مولانا قاری حنیف جا لند ھری

اہل مدارس پاکستان کے لئے ہر دم تیار ،

اما بعد!
قابل صد احترام حضرات علماء کرام ،ارباب دانش احباب فکر ونظر، برادران اسلام و طلباء دین 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
میں سب سے پہلے برادر مکرم مولانا مفتی ابوہریرہ محی الدین صاحب کو کل پاکستان بین المدارس تقریری مقابلے کے انعقاد پر دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ بلاشبہ پاکستان کے چاروں صوبوں میں اور اس کے بعد ملکی سطح پر ان مقابلوں کا جس اہتمام سے انہوں نے انعقاد کیا اس پر ہم سب کی طرف سے تحسین کے مستحق ہیں ۔ وقت چونکہ کم ہیں اس لیے میں اختصار کے ساتھ آج اس کنونشن سینٹر میں ایک بار پھر دینی مدارس کا مقدمہ پیش کررہا ہوں، دینی مدارس ایک اپنی شاندار تاریخ رکھتے ہیں، مدرسے اور اسلام لازم وملزوم ہیں جس دن دنیا میں اسلام آیا اسی دن مدرسہ وجود میں آیا۔  پہلی وحی غار حرا میں ’’اقراء باسم ربک الذی خلق‘‘ نازل ہوئی اور چونکہ وہ پڑھنے کے بارے میں تھی تو اسی دن مدرسہ بھی وجود میں آگیا کہ اسلام کا سب سے پہلے مدرسہ غار حرا ہے ،مدرسے کی تاریخ 14سو سال پر محیط ہے ،اس مدرسے نے پوری دنیا میں جو خدمات سر انجام دیں وہ تاریخ کا روشن باب ہیں اور بالخصوص برصغیر میں ،جنوبی اور سائوتھ ایشیا میں اس مدرسے کی خدمات کا کوئی بھی انصاف پسند انکار نہیں کرسکتا ،ان مدرسوں نے دینی علوم کو محفوظ رکھا، قرآن وحدیث کے علوم کو محفوظ رکھا، اسلامی روایات، ثقافت اورتہذیب اسلام کے تمام احکام کو محفوظ رکھا، اس کی اشاعت کی، ان مدارس نے غریبوں اور متوسط طبقوں کے بچوں کو جہالت سے نکالا اور علم کی روشنی عطا کی آج بھی پاکستان اور برصغیر میں کتنے ایسے پسماندہ علاقے ہیں جہاں پر کوئی اسکول نہیں، کالج نہیں ،یونیورسٹی نہیں، مدرسہ ہے اور وہ علم کی روشنی کو عام کررہا ہے، قومی وحدت اور ملی وحدت کو فروغ دیا، ہمارے تمام مدارس میں پنجابی، پٹھان، بلوچ،سندھی، مہاجر غیر مہاجر،سرائیکی مختلف قوموں اور زبانوں کے لوگ ایک چھت کے نیچے رہتے اور تعلیم حاصل کرتے ہیں، آج تک آپ نے نہیں سنا ہوگا کہ پنجابی اور سندھی کی بنیاد پر لڑائی ہوئی، بلوچ اور پٹھان کی آپس میں لڑائی ہوئی،یہاں تو قومیت یا صوبائی یا لسانی بنیادوں پر تعصبات کو ختم کرکے ایک قوم ہونے کا سبق پڑھایا جاتا ہے، ان ہی مدارس نے خواتین میں تعلیم کو عام کیا اور آج میں اگر تفصیلی وقت ہوتا تو اعداد وشمار پیش کرتا کہ جتنا خواتین میں شرح تعلیم کو عام ان مدارس اور جامعات نے کیا ہے حکومت اپنے تمام تر وسائل کے باوجود وہ تناسب نہیں دے سکی جو الحمد للہ ان مدارس نے خواتین میں تعلیم کو عام کرکے دیا اور ان مدارس نے الحمدللہ وہ قبائل کے علاقے جن کو میجر صاحب زیادہ جانتے ہیں کہ جہاں کے لوگ اپنے بچوں کی تعلیم کیلئے بڑے حساس ہیں وہ اسکول اور کالج میں بھیجتے ہوئے کئی بار سوچتے ہیں کہ ہماری تہذیب وثقافت برقرار رہے ان پہاڑوں اور علاقوں میں بھی مکتب اور مدرسے قائم کرکے جہالت کے اندھیروں سے نکال کر انسانیت کو علم کی روشنی عطا کی پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ مدارس محبت ، پیار اور امن کی تعلیم دیتے ہیں کیونکہ مدرسہ اسلام کی تعلیم کے مرکز کا نام ہے اور اسلام (Love,Peace) اور امن کا دین ہے ،وہ پوری دنیا سے محبت کی دعوت دیتا ہے۔ وہ ’’تعالوا الیٰ کلمۃ سواء بیننا وبینکم ‘‘کہہ کر خطاب کرتا ہے۔ 
مدرسہ اتحاد اور امن کی تعلیم کا مرکز ہے، سلامتی کی تعلیم کا مرکز ہے ،مدرسے کا دہشت گردی سے یا انتہا پسندی ،تشدد سے کوئی تعلق نہیں ہے اور میں ایک ذمہ دار ہونے کی حیثیت سے یہ بات عرض کررہا ہوں کہ اگر کوئی شخص کسی دہشت گردی کے واقعہ میں ملوث ہے تو اس کا انفرادی فعل ہے مدرسے کا یا انسٹی ٹیوشن کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہم انفرادی رویہ کا شکار ہیں جس کی بناء پر اگر کوئی یونیورسٹی کا پڑھا ہوا کوئی غیر قانونی حرکت کرتا ہے تو اس کو تو اس کی ذات کی طرف منسوب کیا جاتا ہے یہ نہیں کہا جاتا کہ یہ یونیورسٹی کا فعل ہے، یہ کالج کی تعلیم ہے اگر خدانخواستہ مدرسے سے وابستہ کوئی شخص وہ کسی غیر قانونی سرگرمیوں میں ہو تو اس کو فوراً مدرسے کی طرف منسوب کردیا جاتا ہے یہ اس کا انفرادی فعل ہوسکتا ہے مدرسہ بحیثیت ٹیوٹر وہ تعلیم دیتا ہے جو آپ نے ان طلبہ کی زبانی سنا ہے، مدرسہ تو یہ پیغام دیتا ہے کہ ایک بے گناہ انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے ،مدرسہ تو یہ پیغام دیتا ہے سخت سے سخت گناہ وہ بے گناہ کسی کا قتل ہے، مدرسہ کی تعلیم تو یہ ہے کہ جہنم میں یا تو ایمان سے محروم شخص رہے گا جو کفر اختیار کرنے والا ہوگا یا ناحق قتل کرنے والا جہنم میں ہوگا۔ مدرسہ کی تعلیم تو یہ ہے تم اپنی آنکھیں دکھائو، محبت اور پیار بھری ،تم پہرے دار اور چوکیدار بن جائو ،آج مدرسے کی طرف جو چیزیں منسوب کی جارہی ہیں ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ،حال ہی میں پشاور کا جو اندوہناک سانحہ پیش آیا جس کی ہم سب نے مذمت کی تھی پاکستان کے تمام مدارس میں قرآن خوانی ہوئی ،مدارس میں دعائیں ہوئیں ،ہم نے 19دسمبرکو یوم امن، یوم دعا، یوم مذمت کا اعلان کیا، طلبہ نے مظاہرے کیے، اس کے باوجود بعض لوگوں نے سانحہ پشاور کی آڑ میں مدرسے کو ہدف بنایا، مدرسہ کو موضوع بنایا جس طرح نائن الیون کو ،جس طرح سیون سیون کو ہم نے کنڈم کیا تھا اور ہم نے کہا تھا کہ نائن الیون کے ذمہ داروں کا اسلام سے تعلق نہیں، سیون سیون کے واقعات کی اسلام اجازت نہیں دیتا، اس کو بعض لوگوں نے اسلام سے جوڑا، مسلمانوں سے جوڑنے کی کوشش کی اور ہم نے اس کی مذمت کی اور یہ کہا دہشت گرد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور دہشت گرد کو کسی قوم یا ملک کے ساتھ نہیں جوڑنا چاہیے اسی طرح سانحہ پشاور کی مذمت کرتے ہوئے ہم یہ کہتے ہیں کہ اس کو اسلام سے جوڑنا کسی مسلک یا فرقہ سے جوڑنا یا کسی مدرسے سے جوڑنا، یہ ناانصافی ہے اور عدل وانصاف کے خلاف ہے اور اس کے بعد جو اس چیز پر آئینی ترمیم منظور کی گئی ہے میں آج وفاق المدارس کے ذمہ دار ہونے کی حیثیت سے اس باوقار اجتماع میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سلامتی کے لئے،اس کے امن کے لئے، اس کے استحکام کے لئے اور اس ملک کی مضبوطی کے لئے، اس کے جغرافیائی نظریہ کے تحفظ کے لئے ہم حکومت اوراپنی عسکری قیادت کے حلیف ہیں حریف نہیں ہیں، ہم رفیق ہیں، فریق نہیں ہیں ہم اس کے معاون اور مددگار ہیں مظاہر نہیں ہیں اور پاکستان پر خدانخواستہ برا وقت آیا تو ہمارے یہ طلبہ ہمارے مدرسوں کے یہ فرزند اور ہمارے یہ علماء فوج کے پیچھے نہیں فوج کے آگے کھڑے ہوں گے ۔یہ آپ کا ہراول دستہ ہے، اگر افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جب پوری دنیا اس جنگ میں شریک تھی اور پاکستان کے ریاستی اداروں اور حکومت نے اسے پاکستان کی جنگ کہا تھا اور پاکستان کا تحفظ کہا تھا اگر ہمارا پاکستان کا مذہبی طبقہ افغانستان جاکر پاکستان کے تحفظ کیلئے جان دے سکتا ہے تو اپنے وطن عزیز کے تحفظ کیلئے اس سے پہلے جان دینے کیلئے تیار ہیں۔
یہ پاکستان کی رضا کار فوج ہے اور میں آج ایک بات کہنا چاہتا ہوں پاکستان کے تیس ہزار سے زائد مدارس وجامعات اور ان کے تیس لاکھ سے زائد طلبہ وطالبات پاکستان کے چوکیدار ہیں ، پہریدار ہیں ان کو پاکستان کا چوکیدار سمجھا جائے اور عقل مند لوگ اپنے چوکیداروں کو مضبوط کیا کرتے ہیں اپنے پہرے داروں کو کمزور نہیں کیا کرتے۔ یہ آپ کے چوکیدار ہیں ان کو مضبوط کریں یہ جو 21ویں آئینی ترمیم پاس ہوئی ہے اس بارے میں ہمارا مؤقف یہ ہے کہ یہ جس جلد بازی میں کی گئی جس عجلت میں کی گئی اس نے اس کو مشکوک بنادیا ہے اور پھر 21ویں آئینی ترمیم جو آئی ہے دہشت گردی کو ختم کرنے کیلئے ملک سے ہم دہشت گردی کو ختم کرنے کیلئے حکومت کے ساتھ ہیں لیکن 21ویں آئینی ترمیم میں دہشت گردوں کو تقسیم کردیا گیا اور دہشت گردی میں تفریق پیدا کر کے یہ کہا گیا کہ صرف مذہبی دہشت گرد وں کو فوجی عدالت میں پیش کریں گے۔ ہمارا مؤقف یہ ہے ہر قسم کے دہشت گرد کے کیس فوجی عدالت میں آنے چاہئیں۔ دہشت گرد دہشت گرد ہوتا ہے، دہشت گرد کا کوئی مذہب یا مسلک نہیں ہوتا ،ہم تو حکومت اور سیاسی قیادت سے چار قدم آگے ہیں، اگر 20دہشت گرد ہیں تو اس ترمیم کا کہنایہ ہے کہ 5کو پکڑا جائے گا 15کو نہیں پکڑا جائے گا۔ ہم کہتے ہیں کہ آپ 20کے 20کو تختہ دار پر لٹکائیں۔ ہم ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں۔ خواہ دہشت گردی مذہب کے نام پر ہو خواہ دہشت گردی مسلک یا فرقہ کے نام پر ہو خواہ دہشت گردی زبان و لسانیت کی بنیاد پر ہو یا دہشت گردی قومیت کی بنیاد پر ہو خواہ دہشت گردی کسی صوبائی تعصب کی بنیاد پر ہو خواہ وہ دہشت گردی سیاسی حوالوں سے ہو آپ نے دہشت گردی کو مذہب سے جوڑ کر اس قانون کو کمزور کیا ہے اور میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ 21ویں آئینی ترمیم نے بہت سارے سوالات کو جنم دیا ہے، اب اگر میرے اوپر کوئی حملہ کرے گایا خدانخواستہ مذہب سے وابستہ کسی شخص پر حملہ کرے گا وہ تو فوجی عدالت میں جائے گا لیکن اگر کوئی مذہبی شخصیت پر حملہ کرے گا تو اس کا تعلق لسانی تنظیم سے ہوگا، سیاسی تنظیم سے ہوگا کسی صوبائی تنظیم سے ہوگا تو اس کو فوجی عدالت میں نہیں لایا جائے گا۔ اس طرح یہ دہشت گرد اپنے انجام سے بے خوف ہوکر یہ حرکتیں کرے گا۔اس طرح 21ویں آئینی ترمیم نے مذہب کا نام لینے والوں کو غیر محفوظ کردیا ہے۔ 
مذہبی لوگوں پر حملے کی اجازت دے دی گئی ،اسی لیے آپ عقلمند لوگ ہیں اگر میرے اوپر کوئی حملہ کررہا ہے یا میں خدانخواستہ کسی پر حملہ کرتا ہوں تو میرے سامنے تو خوف ہوگا کہ میرا کیس تو فوجی عدالت میں جائے گا لیکن اگر کوئی لسانی تنظیم،سیاسی تنظیم، علاقائی یا قومی تنظیم کا شخص دہشت گردی کرے گا تو اس کے سامنے یہ خوف نہیں ہوگا کہ میرا کیس فوجی عدالت میں جائے گا ۔ایسے دہشت گرد کو 21ویں آئینی ترمیم نے محفوظ کردیا ہے۔ غرض 21ویں آئینی ترمیم کے اندر مذہبی طبقے کو غیر محفوظ کردیا ہے ۔ آپ عقل مند لوگ ہیں، آپ خود سوچیں جب آپ یہ کہیں گے کہ مذہب اور فرقہ کی پہچان رکھنے والا وہ اگر کسی پر حملہ کرے گا تو اس کا کیس فوجی عدالت میں جائے گا تو وہ ہزار بار سوچے گا کہ میں یہ قدم اٹھائو یا نہ اٹھائو لیکن کوئی اگر مذہب کی پہچان نہیں رکھتا وہ کوئی سیاسی یا لسانی تنظیم کی پہچان رکھتا ہے تو اس کو کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی کہ وہ مذہبی لوگوں کو نشانہ بنائے ۔ آپ نے دہشت گردی کو تقسیم کیا ہے دہشت گردوں میں تفریق کی ہے ہم تو آپ سے چار قدم آگے ہیں ،حکومت کہتی ہے صرف مذہبی دہشت گردی ،ہم کہتے ہیں ہر قسم کی دہشت گردی، وہ کہتے ہیں کہ مذہبی دہشت گردوں کو ہی لٹکائیں گے ،ہم کہتے ہیں کہ مذہبی دہشت گردوں کو بھی، لسانی دہشت گردوں کو بھی، سیاسی دہشت گردوں کو بھی لٹکائیں۔ میرے دوستوں آخری بات کہتا ہوں کہ اس دنیا میں امن انصاف کے بغیر نہیں ہوسکتا۔جب تک عدل وانصاف نہیں ہوگا امن نہیں ہوگا۔ اس حوالے سے نظرثانی کریں ۔ ہمارے نزدیک 21ویں آئینی ترمیم کے اندر دہشت گردی کو مذہب سے جوڑ کر قوم کو تقسیم کردیا گیا ہے یہ ملک وملت کیلئے مفید نہیں ہے ،ہم ان شاء اللہ اس پاکستان کے تحفظ کیلئے پہلے بھی تیار تھے اور آئندہ بھی ان شاء اللہ تیار ہیں کہ یہ ملک ہمارا ہے اور ہم تو 30لاکھ طلبہ وطالبات کو تعلیم بھی دیتے ہیں، کھانا اور رہائش بھی دیتے ہیں دنیا میں اتنی بڑی کوئی میجورٹی نہیں ہوگی جتنی یہ ہیں۔مدارس کی خدمات کا اعتراف کیا جائے ان پر الزام نہ لگایا جائے سانحہ پشاور کی آڑ میں سیکولر اور لادینی طبقہ کو اپنا ایجنڈا مکمل کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ 

Please follow and like us:

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا. ضرورت کے کھیتوں ک* نشان لگا دیا گیا ہے