اگر نبوت نہ ہوتی تو انسان اصل حقائق سے ہمیشہ بے خبر رہتا
ہمارے سامنے جتنے بھی موجودات ہیں جن کا کسی نہ کسی طرح ہمیں مادی ذرائع سے علم حاصل ہوا ہے یا ہوسکتا ہے مجموعی اعتبار سے ان کی حقیقت کے دو رخ ہیں‘ ایک وہ جو ہمارے دائرہ علم میں آسکتا ہے ۔دوم وہ جو اس مادی آنکھ سے ہمیشہ اوجھل رہتا ہے‘ جو رخ ہمیں نظر آتا ہے اس کی حیثیت ایک مستعار شے سے زیادہ نہیں اس کی منفعت بھی وقتی اور عارضی ہے اور اس کی ملکیت بھی ‘جبکہ دوسرا رخ بالکل مختلف حقیقت ہے‘ مثال کے طور پر موت کی ظاہری شکل یہ ہے کہ اس سے انسانی زندگی کا خاتمہ ہوجاتا ہے لیکن اسی موت میں دوسرا پیغام یہ ہے کہ یہ ہمیشہ کی دائمی زندگی کا دروازہ ہے اور اصل زندگی کی ابتداء ہی موت سے ہوتی ہے گویا ایک جانب دنیوی زندگی کے خاتمہ کی مہر ہے تو دوسری جانب اخروی زندگی کا نقطۂ آغاز ہے‘ فرق یہ ہے کہ پہلی زندگی انتہائی مختصر اور ایک نوعیت کی حامل ہے جبکہ دوسری لامحدود اور مختلف نوعیت کی حامل ہے۔ علیٰ ھذا القیاس۔
دنیا مادی اعتبار سے جتنی بھی ترقی کرے لیکن یہ کبھی بھی ممکن نہیں کہ کوئی بڑے سے بڑا سائنس دان یہ بتاسکے کہ انسان موت کے بعد کہا ں جاتا ہے؟ یہ حقیقت اور اس قسم کے دوسرے تمام حقائق صرف اور صرف نور نبوت ہی سے آشکار ہوتے ہیں۔
چنانچہ دنیا کی تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی لوگوں کو علوم نبوت سے قرب حاصل رہا ہے تو ان کی زندگی‘ احساسات اور تاثرات کی نوعیت ان لوگوں کی نسبت بالکل مختلف اور جداگانہ رہی ہے جو ان علوم سے دور یا محروم رہے ہیں‘ چونکہ انسان اپنے ماحول سے متاثر ہوجاتا ہے اور اس سے مانوس بھی رہتا ہے اس لئے وہ ہمیشہ اپنے آس پاس کی چیزیں دیکھتا ہے اور ان کے فوائد ومنافع کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور جوں جوں ان چیزوں سے وابستگی بڑھتی رہتی ہے اسی تناسب سے ان پر یقین بڑھتا رہنا ہے اس لئے عام لوگ صرف دنیا کی حد تک سوچتے ہیں وہ اسی کو ناقابل فراموش حقیقت سمجھتے ہیں اور اسی کیلئے اپنا جینا مرنا ضروری تصور کرتے ہیں۔
مسائل وپریشانیوں کا حل
اس میں کوئی شک نہیں کہ جب مفادات کی بات آتی ہے تو ہر شخص کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ و ہی ان کا زیادہ مستحق ہے اگر سارے نہیں تو زیادہ سے زیادہ مفادات تو حاصل کر ہی لئے جائیں‘ اس طرح مفادات کے حصول کی جنگ کا آغاز ہوجاتا ہے اور دنیا والے باہم لڑائیوں میں مبتلا ہوکر دست بگریبان ہوجاتے ہیں‘ تاریخ میں کسی بھی ایسے دور کا ذکر نہیں ملتا کہ جب لوگ قابل ذکر عرصہ کیلئے باہم بہن بھائیوں کی طرح متحد رہے ہوں‘ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس انسانی کمزوری کا تقریباً سب کو احساس ہے اور یہ بات بھی شک وشبہہ سے بالاتر ہے کہ تقریباً سب چاہتے ہیں کہ ایسے حالات نہیں ہونے چاہئیں لیکن اگر اختلاف ہے تو وہ صرف اس کے حل کے طریقہ کار میں ہے‘ جو بااثر لوگ ہوتے ہیں وہ ان حالات کو اس طور سے ٹھیک کرنا چاہتے ہیں کہ ان کے مفادات کو کوئی گزند نہ پہنچے‘ غریب کی سوچ ان سے مختلف ہے جبکہ بادشاہوں کا تصور بالکل الگ ہے وغیرہ اس طرح ہمیشہ ایک مسئلہ سے دوسرا مسئلہ جنم لیتا ہے اور دنیا مسلسل طبقاتی جنگ کی زد میں رہتی ہے‘ غرض اس کا حل و ہی پیش کرسکتا ہے جو مادی مفادات سے بالاتر ہو۔
انبیاء کرام علیہم السلام اور خصوصاً ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام مسائل کا جو حل پیش کیا ہے وہ ایک اٹل حقیقت ہے زندگی کے تمام شعبے اور انسانیت کے تمام طبقے اس سے بھرپور طریقے سے مستفید ہوسکتے ہیں لیکن ہوتا یہ ہے کہ ہمیشہ ایسے حل کی راہ میں بااثر لوگ رکاوٹ بنتے ہیں کیوں کہ ان کے مفادات پر کسی قدر ضرب لگ سکتی ہے‘ بایں طور کہ انہوں نے اپنی خواہشات کیلئے کبھی بھی کوئی حد طے نہیں کی ہے‘ یہ طبقہ اس پر مصر ہے کہ ان کی خواہش کی راہ میں کوئی مانع نہیں آنا چاہیے جبکہ طبقاتی جنگ کو روکنے کیلئے کچھ ایسے قوانین ناگزیر ہیں جن کی بنا پر ظلم اور جبر کا سدباب ہوجائے ۔
یہ تو وہ مسائل ہیں جو انسان کو معاشرتی زندگی میں درپیش ہیں دوسری جانب آدمی کی نجی زندگی میں بھی کچھ ایسے اسباب ہیں جن کی بنا پر آدمی پریشانیوں سے دوچار ہوتا ہے۔
ایک مثال:
یہاں اس کی ایک مثال پیش کی جاتی ہے‘ عام طور پر لوگوں کی روش یہ ہے کہ جب پریشان ہوتے ہیں تو اس پریشانی سے تنگ آکر وہ خوشی طبع کیلئے کبھی گانے سنتے ہیں‘ کبھی غیبت کی محفل سجاتے ہیں اور کبھی ٹی وی وغیرہ پر ڈرامے دیکھتے ہیں جن سے یقیناً وقتی فائدہ تو ہوتا ہے لیکن پریشانی مستقل طور پر ان کا پیچھا نہیں چھوڑتی‘ اس طرح ان کی پریشانی بڑھتی رہتی ہے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بظاہر خوشحال گھرانے کا فرد یا تو خودکشی کرلیتا ہے یا پھر کسی ایسی ذہنی بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے جس سے جان چھڑانے کیلئے جان دینی پڑتی ہے اس سے کم پر بیماری تعاقب چھوڑنے پر راضی نہیں ہوتی‘ کتنی خبریں ایسی آتی ہیں کہ فلاں گلوکار نے فلاں ہوٹل کے کمرے میں خودکشی کرلی‘ فلاں اداکار کمرے میں مردہ حالت میں پایا گیا وغیرہ وغیرہ…
جب کہ اصل حقیقت یہ ہے کہ انسان جب بھی گناہ کرتا ہے تو گناہ سے فارغ ہوتے ہی یا دوران گناہ اس کی سزا کا عمل بلا تاخیر شروع ہوجاتا ہے جس کی اولین شکل احساس ہے جو بڑھتا رہتا ہے پس اگر اس سے نکلنے کیلئے دوسرا گناہ اختیار کیا جائے تو مصیبت ڈبل ہوجاتی ہے گو کہ نشہ آور ادویات کی طرح اس درد اور دکھ سے بچنے کیلئے کسی گناہ کا شغل وقتی فائدہ تو دیتا ہے لیکن مرض کی تشخیص کے بغیر کوئی بھی دوا مفید ثابت نہیں ہوسکتی بلکہ اس سے دوسرے امراض لگنے کا اندیشہ ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس قسم کے لوگ عموماً امراض قلب‘ ہائی بلڈ پریشر اور شوگر میں مبتلا ہوجاتے ہیں کیونکہ جس طرح سورج کے چارج ذرات انسانی جسم کے خلیوں کیلئے نقصان دہ ہیں‘ اسی طرح انسانی خیال اور تصور بھی ایک لہری رَو ہے اس سے آدمی کا دل ودماغ شدید متاثر ہوجاتے ہیں اور بالآخر بیماری حملہ آور ہوجاتی ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ نے امام سفیان ثوری رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ جو لوگ علماء کی غیبت کرتے ہیں وہ اس وقت تک نہیں مریں گے جب تک کہ دل کے مرض میں مبتلا نہ ہوجائیں۔ اس کا فلسفہ بھی وہی ہے جو اوپر بیان ہوا کہ احساس بھی ایک لہر ہے جو آدمی کے دماغ اور دل پر حملہ آور ہوجاتا ہے جو لوگ گناہوں میں مبتلا ہوتے ہیں وہ اگر غیر محسوس پریشانی کا علاج دوسرے گناہ سے کریں گے تو ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ بیماری کو بڑھانے کی کوشش کررہے ہیں جو خودکشی کے مترادف ہے ‘اگر وہ اس مرض کا تسلی بخش علاج کرنا چاہتے ہیں تو ان کو شریعت کے بتلائے ہوئے طریقہ پر عمل کرنا چاہیے۔
نبوت سے پوشیدہ حقائق کھلتے ہیں
Please follow and like us: