فروغِ علم اور ذوقِ مطالعہ
بدقسمتی سے یورپ کی طرح ہمارے ہاں بھی قوت واخلاق، تخلیق وایجاد، ذوق مطالعہ، شوق علم اور تحصیل علم و دین کا توازن بگڑتا جا رہا ہے۔ جدید سائنسی انکشافات اور مغربی افکار کی یلغار کے بعد سے مادی قوت اور ظاہری علم بڑی سرعت سے ترقی کر رہے ہیں جبکہ دین و اخلاق اور علم و مطالعہ میں تنزل و انحطاط واقع ہوتا چلا جا رہا ہے، جب عام معاشرتی سطح اور غالب اکثریت پر نظر ڈالی جائے تو بغیر کسی تردد اور شک کے یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ مسلم سوسائٹی میں بھی اب ان دونوں میں کوئی تناسب باقی نہیں رہا اور ایک ایسی نسل پیدا ہو چکی ہے جس کے ترازو کا ایک پلڑا آسمان سے باتیں کرتا ہے اور دوسرا تحت الثریٰ میں ہے، جو مادی اعتبار سے عروج و کمال کی جتنی بھی بلندیوں پر فائز ہو مگر اخلاق و اعمال، فکر وبے عملی میں اس کی سطح چوپایوں اور درندوں کی سطح سے بلند نہیں، اس کی جدید فنی علوم، صنعتی بلند پروازیوں، مادی ترقیوں اور اخلاقی پستیوں میں کوئی تناسب نہیں ہے۔
آج سے پچاس ساٹھ برس پہلے کے اپنے ملک پر نظر ڈالئے یا معمر بزرگوں سے حالات سنئے تو ایک گوشے سے دوسرے گوشے تک، علمی و دینی مراکز، مدارس، خانقاہوں کے اثرات، ذوق تلاوت، ذوقِ علم و تحقیق، ذوقِ مطالعہ اور علماء سے استفادہ کرنے والے اور علم کی روشنی پھیلانے والے چراغوں کی ایک قطار نظر آئے گی۔
مگر اسباب عیش کی فراوانی، تہذیبِ مغرب اور آزادی از دین کی طغیانی سے رفتہ رفتہ چراغ سحر بجھتے چلے گئے، قلوب سے وہ طلب اور شوق ہی نکل گیا جو سمر قند و بخارا سے طالبین کو پیادہ پا دلّی لایا کرتی اور بدقسمتی سے زندگیوں میں ذوقِ علم و مطالعہ اور ذوقِ خدا طلبی کا کوئی خانہ اور چھوٹے سے چھوٹا گوشہ بھی باقی نہیں رہا تو قلب و روح کی جگہ بھی معدہ اور شکم نے پُر کر دی، زندگی کی تمام بلند اور لطیف حقیقتیں، علم کی لذتیں اور مطالعہ کی فرحتیں اوجھل ہوگئیں، زمانہ کے ذوق اور رجحان کا حقیقی اندازہ روزمرہ کی زندگی، بے تکلف گفتگو مجالس کے موضوع سخن اور لوگوں سے ملنے کے بعد ہوتا ہے، بقولِ اکبر مرحوم
نقشوں کو تم نہ جانچو لوگوں سے مل کے دیکھو کیا چیز جی رہی ہے کیا چیز مر رہی ہے
داعی اسلام مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ نے کیا خوب تجزیہ کیا ہے کہ:
’’مغربی تہذیب و اقدار کے اس دور میں درحقیقت نہ علم کا حقیقی ذوق ہے نہ دین کا، نہ کوئی اور ذوقِ لطیف کام کر رہا ہے، بالشت بھر پیٹ نے زندگی کی ساری وسعت گھیرلی ہے، عالم خیال میں کتابیں تصنیف کرنے والے خوش فکر مصنفین جو چاہیں لکھیں عملی زندگی میں اس وقت صرف ایک قوتِ محرکہ اور ایک زندہ حقیقت پائی جاتی ہے اور وہ پیٹ ہے یا جیب‘‘۔
حالانکہ ہمارے اسلاف اور عالم اسلام کے علماء اور دانشوروں نے قدیم دنیا پر علمی سیادت کا سکہ جما دیا تھا جو دنیا کی عقلیت، طرزِ فکر، طرزِ تحریر، طریق استنباط و اخذ نتائج اور ثقافت (کلچر) کے رگ و ریشہ میں سرایت کر گیا تھا، صدیوں تک دنیا علمائے اسلام کی عقل سے سوچتی رہی اور ان کے قلم سے لکھتی رہی اور ان کی زبان میں تالیف و تصنیف کرتی رہی۔
