یہودیوں کے ساتھ مذہبی رواداری، آزادی اور ان کے حقوق کے تحفظ کیلئے یہ تاریخ ساز دستاویز اور اس کی دفعات اپنی حقیقت پر آپ گواہ ہیں۔ مذہبی رواداری، امن وسلامتی، آزادی اور انصاف کا ہر جوہر اس میں موجود ہے۔
مکالمہ بین المذاہب کے حوالے سے اسلامی تعلیمات دنیا بھر کے ممالک کے لئے مشعل راہ ہیں۔ اسلام اپنے پیروں کاروں کی ایسی معاشرتی تربیت کرتا ہے کہ ہر فرد مذہبی اختلافات کے باوجود دوسروں کو قبول کرے۔ اسلام مذہبی وسماجی ہم آہنگی کیلئے اسلامی ریاست میں دوسرے مذاہب کے وجود کو تسلیم کرتا ہے۔ ’’میثاقِ مدینہ‘‘ میں ہر دو مذہبی فریقوں کو اس طرح سے تسلیم کیا گیا کہ دونوں اپنے اپنے مذہب پر قائم رہیں۔ اسلام میں شخصی قانون کی پیروی کی پوری آزادی ہے۔ نجران کا مسیحی وفد مدینہ آتا ہے تو اسے مسجد نبوی میں ہی ٹھہرایا جاتا ہے بلکہ انہیں مسلمانوں کی اس مقدس عبادت گاہ کے اندر پوری آزادی کے ساتھ اپنے طور پر عبادت کی اجازت بھی مرحمت فرمائی گئی۔ ان کے ساتھ جو معاہدہ طے پایا وہ مذہبی وسماجی آزادی کا مظہر ہے جس کے ذریعے سماجی ہم آہنگی کو معاشرے میں ترویج دینا ممکن ہے۔
معاہدے کے مطابق نجران اور اس کے اطراف کے باشندوں کی جانیں، ان کا مذہب، ان کی زمین، ان کا مال، ان کا حاضر و غائب، ان کے قافلے اور ان کے قاصد اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ضمانت میں ہیں۔ ان کی موجودہ حالت میں تغیر نہیں کیا جائے گا، نہ ان کے حقوق میں دست اندازی کی جائے گی، نہ کسی پادری، اسقف یا گرجا کے منتظم کو اس کے عہدے سے ہٹایا جائے گا۔ کم یا زیادہ جو بھی ان کے قبضے میں ہے اسی طرح رہے گا۔ ان کے حقوق کے معاملے میں ان سے انصاف کیا جائے گا، نہ انہیں ظلم کرنے دیا جائے گا، نہ ان پر ظلم کیا جائے گا۔ (البلادی)
ایک مرتبہ رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر کوئی شخص اس ذمہ داری یا گارنٹی کو مجروح کرے گا جو ایک غیرمسلم کو دی گئی ہے یا اس ذمہ داری کے نتیجے میں مسلمانوں پر جو فرائض عائد ہوتے ہیں، انہیں توڑے گا یا ان کی خلاف ورزی کرے گا تو میں قیامت کے دن غیرمسلم کی طرف سے وکیل بن کر کھڑا ہوں گا اور اس مسلم سے غیرمسلم کا حق اس کو دلوائوں گا۔‘‘
کیا اس سے بڑھ کر دنیا میں عدم تشدد اور مساوات کی کوئی مثال پیش کی جا سکتی ہے؟ دنیا کا کوئی بھی مذہب، آئین، قانون یا نظریہ اس سے بڑھ کر تو کیا، اس کے برابر بھی اپنے مخالفین کو حقوق اور تحفظ نہیں دے سکتا ہے۔ رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک کی مثال نہیں ملتی۔
مسند احمد میں ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: وہ فرماتے ہیں کہ جب وہ غیر مسلم تھے تو مدینہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مہمان بن کر آئے۔ رات کو گھر کی تمام بکریوں کا دودھ پی گئے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ نہ فرمایا۔ رات بھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل بیت بھوکے رہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ ایک یہودی کو بھیک مانگتے ہوئے دیکھا تو آپ نے فوراً اس کا جزیہ معاف کر کے اس کا وظیفہ مقرر کر دیا اور افسر خزانہ کو لکھا کہ ’’خدا کی قسم ہم نے اس سے انصاف نہیں کیا، جوانی میں اس سے فائدہ اٹھایا اور بڑھاپے میں اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا۔‘‘
دنیا کا کوئی بھی مذہب، قوم، حکمران یا تنظیم اس سے بڑھ کر تو کیا اس کے قریب قریب بھی اپنے نظریاتی مخالفین کے ساتھ حسن سلوک، رواداری اور ان کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے کوئی مثال پیش کر سکتی ہے جو اسلام نے غیرمسلموں کے حوالے سے قائم کی؟ اسلام نے حسن سلوک اور خوش اخلاقی کے ذریعے اپنے دشمنوں کے قلوب کو مسخر کیا۔ اسلام نے تلوار چلائی، مگر وہ آہنی نہیں، نظریاتی تلوار تھی جس نے ظلم و جہالت کے بتوں کو پاش پاش کر دیا۔ اسلام نے غیرمسلموں کے ساتھ انصاف و رواداری کی وہ مثالیں قائم کیں، جس نے انسانیت کا سرفخر سے بلند کردیا اور اپنے دشمنوں کے ساتھ وہ رویہ اختیار کیا جو قیامت تک کیلئے نظیر بن گیا۔ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ غیرمسلم رعایا کو جو حقوق اور سکون و چین اسلامی دور حکومت میں حاصل ہوا وہ نہ تو اس سے قبل حاصل ہوا تھا اور نہ قیامت تک حاصل ہو سکتا ہے۔ یہ ہمارا نہیں تاریخ کا دعویٰ ہے جو کسی کے ساتھ رعایت نہیں کرتی۔
موجودہ دور میں کہا یہ جا رہا ہے کہ پوری دنیا ایک گلوبل ویلج بن چکی ہے اور تمام انسانوں کے مفادات ایک دوسرے سے وابستہ ہیں، مگر یہ بات زیادہ تر ذرائع مواصلات کی فراوانی کے اعتبار سے ہے، جہاں تک خود انسان کا تعلق ہے تو اس کی وحدت ٹوٹ چکی ہے اور وہ داخلی وخارجی، دو وجودوں میں بٹ گیا ہے۔ جس قدر دنیا بھر کے انسان ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں اسی قدر انسانیت ان سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ مختلف تہذیبوں کا باہمی ٹکرائو بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ یہ تصادم قدرتی حالات کا پیدا کردہ نہیں ہے بلکہ یہ خاص مقاصد کے تحت پیدا کیا گیا ہے۔ دولت اور طاقت کو خدا ماننے والی ان قوتوں کا مقابلہ حقیقی خدا کی مدد سے ہی ممکن ہے اور اس کے لئے بین المذاہب مکالمہ انتہائی ضروری ہے، تاکہ مختلف مذاہب کے درمیان پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کر کے ان کے پیروکاروں کو ایک دوسرے کے قریب لایا جائے اور خود غرضی ونفسا نفسی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی عالمی جنگ جیسی صورتحال کو تبدیل کیا جاسکے ۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم تک اس کرۂ ارض پر جتنے بھی پیغمبر بھیجے، تقریباً سب کی آمد سے قبل حالات اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں تھے جو موجودہ دور میں ہیں۔ ان ادوار میں بھی اس طرح قتل وغارت کا بازار گرم تھا، جنگل کا قانون رائج تھا، بدمعاشی اور دہشت گردی عروج پر تھی، چھوٹی چھوٹی بات پر شروع ہونے والی جنگیں کئی نسلوں تک چلتی تھیں، ظلم و زیادتی طاقتور ہونے کی پہچان تھی اور انسانیت ذلیل و رسوا ہوکر سسک رہی تھی، حتیٰ کہ کوئی شخص انصاف اور خیرکا کلمہ سننے کا بھی روادار نہ تھا، لیکن انبیاء علیہم السلام نے فلاحِ انسانیت کے جذبے سے سرشار ہو کر حکمت اور محبت کے ذریعے ان پتھر دل انسانوں کے قلوب کو تسخیر کرلیا اور ایک دوسرے کی جان کے دشمن انسانوں کو ایک فلاحی معاشرے میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ آج بھی اقوام عالم کی کامیابی کا واحد راستہ سچے مذہب اور آفاقی تعلیمات کی پیروی ہے۔ اس وقت ضرورت حق کو تسلیم کرنے کی ہے، اس سے برگشتہ ہوکر متصادم ہونے کی نہیں۔ اس وقت ’’مذاہب کے مابین اتحاد‘‘ اور ’’رواداری بین المذاہب‘‘ کے قیام کیلئے قابل عمل فارمولہ یہ ہے کہ ’’ہرمذہب قابل احترام ہے‘‘ نہ یہ کہ ’’ہر مذہب سچا ہے‘‘، یہ جملہ مبالغہ آمیز بھی ہے اور مغالطہ آمیز بھی۔ نیز اصولی و منطقی اعتبار سے بھی غلط ہے۔ مذہبی اتحاد کا واحد قابل عمل فارمولہ باہمی احترام ہے۔ قرآن کے الفاظ میں :’’تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین۔‘‘
اس کرۂ ارض پر مختلف اقوام اور مذاہب کے پیروکار بستے ہیں جن کی معاشرت، تمدن، نظریات، ترجیحات، حالات، رسوم و رواج اور سوچ میں نمایاں فرق ہے، پھر ایک ہی قوم یا ایک ہی مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی عادات اور مزاج بھی یکساں نہیں ہوتا، پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ دنیا کے مختلف خطوں میں رہنے والے تقریباً سات ہزار ملین انسان ہر معاملے میں ایک ہی نکتے پر متفق ہوں۔ نکتہ نظر کا اس قدر اتفاق تو ایک ہی گھر میں رہنے والے حقیقی بہن بھائیوں میں بھی نہیں پایا جاتا ہے، لہٰذا اقوام عالم کے مابین نظریاتی و تہذیبی اختلاف ایک فطری چیز ہے اور اس کے خاتمے کی کوشش بے سود ہے، مگر یہ تو ممکن ہے کہ اپنے نظریات کو دوسروں کے سر تھوپنے اور اپنی ’’راہِ حق‘‘ پر دوسروں کو بالجبر چلانے کی کوشش نہ کی جائے اور اس کا بہترین حل یہ ہے کہ ’’اپنا عقیدہ چھوڑو مت، دوسروں کا عقیدہ چھیڑو مت۔‘‘
اجتماعی فوائد کے حصول کیلئے ضروری ہے کہ معاشرے کے افراد ایک دوسرے پر حملے سے گریز کریں اور باہمی معاہدات کی پابندی کریں۔ یہ نکتہ بھی انتہائی اہم ہے کیونکہ موجودہ دور میں جنگوں کے خوف نے تمام ممالک کو اپنا دفاع مضبوط بنانے پر مجبور کر دیا ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا بھر کے ممالک جتنے وسائل اپنی مسلح افواج اور سامان حرب پر صرف کر رہے ہیں، اس سے کم میں سات ارب انسانوں کے معاشی و معاشرتی مسائل حل ہو سکتے ہیں، مگر اس کیلئے بنیادی شرط یہ ہے کہ دوسروں کو بھی اپنی طرح انسان سمجھا جائے اور انہیں بھی آزادی کے ساتھ جینے کا مکمل حق دیا جائے۔ دھونس، دھمکی اور دھاندلی کے بجائے ’’کچھ دو اور کچھ لو‘‘ کے اصول پر عمل کیا جائے، چونکہ دنیا میں مختلف مذاہب کے پیروکار بستے ہیں لہٰذا ان میں نظریاتی اختلاف ایک فطری امر ہے، مگر باہمی تصادم سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ اس اختلاف کو باہر نہ آنے دیا جائے۔ اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ ایک دوسرے کے عقائد اور مذہبی علامات پر کیچڑ نہ اچھالی جائے۔ کسی کو اس کے مذہب کی بنیاد پر نہ تو مطعون کیا جائے اور نہ ہی حقیر سمجھاجائے اور اس ضمن میں اگر سہواً کسی سے کوئی ایسا فعل سرزد ہوجائے جو دوسرے کیلئے مذہبی لحاظ سے باعث تکلیف ہو تو برداشت اور رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کی اصلاح کی کوشش کی جائے۔
مذہب ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہے خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔ ہماری نظر میں دوسروں کا مذہبی عقیدہ خواہ کتنا ہی غلط کیوں نہ ہو مگر اس شخص کی نظر میں اس سے زیادہ سچا مذہب دنیا میں کوئی نہیں ہوگا، اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ کب کا اپنے مذہب کو ترک کر چکا ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ عموماً لوگ اپنے مذہب کے معاملے میں انتہائی جذباتی ہوتے ہیں اور مذہب کے خلاف کچھ بھی سننا پسند نہیں کرتے، حتیٰ کہ وہ لوگ بھی جو اپنی مذہبی تعلیمات پر عمل نہیں کرتے، مذہب کے خلاف کوئی بات سن کر بھڑک اٹھتے ہیں اور ان کا کم ترین ردّعمل یہ ہوتا ہے کہ وہ دیگر مذاہب کے مقابلے میں اپنے مذہب کو درست اور بالاتر ثابت کرنے کیلئے اپنا سارا زور صرف کر دیتے ہیں اور مقابل پر اپنی برتری ثابت کر کے انہیں ذہنی سکون ملتا ہے، جب کہ شکست کی صورت میں وہ خود بھی دل شکستہ ہو جاتے ہیں۔ یہ ایک فطری سی بات ہے کہ جس معاشرے میں مختلف مذاہب کے پیروکار موجود ہوں گے وہاں نظریاتی اختلافات کی عدم موجودگی ممکن ہی نہیں، کیونکہ مذاہب جنم ہی اختلافات کی بنیاد پر لیتے ہیں، اگر نظریاتی اختلاف نہ ہوتا تو تمام انسانوں کیلئے ایک ہی مذہب کی پیروی میں بھلا کیا چیز حائل تھی؟ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام تر مذہبی ونظریاتی اختلافات کے باوجود دلوں میں ایک دوسرے کیلئے گنجائش پیدا کی جائے، موجود حقائق سے سمجھوتہ کیا جائے، خود کو حق پر سمجھنے کے باوجود دوسروں کو ذلیل تصور نہ کیا جائے، کیونکہ ہم دوسروں کے مذہبی جذبات کا احترام کریں گے تب ہی دوسرے بھی ہمارے جذبات کا احترام کریں گے۔ انسان کی اسی فطرت کو پیش نظر رکھتے ہوئے خالق کائنات نے فرمایا کہ :’’اور تم ان کے معبودوں جنہیں وہ خدا کے سوا پکارتے ہیں، کو برامت کہو کیونکہ پھر وہ (بھی) بغیر سمجھے اللہ کو برا کہنے لگیں گے۔‘‘ (الانعام: ۱۰۸) اور اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ذراسی چنگاری سے وہ آگ بھڑکے گی جو کئی نسلوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ جیساکہ اسلام سے قبل دور جاہلیت میں معمول تھا، ذرا ذرا سی بات پر مختلف قبائل میں جنگ چھڑ جاتی جو فریقین کے سینکڑوں افراد کی جانیں لے لیتی۔ اسلام چونکہ دین فطرت ہے لہٰذا اس نے ہر موقع پر فتنے سے بچنے کیلئے اس کی جڑ پر وار کرنے کی ترغیب دی ہے، اسی لئے دوسروں کے معبودوں کو برا بھلا کہنے سے منع کیا گیا، تاکہ بات بڑھ کر جنگ وجدل تک نہ پہنچ جائے۔
آج مشرق سے لے کر مغرب تک اور شمال سے لے کر جنوب تک دنیا کے گوشے گوشے میں پھیلی ہوئی بے چینی، افراتفری، بدامنی، فتنہ وفساد، خون ریزی، تباہی و بربادی، دہشت گردی، انتہا پسندی، تشدد، ظلم وجبر، عالمی کساد بازاری، مہنگائی، بے روزگاری اور بے سکونی سے نجات کا واحد حل یہ ہے کہ ’’جیو اور جینے دو‘‘ کے اصول پر عمل کرتے ہوئے ہر شخص کو برابری کی سطح پر حقوق دیے جائیں اور مکمل شخصی ومذہبی آزادی فراہم کی جائے، کسی بھی حوالے سے دوسروں کے جذبات کو مجروح نہ کیا جائے، خواہ اس شخص کا تعلق کسی بھی ملک، قوم، نسل، مذہب یا علاقے سے ہواور اس کے لئے بہترین راستہ مکالمہ بین المذاہب ہی ہے۔