مولانا مفتی تقی عثمانی ؒ

انسانی جان کی حرمت 
بیت اللہ شریف کے اس مقام بلند کو ذہن میں رکھئے، اور پھر ایک حدیث کا مطالعہ کیجئے جو میں حدیث کی مشہور کتاب ابن ماجہ سے ترجمے کے ساتھ نقل کر رہا ہوں:
عن عبداللہ بن عمر و قال: رأیت رسول اللہ ﷺ یطوف بالکعبۃ و یقول، ما أطیبک و أطیب ریحک! ما أعظمک و أعظم حرمتک! والذی نفس محمد بیدہ الحرمۃ المؤمن أعظم عنداللہ حرمۃ منک مالہ ودمہ۔ 
حضرت عبداللہ بن عمروؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ بیت اللہ شریف کا طواف کر رہے ہیں اور (بیت اللہ سے خطاب کرتے ہوئے) یہ فرما رہے ہیں کہ ’’تو کتنا پاکیزہ ہے اور تیری ہوا کتنی پاکیزہ! تو کتنا عظیم ہے اور تیری حرمت کتنی عظیم! (مگر) میں اس ذات کی قسم کھاتا ہوں جس کے ہاتھ میںمحمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جان ہے! ایک مؤمن کی حرمت اللہ تعالیٰ کے نزدیک یقینا تیری حرمت سے بھی زیادہ عظیم ہے، اس کا مال بھی اور اس کا خون بھی‘‘۔ 
اللہ اکبر! اس روایت کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پروردگار کی قسم کھا کر بتایا کہ ایک مؤمن کی جان و مال کی حرمت اللہ تعالیٰ کے نزدیک بیت اللہ شریف کی حرمت سے بھی زیادہ ہے۔ 
مسلمان کی جان و مال
ایک ایسے ماحول میں جہاں انسانی جان کو مکھی مچھر سے بھی زیادہ بے حقیقت بنا لیا گیا ہو، اور جہاں کسی کا مال زبردستی چھین لینے کو شیر مادر سمجھ لیا گیا ہو، اس حدیث کو بیان کرتے ہوئے بھی دل لرزتا ہے، جب انسان انسانیت کے جامے سے باہر نکل آئے تو وہ درندوں اور شیطانوں سے بھی زیادہ سنگدل اور ذلیل ہو جاتا ہے، اور اس کے لئے وعظ و نصیحت کا کوئی انداز کار گر نہیں ہوتا، لیکن خیال آتا ہے کہ بدامنی اور قتل و غارت کے اس طوفان میں کچھ لوگ ایسے ضرور ہونگے جن کے دل میں خوف خدا کی کوئی رمق باقی ہو، اور جن کا ضمیر ابھی موت کی نیند نہ سویا ہو، ایسے لوگوں کے لئے بعض اوقات کوئی ایک فقرہ بھی بیداری کا سبب بن جاتا ہے، ایسے لوگوں کو سمجھنا چاہئے کہ کسی ایک مسلمان کی جان و مال پر حملہ آور ہونا اللہ تعالیٰ کے نزدیک بیت اللہ شریف پر حملہ آور ہونے سے بھی زیادہ سنگین گناہ ہے، اور کسی ایک بے گناہ کے خون سے ہاتھ رنگنے کا وبال (معاذ اللہ) بیت اللہ شریف کو منہدم کرنے سے بھی زیادہ ہے، اب اندازہ کیجئے کہ ہمارے ملک اور بالخصوص کراچی میں روزانہ کتنے کعبے ڈھائے جارہے ہیں؟ اور بابری مسجد کے انہدام پر احتجاج کرنے والے کس بے فکری سے بیت اللہ پر کدالیں چلا رہے ہیں؟ خدا کی پناہ!
انسانی جان اور اسلامی تعلیمات
اسلامی تعلیمات کی رو سے انسانی جان کی کیا قدر و قیمت ہے؟ اس کا اندازہ کرنے کے لئے یقینا یہی ایک حدیث کافی ہے، لیکن ذرا سا اور آگے بڑھ کر دیکھئے یہ بات تقریباً ہر مسلمان کو معلوم ہوتی ہے کہ جان بچانے کے لئے اسلام نے بڑے سے بڑے گناہ کے ارتکاب کی اجازت دی ہے، اگر جان جانے کا قوی اندیشہ ہو تو شراب اور خنزیر جیسی ناپاک اور حرام چیزوں کا استعمال بھی جان بچانے کی حد تک جائز ہے، بلکہ اگر کوئی شخص کنپٹی پر پستول رکھ کر یہ کہے کہ شراب پیو، ورنہ تمہیں قتل کردونگا، تو ایسی حالت میں جان بچانے کی خاطر شراب پینا صرف جائز ہی نہیں واجب ہے۔ بلکہ اگر کوئی شخص مہلک ہتھیار سے مار ڈالنے کی دھمکی دے کر کسی سے کلمہ کفر کہلوانا ہے تو ایسی حالت میں زبان سے کفر تک کا کلمہ کہنے کی بھی شریعت نے اجازت دی ہے (بشرطیکہ دل میں ایمان صحیح و سالم ہو )۔ غرض بد سے بد تر گناہ بھی ایسی مجبوری کی حالت جائز ہو جاتا ہے۔ لیکن ایک گناہ ایسا ہے جسے شریعت نے ایسی مجبوری کی حالت میں بھی جائز نہیںکہا، اور وہ ہے قتل ناحق کا گناہ، یعنی اگر کوئی شخص دوسرے پر پستول تان کر اسے کسی تیسرے شخص کو قتل کرنے پر مجبور کرے، اور یہ کہے کہ تم فلاں شخص کو قتل کرو، ورنہ میں تمہیں قتل کردونگا، تو اس مجبوری کی حالت میں بھی اس کے لئے تیسرے شخص کو قتل کرنا جائز نہیں ہوتا۔ گویا حکم یہ ہے کہ ایسی صورت میں اپنی جان دینی پڑے تو دیدو، لیکن کسی بے گناہ کی جان نہ لو، یعنی جس انتہائی حالت میں شراب پینا جائز، خنزیر کھانا جائز، یہاں تک کہ کلمہ کفر کہنا بھی جائز ہو جاتا ہے، قتل ناحق کا گناہ اس حالت میں بھی جائز نہیں ہوتا، اور بقول جگر مرحوم
اس نفع و ضرر کی دنیا میں یہ ہم نے لیا ہے درس جنوں 
اپنا تو زیاں تسلیم مگر اوروں کا زیاں منظور نہیں
جو شخص ناحق کسی کی جان لیتا ہے، اس کا ظلم اور اس کی بربریت ایک فرد کی حد تک محدود نہیں ہوتی، وہ مقتول کے ماں باپ کی پوری زندگی اجیرن بنا دیتا ہے، وہ اس کی بیوی کا سہاگ اجاڑ کر اس کے شب و روز ویران کر دیتا ہے، وہ اس کے بچوں کو یتیم کرکے انہیں بے کسی کے حوالے کرتا ہے، وہ اس کے عزیزوں دوستوں کے کلیجے پر چھری چلاتا ہے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ معاشرے میں فساد کی آگ بھڑکا کر اسے بدامنی کے جہنم میں تبدیل کر دیتا ہے، لہٰذا اس کا یہ جرم پورے معاشرے اور پوری انسانیت کے خلاف ایک بغاوت ہے، اسی لئے قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ جو شخص کسی کو ناحق قتل کرے، ایسا ہے جیسے اس نے روئے زمین کے تمام انسانوں کو بیک وقت قتل کردیا۔ 
درس نصیحت 
جو لوگ ہاتھ میں ہتھیار آجانے کے بعد اپنے آپ کو دوسروں کی زندگی اور موت کا مالک سمجھنے لگتے ہیں وہ یہ نہ بھولیں کہ اس دنیا میں ہمیشہ کے لئے کوئی زندہ نہیں رہا، بلکہ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ایسے فرعونوں کی موت اکثر ایسی بری طرح آئی ہے کہ دنیا نے ان کی عبرتناک حالت کا تماشا دیکھا ہے، ظلم و بربریت کا ہولناک انجام بکثرت دنیا ہی میں دکھا دیا جاتا ہے، اور مرنے کے بعد تو قرآن کریم کا یہ ارشاد ہے ہی کہ 
’’جو شخص کسی مؤمن کو جان بوجھ کر قتل کرے، اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، اس پر اللہ کا غضب ہے، اور اس کی لعنت، اور اللہ نے اس کے لئے زبردست عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘ (سورۂ نساء: آیت نمبر 93)

Please follow and like us:

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا. ضرورت کے کھیتوں ک* نشان لگا دیا گیا ہے