرد واہل دانش کو متوجہ فرمایا‘ جن میں عقلا‘ فقہاء‘ طلباء‘ محققین‘ اساتذہ شامل ہیں ان کو کائنات کے مطالعہ کی طرف متوجہ فرمایا‘’’ اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ َاللََّیْلِ وَالنَّہَارِ لَاٰیَاتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِo اَلَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیَاماً وَّقُعُوْداً وَّعَلیٰ جُنُوْبِہِمْ وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالا َرْضِ رَبَّنَا مَاخَلَقْتَ ھَذَا بَاطِلاً سُبْحَانَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ‘‘
دو طرح کے نظام ہائے تعلیم امت میں تفرقہ کا سبب ہیں
ہم نے ان کالجوں اور عصری جامعات کے شعبوں کو کیوں چھوڑ دیا جو سیکولرازم‘ الحاد وزندقہ کے نظریات کی حامل ہیں جو مغربی ہیں‘ یورپی‘ امریکی ‘ایشیائی اور افریقائی ہیں؟ ۔وہ کیا چیز ہے جو اس تفرقہ کا سبب بنی؟ اور وہ کون شخص ہے جس نے یہ دیوار کھڑی کی ہے ؟علم حقیقت وعلم صنعت کے درمیان‘ آیات خداوندی کے علم اور علم کائنات کے مابین اور یہ تفرقہ اسماء الٰہی کے ایمان سے بعید‘ صفات باری تعالیٰ پر ایمان سے بعید ہے‘ یہ تفرقہ نہایت قابل نفرت ہے جس نے قدیم وجدید کے مابین اور علم دنیا وعلم آخرت کے مابین‘ علوم شرعیہ اور علوم ٹیکنالوجی کے مابین تفرقہ ڈالا ہے ‘یہ ناپسندیدہ تفرقہ اصل میں انگریز نے پیدا کیا ہے جس نے برصغیر ہندو پاک کے علماء بلکہ مسلمانوں کے ذہنوں پر یہ تفرقہ مسلط کردیا‘ پھر یہی تفریق مصر میں مسلط کی گئی‘ ملک شام پر مسلط کی گئی‘ عالم اسلام کے ممالک پر یہ تفریق مسلط کی گئی‘ حضور علیہ السلام کے دور سے لیکر مسلمان اس تفریق سے بالکل واقف نہیں تھے‘ بنو امیہ کے دور تک‘ بنو عباس کے دور تک‘ ترکوں کے دور تک مغلوں کے دور تک بالکل آخری زمانے تک تقریباً تیرہ صدیوں تک یہ تفریق نہیں تھی اور مسلمان اس آخری دور تک ایمانی نظام تعلیم اور الحادی نظام تعلیم کے مابین جوڑ اور تفریق سے بالکل ناآشنا تھے‘ لہٰذا یہ لازمی ہے ہم اس تفریق کا خاتمہ کریں اور ایک یکساں نظام تعلیم قائم ہو اور امت مسلمہ اس یکساں نظام تعلیم کو تمام چیزوں اور تمام میدانوں میں اختیار کرے۔ 
آج کی دنیا علماء سے کیا چاہتی ہے؟
حضرات علماء کرام ! میرا یہ موضوع قدرے طویل ہوگیا لیکن دل میں ایک کڑھن ہے اور آج کی اسلامی دنیا اہل علم حضرات سے ایک ایسا موقف چاہتی ہے جو ایک ٹھوس ‘مضبوط اور حوصلہ مند موقف ہو‘ جو لڑکھڑاتے ہوئے فلسفہ کے روبرو ہواور ان باطل نظریات کے سامنے ہو جو ناکامی کے دہانے پر ہیں۔
علمائے گرامی قدر! میرے دل میں ایک درد ہے‘ مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم جب بیٹھتے ہیں کسی کانفرنس میں یا کسی سیمینار میں یا کسی اجتماع میں تو خاص روایات ‘ خاص ماحول ورسمیات ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتیں‘ ہم ان میں اس طرح گرفتار ہوچکے ہیں کہ ان سے آزاد نہیں ہوپاتے‘ ہمیں چاہیے کہ اسلام کا جب مطالعہ کریں تو کچھ اس طرح سے کریں کہ کسی کونے میں یا کسی کنارے میں بیٹھ جائیں اور اس کے بعد اپنا جائزہ لیں‘ ہمارا یہ جائزہ محدود دائرے میں نہ ہو‘ ہمیں جائزہ لینا ہے پوری انسانیت کا‘ ہمیں جائزہ لینا ہے پوری دنیا کا ‘ دنیا ہماری نگاہوں کے سامنے ہے اور ہم جس نبی کی بات کررہے ہیں اس نبی کی بات بغیر آفاقیت کے‘ بغیر عالمیت کے‘بغیر گلوبلائزیشن کے ہو ہی نہیں سکتی۔ 
اللہ تعالیٰ مسلمانوں سے مکمل اسلامی نظام کے احیاء سے کم پر راضی نہیں ہوگا
اس نبی کا کام شروع ہوا ہے یہاں سے کہ وہ رحمۃ للعالمین ہے‘ وہ جو نظام بھی لیکر آئے وہ آفاقی تھا ‘ وہ پوری دنیا کے نفع کیلئے تھا ‘ہمیں ذاتی نہیں پوری دنیا کا نفع دیکھنا ہوگا‘ اگر ہم حضور ﷺ کے نظام تعلیم پر بات کریں تو ہمیں اپنی ذات سے نکل کر پوری دنیا کے ماحول اور نظام کو سامنے رکھنا ہوگا‘ ہمیں اسلام کے نظام تعلیم کے ضمن میں یہ سوچنا ہوگا کہ کیا اسلام کے نظام تعلیم کا صرف یہ مقصد ہوسکتا ہے کہ چند علماء تیار ہوجائیں جو منبر ومحراب کی زینت ہوں‘ جو سیرت پر بیانات فرمادیں‘ جو امامت وخطابت کا فریضہ انجام دیدیں؟نہیں‘ نہیں میرے بھائیو! ہمیں سمجھنا ہوگا کہ حضرت ابوبکر وعمر وعثمان وعلی یا خالد بن ولید اور عمرو ابن العاص‘ سعد ابن ابی وقاص‘ عبداللہ ابن مسعود اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہم اجمعین اور کون کون سے نام لیتے چلے جائیے کیا ان کی تیاری صرف اس لیے ہوئی تھی کہ ہمارے منبر ‘ہماری محرابیں‘ ہماری خانقاہیں اور مدرسوں کی چہار دیواریوں میں کچھ اللہ والے اور ربّانیین پیدا ہوجائیں‘ کیا صرف یہ مقصد تھا؟ جس اللہ نے بعثت کے ساتھ فرمایا تھا‘ ’’ھُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدیٰ وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہ وَلَوْکَرِہَ الْمُشْرِکُوْن‘‘جس اللہ نے اس مقصد کو واضح فرمادیا تھا وہ اللہ کیا اس پر راضی ہوسکتا ہے کہ اس کے نظام میں پیوند کاری کی جائے‘ اس پر راضی ہوسکتا ہے کہ پوری دنیا کسی اور نظام کے تحت چلے پاکستان کے چپے چپے پر سیکولر نظام نافذ ہو‘ عالم اسلام میں سیکولر نظام جس کی بھیک برطانیہ سے مانگی گئی‘ امریکہ سے مانگی گئی‘ یورپ کا جو تھوک ہے اس کو چاٹ کر لوگ زندگی گزارتے رہیں اور اسلام نے جو توحیدی نظام برپا کیا اور اس وقت کی رومن امپائر اور پرشن امپائر کے بخیے ادھیڑ دیے اور یہ ثابت کیا کہ انسانوں کو غلام بناکر کبھی بھی پیغمبر عظیم کی رسالت کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔ ایک صحابی ربعی بن عامرؓ جو غیر معروف صحابیؓ ہیں‘ رستم کے دربار میں پیغمبر کی ترجمانی کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’اللہ ابتعثنا لنخرج من شاء من عبادۃ العباد الیٰ عبادۃ اللہ وحدہ، ومن ضیق الدنیا الیٰ سعتھا، ومن جور الادیان الیٰ عدل الاسلام‘‘ ایک عادلانہ نظام کو برپا کرنے کیلئے میں آیا ہوں۔ میں لوگوں کو ظلم واستحصال سے آزاد کروں گا۔ میں انسانیت کو ظالموں کے شکنجے میں نہیں رہنے دوں گا۔ میں لوگوں کی عقلوں کے ساتھ مذاق کرنے کا موقع نہیں دوں گا‘ جس خداوند قدوس نے اس انسان کو بنایا ہے‘ اسی نے یہ فرمایا ’’اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ‘‘ پڑھو اس پروردگار کا نام لیکر‘ اس کے اسماء وصفات وذات اور افعال پر یقین رکھتے ہوئے جس نے پیدا کیا اور یہاں اس کی صفت تخلیق کا تذکرہ اس لیے فرمایا گیا کہ مفعول ’’اقرا ‘‘کا ذکر نہیں یعنی کیا پڑھیں یہ نہیں بیان کیا گیا لیکن ضمناً ذکر کردیا گیا کہ ’’اقرأ کل مخلوق‘‘ وہ خالق ہے اس کی ہر مخلوق کو پڑھو۔
ہماری کوتاہی سے اسلام کا نظام تعلیم سمٹ گیا
اس کی نشانی ہے پتوں میں‘ اس کی نشانی ہواکی لہروں میں‘ پانی کے قطروں میں‘ اس کی نشانی ہے درختوں میں‘ ذروں میں‘ سیاروں میں‘ کہکشائوں میں‘ ستاروں میں‘ پھولوں کی پنکھڑیوں میں ’’وَفِیْ اَنْفُسِکُمْ اَفَلَا تُبْصِرُوْن‘‘ اس کی نشانی تمہارے دماغ کے خلیوں میں‘ تمہارے رگ وریشے میں ’’سَنُرِیْھِمْ اٰیَاتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْ اَنْفُسِھِمْ حَتّیٰ یَتَبَیَّنَ لَھُمْ اَنَّہُ الْحَق‘‘ اللہ فرماتا ہے کہ میں دکھادوں گا اپنی نشانیاں ان کو بتدریج آفاق میں بھی نشانیاں نظر آتی چلی جائیں گی اور ان کی ذات میںبھی‘ تو جو نظام تعلیم برپا کیا گیا تھا اس نظام تعلیمی کا سلسلہ جاپان کے ایک کنارے سے لیکر امریکہ کے آخری کنارے تک‘ کوہ قاف سے لیکر سائوتھ افریقہ اور جنوب کے ممالک تک قائم ہونا چاہیے تھا‘ ہم نے کوتاہی کی‘ ہم نے اپنے سلسلے کو اندلس سے نکلنے کے بعد بند کردیا۔
وراثت سے دستبردار ہوکر بھی ہم کیسے انبیاء کے وارث ہیں؟
ہم نے ابن خلدونؒ کو‘ شاطبیؒ کو‘ شاہ ولی اللہؒ کو‘ مجدد الف ثانیؒ کو ‘ ابن تیمیہؒ کو‘ ابن قیم الجوزیہؒ کو ہم نے کس کس کو بھلادیا‘ ہم نے زہراوی کو‘ کندی کو‘ فارابی کو ابن سینا کو اور اپنے فلاسفہ کو بھی فراموش کردیا‘ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہم دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں اور بھکاریوں کا پیالہ لیے ہوئے اپنا قانون مانگتے ہیں‘ تعلیمی نظام مانگتے ہیں اور ایک چھوٹے سے دائرے میں یہ سمجھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وارث یہ علماء ہیں جو مدرسوں کی چہار دیواری میں تیار ہورہے ہیں‘ جن کے ہاتھ میں قانون نہیں‘ سیاست نہیں‘ معیشت نہیں‘ معاشیات نہیں‘ تمدن نہیں‘ تہذیب نہیں جو حاشیے میں بیٹھے ہوئے ہیں‘ ان کو ترس والی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے‘ جن پر الزامات تھوپے جاتے ہیں۔ ان کا کام یہ تھا کہ وہ ابوبکر صدیق‘ عمر ابن الخطاب‘ عثمان غنی‘ علی بن ابی طالب رضوان اللہ علیہم اجمعین کی خلافت سنبھالتے ۔حضرت امیر معاویہؓ اور عمر بن عبدالعزیز اور ان جیسے خلفاء کی خلافت سنبھالتے‘ ان کا کام یہ تھا کہ پوری زندگی کی باگ ڈور ان کے پاس ہوتی‘ وہ مرجع ہوتے‘ کیا کبھی بارہ سو تیرہ سو سالہ تاریخ میں ایسا ہوا کہ ہمارے کسی بھی ملک میں دو نظام تعلیم تھے‘ دو قوانین تھے۔ دو نظام ہائے سیاست تھے‘ ازدواجیت و ثنویت تھی؟ ‘ مثال کہیں کی بھی دی جائے۔ بنو عباس کے دور کی دیجیے۔ مغل امپائر کے دور کی دیجیے۔ مولانا مناظر احسن گیلانی کو اللہ رب العزت بلند درجہ عطا فرمائے کہ ہندوستان کے نظام تعلیم وتربیت کی کتاب میں انہوں نے یہ ثابت کردیاکہ ایک وحدانی نظام تعلیم نافذ تھا جس کو اغواء کیا لٹیروں نے‘ دشمنوں نے اور اس کو اغواء کرنے کے بعد ہمیں حالت اضطراری میں پہنچادیا۔
حالت اضطراری میں قائم کئے گئے نظام پر ہی آزاد فضائوں میں قناعت کیوں کی؟
بات ختم کرتے ہوئے عرض کروں گا کہ 1857کی جنگ آزادی میں جب مسلمانوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تو حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ طے فرمایا کہ اب کلامی جنگ کو اختیار کرنا ہے‘ لیکن اس میںحضرت حالت اضطراری کی پوزیشن میں تھے‘ ظاہر ہے کہ ان کے ہاتھ میں تمام ادارے نہیں تھے‘ نظام نہیں تھا‘ اس لیے انہوں نے یہ چاہا کہ جوکچھ بچا کچھا سرمایہ ہے اس کا تحفظ کرلیا جائے‘ جیسے ہمارے ہاں انڈیا میں مسلم پرسنل لاء بورڈ 1972ء میں قائم کیا گیا جب شریعت اسلامیہ کے اس پہلو پر جو فیملی لائف سے متعلق ہے‘ ڈاکے ڈالے جانے لگے تو طے کیا علمائے کرام نے متحدہ طور پر کہ اسلام کے عائلی قوانین کے تحفظ کیلئے ایک بورڈ بنادیا جائے اور اس نے یہ کام ذمے لیا‘ لیکن بتائیے کہ کیا اسلام کا نظام صرف عائلی قانون تک محدود ہے یعنی ہم مجبوری اور حالت اضطراری میں اگر کسی چھوٹے سے دائرے کے تحفظ میں لگ گئے تو کیا ہم کو اپنے ماضی کا وسیع دائرہ فراموش کردینا چاہیے اور اسی پر قانع ہوجانا چاہیے؟۔
اے علماء کرام! خدارا… اُٹھو اپنے ورثے کو سنبھال لو
جو نظام اس وقت مدارس میں نافذ ہے سچی بات یہ ہے کہ وہ اسلام کے نظام تعلیم کا ایک چھوٹا سا حصہ‘ کپڑے کا ایک ٹکڑا ہے‘ کھانے کا ایک نوالہ ہے‘ اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں اور اس پر اصرار اور اسے باقی رکھنے کی کوششیں یہ روایت پرستی ہے اور رسمیت کا وہ جال ہے جس کے لوگ بری طرح شکار ہوچکے ہیں‘ جب تک اس کو توڑا نہیں جائے گا اور عہد نبوی کے مطابق دوبارہ اپنے نظام تعلیم کو قائم نہیں کیا جائے گا جس سے وہ افراد پھر پیدا ہوں جن کے ہاتھ میں زندگی کا پورا نظام تھا اور وہ وہاں کبھی بھی کسی سے بھیک مانگنے کی یا پیوند لینے کی ضرورت نہیں پڑی۔
بس اسی آیت کا تذکرہ کرتے ہوئے بات ختم کروں گا۔ جو ہماری موجودہ صورتحال ہے مدینہ منورہ کے یہودیوں کی عہد نبوی میں اور عالم عیسائیت کے عیسائیوں کی عہد نبوی میں اور بعد کے عہود میں وہی کیفیت تھی کہ
؎ تو       ہی          ناداں          چند           کلیوں          پر            قناعت           کرلیا
ورنہ        گلشن          میں         علاج        تنگی ٔ         داماں        بھی         تھا
یہ کیفیت تھی جس پر قرآن بہت ہی گرج کر اور بہت ہی غصے میں کہتا ہے ’’اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتَابِ وَتَکْفُرُوْنَ بِبَعْض فَمَا جَزَائُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ اِلَّاخِزْیٌ فِی الْحَیَوٰۃِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ القِیَامَۃِ یُرَدُّوْنَ اِلیٰ اَشَدِّ الْعَذَابِ‘ وَمَااللہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْن‘‘۔ اگر آزاد فضائوں میں بھی ہم اتنے تھوڑے پر قناعت کرکے ہم اور آپ علماء اور طلبا بیٹھ گئے تو مجھے ڈر ہے کہ جیسے خدا ان یہود ونصاریٰ سے کہہ رہا تھا ہم سے بھی خدا کہے گا کہ ’’تمہاری سزا کیا ہونی چاہیے‘‘اللہ تعالیٰ ہماری اس غفلت ‘لاپرواہی اور کم ہمتی پر ہمیں معاف نہیں کرے گا ‘ کیونکہ ہمارا کام دنیا کی امامت تھا ‘ ہمارا کام دنیا کی سیادت تھا‘ ہمارا کام دنیا کے تمام نظاموں پر اسلام کے نظام کو غالب کرنا تھا مگر ہم خاموش بیٹھ گئے۔ اے علماء امت خدارا اٹھو اور اپنے قیمتی ورثے کو سنبھال لو!
ہم دیکھ رہے ہیں کہ دنیا میں مسلم ممالک رسوا ہوچکے ہیں‘ان کی رسوائی کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے شریعت کو پیوند کاری کیلئے اور محض دکھلانے کیلئے اور بہلانے پھسلانے کیلئے استعمال کیا ہے نہ وہ شریعت کیلئے مخلص ہیں نہ اللہ کے مخلص نہ رسول اللہ کے مخلص ‘نہ عوام کے مخلص نہ اس دین متین کے مخلص ‘ایسے میں انجام وہی ہونا ہے جو آج ہم سب دیکھ رہے ہیں ۔ اللہ اپنے فضل وکرم سے ہم کو اخلاص عطا فرمادے اور صحیح راستے کو پھر سے عہد نبوی کو سامنے رکھتے ہوئے متعین کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

Please follow and like us:

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا. ضرورت کے کھیتوں ک* نشان لگا دیا گیا ہے