چنانچہ ایران، ترکستان، افغانستان اور ہندوستان کے مصنفین اور اہلِ علم اگر کوئی کتاب لکھنا چاہتے تھے تو عربی ہی میں لکھتے تھے، یہ علمی تحریک جو عہد عباسی کے آغاز میں شروع ہوئی تھی، اپنی قوت اور تازگی کی وجہ سے پوری دنیا پر شمسِ نہار کی روشنی طرح چھا گئی اور تمام قدیم علمی نظام اس کے سامنے ٹھٹھر کر رہ گئے۔
مگر دور جدید کے مسلمانوں نے اپنے علمی و دینی اور روشن ماضی سے رشتہ کاٹ کر مغربی تعلیمی نظام کو اس کی ہزار خامیوں، واضح کمزوریوں اور نمایاں فرسودگی کے باوجود قبول کرلیا اور وہی نظام آج عالم اسلام کے گوشے گوشے میں رائج اور حاوی ہے، جس کا طریقہ تصنیف اور طرزِ فکر ہی ناقص اور پُر از أغلاط ہے، کیونکہ انہوں نے انسانی زندگی کو ایک محدود زوایہ سے دیکھا ہے اور اس غلط اور محدود زاویۂ نگاہ سے وہ غلط نتائج کا شکار ہوئے ہیں اور یہ ظاہر ہے کہ جب مقدمات ہی درست نہ ہوں گے تو نتیجہ کس طرح صحیح ہو سکتا ہے۔ اس نظام کا ایک ثمرہ یہ نکلا کہ تعلیم یافتہ اور مذہبی طبقے میں شک اور نفاق، بے صبری، زندگی سے عشق، بوالہوسی، علمی بدذوقی، جہالت اور نقد کی ادھار پر ترجیح کی ذہنیت پیدا ہوگئی اور اس طرح کے دوسرے عیوب پیدا ہوگئے جو مروج مغربی نظام اور مغربی تہذیب کا لازمہ ہیں۔
اگر اہل اسلام یہ چاہتے ہیں کہ نئے سرے سے وہ اپنی زندگی شروع کریں جو غیروں کے افکار و نظریات، علمی، فکری اور سیاسی غلامی سے آزاد ہوں، اگر وہ پھر سے عالمگیر علمی، سیاسی آزادی اور تحقیق و تصنیف ہی نہیں علمی لیڈر شپ بھی بہت ضروری ہے۔ یہ کوئی آسان کام نہیں۔ یہ مسئلہ بہت گہرے غور و فکر کا محتاج ہے، اس کے لئے ضرورت ہے کہ وسیع پیمانے پر تصنیف و تالیف اور علوم کی تدوین جدید کا کام شروع کیا جائے، اس عظیم کام کے سربراہِ کار عصری علوم سے بھی اتنی واقفیت اور گہری بصیرت رکھتے ہوں جو تحقیق و تنقید کے درجے تک پہنچتی ہو اور اس کے ساتھ اسلام کے اصلی سر چشموں سے پورے طور پر سیراب اور اسلامی روح سے ان کے قلب و نظر معمور ہوں۔
اس مہم اور عظیم مشن کی تکمیل کسی جماعت یا انجمن کے بس کا کام نہیں، یہ اسلامی حکومتوں کا کام ہے۔ اس مقصد کے لئے اس کو منظم جماعتیں اور مکمل ادارے قائم کرنے ہوں گے اور ایک ایسا نصاب تعلیم تیار کرنا ہوگا جو ایک طرف کتاب و سنت کی تعلیمات اور دین کے ناقابلِ تبدیل حقائق پر مشتمل ہو اور دوسری طرف مفید عصری علوم اور تجزیہ و تحلیل پر حاوی ہو، وہ مسلمان نوجوانوں کیلئے علوم عصر کی از سر نو تدوین کریں جو اسلام کے اُصولوں اور اسلام کی روح کی بنیاد پر ہو، اس میں ایسی چیز ہو جو نوخیز طبقہ کے لئے ضروری ہو، جس سے وہ اپنی زندگی کی تنظیم اور اپنی سا لمیت کا تحفظ کر سکے، وہ مغرب سے مستغنی ہو اور مادی، فکری ونظری جنگ میں اس کے مقابلے میں آسکے۔
مولانا عبدالقیوم حقانی
Please follow and like us: