جہاں پناہ! سب خیریت ہے
ملک تباہی کے کنارے کھڑا ہے‘ ملکی استحکام اور قومی سا لمیت کے خلاف سازشیں عروج پر ہیں‘ تخریب کاروں‘ غیر ملکی سفارتکاروں اور استعمار کے گماشتوں کو بھی وہی پروٹوکول حاصل ہے جو حکمرانوںکی تسکین انا کے لئے ضروری قرار دیا گیا ہے‘ علماء حق کو قتل کیا جارہا ہے‘ قاتل دندناتے پھررہے ہیں‘ کراچی بیروت بن چکا ہے‘ ملک میں کسی کی عزت نفس اور جان ومال محفوظ نہیں۔ اللہ کے قانون سے بغاوت‘ دین اسلام سے شرارت اور اہل اسلام سے منافقت ارباب اقتدار کی سیاست ہے۔ شریعت سے استہزاء اور تمسخر اہل حکومت کی جمہوریت ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود ملکی ’’نیا‘‘ کے کھیون ہار آنکھیں بند کیے قعر مذلت اور شارع ہلاکت پر سرپٹ دوڑے چلے جارہے ہیں اور قوم کو یہ باور بھی کرایا جارہا ہے کہ جناب! یہی ملکی سا لمیت اور قومی استحکام کا راستہ ہے۔
قومیں تباہ ہوتی ہیں جب ان میں اخلاق نہیں رہتا‘ جب شریعت سے استہزا ہوتی ہے‘ جب علماء حق کے صائب مشورے ٹھکرادیئے جاتے ہیں‘ جب غیرت مٹ جاتی ہے‘ جب حیاء اور بے حیائی کا اختلاط ہوجاتا ہے‘ جب سیاست مفادات کا تحفظ کرتی ہے‘ جب دینی اقدار تج دیئے جاتے ہیں‘ ظلم سہنا ان کی عادت ہوجاتی ہے اور غداری کرتے ہوئے یا سیاست کاری کرتے ہوئے شرعی قوانین اور اسلامی اخلاق کے پامال ہونے پر انہیں رتی بھر حیا نہیں آتی‘ لیکن ایک چیز ایسی ہے جو قوم کی روح کو ہڑپ کرجاتی ہے‘ وہ ہے خوشامد! بیرونی آقایان ولی نعمت کی خوشامد! اندرونی متوقع مفادات کے محافظ لادین اہل سیاست کی خوشامد! ملکی اقتدار پر براجمان ارباب حکومت کی خوشامد! بتوں کو خدا بنانے کا جذبہ اور خدا کو (العیاذ بااللہ ) طاق نسیاں پر رکھ دینے کی ذلت!
آج جب ہم اپنے بعض صاحب بصیرت احباب کو یہ کہتے ہوئے سنتے ہیں کہ ہماری قوم کا اجتماعی اخلاق اور کچھ فرسودہ سیاسی قیادت کا المناک کردار پیشہ ور طوائفوں سے بھی زیادہ رسوا ہوچکا ہے‘ تو ہمیں تصدیق کرنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں ہوتی‘ اور وہ غلط نہیں کہتے کہ ہم واقعتاً بھی اسی طرح محسوس کرتے ہیں۔ ہماری بھی دیانت کے ساتھ یہی رائے ہیں۔
جب ہم غیرت کے فنا ہوجانے پر سرنگوں ہوتے اور اس زخم کے ماتم میں سینہ کوبی کرتے ہیں تو ہمارے سامنے غیرت کی چاک دامانی ہوتی ہے۔ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ ہم نے غیرت کو تماشائے عبرت بنادیا ہے۔
رہا ظلم کا سوال! تو ظلم سے بڑی لعنت کوئی نہیں‘ ظلم اس لئے گردن زدنی ہے کہ وہ ظلم ہے‘ وہ طاقت‘ سیاسی قوت یا حکومت اور اقتدار کے نشہ میں بے قابو ہوکر مخلوق خدا کو اپنے تشدد اور اپنی بہمیت کا نشانہ بناتا ہے لیکن وہ مظلوم بھی ظالم ہی ہوتا ہے جس نے ظلم کے آگے سرجھکادیا ہو‘ جس نے اباحیت کے ساتھ صلح کرلی ہو‘ جو ظلمت وہدایت کو بیک وقت قوم کا نجات دہندہ قرار دیتا ہو‘ جو ظلم کو ظلم نہ کہے‘ جو کفر کو کفر نہ کہے‘ جو فسق وفجور اور بدمعاشی وغنڈہ گردی پر چپ سادھے رہے‘ جو کفر صریح کی سرمستیوں میں بھی سیاسی پناہ کا طالب ہو‘ جو لادین سیاسی کردار اور ظالمانہ عزائم رکھنے والی قوتوں پر نکیر نہ کرے بلکہ خوش آمدید کہے اور اس کی تعبیریں کرے۔
خطا معاف! جتنی تعبیریں ہماری قوم اور قومی سیاسی قیادت نے ظلم کا جواز پیدا کرنے کیلئے کی ہیں آج تک کسی اور قوم نے اتنی فیاضی نہیں دکھائی۔ ایسی قوم ہی کیلئے بقول ایک دانشور ’’چنگیز اور ہلاکو نشتر بن کر پیدا ہوتے ہیں‘‘۔ قومی اعتماد کو فروخت کرنا‘ غداری کرنا اور ظلم سہنا سب ہم رشتہ ہیں‘ جو شخص غداری کرتا ہے‘ اعتماد فروخت کرتا اور ضمیر بیچتا ہے اور ظلم سہتا ہے‘ ہمارے نزدیک وہ کسی بھی شرف انسانی کا مستحق نہیں‘ وہ اللہ کی زمین پر سب سے بڑا بوجھ ہے‘ اس کا مٹ جانا زیادہ بہتر ہے ۔
ملک اور قوم کے غداروں‘ انسانی اقدار کے دشمنوں‘ حریت وآزادی اور نفاذ شریعت کے مخالفوں اور خود فروختنی کے کاروبار میں ملوث لیڈروں‘ وزیروں‘ مشیروں اور سیاست دانوں سے ’’اس بازار‘‘ کے اخلاق باختہ بھی افضل ہیں‘ ظلم اورجبر واستبداد کے پجاریوں سے وہ لوگ بہتر ہیں جو اپنی عصمت کو تو بیچ دیتے ہیں مگر کسی دوسرے پر ظلم کرکے معاشرے کے ناسور تو نہیں بنتے۔
لیکن ان سب سے بڑا جرم ہمارے نزدیک خوشامد اور کاسہ لیسی ہے۔ اس وقت بھی سرکاری دربار کے حاشیہ بردار اسی موذی مرض میں مبتلا ہیں‘ جنہوں نے حکمرانوں کی آنکھوں پر سبز عینک چڑھادی ہے۔ ملک جل رہا ہے‘ آگ بھڑک رہی ہے‘ امن وامان تاراج ہوچکا ہے اور درباریوں نے بس ایک ہی وظیفہ ورد زبان کیا ہوا ہے:
’’جہاں پناہ! سب خیریت ہے‘‘۔
ہماری رائے میں خوشامد کار لوگ اللہ کی زمین پر اس کا سب سے بڑا عذاب ہیں‘ یہ لوگ اُلو کو شہباز‘ کوے کو بلبل‘ گیدڑ کو شیر‘ ظالم کو عادل‘ بخیل کو حاتم‘ بے عزت کو جلالتمآب اور خزاں کو بہار کہتے ہیں۔ انکا فنا ہوجانا ہی بہتر ہے‘ یہ لوگ اپنی غیرت کو مٹاکر قوم کی غیرت کو بھی فنا کردیتے ہیں۔ ان لوگوں ہی کے آزار سے قومیں مرتی ہیں‘ یہ لوگ ٹکے ٹکے کی جنس ہیں‘ سیاسیات میں انکو ’’سڑے مال‘‘ کی حیثیت حاصل ہوتی ہے جس بدن میں یہ ناسور ہوگا وہ بدن کبھی صحت مند نہیں ہوسکتا… ہم نہیں جانتے کہ خوشامدی سے کیا لذت نفس پیدا ہوتی ہے؟۔
مولانا عبدالقیوم حقانی
Please follow and like us: