حضرت شعیب علیہ السلام نے فرمایا: کلکم من آدم و آدم من تراب۔ یعنی اے انسانو! تم سب آدم علیہ السلام کی اولاد ہو اور آدم علیہ السلام مٹی سے بنے تھے۔
اس عالم آب وگل میں تمام انسانوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ سب مل کر ایک ایسا معاشرہ تشکیل وترتیب دیں جہاں تمام معاملات کی بنیاد اخوت ومحبت پر ہو۔ جہالت اور مذہبی تعلیمات سے ناواقفیت عصبیت کو فروغ دیتی ہے جو اخوت و اتحاد کی ضد ہے۔ افراد کی تربیت کے ذیل میں اخوت و اتحاد کی ضرورت و اہمیت مسلم ہے۔ عصبیت کی بنیاد علاقائیت، قبائل اور زبان و ثقافت پر ہوتی ہے، لہٰذا قرآن پاک نے اس کی واضح طور پر تردید کر کے اخوت کا درس دیا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم ہے:
’’اے لوگو! بے شک ہم نے تمہیں ایک مرد و عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ یقیناً اللہ سب کچھ جاننے والا، باخبر ہے۔ (الحجرات: ۱۳)
یعنی قبائل اور برادریاں صرف باہم متعارف ہونے کیلئے قائم کی گئی ہیں، ان کو نفرت و حقارت کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔ نیز قبائلی اونچ نیچ اور ذات پات کی برتری اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ دراصل اخوت و اتحاد ہی وہ بنیادی عنصر ہے جس سے کام لے کر کسی بھی قوم کی شیرازہ بندی کی جا سکتی ہے۔ انسان جب تک دوسروں کے حقوق کا پاس نہ کرے اور اسے اپنی طرح تمام سہولتوں اور ضروریات کا حق دار نہ سمجھے، اس وقت تک کسی بھی معاشرے میں اخوت واتحاد کی روح پیدا نہیں ہو سکتی۔
تمام انبیاء علیہم السلام نے صدیوں کے عمل میں انسان کو انسانیت کا سبق پڑھایا اور انسان بن کر رہنا سکھایا۔ انہوں نے انسانوں کو یہ تعلیم دی کہ تمہاری یہ تعریف نہیں کہ مچھلیوں کی طرح پانی میں تیرو، چڑیوں کی طرح ہوا میں اڑو، شیر کی طرح دھاڑو اور بھیڑیئے کی طرح پھاڑو۔ تمہاری تعریف تو یہ ہے کہ خدا کے بندے بن کر زمین پر چلو اور دوسروں کو بھی اپنی طرح انسان سمجھو۔ درندوں کی طرح مت رہو کہ ہر طاقتور کمزور پر ظلم کرے، جس کا دائو چل جائے وہ دوسرے پر ظلم کرکے اپنی حیوانی انا کو تسکین پہنچائے۔ قرآن کریم میں جا بجا یہ بات کہی گئی ہے کہ سب انبیاء علیہم السلام کا دین ایک ہی رہا ہے اور تمام انبیاء علیہم السلام نے توحید، رسالت اور آخرت پر ایمان کی دعوت دی، عبادات کے طریقے بتائے اور تمام اعلیٰ اخلاق جن کی فطرت انسانی متقاضی ہے، ان کی دعوت دی، البتہ دین کی قانونی شکل (شریعت) ہر امت کے مزاج، معروضی حالات اور وقت کے مطابق بدلتی رہی، لیکن دین اللہ کے نزدیک ایک ہی ہے۔ سورۂ بقرہ میں ارشاد فرمایا:
’’کہہ دو ہم ایمان لائے اللہ پر اور اس (کتاب) پر جو نازل ہوا ہم پر اور اس پر جو ابراہیم، اسماعیل، یعقوب اور ان کی اولاد کی طرف نازل ہوا اور جو موسیٰ اور عیسیٰ کو عطا کیا گیا، ان کے رب کی طرف سے اور ہم ان میں سے کسی ایک کے درمیان (بھی) تفریق نہیں کرتے اور ہم اس اللہ کے فرمانبردار ہیں۔‘‘ (آیت ۱۲۶)
رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے آکر اسی دین حنیف (دین قیم) کی طرف دعوت دی۔ دین اسلام باقی مذاہب کی سچائی کی تردید نہیں کرتا، بلکہ ان کو تسلیم کرتا ہے اور اس کی ترجمانی کرتے ہوئے اس سلسلے کو آگے بڑھاتا ہے۔ اسلام نے توحید، رسالت اور آخرت کے وہی عقائد بتلائے جو باقی ادیان میں تھے اور ان عقائد میں جو خرابیاں اور نقائص لوگوں نے پیدا کر رکھے تھے انہیں دور کیا۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک جتنے بھی لوگ پیدا ہوئے ہیں وہ سب ایک ہی فطرت پر ہیں۔ ہر انسان کی فطرت سلیمہ سچائی، عدل، دیانت اور انصاف جیسے اعلیٰ اخلاق کو پسند کرتی ہے اور ظلم، جھوٹ، بد دیانتی، مکاری، چغلی اور غیبت جیسے اخلاق رذیلہ کو ناپسند کرتی ہے۔
انسانی فطرت متنوع خیالات، متضاد احساسات اور متفرق جذبات سے مرکب ہے، وہ تضادات جن کا اجتماع خارجی دنیا میں محال نظر آتا ہے اس کے اندر ہمہ وقت موجود رہتے ہیں، اسے گرم پسند ہے اور سرد بھی، شہر کی ماڈرن تہذیب بھی پسند ہے اور بدویانہ تمدن بھی، وہ خرچ بھی کرتا ہے اور روک رکھنے کا بھی حریص ہے، محبت بھی ٹوٹ کر کرتا ہے اور اس کی نفرت بھی شدید ہوتی ہے، وہ سکون بھی چاہتا ہے اور ہلہ گلہ بھی، یہ تمام جذبات و احساسات نہ صرف اس کے مزاج کا حصہ ہیں بلکہ وقتاً فوقتاً اس کے مختلف اقدامات اور سرگرمیوں پر بھی اثر انداز ہوتے رہتے ہیں، لیکن قرآن وحدیث متفقہ طور پر اس امر کے قائل ہیں کہ انسان کی فطرت ایک ہے، یہ تمام خارجی اثرات ہیں جو اس کے مزاج کے تلون سے فائدہ اٹھا کر اسے مختلف گروہوں، شاخوں، مسالک، مذاہب اور فرقوں میں تقسیم کر دیتے ہیں۔ رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اگر تم سنو کہ کوئی پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل گیا ہے تو تم اسے سچ مان لینا لیکن اگر یہ سنو کہ کوئی آدمی اپنی جبلت (سرشت) سے بدل گیا ہے تو اسے قطعاً سچ نہ ماننا، کیونکہ (آخر کار ہر) آدمی اسی طرف لوٹے گا جو اس کی سرشت ہے۔ (مسند احمد)
اب تو حیاتیات و بشریات کے ماہرین نے بھی طویل تحقیق کے بعد اس امر کا اعتراف کیا ہے جو اسلام آج سے چودہ سو سال قبل بیان کر چکا ہے کہ بچہ فطرتاً معصوم پیدا ہوتا ہے اور اس کی فطرت میں دوسرے انسانوں کے ساتھ کسی قسم کا تعصب اور رقابت کے جذبات نہیں ہوتے، یہ تعصبات اور احساسات تو بعد میں ماحول اس کے اندر پیدا کرتا ہے جس کی بناء پر وہ بعض لوگوں کیلئے محبت کے جذبات پیدا کر لیتا ہے اور بعض کیلئے نفرت کے۔ انسان کا یہ مزاج دوسروں کے ساتھ اس کے تعلقات، میل جول، معاملات اور روابط میں اس پر اثر انداز ہوتا ہے، اسی سے دوستیاں ہوتی ہیں، تعلقات قائم ہوتے ہیں، برادریاں بنتی ہیں اور اسی کی بنیاد پر اختلافات رونما ہوتے ہیں جو بڑھتے بڑھتے لڑائی، محاذ آرائی اور مخالفت کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ انتہا پسندی اور تشدد اس وقت جنم لیتے ہیں جب کوئی قوم، گروہ یا فرد یہ تصور کر لے کہ نہ صرف یہ کہ حق اس کے پاس ہے، بلکہ اس کیلئے یہ ضروری ہے کہ اسے دوسروں پر بھی مسلط کیا جائے۔ اگر مخالف نہ مانے تو اس پر تشدد کیا جائے اور اس سے بزور بازو منوایا جائے۔ یہ ذہنیت آپس میں ٹکرائو اور جنگوں کو جنم دیتی ہے۔ تاریخ میں بارہا ایسا ہوا ہے اور اب بھی ہو رہا ہے۔
