یہ جملہ کسی دانشور کی کتاب میں نظر سے گزرا تھا کہ ’’قومیں نصاب سے بنتی ہیں‘‘ اور اس کے ساتھ اگر یہ بھی ملایا جائے کہ ’’قوموں کی تعمیر تعلیمی اداروں کے کلاس رومز میں ہوتی ہے‘‘…یہی وجہ ہے کہ دنیا کی ساری اقوام اپنے عقائد، تہذیب وتمدن اور معاشی ومعاشرتی ضروریات کے مطابق نصاب سازی کرتی ہیں۔
اس دنیا میں اس وقت سے جب قابیل نے ہابیل کے قتل کے بعد قبیلہ ہابیل سے اپنی راہیں جدا کرلیں تو ان کی طرز معاشرت بھی الگ راہوں پر چل پڑی۔ اگر ہم ایک لمحے کے لیے یہ مان لیں کہ ڈارون کا نظریۂ ارتقا تو بہت بعد میں آیا ہے جس میں انسان کو اپنے خالق سے کاٹ کر رکھ دیا گیا اور اس کو ذرا ایک طرف بھی رکھیں تو اتنی بات تو پھر بھی قابل غور ہے کہ قصۂ آدمؑ وابلیس اور قابل وہابیل اس کائنات میں دو الگ الگ نظریاتی اساس کی پہچان کراتا ہے۔
علامہ اقبالؒ نے اسی بات کے پیش نظر فرمایا تھا کہ
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفوی سے شرِار بو لہبی
قرآن کریم میں انسان کے اس دنیا میں آنے اور یہاں ایک معینہ مدت تک ایک متعین فکر کے مطابق زندگی گزارنے کی مہلت ملی ہے۔
یہ متعین فکر یا نظریہ روز ازل سے چلا آرہا ہے ۔ انسان کو عقل وفکر اور اختیار کی نعمت سے سرفراز کرنے کے سبب خلیفہ کا مقام دیا گیا ۔خلیفہ کی حیثیت حضرت آدمؑ علیہ السلام اور آپ کے پیروکاروں کو وہی فکر اختیار کرنا پڑی جو اللہ تعالیٰ کی رضا ومنشا کے مطابق ہے۔ آدمؑ اور آپؑ کی اولاد نے اس سلسلے کو جاری رکھنے کے لئے وہی نصاب اپنی اولاد کو پڑھایا جو ’’وعلم آدم الاسماء کلھا‘‘کے تحت بناکر دیا گیا تھا… لیکن اولاد آدم میں سے قابیل اور ان کے پیروکاروں نے اپنے لئے ’’آزر نے ترشوائے ہیں مٹی کے صنم اور‘‘ کے مصداق الگ نصاب سازی کی جو ان کے نظریۂ حیات کے مطابق تھی…یہیں سے دنیا میں انسان کو زندگی گزارنے اور اس میں اپنے لئے اصول وضوابط اور لائحہ عمل بنانے کے لئے دونوں راستے دکھائے گئے۔ ’’وھدینہ نجدین‘‘ اور ہم نے انسان کو دونوں راستے دکھائے‘‘‘ ۔ یعنی خیر کے بھی، شر کے بھی، ایمان وسعادت کے بھی اور شقاوت کے بھی اور یہی بات سورۂ دھر (سورۂ انسان) میں بھی فرمائی گئی ہے: ’’انا ھدینہ سبیل اما شاکرو اما کفورا‘‘
اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو صلاحیتیں اور جسمانی قوتیں (ذہن وفکر اور قلب واختیار) دی ہیں،ان کے ذریعے صحیح اور غلط کے درمیان فرق کرنا اور صحیح کو اختیار کرنا اور غلط سے اجتناب کرنا کی صفت بھی دی ہے لیکن اس کے علاوہ انسان پر سب سے بڑا احسان یہ کیا ہے کہ ان صلاحیتوں اور قوتوں کو جلا بخشنے ،صیقل کرنے اور وعدۂ الست کی یاد تازہ کرانے کے لئے انبیاء علیہم السلام کا سلسلہ بھی چلایا تاکہ اتمامِ حجت قائم ہو…انبیاء علیہم السلام نے اپنی کتابوں اور عمل کے ذریعے صحیح راستے کو واضح کیا…اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ اطاعت الٰہی کا راستہ اختیار کرتے ہوئے شکر گزار بندہ بن جائے یا معصیت اور نافرمانی کا راستہ اختیار کرتے ہوئے اس کا ناشکرا بن جائے…جیسا کہ ایک حدیث مبارکہ میں ہے کہ ’’کل الناس یغدوا نبائع نفسہ فمو بقھا او معتقھا ‘‘ ہر شخص اپنے نفس کی خرید وفروخت کرتا ہے۔ پس اسے ہلاک کردیتا ہے یا اسے آزاد کرلیتا ہے‘‘وہ افراد اور اقوام جو اپنے خالق کے ساتھ کئے گئے وعدے کو وفا کرنے کا عزم رکھتے ہوں ان کے سامنے زندگی کے اصول وضوابط واضح اور متعین ہوتے ہیں اور وہ اصول وضوابط اپنی آخری اور جامع صورت میں خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے انسانیت کے پاس چودہ سو سال سے محفوظ چلے آرہے ہیں…جس کسی نے انفرادی یا اجتماعی طور پر یعنی قوم کی حیثیت سے ان قوانین الٰہیہکو اپنا لائحہ عمل بنایا وہ دنیا ور آخرت میں کامیاب وکامران ٹھہریں اور جس نے اس سے روگردانی کی ان میں بعض دنیاوی لحاظ سے ظاہری طور پر کامیاب نظر آتے ہوئے بھی سخت خسارے اور اخروی گھاٹے میں مبتلا ہیں۔
اسلام ایک نظریہ ہے، ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ اس کے مقابلے میں دنیا کی جتنی بھی اقوام ہیں، وہ ایک الگ قوم کی حیثیت سے غیر مسلم (Non Believers)کی حیثیت اپنی الگ پہچان اور بود وباش رکھتی ہیں…لہٰذا اس لحاظ سے یہ دنیا دو قومی نظریہ کی بنیاد پر دو الگ الگ امتیازی خصوصیات رکھتی ہے جو لوگ اپنے آپ کو مسلمان ہونے کا اقرار واعلان کئے ہوئے ہیں۔ ان کے لئے پیدائش سے لے کر وفات تک…زندگی کے ہر شعبہ میں متعین اور واضح تعلیمات ہیں…اور ان تعلیمات کو عملی صورت میں زندگی میں لانے کے لئے تعلیمی اداروں میں قوم کے نونہالوں اور آئندہ کے لئے ملک وقوم کی باگ ڈور سنبھالنے والی نسلوں کی تعلیم وتربیت اور تہذیب وتمدن کے لئے وہی نصاب اکسیر کا کام دے گی جس کی بنیاد قرآن وسنت پر رکھی گئی ہو…کیونکہ مسلمانوں کے سامنے صرف یہ دنیا اور اس کے امور نہیں ہوتے بلکہ وہ الی اللہ ترجع الامور پر بھی ایمان رکھتے ہیں۔
اس لئے مسلمان امت اور اقوام کے لئے نصاب سازی میں نظریاتی اساس کو مدنظر رکھنا بہت ضروری ہے ورنہ اگر یہودی، ہندو اور مسیحی یا کسی اور سیکولر نظریۂ حیات کے حامل شخص کے نظریۂ حیات اور طرز عمل اور ایک مسلمان کے نظریۂ حیات اور طرز عمل میں ایک واضح جوہری فرق نظر نہ آئے تو پھر نظریہ اور نظریاتی اساس محض ایک زبانی جمع خرچ اور لفظی تکرار وخوشنمائی وخوش گمانی کے سوا کچھ بھی نہیں۔
مسلم اور غیر مسلم کے نظریۂ حیات میں واضح فرق ہونے کے سبب ان کے نصاب میں فرق ہونا چاہیے بلکہ اسی طرح جس طرح پاکستان میں اقلیتوں کے بچے اسکولوں اور کالجوں میں اسلامیات کے مضمون کی جگہ شاید اخلاقیات (Ethice) وغیرہ پڑھتے ہیں…اسی طرح اقوام عالم کے درمیان انسانی بنیادوں پر کچھ مشترکات (Commonalities)بھی ہوئی ہیں اور ان کا تعلق بعض دنیاوی معاملات سے ہوسکتا ہے لیکن اس میں بھی کہیں نہ کہیں نظریاتی اساس اپنا کردار ادا کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
سوویت یونین میں فزکس ،کیمسٹری ،بائیو یا دیگر نیچرل سائنس کے وہی مضامین پڑھائے جاتے تھے جو سرمایہ دارانہ نظام کے حامل امریکہ اور مغرب میں پڑھائے جاتے تھے لیکن سوویت یونین کے ہر طالب علم کو اشتراکیت کا ایک مخصوص ڈوز (خوراک) ایک سطح پر ضرور کھلائی جاتی تھی…تو کیا مسلمان ملکوں کی نصاب سازی میں ان کے دینی عقائد اور نظریات کا تعمیری، مثبت اور معتدل تناسب میں وجود واظہار کے لئے دنیا میں بقا اور آخرت میں فلاح کے حصول کے لئے ضروری نہیں ہے؟۔