اگر مذاہب عالم کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ دنیا کا کوئی بھی مذہب ظلم وتشدد کی تعلیم نہیں دیتا، بلکہ تقریباً ہر مذہب انسان سے محبت کا درس دیتا ہے۔ ہر مذہب اپنی سماجی روایات اور اخلاقی اقدار کی بنیاد محبت پر ہی رکھتا ہے۔ یوں مذہب تکریم انسانیت اور خالق کائنات کی اس شاہکار تخلیق یعنی انسان سے محبت وہمدردی کا درس دیتا ہے۔ معاشرے میں مل جل کر رہنے کی اساس بھی یہی ہے کہ انسان قابل تکریم ہے۔
آئیے! ذرا مذاہب عالم کا جائزہ لیں کہ وہ باہمی انسانی محبت کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
مائوازم کی مذہبی کتاب صراط مستقیم (Tau-Ta-Ching) میں کہا گیا ہے کہ ’’بہترین انسان وہ ہے جو بنی آدم سے محبت کرے اور کسی سے نفرت نہ کرے۔‘‘
جین مت کی پانچ مذہبی بنیادوں میں سے ایک بنیاد اہسمہ (Ahisma) ہے کہ ’’کسی ذی روح کو تکلیف نہ دی جائے، جس طرح انسان کیلئے اپنا وجود محترم اور عزیز ہے اسی طرح دوسروں کیلئے بھی سمجھنا چاہئے۔‘‘
بدھ مت کی تعلیم یہ ہے کہ ’’کسی کو زخمی مت کرو ورنہ تم بھی زخمی ہوجائو گے۔‘‘
کنفیوشزم کی کل تعلیمات پانچ اہم انسانی تعلقات کے متعلق ہیں جن کا نچوڑ اعلیٰ انسانی کردار کا حصول ہے۔ خود حکیم کنفیوشس کہتے ہیں کہ ’’انسان کے اعلیٰ کردار کی علامت بنی نوع انسان سے ہمدردی اور شفقت ہے۔‘‘اور تینوں الہامی مذاہب کا جائزہ لیں تومعلوم ہوتا ہے کہ :
یہودیت میں دوسرے انسانوں سے محبت کا ذکر تورات میں تقریباً 37 مرتبہ دہرایا گیا ہے اور حکم ہے کہ ’’جوتمہارے نزدیک قابل نفرت عمل و حرکات ہیں انہیں دوسرے کے ساتھ بھی مت برتو۔‘‘
عیسائیت یہ درس دیتی ہے کہ ’’اپنے دشمنوں سے بھی محبت رکھو اور ستانے والوں کیلئے دعا کرو۔‘‘ (متی 45-5)
جہاں تک اسلام کا تعلق ہے تو یہ تو ہے ہی امن وسلامتی کا دین، عدم تشدد، رواداری، برداشت، صبر وتحمل، درگزر، برائی کے بدلے اچھائی اور فلاحِ انسانیت اس کی بنیادی تعلیمات ہیں اور یہی صفات اس کی عالمگیر کامیابی کا سبب ہیں۔ اسلام وہ واحد مذہب ہے جو کسی آفاقی مذہب کو نہ تو جھٹلاتا ہے اور نہ ہی دیگر انبیاء علیہم السلام کی توہین کی اجازت دیتا ہے، بلکہ وہ تو جھوٹے معبودوں و دیوتائوں کو برا بھلا کہنے سے بھی منع کرتا ہے۔ جیساکہ سورۂ انعام میں حکم دیا گیا ہے کہ: اور (اے مسلمانو!) یہ مشرک اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں تم ان کو برا بھلا مت کہو کیونکہ پھر وہ بھی جہالت کی بناء پر حد سے تجاوز کر کے اللہ کی شان میں گستاخی کرنے لگیں گے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ظلم و تشدد اور دہشت گردی کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے تو پھر وہ کون سے عوامل ہیں جو انسان کو انسان کا دشمن بنا دیتے ہیں اور اسے انسانیت کے قتل عام پر اُکساتے ہیں؟ دراصل کسی بھی انسان کے اچھے یا برے، نیک یا بد ہونے کے پس پشت کئی عوامل کار فرما ہوتے ہیں، وہی عوامل اسے اشرف المخلوقات بنا دیتے ہیں یا اسفل المخلوقات بنا دیتے ہیں۔ اُن میں سب سے پہلی چیز انسانی جبلت ہے جو اس کے نیک وبد ہونے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ دوسری چیز ماحول ہے جو انسان کی شخصیت و کردار پر بھرپور طریقے سے اثر انداز ہوتا ہے۔ تیسری چیز معاشرتی رویہ ہے اورچوتھی چیز زندگی کے سفر میں اس کے ساتھ پیش آنے والے حادثات و واقعات۔
جبلی طور پر انسانوں کی عموماً چار قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک تو قدسی صفات انسان ہیں جو برائی کا جواب بھی بھلائی سے دیتے ہیں اور ان کی زندگی کا مقصد صرف فلاح انسانیت ہوتا ہے۔ ان کی مثال پھل دار درخت جیسی ہوتی ہے جو پتھر مارنے والوں کو بھی اپنے پھلوں اور سائے سے محروم نہیں کرتا اور جس قدر زیادہ پھل دار ہوتا ہے اسی قدر جھکتا چلا جاتا ہے، اس کی انکساری بڑھتی چلی جاتی ہے۔ جیسا کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر خاتم الانبیاء علیہ الصلوٰۃ والسلام تک تمام پیغمبر علیہم السلام اسی جبلت کے حامل تھے۔ انہوں نے لوگوں کی گالیاں سنیں، مار کھائی، زخم سہے، ظلم و ستم برداشت کئے، ملک بدر کئے گئے، ان کا سوشل بائیکاٹ کیا گیا، حتیٰ کہ قتل بھی کئے گئے، مگر انہوں نے نہ تو کسی سے بدلہ لیا اور نہ ہی لوگوں کی خیرخواہی سے ہاتھ کھینچا۔
دوسری قسم انسانوں کی وہ ہے جو بھلائی کا بدلہ بھی برائی سے دیتے ہیں۔ ان کی مثال سانپ جیسی ہے جسے جتنا بھی پیار و محبت سے پالا جائے، لاکھ دودھ پلایا جائے مگر وہ اپنے محسن کو بھی ڈسنے سے باز نہیں آتا۔ ایسے لوگ بھلائی کو اپنا حق اور نیکی کرنے والے کو بے وقوف تصور کرتے ہیں۔ ان کی نظر میں اپنا مفاد سب سے اہم چیز ہوتی ہے جس کے آگے نیکی یا برائی کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ حسن پرست قابیل سے لے کر زر پرست ملٹی نیشنل کمپنیوں تک اور فرعون مصر سے لے کر موجودہ دور کے اکثر حکمرانوں تک سب اسی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں، جنہیں اپنے مفاد کے آگے کچھ نظر نہیں آتا، جو ان کے دست و بازو بننے والوں کو بھی کام نکلنے کے بعد عضو معطل کی طرح اکھاڑ کر پھینک دیتے ہیں اور راہ میں حائل ہونے والوں کا بھی پتہ صاف کردیتے ہیں۔
تیسری قسم کے انسان وہ ہیں جو بھلائی کا جواب بھلائی سے دیتے ہیں مگر برائی کا بدلہ نہیں لیتے۔ اولیاء کرام کا ہمیشہ یہی اسلوب زندگی رہا ہے کہ بھلائی کا جواب اس سے بڑھ کر بھلائی اور احسان سے دیتے مگر برائی کا جواب دینے کے بجائے درگزر سے کام لیتے تھے۔ یہ وہ عظیم انسانی صفت ہے جو معاشرے کی ترقی اور قوموں کے عروج و زوال میں انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہے اور معاشرے کے تمام افراد ایک دوسرے سے بدلہ لینے پر توانائی ضائع کرنے کے بجائے اپنی توانائی ملک و قوم کی ترقی پر صرف کرتے ہیں۔
چوتھی قسم انسانوں کی وہ ہے جو برائی کا جواب برائی یا اس سے بڑھ کر برائی سے دیتے ہیں مگر بھلائی کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے ساتھ اگر تمام عمر نیکی کی جائے اور ایک مرتبہ سہواً انہیں کوئی ضرر پہنچ جائے تو وہ اپنے ساتھ کئے جانے والے تمام احسانات کو فراموش کر دیتے ہیں اور اس برائی کا منہ توڑ
جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں اور اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھتے جب تک بھرپور بدلہ نہ لے لیں۔